اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ایران-چین تعاون کا پس منظر/ ابتدائے سخن:
ایران-چین 25 سالہ معاہدہ پہلے بھی موجود تھا اور حال ہی میں طے شدہ پروگرام نیا نہیں ہے۔ چینی کمپنیاں سنہ 2000ء کے عشرے میں ایران کے گیس کے شعبے میں سرگرم عمل ہوئی تھیں۔ سنہ 2004ء میں چینی سائنوپیک گروپ (Sinopec Group) نے جنوبی پارس گیس فیلڈز سے ایل این جی کی تیاری اور برآمدات کی غرض سے ایران کے ساتھ 100 ارب ڈالر کے 25 سالہ معاہدے پر دستخط کئے تھے۔
سنہ 2006ء میں سمندری تیل پیدا کرنے والے سب سے بڑے گروپ چینی قومی ماورائے ساحل تیل کارپوریشن (China National Offshore Oil Corporation [CNOOC]) نے ایران کے شمالی پارس گیس فیلڈ کی ترقی اور چین کو برآمد کرنے کے لئے ایل این جی کی تیاری کے لئے، ایران کے ساتھ 16 ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کئے، جس کے تین سال بعد چین کی قومی تیل کمپنی نے جنوبی پارس گیس فیلڈ کی ترقی کے لئے ایران کے ساتھ 4.7 ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کئے اور فرانس کی ٹوٹل کمپنی کے متبادل کے طور پر میدان میں آکر ملائشیا کی پٹروناس کمپنی کی شریک کار بن گئی۔ نیز چینی کمپنیاں ایران کی خام تیل اور خام گیس کی صفائی اور مارکیٹنگ کے شعبے میں داخل ہوئیں۔ 2012ء میں پابندیوں میں شدت آنے سے پہلے ہی خام تیل اور خام گیس کی صفائی کے سلسلے میں ایران کو مسائل کا سامنا تھا اور شازند، آبادان اور بندرعباس کی ریفائنریوں کو تعمیر نو کی ضرورت تھی۔ جون 2009ء میں ایران کی قومی تیل کمپنی نے چین کی تین بڑی کمپنیوں (سائنوپیک، چین کی قومی تیل کمپنی اور چینی قومی ماورائے ساحل تیل کارپوریشن [CNOOC]) کو سات ریفائنریوں اور 1600 کلومیٹر کی ایک پائپ لائن کی تعمیر کے ایک منصوبے میں شرکت کی دعوت دی جس کی لاگت 42.8 ارب ڈالر بنتی تھی۔ ایک ماہ بعد چینی کمپنیوں کے کنسورشیم نے آبادان اور خلیج فارس (بندرعباس) کی ریفائنریوں کو ترقی دینے کے - دو سے تین ارب ڈالر لاگت کے - ایک معاہدے پر دستخط کئے۔ کافی عرصے تک توانائی کے شعبے کے علاوہ دوسرے شعبوں میں تجارت اور سرمایہ کاری بھی دو طرفہ معاشی تعلقات کا حصہ تھی۔ چینی انجنیئر 20 سال کے عرصے تک ایران کے تعمیراتی منصوبوں میں سرگرم عمل رہے ہیں اور چین کی کئی کمپنیوں نے تہران کے میٹرو کے منصوبوں میں اور دو بڑی چینی جہاز ساز کمپنیوں نے ایران کے بحری نقل و حمل کی توسیع میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
سنہ 1999ء میں چین کی دالیان جہازساز انڈسٹری (Dalian Shipbuilding Industry) نے 300 ٹن وزن کے پانچ آئل ٹینکر کی تعمیر کی غرض سے ایران کی قومی آئل ٹینکر کمپنی کے ساتھ 37 کروڑ ڈالر لاگت کے ایک معاہدے پر دستخط کئے؛ سنہ 2012ء سے ایران کی قومی آئل ٹینکر کمپنی نے چین کی وائگاؤکیاؤ جہاز سازی کمپنی (waigaoqiao shipbuilding co.) اور دالیان جہازساز انڈسٹری سے 20 سوپر ٹینکر خرید لئے ہیں۔ چین کے ایگزیم بینک (Exim Bank of China) نے جہاز سازی کے منصوبوں نیز ریلوے اور بجلی کے شعبوں کی فنڈنگ کی ذمہ داری سنبھال لی تھی۔ جرمنی ایران کا روایتی شریک کار سمجھتا جاتا تھا اور جاپان اور جنوبی کوریا ایرانی تیل کے اہم خریدار تھے لیکن پابندیوں کے دور میں چین ان ممالک کے متبادل کے طور پر سامنے آیا ہے۔
البتہ ایران-چین تعاون کی یہ پیشرفت آسانی سے حل نہیں ہوئی ہے اور یہ درست ہے کہ پابندیوں کے دور میں چین نہ صرف ایران کے ساتھ تعلقات کو بحال رکھنا چاہتا تھا بلکہ ان تعلقات کو فروغ بھی دینا چاہتا تھا مگر وہ امریکہ اور خیلج فارس کی عرب ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی نقصان نہیں پہنچنے دینا چاہتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ چین، ایران کے جوہری پروگرام پر معرض وجود میں آنے والے بحران کی شدت کم کرنے کے لئے کوشاں تھا لیکن ایران اور مغرب کے درمیان تناؤ کی شدت کے مواقع سے چین کے سیاسی اور معاشی مفادات کے لئے فائدہ اٹھاتا تھا؛ جس سے ایران کو بھی فریق کے طور پر فائدہ پہنچتا تھا اور مغربی دباؤ میں کمی آتی تھی۔ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مختلف ادوار میں ایران اور چین کے دوران وسیع پیمانے پر تعاون جاری رہا ہے اور بڑے بڑے معاہدے بھی منعقد ہوئے ہیں۔ تاہم بعض بہت بڑے معاہدے "اسٹراٹیجک روابط" نہ ہونے کی وجہ سے پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے ہیں۔
ادھر سعودی عرب نے بھی اس مدت میں چین کے قریب جانے کی کوشش کی ہے اور دو طرفہ تجارت کی سطح 1999ء میں 1.8 ارب ڈالر سے 2017ء میں 50 ارب ڈالر تک پہنچی ہے۔
سعودی عرب کی آرامکو تیل کمپنی چین کی نجی کمپنیوں کے ساتھ تعاون اور ڈالر کے سوا کسی دوسرے زرمبادلہ میں لین دین کے لئے تیار نہ تھا؛ لیکن روس کے اثر و رسوخ اور چین کو روسی برآمدات میں اضافے اور روس اور چین کے درمیان مقامی کرنسیوں میں تجارت کی وجہ سے چین میں سعودی عرب کی پوزیشن کمزور پڑ گئی؛ اور پھر سعودی عرب سے تیل بردار جہازوں کے ذریعے تیل کی منتقلی - جو 21 دنوں میں چین پہنچتے تھے، روس سے مشرقی سائبریا بحرالکاہل تیل پائپ لائن (ایسپو) (Eastern Siberia–Pacific Ocean oil pipeline [ESPO]) نے چین کو تیل کی سستی اور تیزرفتار ترسیل کا امکان فراہم کیا تھا۔ چنانچہ سعودیوں کے لئے چین کے ساتھ نئے رابطے کی ضرورت تھی خواہ یہ رابطہ امریکہ کے ساتھ اسٹراٹیجک شراکت کے لئے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو۔ سعودی عرب نے بیجنگ کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کی ترجیح بندی کرکے اپنی ترقی کی خواہش کو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے جوڑ دیا۔
تحریر: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۴۲