اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق مڈغاسکر کے دورے کے موقع پر اس ملک میں مقیم ویٹیکن کے سفیر ٹوماش گریسا سے ملاقات اور بات چیت کی۔ اس موقع پر مڈغاسکر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر حسن علی بخشی اور اہل بیت(ع) یونیورسٹی کے چانسلر حجت الاسلام والمسلمین سعید جازاری بھی موجود تھے۔
اس موقع پر مڈغاسکر میں ویٹیکن کے اسقف اعظم ٹوماش گریسا (Archbishop Tomasz Grysa) نے دنیا میں دشمنی پر مبنی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمیں اس وقت دنیا میں جس بڑی مشکل کا سامنا ہے لبرلزم کا مسئلہ ہے، جو دنیا پر حکومت کر رہا ہے۔ یہ دھارا دین کو دوسرے ثقافتی امور کے ضمن میں ایک ذاتی مسئلہ قرار دینا چاہتا ہے، وہ دین کو ایسا موضوع نہیں سمجھتے جو معاشروں میں تشکیل اور فروغ پاتے ہیں۔ لبرلزم میں دین کو قدامت پرستی قرار دیا جاتا ہے جو جدت (Modernism) کے خلاف ہے اور انسان کو جدید انداز میں آگے نہیں بڑھنے دیتا۔ لہذا لبرلزم تشیع کے لئے بھی تشویشناک ہے اور کیتھولک عیسائیت کے لئے بھی۔
انھوں نے کہا: لبرلزم کے مقابلے میں پوپ کی پالیسی یہ تھی کہ ہمیں سب کے لئے احترام، کی طرف آگے بڑھنا چاہئے، ہمیں ابتدائی مرحلے میں باہمی احترام کی طرف جانا چاہئے اور پھر انسانیت کے لئے قدم آگے بڑھانا چاہئے۔ ہمارے دوسرے اقدامات میں سے ایک دین اور عقیدے کی آزادی ہے، البتہ مراد یہ نہیں ہے کہ ہر انسان صرف ذاتی طور پر ایک عقیدہ قبول کر لے؛ بلکہ اس کو اس قابل ہونا چاہئے کہ ایک معاشرتی اور آزاد ماحول میں بھی اپنے دینی اعمال و مناسک انجام دے سکے، اپنے اعتقادات کے مطابق جشن منائے۔ لبرلزم کے ساتھ ہمارا تقابل یہی بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے۔
مڈغاسکر میں ویٹیکن کے سفیر نے مزید کہا: شیعیان اہل بیت(ع) کے ساتھ ہمارے روابط کو آیت اللہ العظمٰی سیستانی کے ساتھ پاپائے اعظم کی ملاقات کے بعد فروغ ملا اور دو طرفہ مواصلاتی چینل کو تقویت پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اسی بنا پر ہم نے شیعہ خوجہ مرکز کا دورہ کیا اور خوجہ شیعہ راہنما پاپائے اعظم کے ساتھ اگلی ملاقات میں شریک ہونگے۔
آیت اللہ رمضانی نے اس موقع پر مغرب کی طرف سے دین پر ہونے والی یلغار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: الٰہی اقدار اور تعلیمات نیز انسانی اقدار کو مغرب میں سنجیدہ خطرہ لاحق ہے۔ مغرب میں ہمیں کچھ اخلاقی انحرافات کا سامنا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کو اب قانونی حیثیت بھی دی گئی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ دین کو آج کے زمانے کے تقاضوں کے مطابق، عوام کو منتقل کریں اور تمام ادیان و مذاہب کے باہمی احترام کو فروغ دیں۔ دینی راہنماؤں کے باہمی تعلقات عالمی امن کے قیام میں بنیادی کردار ادا کرتے ہيں۔
انھوں نے کہا: دینی راہنماؤں کے درمیان ربط و تعلق، ایک لحاظ سے استعدادات اور صلاحیتوں سے واقفیت ہے، یہ بہر حال تعاون کی ایک شکل ہے۔ نئے تقاضے اور نئے حالات جو ہمیں درپیش ہیں، تقاضا کرتے ہیں کہ زمان اور مکان (Time & space) کے حالات کی بنیاد پر مختلف شعبوں کو گہری نظر ثانی کرنا پڑے گی۔
سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے مزید کہا: میں نے پاپائے اعظم کو کئی خطوط لکھے۔ ایک خط اس زمانے میں لکھا جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توہین میں اضافہ ہؤا تھا، اور پاپائے اعظم نے آزادی اظہار اور انبیاء کی توہین کو ایک دوسرے سے الگ گردانا اور اس توہین کی مذمت پر مبنی موقف اپنایا۔ اور میں نے اپنے خطے میں ان کے اس موقف کی قدردانی کی اور ان کا شکریہ ادا کیا، اور انھوں نے اپنے جوابی خط میں ایک بار پھر اپنے موقف کی توثیق کر دی۔
تقدس شکنی بنی نوع انسان کے دین کے لئے خطرہ
آیت اللہ رمضانی نے دنیا میں دینی راہنماؤں کے اہم کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: دینی اور مذہبی راہنماؤں کو بین الاقوامی معاشروں کے درپیش سماجی آفتوں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں کردار ادا کرنا چاہئے، اور ان میں سے بعض آفتوں ـ جیسے غربت، ظلم اور انحرافات اور گمراہیوں ـ کا سد باب کریں۔ میں بین الاقوامی سطح پر فعال دینی عالم کے طور پر ابراہیمی ادیان کو درپیش اس آفت کو سب سے اہم سمجھتا ہوں کہ وہ ہر مقدس کو غیر مقدس بنا کر پیش کرتے ہیں، تقدس شکنی بنی نوع انسان کی دینداری کے مستقبل کے لئے خطرناک ہے اور میں نے اپنے مختلف مکالموں اور مذاکرات میں اس مسئلے پر زور دیا ہے۔ مذہب تشیّع میں تمام انبیاء، آدم سے خاتم تک، جن میں حضرت موسٰی اور حضرت عیسٰی اور حضرت مریم جیسی شخصیات، ـ سب مقدس ہیں، اور قرآن میں بھی زور دے کر کہا گیا ہے کہ توریت اور انجیل خداوند متعال کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔
انھوں نے کہا: آج ایک ماحول فراہم ہو چکا ہے اور دینی راہنماؤں کے درمیان تعامل اور گفتگو کا راستہ ہموار ہو چکا ہے، یہ ایک بابرکت روداد تھی جو نجف میں رونما ہوئی اور پاپائے اعظم آیت اللہ العظمٰی سیستانی سے ملنے آئے اور ہمیں خوشی ہے کہ اس طرح کے مسائل پر بات چیت شروع ہوئی۔ قم بھی عالم تشیّع کے ایک قوی ترین علمی حوزے کے طور پر ادیان و مذاہب کے درمیان بات بات چیت اور ڈائیلاگ کا اہتمام کرنے کے لئے تیار ہے اور یہ پیشرفت ـ جیسا کہ میں نے عرض کیا ـ تعاون کے فروغ پر منتج ہو سکتی ہے۔ ہم سب کے لئے گفتگو اور ڈائیلاگ کا مسئلہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110