اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، انہوں نے ایک صحافتی گفتگو میں کہا کہ اس وقت حزباللہ پر لبنان کے اندر سخت دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار زمین پر رکھ دے، لیکن یہ وہی کام ہے جو اسرائیل براہِ راست فوجی جنگ میں بھی نہیں کر سکا۔
ڈاکٹر لاریجانی نے اس تاثر کو رد کیا کہ ایران کی حمایت یافتہ تنظیمیں کمزور ہو رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ گروہ کمزور ہیں تو پھر ان پر اتنا شدید دباؤ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کہا جاتا ہے حزباللہ کو نقصان پہنچا ہے، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس نے خود کو دوبارہ منظم اور مضبوط کر لیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ حزباللہ کے پاس بڑی تعداد میں نوجوان مجاہدین موجود ہیں اور تنظیم نے ازسرِ نو اپنی بحالی اور طاقت میں اضافہ شروع کر دیا ہے۔ ان کے مطابق حزباللہ اُس وقت وجود میں آیا جب اسرائیل نے بیروت پر مکمل قبضہ کر لیا تھا، اور اسی وقت لبنانی نوجوانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی سرزمین کا دفاع کریں گے۔ اسی مزاحمتی روح نے حزباللہ کو ایک بڑی عوامی سرمایہ میں بدل دیا، جو ایک چھوٹے ملک کو اسرائیل جیسے طاقتور دشمن کے خلاف مزاحمت کی قوت فراہم کرتا ہے۔
لاریجانی نے واضح کیا کہ مزاحمت پورے خطے کے لئے ایک تزویراتی سرمایہ ہے اور جس طرح حزباللہ ایران کے لئے اہم ہے، اسی طرح ایران بھی حزباللہ کے لئے ناگزیر ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ لبنان کے مسائل لبنانی عوام کے باہمی مکالمے سے حل ہونے چاہئیں۔ حزباللہ ایک پختہ کار اور خودمختار تنظیم ہے جو اپنے فیصلے آزادانہ طور پر کرتی ہے، اس پر ایران کوئی حکم عائد نہیں کرتا۔
ایران ڈپلومیسی ترک نہیں کرے گا
ڈاکٹر لاریجانی نے ایران کی مذاکراتی پالیسی کے بارے میں کہا کہ ڈپلومیسی بذاتِ خود ایک مؤثر آلہ ہے اور حکومت کے امور کا حصہ ہے، لہٰذا اسے ترک کرنا کسی طور دانشمندانہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر دشمن مذاکرات کو محض ایک نمائشی حربہ یا اشتہاری تماشہ بنائے گا تو اس سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دشمن کی سفارت کاری زیادہ تر بہانہ تراشی کے لئے استعمال ہو رہی ہے، تاہم ایران کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ہم مذاکرات کے دروازے بند کر رہے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایران کی شرط یہ ہے کہ مذاکرات حقیقی اور سنجیدہ ہوں۔ ’’اگر دشمن جنگ کرنا چاہتا ہے تو آغاز کرے، لیکن جب بھی اسے پچھتاوا ہو تو میزِ مذاکرات پر واپس آ سکتا ہے۔‘‘
آپ کا تبصرہ