11 اپریل 2021 - 18:17
 ایران اور چین اتنے بڑے معاہدے پر کیوں پہنچے؟

چین کو بھی امریکہ میں ایک پاگل تاجر کے برسر اقتدار آنے اور اور اس کے بعد ایک ضعیف النفس اور بلا ارادہ صدر - جو سابق صدر کی پالیسیوں سے عدول کی جرات نہیں رکھتا - کے آنے کے بعد قابل اعتماد شریک کار کی ضرورت تھی چنانچہ وہ ایران تک پہنچا؛ لیکن کیوں؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ گزشتہ سے پیوستہ

سوال نمبر 10: ایران اور چین اتنے بڑے معاہدے پر کیوں پہنچے؟

اسلامی جمہوریہ ایران نہ مغرب دشمن ہے اور نہ مشرق نواز، بلکہ معاشی سفارتکاری میں اپنی آزادی و خود مختاری، عزت اور حریت کا تحفظ چاہتا ہے۔ جس کو مغرب قبول نہیں کرتا کیونکہ دوسرے ممالک کے ساتھ ان کا تعلق استعماری اور استحصالی ہے وہ اقوام عالم کو غلام بنانے پر اصرار کرتے ہیں؛ لیکن 43 سالہ انقلابی ایران اور اسلامی نظام اس مغربی رویے کو تسلیم نہیں کرتا۔ ایران نے مشکل مراحل کو فاتحانہ انداز سے پیچھے چھوڑ دیا ہے، دہشت گردانہ پابندیوں کو کامیابی کے ساتھ عبور کرلیا ہے؛ صرف انقلابی منتظمین کی ضرورت ہے جو اس ملک کو اس مقام پر پہنچائیں گے جہاں ایرانی عوام کو مسائل و مشکلات برداشت نہیں کرنا پڑیں گے۔

چین کو بھی امریکہ میں ایک پاگل تاجر کے برسر اقتدار آنے اور اور اس کے بعد ایک ضعیف النفس اور بلا ارادہ صدر - جو سابق صدر کی پالیسیوں سے عدول کی جرات نہیں رکھتا - کے آنے کے بعد قابل اعتماد شریک کار کی ضرورت تھی چنانچہ وہ ایران تک پہنچا؛ لیکن کیوں؟

1۔ اس لئے کہ ایران مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے ممالک میں پرامن ترین ملک ہے اور چین جانتا ہے کہ سرمایہ صرف اس نقطے پر مستقر ہوتا ہے جہاں امن و سلامتی کی حکمرانی ہو۔ چین نے دیکھا کہ ایٹمی معاہدے کے بعد بزدل اور نامرد یورپیوں نے ایران میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا لیکن امریکہ کے تیور دیکھ کر ذلت و خفت کے ساتھ بھاگ گئے۔

ادھر چین نے امارات اور سعودیہ - جو چین اور امریکہ کی رقابت میں امریکہ کے محاذ کو ترجیح دیتے ہیں - بھی سرمایہ کاری کی ہے لیکن ان ممالک کو ہنوز امریکہ کی منظوری درکار ہے!! چنانچہ وہ قابل اعتماد نہیں ہیں، جبکہ ایران ظلم کے خلاف لڑنے والا ملک ہے جو امریکہ کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوتا اور امریکہ کے دباؤ پر دو طرفہ معاہدوں کو بیچ راستے نہیں توڑتا۔ البتہ عراقی وزیراعظم نے 31 مارچ 2021ء کو چین کے ساتھ اسٹراٹیجک دستاویز کے نفاذ کا اعلان کیا ہے، گویا امریکہ ایران-چین مفاہمت کے بعد مسئلے کو دوسرے زوایئے سے دیکھنے لگا ہے، اور یقینا کہ عراق کی طرف سے اس اقدام کی وجہ سے ایران-چین تعاون کو تقویت ملے گی۔

2۔ رکاوٹوں کا اٹھایا جانا: ایران عدلیہ اور مقننہ سرمایہ کاری کے لئے ماحول سازی کررہے ہیں، نئے قوانین منظور ہورہے ہیں، انسداد بدعنوانی کے لئے اقدامات شدت کے ساتھ جاری ہے اور اعلی ترین سرکاری اہلکاروں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا جبکہ چین کو سرمایہ کاری کے لئے ایسے ہی ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔

3۔ لچک: عالمی تجارت کے مبصرین کی رائے ہے کہ - بیک وقت مرکوز اور لچکدار - فیصلہ ساز نظام اسلامی جمہوریہ کی امتیازی علامت ہے۔ حکومتی نظام کسی بھی قسم کے بحران یا خلل کی صورت میں مداخلت کرتا ہے، سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرتا ہے اور خرابیوں سے نمٹتا ہے۔

4۔ نوجوان اور باصلاحیت افرادی قوت: چینیوں نے اسی کروڑ انسانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے نہایت شاندار شعبۂ خدمات (services sector) خلق کیا اور معیشت کے روایتی معاشی ڈھانچے کو توڑ کر خدمات کے شعبے کو ترقی دی۔ دوسری طرف سے 1970ء، 1980ء اور 1990ء کے عشروں میں پیدا ہونے والے پڑھے لکھے اور جدید ٹیکنالوجی کے ماہر افراد ایران کی قابل فخر انسانی وسائل سمجھے جاتے ہیں۔ 1990ء کے عشرے میں بیرون ملک تربیت حاصل کرنے والے فنی ماہرین بھی واپس آکر مختلف شعبوں میں مصروف عمل ہوئے ہیں جو چینی سرمایہ کاروں کا اہم سبب بن سکتے ہیں۔

5۔ ایرانی ماہرین کی برتر استعداد: آج چینی باشندے چین-امریکہ یا چین-امریکہ کی مشترکہ مصنوعات کے صارفین ہیں۔ چین کی ترقی کا ایک سبب یہ ہے کہ وہ مشترکہ مصنوعات کی تیاری کی خاطر دوسرے ممالک کے ممتاز افراد، انجنیئروں، اور پروگرام نویسوں اور ماہرین پر سرمایہ کاری کرتا ہے۔

مغربی ممالک بھی دوسرے ممالک کے ماہرین کی خدمات حاصل کرتا ہے لیکن انہیں غدار اور جاسوس بنادیتے ہیں اور انہیں مادر وطن سے خیانت پر مجبور کرتے ہیں جبکہ چین اپنی ایک ارب سے زیادہ آبادی کی آمدنی بڑھانے اور مشترکہ پیداوار کی حوصلہ افزائی کے لئے ایسا کرتا ہے اور ساتھ ہی شریک ممالک کو بھی منافع پہنچاتا ہے۔ گویا اس نے مغرب کی استعماری معاشی پالیسیوں سے کافی شافی عبرت حاصل کی ہے چنانچہ وہ ممالک کے ساتھ شراکت بھی جیت-جیت (Win-Win) کی بنیاد پر کرتا ہے۔

اور اب ایران اور چین اپنے 25 سالہ سمجھوتے پر عمل درآمد کرکے ایک منطقی صنعتی اور معاشی و تجارتی سفر طے اپنے عوام کے لئے خوشحالی کے اسباب فراہم کریں گے، روزگار کے مواقع فراہم ہونگے اور جہاں چین کی اپنی اقتصادی ضروریات کی تکمیل ہوگی وہاں ایران میں بھی قومی پیداوار کو تقویت ملے گی۔

چین کی تیزرفتار ترقی نے، اس کی دلچسپیوں کو سرحدوں سے باہر تک پھیلا دیا ہے اور اب اس نے اسی حوالے سے ایران کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ شاہراہ ریشم کی دو انتہاؤں پر واقع دو قدیم تہذیبوں کا یہ عظیم باہمی سمجھوتہ ہزاروں سال سے جاری تعاون اور تجارت کی بنیادوں پر منعقد ہؤا ہے۔ اس سمجھوتے پر اسلامی جمہوریہ ایران کے عوامی نظام کے قیام کی بیالیسویں سالگرہ اور ایران-چین دوستی کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر دستخط ہوئے ہیں۔

سوال نمبر 11: چین کے ساتھ تعلقات کیوں اہم ہیں؟

چین دنیا کی سب سے بڑی پیداواری معیشت اور مصنوعات برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک اور بیرونی مصنوعات درآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ چین کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ بینکاری اثاثے (39.93 ٹریلین ڈالر) اور سب سے زیادہ جمع کردہ رقم (27.39 ٹریلین ڈالر) کے ذخائر ہیں۔ چین کی مجموعی قومی پیداوار سنہ 2018ء میں  14‌.2 ٹریلین ڈالر تک پہنچی۔ جس کی مقدار مساوی قوت خرید (purchasing power parity index [PPP]) کے اشاریے کے مطابق 27‌.3 ٹریلین ڈالر ہے۔ سنہ 2018ء میں مجموعی قومی پیداوار کے لحاظ سے چین کا رتبہ دوسرا اور مساوی قوت خرید کے لحاظ سے پہلا تھا۔ چین جو روزانہ 40 لاکھ بیرل تیل پیدا کرتا ہے، دنیا میں توانائی کے بڑے صارفین میں سے ایک ہے جس نے 2019ء میں تیل درآمد کرنے والے سب سے بڑے ملک کے طور پر روزانہ ایک کروڑ بیرل تیل درآمد کیا ہے اور برسہا برس سے ایرانی تیل کا خریدار رہا ہے، جس نے ایرانی تیل پر امریکی پابندیوں کے باوجود سنہ 2020ء میں روزانہ تقریبا 10 لاکھ بیرل تیل درآمد کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تالیف: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲