7 ستمبر 2022 - 16:46
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی جنرل اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے نام آیت اللہ رونی ہمدانی کا پیغام

شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ حسین نوری ہمدانی نے اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی جنرل کے ساتویں اجلاس کے نام پیغام جاری کیا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی -ابنا- کی رپورٹ کے مطابق، عالم تشیّع کے عالی قدر مرجع تقلید آیت اللہ العظمی حسین نوری ہمدانی نے اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی جنرل کے ساتویں اجلاس کے نام پیغام جاری کیا ہے جس کا مکمل متن درج ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدلله رب العالمين و الصلاة و السلام علی سيدنا و نبينا أبي القاسم مصطفی محمد صلی الله عليه و علی اهل بيته الطيبين الطاهرين سيما بقية الله في الارضين و لعن علی أعدانهم أعداء الله اجمعين

سلام و تحیت ہو اس اجلاس پر جو محترم شخصیات اور علمائے کرام کی موجودگی میں منعقد ہو رہا ہے۔

خداوند متعال کا شکرگزار ہوں کہ اس نے توفیق عطا کی کہ اس عظیم الشان اجلاس کو کچھ کلمات ارسال کروں۔

حمد و ثناء اس خدا کے لئے مخصوص ہے جس نے اپنی مخلوقات کو اپنی ہدایت سے نوازا، اور کارگاہ خلقت میں جسے خلق کیا اس کا راستہ اپنی ہدایت کے چراغ سے روشن کیا، اور تمام مخلوقات کو صراط مستقیم کی طرف راہنمائی عطا کی؛ اور اس میدان میں انبیاء اور اہل بیت (علیہم السلام) کو ہدایت کی چوٹی پر قرار دیا، یہ رجال اللہ ایک طرف سے اللہ سے جُڑے ہوئے ہیں اور انسان کے لئے ضروری قوانین و احکام کو عالم وجود کے منبع و مبدأ سے لیتے ہیں اور دوسری طرف سے لوگوں کے ساتھ ربط و اتصال رکھتے ہیں اور لوگوں کی عقل و ادراک کے مطابق ان سے ہم سخن ہو جاتے ہیں اور اللہ سے وصول کردہ احکام و قوانین کو لوگوں کے گوش گُزَار کرتے ہیں اور براہین و دلائل کی رو سے راہ حق کو روشن و عیاں کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں نفس و جان کی پاکیزگی، تقویٰ، احساس ذمہ داری، لیاقت و اہلیت، شققت اور ایثار و قربانی کے اعلیٰ درجات - اور بہ الفاظ دیگر- مقام عصمت پر فائز ہوتے ہوئے، غلطیوں اور لغزشوں سے بھی محفوظ ہیں، اور معاشروں کے لئے شفیق، قابل اور مہذب استاد اور "اسوہ اور نمونہ" بن کر ہمدرد مُرَبِّی و مُعَلِّم بھی سمجھے جاتے ہیں۔

اس دنیا میں کوئی بھی امت و ملت ایسی نہیں آئی ہے سوا اس کہ ان کے درمیان اللہ کی طرف ایک پیغمبر مبعوث ہؤا ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے بعثت اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی بعثت کے بارے میں فرمایا:

"فَبَعَثَ فِيهِمْ رُسُلَهُ وَوَاتَرَ إِلَيْهِمْ أَنْبِيَاءَهُ لِيَسْتَأْدُوهُمْ مِيثَاقَ فِطْرَتِهِ وَيُذَكِّرُوهُمْ مَنْسِيَّ نِعْمَتِهِ وَيَحْتَجُّوا عَلَيْهِمْ بِالتَّبْلِيغِ وَيُثِيرُوا لَهُمْ دَفَائِنَ الْعُقُولِ وَيُرُوهُمْ آيَاتِ الْمَقْدِرَةِ مِنْ سَقْفٍ فَوْقَهُمْ مَرْفُوعٍ وَمِهَادٍ تَحْتَهُمْ مَوْضُوعٍ وَمَعَايِشَ تُحْيِيهِمْ وَآجَالٍ تُفْنِيهِمْ وَأَوْصَابٍ تُهْرِمُهُمْ وَأَحْدَاثٍ تَتَابَعُ عَلَيْهِمْ وَلَمْ يُخْلِ اللَّهُ سُبْحَانَهُ خَلْقَهُ مِنْ نَبِيٍّ مُرْسَلٍ أَوْ كِتَابٍ مُنْزَلٍ أَوْ حُجَّةٍ لَازِمَةٍ أَوْ مَحَجَّةٍ قَائِمَةٍ؛

پھر اللہ نے ان میں اپنے رسول مبعوث کئے. اور لگاتار انبیاء بھیجے تاکہ لوگوں سے ان کی فطرت میں ودیعت رکھے ہوئے عہدو پیمان کو پورا کریں اور انہیں اس کی عطا کردہ بھولی ہوئی نعمتیں یاد دلائیں؛ اور لوگوں کے درمیان دلیل و برہان کی رو سے اللہ کے احکام کی تبلیغ کریں؛ غفلت اور ارباب باطل کی منفی تشہیر کے نتیجے میں گرد و غبار تلے مدفون عقلوں [اور ان کی خفیہ صلاحیتوں کو] کو ابھار کر آشکار کر دیں؛ اور انہیں خدا کی قدرت کی نشانیاں متعارف کرائیں؛ انسانوں کے سروں پر بلند آسمان کی چھت کی طرح؛ ان کے پاؤں تلے بچھے ہوئے فرش زمین، اور انسان حیات کے وسائل اور عوامل، اور موت کے راستے، اور بوڑھا کرنے والے مصائب و مسائل، اور پے در پے حادثات کی طرح جو ہمیشہ انسان کو درپیش ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر نے کبھی بھی اپنی مخلوق کو اپنے بھیجے ہوئے پیغمبر، یا آسمانی کتاب، یا قطعی دلیل و برہان اور امام و پیشوا، یا اپنے استوار کئے ہوئے روشن راستے کے بغیر نہیں چھوڑا ہے"۔ (نہج البلاغہ خطبہ نمبر 1)

یہ بات بھی واضح ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں میں سے کوئی بھی زمین پر زندہ جاوید نہیں رہتا اور کوئی بھی اللہ کے قانون "كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ" (عنکبوت - 57) سے مستثنیٰ نہیں ہے؛ چنانچہ وہ [سنت الٰہیہ کے تحت] اپنے بعد اپنا جانشین متعین کرتے تھے تا چراغ ہدایت ہمیشہ روشن رہے اور پرچم ہدایت ہمیشہ لہراتا رہے۔

رسول اللہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بھی ایک طاقتور امت کی بنیاد رکھی، خدائے متعال کی طرف سے کتاب - یعنی قرآن مجید - لائے، اور انسانی زندگی کے لئے ایسے قوانین وضع کئے جو ہر عصر و دہر کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور ایک طاقتور حکومت کی بنیاد رکھی اور عظیم اور حُرّ انسانوں کی تربیت فرما کر اللہ کے حکم پر اپنے بعد امامت و خلافت کے مسئلے کے حل کا اہتمام کیا، اور متعدد مواقع پر اپنے بعد کے عاملِ ہدایت کا تعارف کرایا اور امامت و جانشینی کے مسئلے پر مکرر در مکرر تاکید فرمائی؛ جس کی ایک مثال حدیث ثقلین ہے۔ فرماتے ہیں:

"إنِّي تَارِكٌ فِيکُمُ اَلثَّقَلَيْنِ مَا إنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي کِتَابَ اَللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وَإنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّی يَرِدَا عَلَيَّ اَلْحَوْضَ؛

میں تمہارے درمیان دو بھاری امانتیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم ان کا دامن تھامے رہوگے میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے، کتاب اللہ اور میرا خاندان، اور یقینا یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے، یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آ ملیں"۔ (شیعہ اور سنی مصادر کی متواتر حدیث)

اور ائمہ (علیہم السلام) کے بعد علماء کا کردار انسانی معاشروں کی ہدایت میں مؤثرترین ہے؛ وہ علماء جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے کلام کے مطابق کچھ یوں ہیں:

"إنَّ مَثَلَ العُلَمَاءِ فِي الأَرْضِ كَمَثَلِ النُّجُومِ فِي السَّمَاءِ، يُهْتَدَى‏ بِهَا فِي ظُلُمَاتِ البَرِّ وَالبَحْرِ؛ یقینا زمین میں علماء کی مثال آسمان کے ستاروں کی مثال ہے جن سے سمندروں اور زمین کے اندھیروں میں ہدایت حاصل کی جاتی ہے"۔ (متقی الہندی، کنز العمّال، ج10، ص151، ح28769؛ مجلسی، بحار الأنوار، ج2، ص23)

نیز فرماتے ہیں: "

"إِنَّ أَكْرَمَ اَلْعِبَادِ إِلَى اَللَّهِ بَعْدَ اَلْأَنْبِيَاءِ اَلْعُلَمَاءُ؛ بلا شبہ انبیاء کے بعد خدا کے بہترین بندے علماء ہیں"۔ (مجلسی، بحار الانوار، ج92، ص17)

علماء کا کردار - بالخصوص ہمارے زمانے میں، بہت اہم ہے جبکہ پورا استکبار اور کفر یکجا ہوکر عقلیت کو بنی نوع انسان سے چھیننا چاہتا ہے، ہدایت کے عوامل کو چھپانا چاہتا ہے، تشدد، ظلم، استضعاف (عاجز و ضعیف کرنا اور سمجھنا) اور جبر و نا انصافی کو اس [عقلیت] کے متبادل کے طور پر رائج کرنا چاہتا ہے-

حضرت امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"عُلَمَاءُ شِيعَتِنَا مُرَابِطُونَ فِي اَلثَّغْرِ اَلَّذِي يَلِي إِبْلِيسُ وَعَفَارِيتُهُ يَمْنَعُونَهُمْ عَنِ اَلْخُرُوجِ عَلَى ضُعَفَاءِ شِيعَتِنَا وَعَنْ أَنْ يَتَسَلَّطَ إِبْلِيسُ وَشِيعَتُهُ اَلنَّوَاصِبُ أَلاَ فَمَنِ اِنْتَصَبَ لِذَلِكَ مِنْ شِيعَتِنَا كَانَ أَفْضَلَ مِمَّنْ جَاهَدَ اَلرُّومَ وَاَلتُّرْكَ وَاَلْخَزَرَ أَلْفَ أَلْفِ مَرَّةٍ لِأَنَّهُ يَدْفَعُ عَنْ أَدْيَانِ مُحِبِّينَا وَذَاكَ يَدْفَعُ عَنْ أَبْدَانِهِمْ؛

ہمارے شیعوں کے علماء سرحدوں کے محافظ ہیں، جن کے اس پار ابلیس اور شیطانوں اور عفریتوں پر مشتمل افواج ہیں، اور [یہ ان کا مقابلہ کرتے ہوئے] ہمارے کمزور اور اپنے دفاع سے عاجز شیعوں کو ان کی یلغار سے محفوظ رکھتے ہیں، اور ابلیس اور اس کے ناصبی فوجیوں کو ہمارے شیعوں پر مسلط نہیں ہونے دیتے؛ جان لو کہ ہمارے شیعوں کے جو علماء اس انداز سے دفاعی پوزیشن سنبھالے ہوئے ہیں، ان کی قدر و منزلت ایک ہزار بار ان فوجیوں سے برتر و بالاتر ہے جو روم، ترک اور خزر کے میں سے دشمنان اسلام کی یلغار کے وقت جنگ کرتے ہیں؛ کیونکہ علماء ہمارے حبداروں کے عقائد و ثقافت اور ہمارے دوستوں کے دین کے محافظ و مدافع ہیں؛ اور وہ [روم و ترک کی یلغار کا مقابلہ کرنے والے] مسلمانوں کے جسموں کے جسموں کے محافظ ہیں"۔ (الطبرسی، احمد بن علی۔ الإحتجاج، ج1، ص17)

آج دشمن کی شناخت عالم اسلام کے تمام علماء پر فرض ہے اور ہمیں جاننا چاہئے کہ استکبار اور صہیونیت کا منصوبہ اسلام کی نابودی اور بربادی ہے؛ اور وہ [مستکبرین اور صہیونی] اسلام کے نام پر جھوٹے مذاہب اور جماعتیں - بشمور وہابیت، داعش اور تکفیریت - تشکیل دے کر اسلام کے خلاف نبرد آزما ہوئے ہیں۔ َ

آج وحدت مسلمین ایک اہم موضوع ہے، کیونکہ دشمن امت کے اندر افتراق و انتشار پھیلا کر دین اسلام کو برباد کرنے کے درپے ہے۔

آج قدس شریف اور فلسطین کے مسئلے، نیز یمن، شام، افغانستان اور بحرین میں مظلوم عوام کے قتل عام پر انسانی حقوق کے دعویداروں کی ہلاکت خیز خاموشی کی رو سے ہم پر دوہری ذمہ داریاں عائد ہوئی ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران، خالص اسلام کے اصولوں کے سہارے، اور قرآن کریم اور اہل بیت (علیہم السلام) کی مالامال ثقافت و تعلیمات سے فیضیاب ہو کر، دنیا کے تمام تر مظلوم انسانوں کا غم میں بسانے والے، اللہ کی مدد سے عالمی استکبار کے خلاف نبرد آزما ہونے والے فقیہ عالی قدر اور ہرگز نہ تھکنے والے مجاہد یعنی امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) - جو اسلام کے دفاع کی حقیقی علامت ہیں - کی قیادت میں، پختہ عزم و ارادے کے ساتھ تمام مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی کی راہ پر گامزن ہے اور - اپنے اعتقادی اصول کی رو سے - ہر قسم کے اختلاف اور مذہبی فتنہ انگیزی کی مذمت کرتا ہے؛ اور امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی وفات کے بعد، وہی سفر اسی انداز سے انقلاب اسلامی کے رہبر معظم امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) کی قیادت میں جاری و ساری ہے؛ اور ہمیں یقین ہے کہ اسلامی تعلیمات - جس کا سرچشمہ حدیث ثقلین (انی تارک۔۔۔) کی رو سے اور قرآن و اہل بیت ہیں – بنی نوع انسان کی سعادت و فلاح کی ضمانت دے سکتی ہیں۔

آخر میں ایک بار پھر اس اجتماع کے حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کانفرنس کے مہمتممین - بالخصوص عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی اور اس کے محنتی اور عالم و دانشور اور قابل احترام سیکریٹری جنرل - کو ہدیۂ تقدیر و تحسین پیش کرتا ہوں۔

خدائے متعال کی بارگاہ سے سب کی توفیق اور کامیابی کی التجا کرتا ہوں۔

قم المقدسۃ

حسين نوری همدانی

....................

110