اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا | سنہ 1948ع میں سرزمین فلسطین میں اسرائیل نامی نحوست کی بنیاد
رکھی گئی تو مزید عربی علاقوں پر قبضے کی
توقعات کا ایک حصہ فلسطینی اراضی سے متعلق تھے، اور دوسرا حصہ مقبوضہ فلسطین کے
پڑوسی ممالک سے متعلق تھا، اور اسی بنیاد پر انہوں نے غاصب ریاست کے قیام کی پہلی
دہائیوں میں خطے کے کئی ممالک پر حملے کئے اور ان ممالک کے مختلف حصوں پر قبضہ کر
لیا تھا لیکن اس کی یہ لالچ کبھی بھی اختتام پذیر نہیں ہوئی تھی۔
صہیونی اخبار
"ہاآرتص" ان لالچوں کے سلسلے میں نیتن یاہو کی "رائے" کا
جائزہ لیا ہے جس کو [کہ] صہیونیوں کے دیرینہ خواب ـ یعنی گریٹر اسرائیل ـ کی تکمیل
پر منتج ہونا چاہئے؛ اور نیتن یاہو نے چند روز قبل متعدد الزامات کی بنیاد پر اپنے
اوپر چلنے والے مقدمے کی سماعت کے دوران اس مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
"سنہ 1916ع کے برطانیہ-فرانس خفیہ معاہدے سائیکس پیکو (Sykes–Picot Agreement) پر دستخطوں کے بعد، ایک
سو برس سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے، جس کے بعد اب تک خطے میں کوئی بڑا زلزلہ رونما
نہیں ہؤا ہے، اور یہ زلزلہ اس وقت وقوع پذیر ہو رہا ہے۔
اس سے قبل نیتن
یاہو نے جولان کی تقسیم کے حوالے سے سنہ 1974ع کے شام-اسرائیل سمجھوتے کی خلاف
ورزی کرکے شام پر حملہ کیا اور اس سمجھوتے کی منسوخی کا باضابطہ اعلان بھی کیا۔ جس
کے بعد اسرائیلی ٹینک بفر زون سے گذر کر جنوبی شام کے نہتے علاقوں میں داخل ہوئے
اور "قطنا" کے علاقے تک پیشقدمی کی جو کہ دارالحکومت دمشق سے 20 کلومیٹر
کے فاصلے پر واقع ہے۔
ادھر القاعدہ کے
سابق دہشت گرد، دہشت گرد ٹولے القاعدہ کی شاخ اور دہشت گرد تکفیری ٹولے جبہۃ
النصرہ (کل) اور ہیئت تحریر الشام (آج) کے سرغنے ابو محمد الجولانی یا سعودی
دارالحکومت ریاض میں پیدا ہونے والے احمد حسین الشرع ـ کی یہ بات بالکل قابل فہم
تھی کہ "شام جنگوں سے تھک گیا ہے، اور کسی نئی جنگ کا خواہاں نہیں ہے"۔
بہت سے دوسرے اشخاص کی صورت حال بھی یہی ہے جنہوں نے فلسطین، فلسطینی کاز اور
غزاویوں کے قتل عام اور مصائب اور رنج غم پر انکھیں بند کر لیں۔
لیکن الجولانی
کی یہ بات قابل فہم نہیں ہے کہ "اسرائیل کے ساتھ تنازعے کو "ایران اور
خطے کر درمیان تنازعہ" قرار دیا تھا حالانکہ جو کچھ اس وقت شام کے جنوب میں
وقوع پذیر ہو رہا ہے اس کا کسی بھی طرح ایران سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ تو
اسرائیل اور شام سمیت عرب دنیا کے درمیان براہ راست تنازعہ ہے۔
اس وقت اصل بحث
اس مسئلے پر ہے کہ اسرائیل نے الجولانی کے زیر تسلط ملک شام کے کئی علاقوں پر قبضہ
کر لیا ہے جبکہ وہ اور اس کی جماعت شام کی حکمران جماعت کہلواتی ہے! اور اس کی
نگرانی میں ایک عبوری حکومت قائم ہوئی ہے، اور اسی حال میں صہیونیوں نے شام کے کچھ
علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اور ان علاقوں کو شام سے جدا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے،
کیا یہ حقائق الجولانی اور شام کی اپوزیشن کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے؟
نیز یہ بات قابل
فہم ہے کہ موجودہ عبوری حکومت نہ تو میدان میں سرگرم ہے اور نہ ہی سفارت کاری میں؛
لیکن کیا یہ عبوری حکومت الجولانی یا اس کے عبوری وزیر اعظم محمد البشیر زبانی
کلامی موقف بھی نہیں اپنا سکتے؟ کیا وہ صرف اسرائیلی حملوں کی مذمت تک نہیں کر
سکتے جس نے شام کو ایک نہتے ملک میں تبدیل کر لیا ہے اور اس کے تمام ہتھیاروں اور
فوجی تنصیبات کو نیست و نابود کر دیا ہے؟ جبکہ اسرائیل نے شام کے کئی علاقوں پر
قبضہ کرکے لاکھوں افراد کو زور زبردست اپنے گھروں سے نکال باہر کیا ہے اور اقوام
متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 10 لاکھ افراد پناہ گزینی پر مجبور ہوگئے ہیں؟ کیا
خوشحالی اور امن کا وعدہ دے کر شام پر قابض ہونے والے شام ہی پر حکومت نہیں کریں
گے؟ تو پھر وہ شام کے حوالے سے ظاہری طور پر بھی، کچھ غیرت و اظہار کا اظہار کیوں
نہیں کرتے حالانکہ اسرائیلی فوج شام میں پیشقدمی کرکے صدارتی محل سے 20 کلومیٹر کے
فاصلے پر تعینات ہوئی ہے؟؟؟
بلا شبہ اسرائیل
کی نیت اور اس کے مقاصد کبھی بھی آج جتنے عیاں نہیں تھے۔ نیتن یاہو آشکار اعلان
کرتا ہے کہ "اسرائیل اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائے گا اور اسرائیل کی حدود
کو پھیلا دے گا اور اس سلسلے میں ضروری اقدامات انجام پا رہے ہیں"۔
نیتن یاہو کی
موقع پرستی سے قطع نظر، اس کو حاصل امریکی پشت پناہی کو بھی نہیں بھولنا چاہئے۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کسی وقت کہا تھا کہ "اسرائیل بہت چھوٹا ہے،
اور اس کے رقبے میں توسیع کی ضرورت ہے"۔
نہ امریکی صدر
کا بےشرمانہ موقف اور نہ ہی الجولانی کا معذرتخواہانہ موقف درحقیقت اسرائیلی توسیع
پسندی کی تائید کے سوا کچھ بھی نہیں ہے جو اس وقت غزہ کی پٹی کے شمال میں بھی جاری
و ساری ہے اور جہاں بھی فلسطینی جبری نقل مکانی کے سامنے سر خم نہیں کرتے، ان کا
قتل عام کیا جا رہا ہے اور یہی سلسلہ دریائے اردن کے مغربی کنارے میں بھی جاری ہے۔
مغربی پٹی کے صہیونی ریاست سے الحاق کا منصوبہ وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی میز سے
اٹھ کر آیا تھا اور ٹرمپ نے کہا ہے کہ برسراقتدار آتے ہیں اس منصوبے پر غور کرے
گا۔
لگتا ہے کہ ـ
جیسا کہ نیتن یاہو نے بھی اشارہ کیا تھا ـ خطے میں نئی حد بندیاں ٹرمپ کے زیر
نگرانی آگے بڑھائی جا رہی ہیں۔ کیونکہ ٹرمپ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا کہ اگر
اس کی وائٹ ہاؤس میں تعیناتی سے قبل ہی اسرائیلی کیس حل نہیں ہوگا تو مشرق وسطی کا
علاقہ جہنم میں تبدیل ہو جائے گا، تو ایسے میں کون ہے جو ٹرمپ کے اقدامات کے سامنے
کھڑا ہوگا؟
اس تصویر کی
تکمیل کے لئے یہی کافی ہے کہ الجولانی اور ہئیت تحریر الشام کے بارے میں مغربی
موقف اور اس کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے ہٹانے کے بارے میں آنے والی مغربی
تجاویز پر ایک نظر دوڑائی جائے۔ گوکہ جولانی کا نام صرف اس وقت دہشت گردوں کی
فہرست سے حذف ہو سکتا ہے جب مغرب کو یقین ہو جائے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے
تعلقات قائم کرے گا۔
امریکی سائیکس پیکو (Sykes-Picot) معاہدے کے تحت ترسیم شدہ سرحدوں کے وارث ہیں لیکن وہ ان سرحدوں
اور اس معاہدے پر دستخط کرنے والے فریقوں میں شامل نہیں ہیں اور ان سرحدوں کو تبدیل
کرنا چاہتے ہیں اور ان کے اس منصوبے کی کامیابی کا دارومدار اس پر ہے کہ القاعدہ
اور داعش کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دے اور انہیں نیا کردار ادا
کرنے کے لئے تیار کرے۔
امریکہ اور ان
تنظیموں کے باہمی تعلقات کے تاریخچے پر نظر ڈالی جائے تو واضع ہوتا ہے کہ اب یہ
تنظیمیں امریکیوں کی نگاہ سے، ان کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں ہیں۔ چنانچہ ان
کی کوشش ہے کہ کہ ان دہشت گرد ٹولوں کو جلد از جلد دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج
کیا جائے تاکہ وہ شام کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیں؛ تاکہ نہ صرف مسئلۂ فلسطین کو
فراموش کرکے پس پشت ڈالا جائے بلکہ سائیکس پیکو معاہدے کی اسرائیل کے حق میں
تبدیلی کو ممکن بنایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
