اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، سیکریٹری جنرل حزب اللہ لبنان سید حسن نصراللہ نے حزب اللہ کے سینئر کمانڈر شہید
فؤاد علی شُکر (سید محسن)
کے جلوس جنازہ کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا: مقاومت کا معمول یہ ہے کہ یہاں سینیئر
کمانڈر بھی جوانوں کی طرح میدان جنگ میں جام شہادت نوش کرتے ہیں۔
سید حسن نصراللہ نے بیروت کے علاقے جنوبی ضآحیہ میں واقع حسینیۂ سیدالشہداء(ع) میں، شہید فؤاد علی شُکر کے جلوس جنازہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے حماس کے راہنما ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر تحریک حماس، عزالدین قسام بریگیڈز اور فلسطینی قوم کو تبریک و تعزیت کا ہدیہ پیش کیا۔
حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اس موقع پر کہا:
ہم مقاومت (مزاحمت) اور شہادت میں حماس کے ساتھ شریک ہیں، اور حتمی فتح حاصل کرکے دم لیں گے۔
مقاومت کی تحریکوں اور جماعتوں میں قائدین اور کمانڈر بھی عام مجاہدین کی طرح جام شہادت نوش کرتے ہیں۔
صہیونیوں نے حارہ حریک کے علاقے میں عام شہریوں سے بھری عمارت کو نشانہ بنایا اور شہید سید محسن (فؤاد علی شُکر) کے ساتھ کئی افراد شہید اور زخمی ہوئے اور شہداء میں ایک ایرانی شہری بھی شامل ہے۔
ضاحیہ کے علاقے پر غاصب صہیونیوں کا حملہ صرف ایک قاتلانہ حملہ نہیں تھا بلکہ ایک ایک غیر فوجی عمارت پر حملہ تھا۔
دشمن نے حملے سے چند روز قبل کہا تھا کہ اس کی کاروائی ایک رد عمل اور ایک انتقامی کاروائی ہوگی لیکن ہم اس کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں، دشمن نے ایک بڑا دھوکہ دیا اور جھوٹ بولا اور دعوی کیا کہ ہمارے یہ شہید مجدل شمس (جولان) کے بچوں کے قاتل تھے، لیکن ضاحیہ پر حملہ مجدل شمس کے واقعے کا رد عمل نہیں تھا، اور ہم اس کے جھوٹے دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں اور یہ ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے کہ جلاد خود قاضی بن بیٹھے۔
بے شک بیروت کا جنوبی ضاحیہ مغربی ایشیا میں امریکی ـ اسرائیلی جنگ کا حصہ ہے۔
ہم صہیونی دشمن کو للکار کر نشانہ بناتے ہیں اور اپنے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور ہم نے مجدل شمس کے واقعے کے حوالے سے اپنے اوپر لگے جھوٹے الزامات کی باضآبطہ تردید کی تھی۔ ہم اگر غلطی کریں تو ہم میں اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کی جرأت و ہمت ہے۔ جیسا کہ ماضی میں ہم نے اس حقیقت کو عملی طور پر ثابت کیا ہے۔
ہم نے مجدل شمس میں دھماکے کے بعد اندرونی طور پر ٹھیک ٹھیک تحقیقات کر لیں اور مطمئن ہو گئے کہ ہم اس واقعے کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ بہت سارے جائزوں میں واضح کیا گیا کہ وہ دھماکہ صہہیونیوں کے میزائل شکن نظام آئرن ڈوم کا میزائل گرنے سے ہؤا تھا اور یہ پہلا واقعہ بھی نہیں ہے بلکہ اس کے آئرن ڈوم کے میزائل اکثر و بیشتر طیاروں اور میزائلوں کو لگنے کے بجائے صحراؤں اور میدانوں میں گرتے رہے ہیں یا پھر ایک دوسرے کو فضا میں تباہ کرتے رہے ہیں۔
مجدل شمس کا دھماکہ صہیونیوں نے کیا اور خود کو اس حملے سے بچانے کی خاطر فوری طور پر لبنانی مقاومت پر الزام لگایا اور جولان کے باشندوں، دروز فرقے کے پیروکاروں اور شیعوں اور مقاومت کے درمیان جھوٹی افواہیں پھیلائیں۔
میں مجدل شمس کے دھماکے کے حوالے سے دروز بزرگوں، زعماء اور راہنماؤں کی ہوشیاری اور منصفانہ موقف کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اس خطے کے شہداء کے خاندانوں کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔
ہم در حقیقت غزہ کی حمایت کی قیمت چکا رہے ہیں اور سید محسن کی شہادت پہلے شہید نہیں ہیں جو اس راہ میں قربان ہو رہے ہیں، بلکہ ہمارے سینکڑوں افراد شہید ہو گئے ہیں جن میں کمانڈر بھی شامل ہیں۔ ہم ان قربانیوں کو قبول کرتے ہیں کیونکہ ایمان کی بنیاد پر اس جنگ میں کود پڑے ہیں۔
کیا دشمن سمجھتا ہے کہ کہ وہ اسماعیل ہنیہ کو ایرانی سرزمین میں شہید کرے گا اور ایران خاموش رہے گا؟ شہید ہنیہ کی شہادت پر امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کے خطاب و لہجہ دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر صہیونی حملے کے سلسلے مین ان کے خطاب سے کہیں زیادہ شدید تھا، کیونکہ یہ جارحیت صرف ایران کی خودمختاری ہی کے خلاف نہیں تھی بلکہ ایران کی قومی سلامتی اور اس کی ہیبت و شرافت پر جارحیت تھی۔
میں صہیونی حکمرانوں سے کہتا ہوں کہ چلئے کچھ عرصے لئے خوش ہو گئے ہو، لیکن بہت زیادہ روؤگے؛ تم ابھی نہیں سمجھ سکے ہو کہ کس سرخ لکیر کو عبور کر گئے ہو، اور کیا کچھ تم سے سرزد ہؤا ہے اور کہاں تک چلے گئے ہو!۔
بے شک ہم تمام محاذوں میں ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئے ہیں اور دشمن کو خطے میں شرفاء کی خونخواہی کا انتظار کرنا چاہئے۔
حماس کے بانی راہنما اور کئی دوسرے راہنما شہید ہو گئے ہیں جو ایک دردناک واقعہ ہے، سید فؤاد کی شہادت بھی ہمارے لئے دردناک تھی لیکن ان کی شہادت سے ہمارے عزم و ارادے میں کوئی خلل نہیں پڑتا بلکہ یہ شہادتیں ہمارے منتخب راستے پر ہمارے اصرار اور استقامت میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔
سید محسن اسی حسینیۂ سیدالشہداء(ع) میں حاضر ہوکر "ما ترکتک یا حسین(ع)" کا نعرہ لگایا تھا اور آج میں ان سے کہتا ہوں: "آپ اپنی امانت ادا کر چکے، اور امام حسین (علیہ السلام) کا دیدار کر چکے؛ ہم اس عہد میں آپ کے ساتھ شریک ہیں"۔
میں مقاومت کے حامیوں اور ساتھیوں کو اطمینان دلاتا ہوں کہ جب ہمارا ایک کمانڈر شہید ہوجاتا ہے، اس کے ایک ہونہار شاگر کو فوری طور پر اس کی جگہ متعین کرتے ہیں۔
شہید سید محسن شہادت کے عاشق تھے اور جب شہداء کے بارے میں بات ہوتی تھی تو وہ ذاتی رعب و ہیبت کے باوجود، آنسو بہاتے تھے۔ یہ قائدین کی آرزو ہوتی ہے کہ اپنے شہید ساتھیوں سے جا ملیں۔
شہید سید فؤاد، شہید ابو طالب اور شہید علاء البوسنہ کے ساتھ بوسنیا کی جنگ میں بوسنیا اس ملک کے مظلومین اور مستضعفین کی مدد کے لئے گئے بھی گئے تھے جہاں مسلمانوں کی مدد کے بعد وہ لبنان واپس آئے۔
میں ان ملکوں سے ـ جو خطے میں جنگ کے پھیلاؤ سے فکرمند ہیں ـ کہتا ہوں کہ "اسرائیل کو غزہ میں جنگ بند کرنے کا پابند بناؤ، کیونکہ جنگ کا پھیلاؤ روکنے کا واحد راستہ صرف یہی ہے"۔
ضاحیہ پر حملے اور سید محسن اور دوسرے [غیر فوجی] شہریوں کی شہادت کا جواب حتمی ہے؛ دشمن اور اس کے حامی منتظر رہیں۔
محاذ مقاومت غیظ و غضب کی بنیاد پر نہیں لڑتا بلکہ عقلیت، شجاعت اور حکمت و منطق کی بنیاد پر جنگ میں اترتا ہے اور محاذ مقاومت خود ہی دشمن کی جارحیت کے جواب کی نوعیت کا تعین کرتا ہے۔
میں دشمن سے سیدہ زینب (سلام اللہ علیہا) کا وہی جملہ دہراتا ہوں جو انھوں نے یزید بن معاویہ سے کہا تھا، اور کہتا ہوں: "اے نیتن یاہو! اور امریکہ جو تیری پشت پر کھڑا ہے، جتنا کر سکتا ہے منصوبہ بنا اور جتنا کر سکتا ہے کوشش کر، اللہ کی قسم! تو ہمارا تذکرہ لوگوں کے دلوں سے نہیں مٹا سکتا، اور ہماری وحی کو نابود نہیں کر سکتا"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
