اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کی ریاست میں اجین کی تکیہ مسجد کے انہدام کوسپریم کورٹ میں چیلنج دیا گیا ہے۔ عرضی میں الزام ہے کہ مہاکال مندرتوسیع کے لئے 200 سال پرانی مسجد کو غیر قانونی طریقے سے گرایا گیا، جس سے کئی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی۔
اجین واقع تکیہ مسجد کومنہدم کئے جانے کے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کوچیلنج دینے کے لئے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے۔ مسجد میں نمازادا کرنے والے 13 نمازیوں کی طرف سے داخل عرضی میں الزام لگایا گیا ہے کہ مدھیہ پردیش حکومت نے مہاکال مندرکی پارکنگ علاقے کی توسیع کرنے کے لئے 200 سال پرانی مسجد کومنہدم کردیا۔
عرضی گزارکے مطابق، مسجد کو1985 میں وقف کے طورپررجسٹرڈ کیا گیا تھا اور اس سال جنوری تک گزشتہ 200 سالوں سے مسجد میں نمازیں ادا کی جا رہی تھیں، لیکن جنوری میں انتظامیہ اورحکومت کی جانب سے اسے غیرقانونی اور منمانے طریقے سے گرا دیا گیا۔
عرضی میں بتایا گیا ہے کہ اس انہدام نے عبادت گاہ (خصوصی التزام) ایکٹ، 1991، وقف ایکٹ 1995 (اب انٹیگریٹڈ وقف مینجمنٹ، امپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ، 1995) اورحصول اراضی، بحالی اورآبادکاری ایکٹ، 2013 میں منصفانہ معاوضہ اورشفافیت کا حق۔ درخواست میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریاست کی طرف سے زمین کے حصول کا عمل مسمارکرنے سے پہلے کیا گیا تھا۔
اجین میں تکیہ مسجد کا تنازعہ بنیادی طورپرمہکالیشورمندرکے توسیعی منصوبے سے جڑا ہوا ہے۔ یہ مسجد، جوتقریباً 200 سال پرانی بتائی جاتی ہے، نظام الدین کالونی میں واقع ہے۔ توسیعی منصوبے کے تحت مندرکے احاطے کو2.5 ہیکٹرسے بڑھا کر40 ہیکٹرسے زیادہ کیا جا رہا ہے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد مسجد سمیت کمپلیکس کو7 گنا بڑھانا ہے۔ اس عمل میں مسجد اورآس پاس کے 257 مکانات کومنہدم کردیا گیا۔ مسلم فریق کا کہنا ہے کہ یہ مسجد وقف جائیداد ہے جبکہ انتظامیہ غیرقانونی تجاوزات قراردے رہی ہے۔
            
            
                                        
                                        
                                        
                                        
آپ کا تبصرہ