26 ستمبر 2023 - 03:27
شیعہ امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی نظر میں / 20 نکات

امام حسن عسکری (علیہ السلام) کا زمانہ تشیع کی تنہائی کا زمانہ تھا اور آپ نے اپنے بعد امام آخر الزمان کے زمانے کے لئے بھی ہدایات دی ہیں جو آج غیبت کے زمانے میں بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہوسکتی ہیں اور ہماری کئی غلط فہمیوں کو دور کرسکتی ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

1۔ شیعہ کی پانچ نشانیاں

شیخ طوسی کی روایت کے مطابق، امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے فرمایا:

"علامات المؤمن خمس: صلاة احدى وخمسين، وزيارة الاربعين، والتختم باليمين (او في اليمين) وتعفير الجبين، والجهر ببسم الله الرحمن الرحيم"۔

شیعہ کی پانچ علامتیں ہیں: 1۔ روزانہ 51 رکعت نماز ادا کرتا ہے (17 واجب اور 34 مستحب)، 2۔ زیارت اربعین پڑھنا، 3۔ داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، 4۔ مٹی پر سجدہ کرنا، 5۔ نماز میں بسم اللہ کو بآواز بلند پڑھنا۔

2۔ شیعہ شفقت، منکسرالمزاجی اور برادران کے حقوق کا لحاظ رکھتا ہے

امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرمایا:

"أعْرَفُ النّاسِ بِحُقُوقِ إخْوانِهِ وَأشَدُّهُمْ قَضاءً لَها أعْظَمُهُمْ عِنْدَ اللهِ شَأناً وَمَنْ تَواضَعَ فِی الدُّنْیَا لِإِخوَانِهِ فَهُوَ عِنْدَ اللهِ مِنْ الصِدّیقینَ، وَمِنْ شیعَهِ علی بْنِ أبی طالِب عَليهِ السَّلامُ حَقّاً؛

جو شخص اپنے بھائیوں کے حقوق کو سب سے زیادہ پہچانتا ہے اور ان حقوق کی ادائیگی میں سب سے زیادہ کوشاں ہے وہ شان و منزلت کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک سب سے بڑا اور عظیم ہے اور اس کا رتبہ سب سے اونچا ہے؛ اور جو دنیا میں اپنے بھائیوں کی نسبت سب سے زیادہ تواضع اور خاکساری کا مظاہرہ کرے گا وہ اللہ کی بارگاہ میں صدیقین میں سے ہے اور علی بن ابیطالب (علیہ السلام) کے حقیقی شیعوں میں سے ہے"۔ (2)

واضح رہے کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے حقیقی شیعہ سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) اور حسن و حسین (علیہما السلام) اور سلمان، ابوذر، مقداد، عمار اور محمد بنی ابی بکر اور مالک اشتر تھے۔ جنہوں نے ولایت کی پیروی کا حق ادا کرتے ہوئے کبھی بھی اپنے ولی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے شک و تذبذب سے کام نہیں لیا اور کبھی بھی اپنی رائے ولی امر کی رائے پر مقدم نہیں رکھی؛ یہی نہیں بلکہ انہوں نے کبھی بھی ولی اللہ (علیہ السلام) کے سامنے اپنی رائے ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کی جبکہ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حکم جاری ہونے کے باوجود اپنی رائے کا اظہار ہی نہیں بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حکم کی اعلانیہ مخالفت تک کیا کرتے تھے! اور یہ ولایت پذیری کے بالکل خلاف ہے حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) تمام مسلمانوں پر ولایت رکھتے تھے۔

3۔ شیعہ مہمان کا احترام کرتا ہے

شیعیان محمد و آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت مہمام کا اکرام و احترام ہے۔ امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "دو دینی برادران (باپ اور بیٹا) امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے گھر میں مہمان ہوئے۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے اٹھ کر مہمانوں کا استقبال کیا اور ان کی تکریم فرمائی اور انہیں صدرِ مجلس میں بٹھایا اور خود بھی ان کے درمیان بیٹھ گئے اور کھانا لانے کا حکم دیا اور ان دونوں نے کھانا کھا لیا۔ قنبر ایک برتن میں پانی لائے اور ایک خالی برتن، نیز تولیہ ساتھ لائے اور خالی برتن مہمان کے سامنے رکھا تا کہ مہمان ہاتھ بڑھا دیں اور قنبر ان کے ہاتھوں دھلائیں۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے اٹھ کر پانی کا برتن قنبر سے لے لیا تا کہ مہمان کے ہاتھ خود دھلا دیں۔ مہمان نے اپنے آپ کو خاک پر گرایا اور عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! خدا مجھے دیکھ رہا ہے کہ آپ میرے ہاتھوں دھلانا چاہتے ہیں!

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: بیٹھ جاؤ اور اپنے ہاتھ دھولو، خداوند متعال تمہیں بھی دیکھتا ہے اور تمہارے بھائی کو بھی دیکھتا ہے جو بالکل تمہاری مانند ہے اور تم میں اور تمہارے بھائی میں کوئی فرق نہیں ہے اور تمہارا یہ بھائی اپنے آپ کو تم سے بہتر نہیں سمجھتا بلکہ تمہاری خدمت کرتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ جنت میں اس کے خدمت گزاروں کی تعداد دنیا کے لوگوں کی پوری تعداد سے بھی دس گنا زیادہ ہو۔ وہ آدمی بیٹھ گیا۔

 [نکتہ: مہمان کی خدمت کرو گے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ تم جنتی ہو اور دوسری بات یہ ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ اس کو لاکھوں خدمت گزاروں سے بہرہ مند فرمائے گا]۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: تمہیں خدا کی قسم! میرے اس حق عظیم کے صدقے، جس کو تم نے پہچان لیا ہے اور اس کی تکریم کی ہے، اور اللہ کے سامنے تمہارے خضوع و انکسار کے صدقے، کہ اس نے مجھے خدمت مہمان کی دعوت دی ہے اور اس کے ذریعے تم کو شرف بخشا ہے کہ میں تمہاری خدمت کروں، اپنے ہاتھ پورے سکون و اطمینان کے ساتھ دھولو، بالکل اسی طرح کہ اگر قنبر تمہارے ہاتھوں کو دھلاتا اور تم سکون کے ساتھ ہاتھ دھولیتے۔ چنانچہ مہمان نے ایسا ہی کیا۔

امیرالمؤمنین (ع) مہمان کے ہاتھ دھلانے سے فارغ ہوئے تو بیٹے محمد بن حنفیہ کو بلایا اور فرمایا: بیٹا! اگر یہ لڑکا یہاں تنہا ہوتا اور اپنے والد کی معیت کے بغیر آیا ہوتا میں خود ہی اس کے ہاتھوں کو دھلاتا لیکن خداوند متعال نہیں چاہتا کہ جب باپ بیٹا ساتھ ہوں تو دونوں کو یکسان سمجھا جائے اور ان کے ساتھ ایک ہی جیسا اندازِ سلوک اپنایا جائے۔ چنانچہ باپ نے باپ کے ہاتھ دھلائے اور بیٹے نے بیٹے کے ہاتھ دھلائے۔ یہ داستان سنانے کے بعد امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَنِ اتَّبَعَ عليّا عليه السلام على ذلكَ فهُو الشِّيعيُّ حَقّا؛

جس نے اس سنت میں علی (علیہ السلام) کی پیروی کی وہ حقیقتاً شیعہ ہے"۔

4۔ شیعہ کسی کی ناموس پر نظر نہیں رکھتا

امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے فرمایا: ایک مرد نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: فلاں شخص اپنے پڑوسی کے حرم (زوجہ) کو گھورتا ہے اور اگر ناجائز فعل ممکن ہوسکے تو وہ دریغ نہیں کرے گا۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: اس شخص کو حاضر کرو۔

شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)! وہ آپ کے پیروکاروں میں سے ہے اور علی (علیہ السلام) کا شیدائی ہے اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کرتا ہے۔

فرمایا: مت کہو کہ ایسا شخص ہمارے شیعوں میں سے ہے۔ وہ جھوٹا ہے کیونکہ ہمارے شیعہ وہ ہیں جو ہمارے راستے پر گامزن ہوں اور اپنے اعمال میں ہمارے پیروکار ہوں"۔ (4)

5۔ شیعہ اپنے بھائیوں کو اپنے آپ پر مقدم رکھتا ہے

 دعوے کرنے کے لئے کسی محنت و زحمت کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن دعؤوں سے شیعہ بننا ممکن نہیں ہے بلکہ شیعہ بننے کے لئے اپنے آپ کو فنا کرنا پڑتا ہے، گناہوں اور نافرمانیوں سے دوری کرنا پڑتی ہے ایثار و قربانی دینا پڑتی ہے۔

امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"شِيعَةُ عَليٍّ عليه السلام هُمُ الذينَ يُؤثِرُونَ إخوانَهُم عَلَى‏ أنفُسِهِم وَلَو كانَ بِهِم خَصاصَةٌ، وَهُمُ الذينَ لا يَراهُمُ اللَّهُ حيثُ نَهاهُم، وَلَا يَفقِدُهُم حيثُ أَمَرَهُم، وَشِيعَةُ عليٍّ عليه السلام هُمُ الذينَ يَقتَدُونَ بِعَليٍّ عليه السلام فِي إكرَامِ إِخوَانِهِمُ المُؤمنينَ؛

امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے فرمایا: شیعیان علی (ع) وہ ہیں جو اپنے دینی برادران کو اپنے آپ پر مقدم رکھتے ہیں چاہے وہ خود محتاج ہی کیوں نہ ہوں، شیعیان علی (ع) وہ ہیں جو دوری کرتے ہیں ان اعمال سے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے اور انجام دیتے ہیں ان اعمال کو جن کا اللہ نے حکم دیا ہے، شیعیان علی (ع) وہ ہیں جو اپنے مؤمن بھائیوں کی تکریم میں علی (علیہ السلام) کی پیروی کرتے ہیں"۔ (5)

6۔ شیعہ فکر و نظر کے مالک ہیں

امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے فرمایا:

"عَلَيكُم بِالفِكر فَإنَّهُ حَياةُ قَلبِ البَصيرِ وَمَفَاتيحُ أبوَابِ الحِكمَةِ؛

تم پر لازم ہے سوچنا اور تفکر کرنا! کیونکہ یہ بصیرت و آگہی سے مالامال دلوں کی حیات اور ابواب حکمت کی چابی ہے"۔ (6)

7. شیعہ اہل بصیرت ہے / بے بصیرت آخرت میں اندھا ہے

امام حسن عسکری (علیہ السلام) اسحاق بن اسماعیل کے خط کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

"فَأَتَمَّ اللهُ عَلَيْكَ يا إسحاقُ وَعلى مَنْ كَانَ مِثْلكَ - مِمَّنْ قَدْ رَحِمَهُ الله وَبَصَّرَهُ بَصِيرَتَكَ - نِعمتَه، وَقَدْرُ تَمَامِ نِعْمَتِهِ دُخُولُ الجَنَّةِ ۔۔۔ فاعْلَمْ يَقِيناً يا إِسْحَاقُ أَنَّه مَنْ خَرَجَ مِنْ هَذِهِ الحَياةِ الدُّنيا أَعْمَى فَهُوَ فِي الآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلاً۔۔۔ يَا إسحَاق! لَيْسَ تَعْمَى الأَبْصَارُ، وَلَكِنْ تَعْمَى القُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ، وَذَلِك قَوْلُ اللهِ (عَزَّ وَجَلَّ) فِي مُحْكَمِ كِتَابِهِ حكايةً عن الظَّالِم إذْ يَقُولُ: ﴿رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا * قال كَذَلِكَ أَتَتْكَ آَيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى﴾؛ (7) (8)

اے اسحاق (بن اسماعيل نيشابورى)! خداوند متعال نے تم پر اور تم جیسوں پر ـ جو رحمت الٰہیہ اور خداداد بصیرت سے نوازے جا چکے ہیں ـ اپنی نعمت تمام فرمائی ہے ... اے اسحاق! پس یقین کے ساتھ جان لو کہ جو شخص دنیا سے اندھا اور بے بصیرت ہوکر اٹھے گا اس کو آخرت میں بھی گمراہ اور نابینا اٹھایا جا‏ئے گا۔ یا اسحق! (اس موضوع میں) آنکھیں نہیں ہیں جو اندھی ہوتی ہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔ اور یہ در حقیقت کتاب محکم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے اس ظالم کی حکایت کرتے ہوئے جو "کہے گا پروردگار! کیوں تو نے مجھے حشر میں اندھا اٹھایا حالانکہ میں آنکھوں والا تھا؟ * ارشاد ہو گا اسی طرح ہماری نشانیاں تیرے پاس آئیں تو تو نے انہیں بھلاوے میں ڈالا اور اسی طرح اب آج تجھے بھلایا جا رہا ہے"۔

8۔ کثرت نماز ہی نہیں بلکہ تفکر بھی عبادت ہے

امام حسن عسکری (علیہ السلام) کبھی اس خطرے سے خبردار فرماتے ہیں کہ عبادت کو صرف مستحب نمازوں اور روزوں میں منحصر قرار دیا جاتا ہے، اور عبادات الٰہیہ کے لئے مقررہ اوقات، عبادات کی کیفیت و کمیت اور زمان و مکان اور رمز و راز میں غور و تفکر نہیں کیا جاتا۔ فرماتے ہیں:

"لَيْسَتِ اَلْعِبَادَةُ كَثْرَةَ الصِّيامِ وَاَلصَّلاَةِ وَإِنَّمَا اَلْعِبَادَةُ كَثْرَةُ اَلتَّفَكُّرِ فِي أَمْرِ اَللَّهِ؛

نماز و روزوں کی کثرت ہی عبادت نہیں ہے بلکہ عبادت اللہ کے امور میں کثرت سے غور و تفکر کرنے سے عبارت ہے"۔ (9)

بے شک عبادت تفکر ہی کی دعوت دیتی ہیں چنانچہ اگر عبادت فکر کے لئے راستہ ہموار نہ کرے یا فکر و تدبر کا پیش خیمہ ثابت ہو تو وہ عبادت بے روح کہلائے گی لیکن اگر عبادت تفکر کے ہمراہ ہو تو ممکن ہے کہ دنیا میں بھی انسانوں کی فلاح کا سبب بن جائے چنانچہ ایسی عبادت سے دنیا اور آخرت کی پاداش بھی ملے گی اور اس عبادت کو ایک زندہ عبادت کہا جاسکے گا۔

9۔ شیعہ اہل ایمان ہے اور لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے

اور ہاں فکر اور تدبر بھی صرف اسی وقت مفید ہے کہ ایمان، عمل اور کردار و کوشش کی بنیاد فراہم کرے ورنہ جس فکر و تدبر کے بعد ایمان و عمل نہ ہو وہ پسندیدہ اور کارساز نہيں ہے۔ چنانچہ امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"خَصْلَتَانِ لَيْسَ فَوْقَهُمَا مِنَ اَلْبِرِّ شَيْءٌ اَلْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَاَلنَّفْعُ لِعِبَادِ اَللَّهِ؛ وَخَصْلَتَانِ لَيْسَ فَوْقَهُمَا مِنَ اَلشَّرِّ شَيْءٌ اَلشِّرْكُ بِاللَّهِ وَاَلضَّرُّ لِعِبَادِ اَللَّهِ

نیکی پر مبنی دو خصلتیں ایسی ہیں جن سے بہتر و برتر کوئی خصلت نہیں ہے: اللہ تعالیٰ پر ایمان اور دینی برادران کو فائدہ پہنچانا؛ اور دو خصلتیں ایسی ہیں جن سے بدتر کوئی خصلت نہیں ہے: اللہ کے ساتھ شرک برتنا اور اللہ کے بندوں کو ضرر و زیاں پہنچانا"۔ (10)

10۔ شیعہ خدا، موت اور قیامت کو بھی اور نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر درود بھیجنا بھی، ہرگز نہیں بھولتا

تفکر و تدبر اور ایمان و عمل بہت ضروری ہے اور جب انسان فکر و تدبر کے نتیجے میں ایمان و عمل کے مرحلے پر پہنچتا ہے تو وہ عبادت بھی کرتا ہے اور اللہ کو بھی یاد کرتا رہتا ہے اور قیامت اور حساب و کتاب کو بھی نہيں بھولتا چنانچہ وہ آخرت کے لئے تیاری بھی کرتا ہے اور محمد و آل محمد (علیہم السلام) پر درود و صلوات بھیجنا بھی نہیں بھولتا۔

امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"أكثِروا ذِكرَ اللَّه وذِكرَ المَوتِ وتِلاوَةَ القرآنِ والصَّلاةَ علَى النَّبيِّ صلى اللَّه عليه وآله ؛ فإنّ الصَّلاةَ على‏ رسولِ اللَّهِ عَشرُ حَسَناتٍ۔۔۔؛

خدا کو زیادہ یاد کرو، اور موت کو زیادہ یاد کرو، قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرو اور نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر بہت زیادہ درود و صلوات بھیجو، پس بتحقیق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر صلوات کے لئے دس حسنات ہیں"۔ (11)

11۔ شیعہ زیرک ہے اسی لئے نفس کا احتساب کرتا ہے

قیامت اور حساب و کتاب اور میزان کے لئے تیاری اور ہوشیاری، کیاست اور زیرکی کی علامت ہے کیونکہ زیرک شخص وہی ہے جو اپنی قیامت کو سنوارے اور دیکھتے ہیں کہ قیامت کو سنوارنے اور کیاست کے اثبات کے لئے کن اوصاف کی ضرورت ہے اور امام حسن عسکری، امیرالمؤمنین اور حضرت رسول اکرم (صلوات اللہ و سلامہ علیہم) کیا فرماتے ہیں:

امام حسن عسکری (علیہ السلام) اپنی تفسیر میں اپنے آباء طاہرین سے اور وہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"أَكْيَسُ اَلْكَيِّسِينَ مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ اَلْمَوْتِ وَإِنَّ أَحْمَقَ اَلْحَمْقَى مَنِ اِتَّبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اَللَّهِ تَعَالَى اَلْأَمَانِيَّ فَقَالَ اَلرَّجُلُ يَا أَمِيرَ اَلْمُؤْمِنِينَ وَكَيْفَ يُحَاسِبُ اَلرَّجُلُ نَفْسَهُ فَقَالَ إِذَا أَصْبَحَ ثُمَّ أَمْسَى رَجَعَ إِلَى نَفْسِهِ فَقَالَ يَا نَفْسُ إِنَّ هَذَا يَوْمٌ مَضَى عَلَيْكِ لاَ يَعُودُ إِلَيْكِ أَبَداً وَاَللَّهُ تَعَالَى يَسْأَلُكِ عَنْهُ فَمَا اَلَّذِي أَفْنَيْتِهِ وَمَا اَلَّذِي عَمِلْتِ فِيهِ أَذَكَرْتِ اَللَّهَ أَحَمِدْتِهِ أَقَضَيْتِ حَقَّ أَخٍ مُؤْمِنٍ أَنَفَّسْتِ عَنْهُ كَرْبَهُ أَحَفِظْتِهِ بِظَهْرِ اَلْغَيْبِ فِي أَهْلِهِ وَوَلَدِهِ أَحَفِظْتِهِ بَعْدَ اَلْمَوْتِ فِي مُخَلَّفِيهِ أَكَفَفْتِ عَنْ غِيبَةِ أَخٍ مُؤْمِنٍ بِفَضْلِ جَاهِكِ وَأَأَعَنْتِ مُسْلِماً مَا اَلَّذِي صَنَعْتِ فِيهِ فَيَذْكُرُ مَا كَانَ مِنْهُ فَإِنْ ذَكَرَ أَنَّهُ جَرَى مِنْهُ خَيْرٌ حَمِدَ اَللَّهَ تَعَالَى وَشَكَرَهُ عَلَى تَوْفِيقِهِ وَإِنْ ذَكَرَ مَعْصِيَةً أَوْ تَقْصِيراً اِسْتَغْفَرَ اَللَّهَ تَعَالَى وَعَزَمَ عَلَى تَرْكِ مُعَاوَدَتِهِ ".

سب سے زیادہ کَيِّس اور زیرک و ذہین شخص وہ وہ ہے جو اپنے اعمال کا محاسبہ اور احتساب کرے اور موت کے بعد کی حیات کے لئے محنت و کوشش کرے اور احمق ترین شخص وہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشوں کی پیروی کرے اور اللہ سے صرف اپنی ذاتی خواہشیں مانگے۔

کسی نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے دریافت کیا: یا امیرالمؤمنین! ایک شخص کس طرح اپنے نفس کا محاسبہ کرے؟

فرمایا: جب وہ صبح کرتا ہے اور رات تک کا دن گذار دیتا ہے تو وہ اپنے نفس کی طرف لوٹتا ہے (اپنے گریباں میں جھانکتا ہے) اور کہتا ہے: اے میرے نفس! بے شک یہ دن جو تجھ پر گذر گیا ہرگز لوٹ کر نہیں آئے گا جبکہ اللہ تعالیٰ تجھ سے ان چیزوں کے بارے میں ضرور پوچھے گا جو تو اس دن کھو چکا ہے۔ پس تو نے اس دن کے دوران کیا کیا؟ کیا تو نے خدا کو یاد کیا یا اس کی حمد و ثناء میں مصروف رہا؟ کیا اس دن تو نے کسی مؤمن کی حاجت روائی کا اہتمام کیا؟ کیا تو نے کسی مؤمن بھائی کا رنج و غم رفع کیا؟ کیا تو نے اس کی غیر موجودگی میں یا اس کی موت کے بعد اس کے خاندان اور اولاد میں اس کا تحفظ کیا [اور اس کے ساتھ دوستی اور بھائی چارے کا حق ادا کیا؟]، کیا تو نے موت کے بعد اس کے وارثوں اور پسماندگان کے حوالے سے اس کا حق ادا کیا؟ کیا تو نے اپنے مؤمن بھائی کی غیبت [پیٹھ پیچھے برائی] سے اجتناب کیا؟ کیا تو نے کسی مسلمان کی مدد کی؟ تو نے اس دن، کیا کیا؟ پس وہ یاد کرے گا ان تمام اعمال کو جو اس نے پورے دن میں انجام دیئے ہیں، اگر اس کو یاد آجائے کہ اس نے جو کیا ہے وہ سب خیر و نیکی ہے تو اس توفیق پر اللہ کی حمد و شکر کرے اور اس کی تکبیر و تسبیح کرے اور اگر اس کو یاد آجائے کہ اس سے کوئی نافرمانی یا تقصیر (یعنی ارادی طور پر معصیت) سرزد ہوئی ہے تو استغفار کرے اور عزم کرے کہ اس گناہ کو ترک کرے گا اور اس کو دہرانے سے اجتناب کرے گا"۔ (12)

12۔ شیعہ تقوا، پاکیزگی اور امانتداری، مخالفین کے ساتھ رواداری کا پابند

تقویٰ اور ورع (گناہ سے بچنا) شیعیان محمد وآل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بنیادی خصوصیت ہے جو انسان کو گناہ و جرم اور حق کی پامالی اور اللہ کی نافرمانی سے محفوظ کرتی ہے جیسا کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف الانصاری کے نام خط میں مرقوم فرماتے ہیں:

"أَلاَ وَإِنَّكُمْ لاَ تَقْدِرُونَ عَلَى ذَلِكَ وَلَكِنْ أَعِينُونِي بِوَرَعٍ وَاِجْتِهَادٍ وَعِفَّةٍ وَسَدَادٍ؛

جان لو کہ تم میری طرح زہد و ترک دنیا کی قدرت نہیں رکھتے ہو لیکن تم ورع اور اجتہاد (کوشش)، پاکدامنی اور سچے و محکم کلام کے ذریعے میری مدد کرو"۔ (13)

چنانچہ تقوی اور ورع کے ساتھ ساتھ امانت داری اور صداقت و راستگوئی دو ایسی صفات ہیں جو ہر معاشرے کو تقویت پہنچاتی اور معاشرتی سکون و اطمینان کو فروغ دیتی ہیں اور ان اوصاف کے ذریعے معاشرے کو اخلاقی استحکام پہنچایا جاسکتا ہے اور معاشرے کی سعادت کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔

امام حسن عسکری (علیہ السلام) ان اوصاف پر تاکید کرتے ہوئے شیعیان اہل بیت (علیہم السلام) سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:

"أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اَللَّهِ وَ اَلْوَرَعِ فِي دِينِكُمْ وَ اَلاِجْتِهَادِ لِلَّهِ وَ صِدْقِ اَلْحَدِيثِ وَ أَدَاءِ اَلْأَمَانَةِ إِلَى مَنِ اِئْتَمَنَكُمْ مِنْ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ وَ طُولِ اَلسُّجُودِ وَ حُسْنِ اَلْجِوَارِ فَبِهَذَا جَاءَ مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وآله، صَلُّوا فِي عَشَائِرِهِمْ وَ اِشْهَدُوا جَنَائِزَهُمْ وَ عُودُوا مَرْضَاهُمْ وَ أَدُّوا حُقُوقَهُمْ فَإِنَّ اَلرَّجُلَ مِنْكُمْ إِذَا وَرِعَ فِي دِينِهِ وَ صَدَقَ فِي حَدِيثِهِ وَ أَدَّى اَلْأَمَانَةَ وَ حَسَّنَ خُلُقَهُ مَعَ اَلنَّاسِ قِيلَ هَذَا شِيعِيٌّ فَيَسُرُّنِي ذَلِكَ؛

میں تمہیں اپنے دین میں وَرَع و تقویٰ اور اللہ کی راہ میں اجتہاد اور کوشش اور راستگوئی، اور جو لوگوں کی سپردہ کردہ امانتیں لوٹانے کی سفارش کرتا ہوں، چاہے وہ لوگ اچھے ہوں چاہے برے ہوں۔ اور تمہیں طویل سجدے بجا لانے حسن مجاورت (ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک) کی سفارش کرتا ہوں، کیونکہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) یہی چیزیں لے کر تشریف لائے ہیں۔ تمہیں سفارش کرتا ہوں کہ جاکر (مخالفین) کی جماعتوں میں نماز ادا کرو (یعنی ان کی نماز جماعت میں شرکت کرو)۔ اور ان کے جنازوں میں شرکت کرو اور ان کے مریضوں کی عیادت اور احوال پرسی کرو اور ان کے حقوق ادا کرو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی شخص اہل ورع اور پرہیزگار ہو اور سچا ہو اور امانت ادا کرے اور اس کا طرز سلوک اور رویہ اچھا ہو، اور کہا جائے کہ "یہ شیعہ ہے" تو میں یہ بات سن کر مسرور و شادماں ہو جاتا ہوں"۔ (14)

13۔ شیعہ اپنے ائمہ کے لئے زینت بنتے ہیں اور باعث شرم نہیں بنتے

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں کیا کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں، ہمیں اپنا کام کرنے دو، انہیں اپنا کرنے دو؛ لیکن ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) کی رائے یہ نہیں ہے اور یہ حقیقت مذکورہ بالا حدیث میں بھی واضح ہے۔ یہ جو فرماتے ہیں کہ ہمارے لئے زینت بنو اس کا مطلب یہی ہے کہ ایسے اعمال انجام دو کہ لوگ آپ کی اچھائیوں کا اعتراف کریں اور یہ جو فرمایا جاتا ہے کہ ہمارے لئے باعث شرم نہ بنو، اس کا مطلب یہی ہے کہ دوسروں کی رائے اہم ہے اور اگر وہ آپ کے بارے میں کچھ کہتے ہیں تو اس کو اہمیت دینا لازمی ہے؛ کیونکہ ان کے اچھا یا برا کہنے کو ائمہ (علیہم السلام) نے اہمیت دی ہے۔

ہمارے معاشروں میں بعض ایسے اعمال پائے جاتے ہیں ـ خاص طور پر عزاداری کے سلسلے میں ـ جو شیعہ مکتب سے کسی طور پر بھی کوئی تعلق نہیں رکھتے اور جوڑ نہیں کھاتے ہیں۔ اور تو اور وہابیت کے علمبردار، جن کو اگر کسی کی بات سمجھ نہ آئے تو اس کو کافر قرار دیتے اور بڑی آسانی سے اس کے قتل کا فتویٰ دیتے ہیں اور سر بازار لوگوں کے گلے پر چھری پھیر دیتے ہیں اور اپنے ان اعمال کی ویڈیو فلمیں بنا کر دنیا بھر میں نشر کر دیتے؛ اور نہتے انسانوں کے گلے پر چھری پھیرتے ہوئے پس منظر میں قرآنی آیات کی تلاوت نشر کرتے ہيں جس کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں اسلام کی بدنامی کا سبب بنے ہوئے ہیں، ہمارے ان اعمال کو دستاویز قرار دیتے ہیں اور شیعیان محمد و آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر وحشی پن کا الزام لگاتے ہیں!! کیا یہی کافی نہیں ہے یہ سمجھنے کے لئے کہ ہمارے اعمال کی بعض اشکال سے مذہب کی خدمت نہیں ہو رہی بلکہ دشمنوں کو مذہب تشیع کی تضحیک کے لئے اوزار فراہم کئے جاتے ہیں؟   

امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"اتَّقُوا اللَّهَ وكُونُوا زَيْناً وَلَا تَكُونَوا شَيْناً جُرُّوا إِلَيْنَا كُلَّ مَوَدَّةٍ وَادْفَعُوا عَنّا كُلَّ قَبِيحٍ؛

تقوائے الٰہی اختیار کرو اور ہمارے لئے زینت بنو اور باعث شرم نہ بنو اور ہر قسم کی مودت و محبت ہماری طرف کھینچ لاؤ اور ہر قسم کی برائی اور قباحت ہم سے دور کرو"۔ (15)

امام کے اس کلام کا واضح مطلب یہی ہے کہ "ہماری طرح بنو تا کہ ہمارے لئے زینت کا سبب بن سکو اور برائیوں سے دور رہو اور معاشرے میں ایسا رویہ اپناؤ کہ لوگ ہماری محبت و مودت دل میں بسائیں اور برے اعمال سے پرہیز کرو تا کہ ہم پر برائی کا الزام نہ لگایا جاسکے۔ جس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ تمہاری برائیاں دیکھ کر لوگ ہم اہل بیت سے بدظن ہوجاتے ہیں!۔

14۔ شیعہ مؤمن کے لئے برکت اور کافر کے لئے حجت

شیعہ وہ نہیں ہے جو شیعہ کا دشمن ہو اور شیعہ وہ بھی نہیں ہے جو کافر کے لئے سلامتی کی علامت ہو۔ شیعہ وہ بھی نہیں ہے جو سیاسی یا جماعتی وابستگیوں کی بنا اپنے شیعہ بھائیوں کو لعنت کا لائق سمجھے بلکہ شیعہ اپنے بھائیوں کے لئے سرمایہ ہدایت اور موجب برکت ہے اور خود بھی اپنے بھائیوں سے مدد لے کر ہدایت پاتا ہے اور ان کی مدد کرکے انہیں ہدایت کا امکان فراہم کرتا ہے۔

امام حسن العسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"اَلْمُؤْمِنُ بَرَكَةٌ عَلَى اَلْمُؤْمِنِ وَ حُجَّةٌ عَلَى اَلْكَافِرِ؛

مؤمن اپنے مؤمن کے لئے برکت ہے اور اپنے نیک اعمال اور برہان و دلیل محکم کی وجہ سے کافروں کے لئے حجت و برہان ہے"۔ (16)

15۔ شیعہ بہترین ہوتا ہے

امام حسن عسکری (علیہ السلام) بالواسطہ طور پر اپنے پیروکاروں سے اپنی توقعات اچھے اور برے لوگوں کی خصوصیات بیان کرکے، ظاہر کرتے ہیں اور ان سے سفارش کرتے ہیں کہ بہترین لوگوں کے زمرے میں ہوں اور بدترین افراد کے زمرے میں قرار پانے سے دور رہیں؛ فرماتے ہیں:

"أَوْرَعُ النّاسِ مَنْ وَقَفَ عِنْدَ الشُّبْهَةِ، أَعْبَدُ النّاسِ مَنْ أَقامَ عَلَى الْفَرائِضِ، أَزْهَدُ النّاسِ مَنْ تَرَكَ الْحَرامَ، أَشَدُّ النّاسِ اجْتَهادًا مَنْ تَرَكَ الذُّنُوبَ؛

امام (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ پرہیزگار ترین شخص وہ ہے جو شبہے کے موقع پر (جب وہ یہ تمیز کرنے سے قاصر ہو کہ وہ عمل حرام ہے یا حلال) رک جاتا ہے؛ عابدترین اور عبادت گزار ترین شخص وہ ہے جو فرائض اور واجبات کو قائم رکھے؛ زاہد ترین اور پارسا ترین شخص وہ ہے جو حرام کو ترک کردے، خدائے تعالی کی عبادات اور طاعات کی انجام دہی کے سلسلے میں سب سے زيادہ محنتی شخص وہ ہے جو گناہوں کو ترک کردے"۔ (17)

پس عابدترین شخص وہ ہے جو اپنے واجبات پر عمل کرے یعنی یہ کہ نوافل اور مستحبات اگر انجام نہ بھی دے اور صرف واجبات کا باقاعدگی سے پابند رہے تو وہ عابدترین ہے؛ تو اگر نوافل اور مستحبات پر عمل کرے یقینا عبادت کے لحاظ سے اس کے مراتب و درجات کی بلندی میں اضافہ ہوگا۔

امام (علیہ السلام) کے کلام میں زاہدترین شخص وہ ہے جو مال حرام اور فعل حرام سے اجتناب کرے۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ زاہد ترین شخص وہ ہے جو سوکھی روٹی پر گذارہ کرے یا بھوک اور پیاس برداشت کرے بلکہ اگر انسان مال حرام اور فعل حرام سے اجتناب کرے تو وہ زاہد ترین ہے۔

رضائے الٰہی کے حصول کے لئے ترک دنیا اور راہب بننے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ کی اطاعت و عبادت میں سب سے زیادہ کوشش و اجتہاد کرنے والا محنتی شخص امام معصوم (علیہ السلام) کی نظر میں وہی ہے جو گناہوں کو ترک کر دے۔

چنانچہ پرہیز کار ترین، زاہد ترین اور محنتی ترین شخص وہ ہے جو مشتبہ عمل ترک کردے، واجبات پر عمل کرے اور گناہ کو ترک کردے۔

16۔ شیعہ کبھی بدترین نہیں ہوتا

امام حسن عسکری (علیہ السلام) بہترین افراد کے مقابلے میں بدترینوں کا بھی تعارف کراتے ہیں اور فرماتے ہیں:

"بِئْسَ العَبْدُ عَبْدٌ يَكُونُ ذَا وَجْهَيْنِ وَذَا لِسَانَيْنِ يُطْرِى أخَاهُ شَاهِداً وَيَأكُلُهُ غَائِباً إنْ أُعطِىَ حَسَدَهُ وَإنِ ابْتُلِىَ خَانَهُ (في بعض النُسَخِ "خَذَلَهُ")؛

بدترین بندہ وہ ہے جس کے دو چہرے اور دو زبانیں رکھتا ہو، جب سامنے ہو تو اپنے بھائی کی تعریف و تمجید میں مبالغہ کرتا ہے اور پیٹھ پیچھے اس کو کھاتا ہے (یعنی اس کی غیبت کرتا اور عیب گوئی کرتا ہے)، اگر اس کے دوست کو کچھ مل جائے تو یہ حسد کرتا ہے اور اگر وہ تنگدستی یا کسی اور مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو اس سے خیانت کرتا ہے (اور بعض نسخوں کے مطابق اسے تنہا چھوڑتا ہے)"۔ (18)

17 – شیعہ عزت نفس رکھتا اور ذلت سے دوری کرتا ہے

انسان کو خدا نے معزز بنا کر پیدا کیا ہے اور اس کو عزت نفس عطا کی ہے چنانچہ اس کو عزت نفس کی بہت ضرورت ہوتی ہے؛ وہ بھوک اور پیاس کو تو برداشت کرسکتا ہے، غربت اور ناداری سے تو ہم آہنگ ہوسکتا ہے لیکن اس کی عزت نفس کی پامالی، اس کی شخصیت کی تذلیل و تحقیر اور اس کی روح و جان کی آزردگی، آسانی سے قابل تلافی و برداشت نہیں ہے اور ممکن ہے کہ عمر کے آخری لمحات تک اس کے لئے سوہان روح بن جائے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عزیز پیدا کیا ہے اور اس کو ہرگز اجازت نہیں دی ہے کہ تحقیر و تذلیل کو قبول کرے یا کسی کی تحقیر و تذلیل کرے۔ جیسا کہ امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

" "إنَّ اللّه َ فَوَّضَ إلَى المُؤمِنِ اُمورَهُ كُلَّها ، و لَم يُفَوِّضْ إلَيهِ أن يَكونَ ذَليلاً ، أ مَا تَسمَعُ اللّه َ تَعالى يَقولُ: "وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ"؟ (19)! فالمُؤمِنُ يَكونُ عَزيزا وَلَا يَكُونُ ذَلِيلاً، إنَّ المُؤمِنَ أعَزُّ مِنَ الجَبَلِ؛ لأِنَّ الجَبَلَ يُستَقَلُّ مِنهُ بِالمَعاوِلِ، وَالمُؤمِنُ لا يُستَقَلُّ مِن دينِهِ بِشَيءٍ؛

یقیناً خداوند متعال نے مؤمن کے تمام امور اسی کو واگذار کرلئے ہیں لیکن اس کو یہ اختیار نہیں دیا ہے کہ ذلت قبول کرے؛ کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ اللہ تعالی نے فرما: تمام عزتیں اللہ کے لئے ہیں اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے لئے نیز مؤمنین کے لئے ہیں۔ چنانچہ مؤمن صاحب عزت ہے اور ذلیل نہیں ہے۔ مؤمن پہاڑ سے بھی زیادہ مضبوط اور عزیز ہے، کیونکہ پہاڑ [کے حجم] کو ہتھوڑا مار کر گھٹایا جا سکتا ہے جبکہ مؤمن کے میں کسی بھی اوزار کے ذریعے سے نہیں گھٹایا جا سکتا"۔  (20)

اور امام حسن عسکری (علیہ السلام) کبھی فرماتے ہیں:

"مَا أَقْبَحَ بِالْمُؤْمِنِ أَنْ تَکُونَ لَهُ رَغْبَةٌ تُذِلُّهُ؛

کتنی بری بات ہے کہ ایک شیعہ اور ایک مؤمن ایسی چیز یا ایسے عمل کی طرف رغبت رکھتا ہو جو اس کی خواری اور ذلت کا باعث بنے"۔ (21)

کبھی فرماتے ہیں:

"لَا تُمَارِ فَيَذْهَبَ بَهَاؤُكَ وَلاَ تُمَازِحْ فَيُجْتَرَأَ عَلَيْكَ؛

نزاع اور کشمکش مت کرو کیونکہ یہ تمہاری وقعت کو گھٹا دیتی ہے۔ (اور تمہاری ذلت و خواری کا سبب بنتی ہے) اور مذاق مت کرو تا کہ لوگ تمہارے سامنے جرأت و جسارت پیدا نہ کرسکیں"۔ (22)

اور کبھی اپنے پیروکاروں کو عزت تک پہنچنے اور ذلت سے بچاؤ کے راستے دکھاتے ہیں اور فیصلہ کن انداز میں، فرماتے ہیں:

"ما تَرَكَ الْحَقَّ عَزيزٌ إِلاّ ذَلَّ وَ لا أَخَذَ بِهِ ذ ليلٌ إِلاّ عَزَّ؛

کسی بھی عزیز (صاحب عزت و آبرو) نے حق کو ترک نہیں کیا مگر یہ کہ ذلت سے دوچار ہؤا اور کسی بھی ذلت و خفت سے دوچار شخص نے حق پر عمل نہیں کیا مگر یہ کہ صاحب عزت بن گیا"۔ (23)

18. شیعہ ریاست طلب نہیں ہوتا

اس دنیا میں ایسے اوصاف کی کوئی کمی نہيں ہے جو انسان کے روحانی اور معنوی زوال کا سبب بنتے ہیں اور اقتدار پسندی، شیخوخت پرستی اور دوسروں پر تسلط کی خواہش ان ہی اوصاف میں سے ایک ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حکومت اور اقتدار کی خواہش نے اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے؛ یہی اقتدار پسندی تھی جس کی وجہ سے خلافت اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے مقرر کردہ راستے سے ہٹ گئی اور امت پر جو گذری سو گذری۔

بطور مثال آپ بھی تھوڑا سا غور کرکے سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی درد بھری فریاد سن سکتے ہیں جو تاریخ کے آفاق پر آج بھی سنائی دے رہی ہے؛ یہ فریاد ایک گروہ کی اقتدار پسندی کا شکوہ ہے انسانیت کی عدالت میں، جس کو ابھی تک کوئی جواب نہيں مل سکا ہے؛ سیدہ کی فریادہ سنائی دے رہی ہے کہ امت کے کچھ افراد نے خدا اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے مقررہ راستے کو صرف اقتدار پسندی کی وجہ سے ترک کر دیا اور خلافت کو غصب کیا اور مجھ سمیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اقارب کا حق اور " "قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى" (24) میں امت پر ہمارے حوالے سے عائدہ کردہ فریضہ ہمیں قتل کرکے ادا کیا؛ سیدہ مظلومہ اور راہ ولایت کی اولین شہیدہ فرماتی ہیں:

"أمّا وَاللَّهِ لَوْ تَرَكُوا الْحَقَّ عَلى أهْلِهِ وَاتَّبَعُوا عِتْرَةَ نَبيَّه، لَمّا اخْتَلَفَ فِي اللَّهِ اثْنانِ، وَلَوَرِثَها سَلَفٌ عَنْ سَلَف، وَخَلْفٌ بَعْدَ خَلَف، حَتَّي يَقُومَ قائِمُنا، التّاسِعُ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ، وَلَكِن قَدَّموا مَن أَخَّرَهُ اللَّهُ وأَخَّرُوا مَن قَدَّمَهُ اللَّهُ حَتَّى إِذَا أَلْحَدُوا اَلْمَبْعُوثَ وَأَوْدَعُوهُ الْجَدَثَ المَجدوثَ اخْتَارُوا بِشَهْوَتِهِمْ وَعَمِلُوا بِآرَائِهِم تَبّاً لَهُمْ أَوَلَمْ يَسْمَعُوا اللَّهَ يَقُولُ: "وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاء وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ"۔ (25) "بَلْ سَمِعُوا وَلَكِنَّهُم كَما قالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: "فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ" (26) هَيْهَاتَ بَسَطُوا فِى الدُّنْيَا آمَالَهُمْ وَنَسُوا آجَالَهُمْ، "فَتَعْساً لَهُمْ وَ أَضَلَّ أَعْمالَهُمْ؛ (27)   

لیکن اللہ کی قسم! اگر ان (اقتدار پسندوں) نے حق کو اہل حق کے پاس چھوڑ دیا ہوتا اور اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی عترت (خاندان) کی پیروی کرتے، کہیں بھی دو آدمی اللہ کی ذات و صفات کے حوالے سے آّپس میں جھگڑا نہ کرتے اور سلف سلف سے اور خلف کے بعد خلف ورثے کے طور پر اسلام اور امت کی خدمت اور تحفظ کا بیڑا اٹھاتا حتیٰ کہ حسین (علیہ السلام) کے نویں فرزند اور ہمارے قائم قیام کرتے؛ لیکن انہوں نے ایسے شخص کو مقدم رکھا جس کو اللہ تعالیٰ نے مؤخر کر دیا تھا؛ اور وہ اس سلسلے میں یہاں تک بھی پہنچے کہ مبعوث (محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا اور آپ کی بعثت کا انکار تک ک کر دیا اور مدفون (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے مدفن کو ترک کر دیا۔ انہوں نے اپنی شہوت اور نفسانی خواہش (اور اقتدار پرستی) کی بنیاد پر، انتخاب کیا اور (قرآن و سنت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو چھوڑ کر) اپنی آراء پر عمل کیا۔ ہلاکت اور نابودی ہو ان پر۔ کیا انہوں نے اللہ کا یہ کلام نہيں سنا کہ "اور آپ کا پروردگار پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور منتخب کرتا ہے؛ (اور) ان لوگوں کو کوئی اختیار نہیں ہے؟"، بلکہ انہوں نے یہ کلام الہی سن ہی لیا ہے لیکن وہ اس ارشاد ربانی کا مصداق ہیں کہ "اصل اندھا پن آنکھوں کا اندھا پن نہیں ہے بلکہ اندھا پن تو دلوں کا ہے جو سینوں کے اندر ہوتے ہیں"؛ افسوس! ان (اہل سقیفہ) نے دنیا میں اپنی آرزؤوں کو جامۂ عمل پہنایا اور اپنی موت و اجل کو بھول گئے۔ پس ان کے لئے ہلاکت ہے اور اس نے ان کے اعمال کو برباد کر دیا ہے"۔ (28)

اقتدار پرستی کی وجہ سے فرزندان رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا خون مباح کیا گیا اور انسانوں کو آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی قیادت و امامت اور ان کے علوم کی روشنی سے محروم کردیا گیا۔

یہ بیماری آج بھی پوری دنیا میں رائج ہے اور مسلسل فروغ پارہی اور ہر کوئی اپنی حد تک افتدار کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔ کوئی اپنے خاندان کے اندر، کوئی گلی محلے اور شہر و صوبے کی سطح پر اور کوئی ملکی سطح پر اور دنیا کے بڑے شیاطین پوری دنیا کی سطح پر اقتدار کے حصول کے لئے اربوں کی رقوم خرچ کررہے ہیں اور قتل و غارت اور ملکوں پر قبضے تک سے باز نہیں آتے۔ پوری دنیا پر آج جو گھٹن کا ماحول مسلط کیا گیا ہے اس کی وجہ بعض اقتدار پسندوں کی رسہ کشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کسی بھی جرم و جبر و ستم سے دریغ نہيں کرتے۔

19۔ شیعہ ایمان و عمل صالح کا پابند اور اصحاب جنت میں سے ہے

شیعہ وہ نہیں ہیں جو حب آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ محب تو ہوسکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ محب ہونے کے لئے بھی عمل کی ضرورت ہے اور محبت ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی اطاعات کاملہ کی ضرورت ہے ورنہ تو بغیر عمل کے محبت بھی قبول نہیں ہے بلکہ بد عمل انسان اہل بیت رسول (صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین) کے دشمن ہیں۔

امام محمد باقر (علیہ السلام) جابر جعفی سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:

"يَا جَابِرُ أَيَكْتَفِى مَنِ انْتَحَلَ التَّشَيُّعَ أَنْ يَقُولَ بِحُبِّنَا أَهْلَ الْبَيْتِ؟ فَوَ اللَّهِ مَا شِيعَتُنَا إِلَّا مَنِ اتَّقَى اللَّهَ وَأَطَاعَهُ وَمَا كَانُوا يُعْرَفُونَ يَا جَابِرُ إِلَّا بِالتَّوَاضُعِ وَالتَّخَشُّعِ وَالْأَمَانَةِ وَكَثْرَةِ ذِكْرِ اللَّهِ وَالصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ وَالْبِرِّ بِالْوَالِدَيْنِ وَالتَّعَاهُدِ لِلْجِيرَانِ مِنَ الْفُقَرَاءِ وَأَهْلِ الْمَسْكَنَةِ وَالْغَارِمِينَ وَالْأَيْتَامِ وَصِدْقِ الْحَدِيثِ وَتِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَكَفِّ الْأَلْسُنِ عَنِ النَّاسِ إِلَّا مِنْ خَيْرٍ وَكَانُوا أُمَنَاءَ عَشَائِرِهِمْ فِى الْأَشْيَاءِ ... يَا جَابِرُ وَاللَّهِ مَا يُتَقَرَّبُ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَّا بِالطَّاعَةِ وَمَا مَعَنَا بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ وَلَا عَلَى اللَّهِ لِأَحَدٍ مِنْ حُجَّةٍ مَنْ كَانَ لِلَّهِ مُطِيعاً فَهُوَ لَنَا وَلِيٌّ وَمَنْ كَانَ لِلَّهِ عَاصِياً فَهُوَ لَنَا عَدُوٌّ وَمَا تُنَالُ وَلَايَتُنَا إِلَّا بِالْعَمَلِ وَالْوَرَعِ؛

اے جابرکیا شیعہ کہلانے کے لئے یہی کافی ہے کہ ایک شخص ہم اہل بیت کی محبت کا اظہار (اور دعویٰ) کرے؟ پس خدا کی قسم! ہمارا شیعہ نہیں ہے مگر وہ جو اللہ کا خوف اور پرہیزگاری اپنائے اور اللہ کی فرمانبرداری کرے۔ اے جابر ہمارے شیعہ صرف اور صرف تواضع اور انکساری، خشوع، امانت داری، اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنے، کثرت سے روزہ رکھنے، کثرت سے نماز بجالانے، والدین سے بہت نیکی کرنے، غریب اور مسکین اور مقروض اور یتیم پڑوسیوں کا لحاظ رکھنے [اور ان کے مسائل حل کرنے]، سچ بولنے اور صدق کلام، تلاوت قرآن، لوگوں کی بدگوئی اور غیبت سے اپنی زبان روکنے اور صرف ان کی بہتری میں زبان کھولنے، کے توسط سے پہچانے جاتے ہیں اور وہ تمام کے تمام معاملات میں اپنے خاندانوں کے امین ہیں... اے جابر! پس اللہ کی قسم! اللہ کی قربت حاصل نہیں کی جاسکتی مگر اس کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے، اور ہمارے پاس بھی اللہ کی اطاعت سے دوری کرنے والوں کے لئے دوزخ سے کوئی برائت (برات) نہیں ہے اور کوئی بھی خدا پر حجت نہیں رکھتا، "جو اللہ کا اطاعت گزار ہے وہ ہمارا دوست ہے اور جو اللہ کا نافرمان ہے وہ ہمارا دشمن ہے؛ اور کوئی بھی نیک عمل اور پرہیزگاری اور پارسائی کے سوا ہماری (یعنی اہل بیت کی) ولایت و محبت تک نہیں پہنچ سکتا"۔ (29)

ایک شخص متعدد نیک صفات کا مالک تھا اور اس سے کئی کرامات بھی ظاہر ہوئی تھیں اور امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کے شیعہ ہونے کا دعویٰ کرتا تھا لیکن امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے اس کے تشیّع کے دعوے کو مسترد کیا اور فرمایا:

"يَا عَبْدَ اللَّهِ لَسْتَ مِنْ شِيعَةِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ  إِنَّما أَنْتَ مِنَ مُحِبِّيهِ إِنَّمَا شِيعَةُ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ الَّذِينَ قَالَ عَزَّ وَجَلٍ فِيهِمْ: "وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُولَـئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ". (30) هُمُ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ ووصفوه بِصِفَاتِهِ، وَنَزَّهُوهُ عَنْ خِلَافَ صِفَاتِهِ، وَصَدَّقُوا مُحَمَّداً فِي أَقْوَالِهِ، وَصَوَّبُوهُ فِي كُلِّ أَفْعَالِهِ، وَرَأَوُا عَلِيّاً بَعْدَهُ سَيِّداً إِمَاماً، وَقَرَماً هُمَامَاً لَا يَعْدِلُهُ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ أَحَدٌ، وَلَا كُلُّهُمْ إِذَا اجْتَمَعُوا فِي كِفَّةٍ يَوزِنُونَ بِوَزْنِهِ،  بَلْ يَرْجَحَ عَلَيْهِمْ كَمَا تُرَجَّحُ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ عَلَى الذُّرَةُ، وَشِيعَةُ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ هُمُ الَّذِينَ لَا يُبَالُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوَقَعَ الْمَوْتُ عَلَيْهِمْ، أَوْ وَقَعُوا عَلَى الْمَوْتِ، وَشِيعَةُ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ هُمُ الَّذِينَ يُؤْثِرُونَ إِخْوَانَهِمْ عَلى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ؛

اے بندہ خدا! تم علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے شیعہ نہیں ہو بلکہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے محب ہو۔ [گویا اس شخص نے دوستی کی تمام شرطیں پوری کی تھیں جو امام باقر (علیہ السلام) کی مذکورہ بالا حدیث میں مذکور ہیں چنانچہ دوستوں کے زمرے میں قرار پایا لیکن شیعوں کے زمرے میں نہیں؛ فرمایا] بے شک شیعیان علی وہی ہیں جن کی شان میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے: "اور جو ایمان لائیں اور اچھے اعمال بجا لائیں تو یہ لوگ بہشت والے ہیں جو کہ وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے"؛ شیعیان علی وہ ہیں جو خدا پر ایمان کامل رکھتے ہیں اور اس کو ایسے اوصاف سے موصوف کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمائے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ان اوصاف سے پاک و منزہ سمجھتے ہیں جو اللہ کے بیان کردہ اوصاف کے سوا ہیں؛ وہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے تمام ارشادات و فرامین کی تصدیق کرتے ہیں اور آپ کے تمام افعال و اعمال کو درست اور "صواب" سمجھتے ہیں اور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ علی (علیہ السلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بعد سب کے سردار و امام ہیں اور ایسی ہستی ہیں جن کا امت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) میں کوئی برابر و ہم پلہ نہیں ہے؛ بلکہ اگر پوری امت کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھیں اور علی (علیہ السلام) کو دوسرے پلڑے میں، تو علی والے پلڑے کو پوری امت پر بھاری سمجھتے ہیں؛ یہی نہیں ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، وہ ترجیح دیتے ہیں علی کو دوسروں پر جس طرح کہ وہ پورے آسمان و زمین کو ایک بے مقدار ذرے پر ترجیح دیتے ہیں؛ اور شیعیان علی وہ ہیں جن کو اللہ کی راہ میں کوئی پروا نہیں ہے کہ موت ان پر آ پڑے یا وہ موت پر جا پڑیں۔ اور شیعیان علی (علیہ السلام) وہ ہیں جو اپنے بھائیوں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود تنگ دست ہی کیوں نہ ہوں"۔

20۔ شیعہ بے ادب اور مشرک نہیں ہؤا کرتا

شیعیان علی کہلانے والوں کو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے نسبت دی جاتی ہے اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا ادب دیکھ کر ہمارے لئے محاسبے کا ایک اور راستہ کھل جاتا ہے اور وہ یہ کہ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) خدا سے مختص باتیں خدا کے بغیر کسی اور سے کرنے کو بے ادبی سمجھتے ہیں اور بے ادبی ایک نہایت ظریف قسم کی وضاحت بھی کرتے ہیں؛ حدیث دیکھئے:

حضرت امیر (علیہ السلام) کے ایک صحابی "نوف البکالی" کہتے ہیں:

"رَاَيْتُ أميرَ المُؤمِنينَ عليه‏السلام مُوَلِّيا مُبادِراً، فَقُلْتُ: اَيْنَ تُريدُ يَا مَولاىَ؟ فَقالَ : دَعنِى يَا نَوفُ، اِنَّ آمَالِى تُقَدِّمُنِى فِى المَحبُوبِ؛ فَقُلتُ: يا مَولَاىَ وَمَا آمَالُكَ؟ قالَ: قَدْ عَلِمَهَا الْمَأمولُ وَاسْتَغنَيتُ عَنْ تَبيينِها لِغَيْرِهِ، وَكَفَى بِالْعَبْدِ اَدَباً أَلاّ يُشْرِكَ فِى نِعَمِهِ واِرْبِهِ غَيْرَ رَبِّهِ؛

میں نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو تیز تیز قدم اٹھا کر چلتے ہوئے دیکھا اور عرض کیا: اے میرے مولا! کہاں جارہے ہیں؟ فرمایا: میری آرزوئیں مجھے اپنے محبوب کی طرف لے کر جا رہی ہیں۔ میں نے عرض کیا: مولائے من! آپ کی آرزوئیں کیا ہیں؟ فرمایا: جس کی آرزو ہے وہ خود جانتا ہے کہ میری آرزوئیں کیا ہیں۔ اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ میں وہ آرزوئیں اس کے سوا کسی اور کو بتاؤں۔ بندے کے لئے اتنا ہی ادب کافی ہے کہ وہ اپنی نعمتوں میں اور اپنی ضروریات و احتیاجات میں اپنے پروردگار کے سوا کسی اور کو شریک نہ کرے"۔ (32) نکتہ یہ ہے کہ میرے اور آپ کے امیر اور امام، ادب کا اتنا لحاظ رکھتے ہیں چنانچہ سوال اٹھتا ہے کہ "اگر محبوب کی بات محبوب سے کرنا ادب ہے اور وہی بات غیر سے کرنا بے ادبی ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا ہم اخلاق و آداب اور اجتماعی رویوں اور شرک سے دوری اور خدا کی بندگی کے علوی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات اور مآخذ

1۔ سید بن طاؤس، اقبال الأعمال، ج3، ص100؛ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج85، ص75 و ج98، ص348۔

2۔ الطبرسی، احمد بن علی، الإحتجاج، ج2، ص517، ح340، مجلسی، بحارالأنوار، ج41، ص55، ح5۔

3۔ جعفر البیاتی، أدب الضیافہ، ص160؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، ج1، ص310؛ تفسیر الامام الحسن العسکری(ع)، ص325-326؛ الطبرسی، الإحتجاج، ج2، ص517، ح 340۔

4۔ محمد نبى تویسركانى، لئالي الاخبار، ج5، ص157۔

5۔ وَرّام بن ابی فراس حلّی، تنبیہ الخواطر ونزہۃ النواظر، ج2، ص106۔

6۔ حسن بن محمد الدیلمی، أعلام الدین، ص297؛ مجلسی، بحارالانوار، ج 8، ص 115۔

7۔ سورہ طہ، آیات 125-126۔

8۔ علی بن شعبہ الحرانی، تحف العقول عن آل الرسول علیہم السلام، ص484۔

9۔ الحرانی، تحف العقول، ص488۔

10۔ الحرانی، تحف العقول، ج1، ص35؛ مجلسی، بحارالانوار، ج75 ص374۔

11۔ الحرانی، تحف العقول، ص488؛ مجلسی، بحارالانوار، ج75، ص372۔

12۔ تفسیر الامام الحسن العسکری، (قم - 1409ھ)، ص38؛ الحر العاملی، وسائل الشیعۃ،(آل البیت)، ج16، ص98 ۔

13۔ نہج البلاغہ مکتوب نمبر46۔

14۔ الحرانی، تحف العقول، ج2، ص487۔

15۔ الحرانی، تحف العقول، ص488۔

16۔ الحرانی، تحف العقول، ص489۔

17۔ الحرانی، تحف العقول ص489؛ مجلسی، بحارالانوار، ج75، ص373۔

18۔ الحرانی، تحف العقول، ص489؛ مجلسی، بحار الانوار، ج75، ص380۔

19۔ سورہ منافقون، آیت 7۔

20۔ الکلینی، الکافی، ج3، ص317؛ الطوسی، تہذیب الأحکام، ج6، ص179 و 367۔

21۔ الحرانی، تحف العقول، ص489۔

22۔ الحرانی، تحف العقول، ، ج2، ص486؛ مجلسی، بحارالانوار، ج75، ص370۔

23۔ الحرانی، تحف العقول، ص489۔

24۔ سورہ شوری، آیت23۔

25۔ سورہ قصص، آیت 68۔

26۔ سورہ حج، آیت 46۔

27۔ سورہ محمد، آیت 8۔

28۔ مجلسی، بحارالانوار، ج36، ص353؛ قاضی نور اللہ شوشتری (شہید)، إحقاق الحق، ج21، ص26۔

29۔ الکلینی، الکافی، الکافی ج 2 ص74؛ مجلسی، بحارالانوار، ج67، ص97۔

30۔ سورہ بقرہ، آیت 82۔

31۔ تفسیر الامام الحسن العسکری (علیہ السلام) ص319۔

32۔ مجلسی، بحارالانوار، ج91، ص94؛ عبدالواحد بن محمد بن عبدالواحد الآمدی التمیمی، غُرَرُ الحِكَم، ح 10599۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مقالہ تقریبا 11 سال قبل شائع کیا گیا تھا اور اب کچھ اصلاحات کے بعد آٹھ ربیع الاول روز شہادت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی مناسبت سے، دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

بقلم: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110