بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، حالیہ دنوں میں روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا ولادیمیراونا زاخارووا کے ان بیانات نے کافی توجہ حاصل کی ہے جن میں انھوں نے ایران پر حملے کے لئے ماسکو کے اسرائیل کے ساتھ معلوماتی تعاون کی افواہوں کی تردید کی۔
مورخہ 29 اگست کے ان بیانات نہ صرف جعلی خبروں کا کرارا جواب بلکہ ایران اور روس کے درمیان تزویراتی تعلقات کی گہرائی کی توثیق بھی ہے۔
زاخارووا نے اپنے بیان میں ان دعوؤں کو 'محض جھوٹ' قرار دیا کہ روس نے ایران پر اسرائیلی حملے سے پہلے تل ابیب کو خفیہ معلومات فراہم کی تھیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ماسکو کی طرف سے تہران کی حمایت مغرب کے لئے اذیت ناک ہے۔ ان کے بقول: "یہ جعلی خبریں پھیلانے والے ماسکو اور تہران کے مخالف عناصر ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ جعلی خبریں مغرب میں بھی تشہیری مہم کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔"
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے واضح کیا کہ ایسے بیانات اور تجزیوں کا مقصد دو دوست ممالک کے درمیان جامع تزویرانی شراکت داری کو کمزور کرنا ہے۔
زخارووا نے اشارہ کیا کہ اس قسم کی غلط معلومات بار بار سامنے آتی رہتی ہیں اور تہران کو ان کی مذمت کرنی چاہئے؛ گوکہ ایران نے بھی اپنا اصولی موقف واضح کر دیا ہے۔
انھوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ایرانی صدر مسعود پزشکیان کے درمیان حالیہ ٹیلی فون رابطے کا حوالہ دیا جس میں فریقین نے باہمی تعاون کو فروغ دینے کے عزم پر زور دیا۔
ایران اور روس کے تعلقات کی مضبوطی کے محرکات
ایران اور روس کے تعلقات کی جڑیں طویل تاریخ کی گہرائیوں میں پیوست ہیں اور حالیہ برسوں میں مشترکہ جیوپولیٹیکل، معاشی اور سلامتی کے مفادات کی بنا پر یہ اسٹراٹیجک شراکت کے درجے تک پہنچے ہیں۔ یہ مضبوطی نہ صرف مغربی دباؤ کے خلاف باہمی حمایت پر قائم ہے بلکہ اس کی متعدد دوسری وجوہات بھی ہیں:
1۔ فوجی اور سلامتی تعاون:
روس ایران کو اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ ایس-300 اور ایس-400 جیسے فضائی دفاعی نظاموں کی فروخت سے لے کر شام میں تعاون، جہاں دونوں ممالک نے داعش جیسے دہشت گرد ٹولوں کے خلاف مل کر کام کیا۔
حالیہ برسوں میں، دونوں ممالک پر مغربی پابندیوں میں شدت آنے سے یہ تعاون مزید گہرا ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر، روس نے ایران کے پرامن جوہری پروگرام کی حمایت کی اور 6+1 گروپ کے ساتھ ایران کے ایٹمی معاہدے کے مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کیا۔
2۔ معاشی اور تجارتی تعلقات:
گذشتہ برسوں میں ایران اور روس کے درمیان دوطرفہ تجارت میں قابل ذکر اضافہ ہؤا ہے۔
برکس (BRICS) کے رکن ملک کی حیثیت سے روس، ایران کو یوریشیا میں ایک اہم کلیدی شراکت دار سمجھتا ہے۔ شمال-جنوب راہداری جیسے منصوبے، جو ایران کو روس اور یورپ سے ملاتے ہیں، اور توانائی (تیل اور گیس) کے شعبے میں تعاون نے مضبوط معاشی بنیادیں فراہم کی ہیں۔
سنہ 2025 میں، عالمی توانائی کی مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے پیش نظر، روس اور ایران نے ڈالر پر انحصار کم کرنے اور قومی کرنسیوں میں تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔
3۔ مغرب کے خلاف مشترکہ موقف:
دونوں ممالک سخت مغربی پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں؛ روس یوکرین بحران کی وجہ سے اور ایران اپنے جوہری پروگرام کی وجہ سے۔ اس صورت حال نے انہیں قریب تر اتحاد کی جانب راغب کیا ہے۔
ماسکو، یوکرین میں روسی موقف کی ایران کی حمایت کی قدر کرتا ہے، اور تہران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روسی حمایت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ زاخارووا نے اپنے بیان میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ ایران کے لئے روسی حمایت مغرب کو پریشان کر رہی ہے، جو اس اتحاد کی گہرائی کا ثبوت ہے۔
4۔ ثقافتی اور سفارتی تعاون:
دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی، تعلیمی اور سائنسی تبادلوں میں زبردست اضافہ ہؤا ہے۔
روس کی حمایت سے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) میں ایران کی رکنیت، اور برکس میٹنگز میں شرکت نے سفارتی میدان میں دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کر دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ