عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا - کی رپورٹ کے مطابق، ٹائمز آف اسرائیل نامی صہیونی برقی اخبار نے حال ہی میں ایک رپورٹ کے ضمن میں لکھا ہے کہ "ایران نئے مشرق وسطیٰ کی تعمیر کے درپے ہے"، اور "سنی مسلم ممالک کے ساتھ مصالحت اور تزویراتی اتحاد کے سلسلے میں بیجنگ-تہران کی حمایت یافتہ محور اسرائیل اور امریکہ (یہودی و نصاری) کے سلامتی کو اہم سیکورٹی چیلنجوں سے دوچار کرتی ہے"۔
مذکورہ اخبار نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے - کہ امریکہ کو خطے میں ایران - روس - چین اور سعودی عرب کے نوظہور اتحاد کی وجہ سے شدید تشویش لاحق ہے - اور لکھا ہے: "پورے خطے میں ایران کی بڑھتی ہوئی خود اعتمادی کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے، اور یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ نئی تبدیلیاں اسرائیل پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہیں"۔
ہاآرتص: اسرائیل کو ایک ہمہ گیر (Full-scale) طوفان کا سامنا ہے
بین العلاقائی اخبار "رأی الیوم" نے بھی اس بارے میں ایک رپورٹ کے ضمن میں لکھا: "صہیونی اخبارات نے نے گذشتہ اتوار مورخہ (7 مئی 2023ع) کو اعتراف کیا کہ غاصب صہیونی ریاست، کو اس وقت ایک بے مثل اور ہمہ گیر طوفان اور ایران، حزب اللہ اور حماس کے ساتھ تین محاذوں پر جنگ کا کا سامنا ہے"۔
صہیونی اخبار ہا آرتص (Haaretz) نے لکھا ہے کہ مختلف محاذوں پر تشدد کا موجودہ دور ایران سے متاثرہ حماس - حزب اللہ کی طویل المدت تزویراتی حکمت عملی، کا نیا اعادہ ہے جس کا مقصد "خونی کاروائیاں، اسرائیلی کو سائیدگی (اور بُردگی) سے دوچار کرنا اور یہ سلسلہ اس کی نابودی تک جاری رکھنا" ہے۔
ہاآرتص نے یہ بھی دعویٰ تھا کہ "اسرائیل کو ایسے دشمنوں کا سامنا ہے جو اس [جعلی ریاست] کو مغربی کنارے، قدس اور 1948ع کے مقبوضہ فلسطینیوں سے لڑا کر اسے کئی محاذوں پر جنگ میں الجھانا چاہتے ہیں"۔
ہاآرتص نے لبنانی اخباری چینل "المیادین" کی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ "اسرائیل کی آج کی علاقائی اور بین الاقوامی صورت حال اس سے بدتر نہیں ہو سکتی۔ اسرائیل نے کچھ عرب ممالک کے ساتھ بحال کردہ تعلقات سے مشرق وسطیٰ کی شکل بدلنے کا فائدہ لئے بغیر، متحدہ عرب امارات اور مراکش کو ایسی صورت حال سے دوچار کیا، کہ وہ مزید اس (صہیونی ریاست) کا دفاع یا حمایت نہیں کرسکتے؛ اور یہ قضیہ مصر اور اردن پر بھی صادق آتا ہے، اور اسرائیل نے ہی ان دو کو مجبور کیا کہ تل ابیب کے ساتھ اپنے تعلقات کی سطح کم کر دیں"۔
اس رپورٹ میں مذکورہ عبرانی اخبار نے لکھا ہے کہ "ایران کے جوہری پروگرام سے نمٹنے کی صہیونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی حکمت عملی کی "مکمل شکست و ریخت" نمایاں ہو چکی ہے اور دوسری طرف سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ تل ابیب کے تعلقات پہلی مرتبہ انتہائی خطرناک حد تک کشیدگی کا شکار ہوئے ہیں، جبکہ واشنگٹن تل ابیب کا "ضروری اتحادی" ہے اور اس کی کوئی بھی پالیسی امریکہ سے الگ اور خودمختارانہ نہیں ہو سکتی؛ اور اگر یہ اتحاد قائم نہ رہے تو بہت ناممکن ہے کہ تل ابیب قید حیات میں رہ سکے"۔
اخبار لکھتا ہے: "اس وقت، ہمیں ممکنہ طور پر ہمہ گیر طوفان کا سامنا ہے، اور اسرائیلی سیکورٹی اور خفیہ ایجنسیاں کئی مہینوں سے اس طوفان کے بارے میں خبردار کرتی رہی ہیں؛ اور ایک چند فریقی جنگ کا انتباہ دیتنی رہی ہیں"۔
ہاآرتص نے مزید لکھا ہے: "یہ سمجھنے کے لئے کسی تخلیقی ہنر کی ضرورت نہیں ہے کہ ایران، حزب اللہ اور حماس، اسرائیل کو درپیش انارکی اور قانون شکنیوں اور اندرونی کشیدگیوں سے کس قدر لطف اندوز ہو رہے ہیں"۔
ہاآرتص نے بعدازاں یہ سوال اٹھایا ہے کہ "ایران، حزب اللہ اور حماس اسرائیل کے ناگفتہ بہ حالات سے ناجائز فائدہ کیوں نہ اٹھائیں؟ کسی بھی قسم کی کشیدگی اسرائیل کی تسدیدی صلاحیت (Deterrent power) کو پہلے سے زیادہ کمزور کر دیتی ہے اور اسرائیل کی بین الاقوامی پوزیشن کی بردگی اور فرسودگی کا سبب بنتی ہے؛ لہٰذا خطے میں ایک حکومت – ممکنہ طور پر – عنقریب بدل جائے گی، لیکن وہ حکومت اسرائیل ہے نہ کہ تہران"۔
طاقت کے علاقائی موازنے میں ایران کا پلڑا بھاری ہو چکا ہے
صہیونی تجزیہ کار یونی بن مناحیم (Yoni Ben-Menachem) نے لکھا: "عید فسح (Passover) کے موقع پر غزہ اور لبنان سے صہیونی علاقوں پر میزائلوں کی بارش، ایران کی حمایت یافتہ [مقاومتی] تنظیموں کی طرف سے اسرائیل کے خلاف طویل المدت اور تھکا دینے والی جنگ (Attrition warfare) کا پہلا مرحلہ ہے۔ ان کی حکمت عملی "محاذوں کا اتحاد" ہے، جس کی بنیاد جنرل قاسم سلیمانی نے رکھی تھی"۔
بن مناحیم نے مزید لکھا ہے کہ: "جنگ کا موجودہ مرحلہ اسرائیل کے وجود کی مکمل نابودی کے لئے قدم بقدم منصوبہ بندی، کا ابتدائی مرحلہ ہے، اور اگلے مراحل مستقبل میں آئیں گے"۔
صہیونی تجزیہ کار نے لکھا ہے کہ "ایران کی قیادت میں "محور مقاومت" (یا محاذ مزاحمت) کا تجزیہ یہ ہے کہ اسرائیل احتجاجی مظاہروں کی لہروں اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے بحران کی وجہ سے کمزور ہو گیا اور کئی محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت کھو چکا ہے اور کئی ہزار دور مار راکٹوں اور میزائلوں کی بارش - جو مغربی کنارے میں وسیع پیمانے پر مقاومت کی کاروائیوں کے ہمراہ ہوگی - جنگ سے عہدہ برآ نہیں ہو سکے گا"۔
بن مناحیم نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ "چین - روس اتحاد میں ایران کی شمولیت اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے بعد، طاقت کا توازن ایران کے حق میں بگڑ گیا ہے ۔۔۔ اسرائیل کئی محاذوں میں اپنی سلامتی کو خطرے سے دوچار ہوتا دیکھ رہا ہے، اور شام میں ایران اور حزب اللہ کے ٹھکانوں پر اسرائیلی حملے، انہیں شکست نہیں دے سکتے۔ ادھر اسرائیل کے خلاف ایران کے ساتھ اتحاد میں فلسطین، عراق، یمن، شام اور لبنان کے مشترکہ مفادات ہیں"۔
بن مناحیم کا خیال ہے کہ "محاذوں کے اتحاد" کی حکمت عملی کی بنیاد پر جنگ کا آغاز، اسرائیل کے لئے بہت خطرناک ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے اسرائیل کو مناسب راستے اور وقت کی ضرورت ہے۔ [جو اسے نہیں دیا جائے گا]۔
صہیونی تجزیہ کار: ہم اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں، یہ بِعَینِہ جنگ ہے
صہیونی تجزیہ کار ایہود یعاری (Ehud Yaari) سے صہیونی چینل 12 کے ایک پروگرام میں بات چیت کے دوران "سال 2023ع کے ابتدائی تین مہینوں میں 17 صہیونی ہلاکتوں، صہیونیوں پر شمال اور جنوب سے درجنوں میزائلوں کی بارش اور فلسطینیوں کی متعدد کامیاب کاروائیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے معترفانہ انداز سے کہا: "مجھے یقین ہے کہ ہم سب [صہیونی] اس دوران اپنے آپ سے جھوٹ بولتے رہے ہیں۔ جو واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ ایک بڑی اور دہشت ناک جنگ کی تمہید کے زمرے میں نہیں آتے، یہ جنگ کی تمہید نہیں ہے بلکہ یہ خود جنگ ہے: خنجروں اور چھریوں کے حملے، راکٹوں، میزائلوں اور ڈرون طیاروں کے حملے، یہاں اور وہاں ایک جنگ ہے؛ ایک مسلسل جنگ، گوکہ کاروائیوں کی شدت میں کمی بیشی آتی ہے"۔
یعاری کا کہنا تھا: "ہم میں سے کچھ نے اپنے آپ کو دیکھا دیا ہے، یا یوں کہئے کہ حکومت کے فیصلوں کی ظاہری صورت سے یہی کچھ دکھائی دیتا ہے۔ حملے صرف حماس کی طرف سے نہیں تھے: ابتدائی حملہ حزب اللہ کی طرف سے تھا۔ یہ حملہ ایران کی خواہش کے مطابق تھا اگرچہ حزب اللہ لبنان نے سرانجام دیا۔ اور بعد کے حملے جنوبی فلسطینی علاقوں سے ہوئے۔ ان حملوں کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے حماس کے ٹھکانوں پر حملے کئے۔ اور یوں ہم نے ایک بار ان حملوں کی آڑ میں چھپ کر اپنے آپ کو دھوکہ دیا اور آج اس کے نتائج سینکڑوں اور ہزاروں میزائلوں کی بارش کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے اور فلسطینی مقاومت نے اس ہفتے کے وسط میں فلسطینی کمانڈروں پر اسرائیلی حملے کے بعد سے تل ابیب اور حیفا سمیت مختلف صہیونی علاقوں پر کم از کم 500 میزائل داغے ہیں۔
صہیونی فوج اور سیاستدانوں کو انوکھی تنبیہ
شکست و ریخت اور نابودی کا خوف عبرانی اخبارات اور ذرائع ابلاغ تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ صہیونیوں کے خفیہ اداروں سے بھی عیاں ہے۔ اس ہفتے شروع ہونے والی جنگ سے کچھ دن پہلے، صہیونی ذرائع ابلاغ نے صہیونی فوجی انٹیلی جنس کے ادارے میں "امان" نامی تحقیقی بریگیڈ نے سیاسی راہنماؤں، فوجی کمانڈروں اور صہیونی فوج کو ایک تنبیہی پیغام ارسال کیا جس میں کہا گیا تھا کہ "دشمنوں کے مقابلے میں اسرائیل کی تسدیدی صلاحیت کمزور ہو چکی ہے"۔
اس پیغام میں کہا گیا ہے کہ "یہ مسئلہ اسرائیل دشمن محور کے تمام اجزاء - جن کی قیادت ایران کے ہاتھ میں ہے - دکھائی دے رہا تھا۔ اور اپنا موقف یکسان بنانے کے لئے حزب اللہ لبنان، کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ، حماس اور اسلامی جہاد کے راہنماؤں کی حالیہ ملاقاتیں اسی بات کی گواہی دیتی ہیں"۔
صہیونی اخبارات نے گذشتہ دنوں، سید حسن نصر اللہ کے ساتھ اسماعیل ہنیہ اور صالح العاروری کی قیادت میں حماس کے وفد کی ملاقات پر تجزیئے لکھے اور کہا کہ یہ ملاقات ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کے لئے محور مقاومت کے اتحاد کی غرض سے انجام پائی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔
110