اہل بیت نیوز ایجسنی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، پرائم منسٹر نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیچ رشتوں میں پہلے کی سی گرمجوشی نظرنہیں آتی حالانکہ باہمی احترام ،دوستی اورمل کرکام کرنے کا جذبہ اب بھی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ کبھی دونوں کے درمیان ہائی پروفائل ’برومنس‘ تھا جو اب ایک سفارتی فاصلے میں تبدیل ہو گیا ہے۔کیوں ؟
کینڈا میں ٹرمپ اورمودی کی ملاقات ہوتے ہوتے رہ گئی۔مصر کے بندرگاہی شہر شرم الشیخ میں ہوئی چوٹی کانفرنس میں پی ایم مودی نے شرکت کی دعوت کو بھی ٹھکرا دیا۔اب ملائیشیا میں آسیان اجلاس میں پی ایم مودی نے ورچول شرکت کی اس طرح یہاں بھی دونوں لیڈروں کی ملاقات نہیں ہوئی۔ پچھلے دس برسوں میں یہ صرف دوسرا موقع ہے جب پی ایم مودی آسیان سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے ۔
اور اب، نومبر میں، وزیر اعظم جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ کا دورہ کرنے والے ہیں، جہاں G20 سربراہی اجلاس منعقد ہوگا۔ لیکن امریکی صدر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ شرکت نہیں کریں گے۔
اس کا مطلب ہے کہ، دونوں لیڈروں کا تقریباً ایک سال تک آمنا سامنا نہیں ہوگا ۔ ان کی آخری ملاقات فروری میں واشنگٹن ڈی سی میں ہوئی تھی۔ کواڈ سربراہی اجلاس کی تاریخ کے حوالے سے بھی کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
دونوں کے بیچ کبھی’برومنس‘ تھا اب ایک عجیب سفارتی فاصلہ ہے۔ حالیہ کچھ دنوں کے دوران ، دونوں لیڈر تین بار فون پر بات کر چکے ہیں، لیکن کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی ہے ۔ پی ایم مودی نے ٹرمپ کی ’امن کی کوششوں‘ کی ستائش کی اور ٹرمپ نے انہیں’اچھا دوست‘ بتایا۔ تو سوال یہ ہے کہ ، یہ دونوں ایک دوسرے سے کیوں گریز کر رہے ہیں؟
دونوں کے بیچ فاصلہ کیوں؟
2019-2020 کے دوران،مودی۔ٹرمپ رشتے اچھے تھے۔’ہاؤڈی، مودی!‘ اور’نمستے، ٹرمپ‘کے توسط سے دونوں کی دوستی کودنیا نے دیکھا ۔
دونوں لیڈروں نے بڑے وعدے کیے…ہندوستان کے لیے، ٹرمپ ایک پارٹنر تھے ۔دہلی اپنے عالمی کردار کومستحکم کرنا چاہتی تھی، جب کہ امریکہ کے لیے، ہندوستان ہند۔بحرالکاہل خطے میں ایک اہم اسٹریٹجک پارٹنر تھا۔
جب ٹرمپ نے اس سال کے شروع میں صدارت سنبھالی تو پی ایم مودی نے فروری میں ان سے ملاقات کی۔ دونوں نے بھارت میں کواڈ سمٹ کے دوران دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا تھا لیکن مئی تک تعلقات میں دراڑیں نظر آنے لگیں۔
رمپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پاک ۔بھارت جنگ کو روکا ہے۔ تاہم پی ایم مودی نے عوامی طور پر ان کے اس دعوے کو مسترد کردیا۔ جون تک، ان کے تعلقات میں تناؤ مزید بڑھ گیا تھا۔
کیا مودی۔ ٹرمپ سے ملاقات ٹال رہے ہیں؟
ایسا لگتا ہے کہ پی ایم مودی نامناسب ماحول میں ملاقات سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر، انھوں نے 47ویں آسیان سربراہی اجلاس (کوالالمپور) میں ورچول طور پر شرکت کرنے کا انتخاب کیا، جسے بڑے پیمانے پر ٹرمپ کے ساتھ آمنے سامنے ملاقات سے بچنے کے طریقے کے طور پر دیکھا گیا۔
اپنے دورے کے دوران ٹرمپ نے اپنے اس دعوے کا اعادہ کیا کہ انہوں نے پاک ہبھارت تنازع ختم کر ایا ہے اور بھارت روس سے تیل خریدنا بند کرنے جا رہا ہے جبکہ بھارتی حکام نے ایسی کسی بھی فون کال یا بات چیت کی تردید کی۔ان حالات میں دوستی کی شبیہ کمزور ہوتی ہے۔
پی ایم مودی یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہندوستان بیرونی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا۔ ٹرمپ سے ملاقات اور ’سمجھوتہ‘ کا اشارہ مودی کے لیے گھریلو سیاسی نقطہ نظر سے اچھا نہیں ہے۔ اسی طرح، ٹرمپ ایسی میٹنگ کرنے سے گریزاں ہیں جہاں انہیں واضح فتح نظر نہیں آتی۔ اس لیے بھارت کا موقف (بہت جلد ملاقات سے گریز) اسٹریٹجک لچک برقرار رکھنے کی کوشش ہے۔
شرم الشیخ اجلاس میں مودی نے شرکت کیوں نہیں کی؟
پی ایم مودی نے شرم الشیخ سربراہی اجلاس میں شرکت کی امریکی دعوت کو “مصروفانہ شیڈول” کا حوالہ دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے گہری سفارتی سوچ کارفرما تھی۔ سربراہی اجلاس کے دوران، ٹرمپ نے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کواسٹیج پر مدعو کیا جنہوں نے کھل کر ٹرمپ کی تعریف کی۔
ٹرمپ نے اسٹیج پر شریف سے سوال کیا کہ کیا اب ہندوستان اور پاکستان اچھے سے رہیں گے؟ مودی کے لیے یہ ایک ناخوشگوار تجربہ ہوتا، جو بارہا کہہ چکے ہیں کہ پاکستان بھارت جنگ بندی میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس لیے سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا پی ایم مودی کا فیصلہ دانشمندانہ ثابت ہوا۔
اگر دونوں لیڈروں کو لگتا ہے کہ یہ رشتہ تزویراتی طور پر بہت اہم ہے، تو وہ ایک نئی شروعات کر سکتے ہیں۔ ایک میٹنگ، تجارتی یا دفاعی معاہدے کا اعلان اور ’ری سیٹ‘۔
مختصر یہ کہ دونوں لیڈروں کے درمیان ذاتی کیمسٹری اہم ہے، لیکن یہ سب کچھ نہیں ہے۔ ادارے، تجارتی معاہدے، اور اسٹریٹجک فریم ورک بہت زیادہ پائیدار ہوتے ہیں… چاہے سمٹ میں سیلفیز نہ بھی ہوں۔
پی ایم مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان واضح فاصلہ تجارتی تنازعات، توانائی کی سیاست، اسٹریٹجک خود مختاری اور سیاسی امیج کا مرکب ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں، بلکہ یہ ہے کہ کبھی بے ساختہ ’دوستی کی تصویروں‘نے ایک محتاط اور عملی شراکت داری کو راستہ دیا ہے۔
آپ کا تبصرہ