اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
ہفتہ

7 دسمبر 2024

9:21:48 PM
1511853

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: خدائے متعال نے جہاد کو اسلام کی عزت و ہیبت کا سبب اور صبر و استقامت کو حق تعالیٰ کے انعام و جزا کے استحقاق کا باعث قرار دیا"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت ام ابیہا سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی حدیثیں

1۔ عبادت میں خلوص کے فوائد

"قالت فاطمة الزهراء سلام الله عليها: من أصعَدَ إلی الله خَالِصَ عِبادَتِهِ أَهبَطَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إلیه أَفضَلَ مَصلَحَتِهِ؛ [1]

سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: جو شخص اپنی خالص عبادت خداوند متعال کی بارگاہ میں پیش کرتا ہے (اور صرف اس کی رضا کے لئے عمل کرتا ہے﴾ خدا بھی اپنی بہترین مصلحتیں اس پر نازل فرماکر اس کے حق میں کر دیتا ہے"۔

2۔ آل محمد (علیہم السلام) کی محبت میں مرنا شهادت ہے

"عَنْ فَاطِمَةُ بِنْتَ موسَى بْن جَعْفَر عليها السلام ... عَنْ فَاطِمَةَ بِنْت ِرَسُول ِاللّهِ صَلَّى اللّه عَلَیه ِوَآلِهِ، قالَتْ (سلام الله عليها): قَالَ رَسُولُ اللّه ِصَلَّى اللّه ِعَلَیه ِوَآلِه: ألا مَنْ ماتَ عَلى حُبِّ آل ِمُحَمَّد ماتَ شَهِیداً؛ [2]

سیدہ فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) حضرت امام صادق (علیہ السلام) ایک روایت نقل کرتی ہیں جس کا سلسلہ سند سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) تک پہنچتا ہے ... سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) فرماتی ہیں کہ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: آگاه رہو کہ جو شخص آل محمّد (صلوات اللہ علیہم) کی محبت پر گذر جائے وہ شہید مرا ہے"۔

3۔ حبدار علی (ع﴾ سعادتمند و خوشبخت ہے

"قالَتْ (سلام الله عليها): قَالَ رَسُولُ اللهِ (صَلَّى اللہُ عَلَيهِ وَآلِهِ): ... إنَّ السَّعيدَ كُلَّ السَّعيدِ حَقَّ السَّعيدِ مَن اَحَبَّ عَلِيّا في حَياتِهِ وَبَعدَ مَوتِهِ؛ [3]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں: یقینا حقیقی اور مکمل سعادتمند شخص وہ ہے جو امیرالمؤمنین  علی (علیہ السلام) سے محبت رکھے آپ کی حیات میں بھی اور آپ کے وصال کے بعد بھی"۔

4۔ آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) كا تعارف

"قالَتْ (سلام الله عليها): نَحْنُ وَسيلَتُهُ فِي خَلْقِهِ وَنَحْنُ خَاصَّتُهُ وَمَحَلُّ قُدْسِهِ وَنَحْنُ حُجَّتُهُ فِي غِيْبِهِ وَنَحْنُ وَرَثَةُ أنْبِيَائِهِ؛ [4]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: ہم اہل بیت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) خدا كے ساتھ مخلوقات كے ارتباط كا وسیلہ ہیں؛ خدا كی برگزیدہ ہستیاں ہم ہیں اور نیكیوں كا اعلیٰ مقام ہم ہیں، اور خدا کی روشن دلیلیں ہم ہیں اور اللہ کے نبیوں کے وارث ہم ہیں"۔ 

5۔ قرآنی سورتوں کی تلاوت کا ثواب

"قالَتْ (سلام الله عليها): "قَارِئُ الْحَدِيدِ وَإِذَا وَقَعَتْ وَالرَّحْمَٰنُ يُدْعَىٰ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ سَاكِنُ الفِرْدَوسِ؛ [5]

فرمایا: سورہ الحدید، سورہ واقعہ اور سورہ رحمٰن كی تلاوت كرنے والے لوگ آسمانوں اور روئے زمين پر جنتی كہلاتے ہیں"۔

6۔ بہترین لوگ

"قالَتْ (سلام الله عليها): خِيارُكُم أَلْيَنُكُم مُناكَبَةً وأكرَمُهُم لِنِسائِهِم؛ [6]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: تم میں سے بہترین وہ ہے جو لوگوں کے ساتھ بہت نرمی سے پیش آتے ہوں اور تم میں سے بہترین مرد وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ زیادہ مہربان اور زیاده فیاض ہوں"۔ 

7۔ تین پسندیدہ چیزیں

"قالَتْ (سلام الله عليها): حُبِّبَ إلَیَّ مِنْ دُنْیاكُمْ ثَلاثٌ: تِلاوَةُ كِتابِ اللّهِ وَالنَّظَرُ فى وَجْهِ رَسُولِ اللّهِ وَالاْنْفاقُ فى سَبیلِ اللّهِ؛ [7]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: تمہاری دنیا سے میری پسند کی چیزیں تین ہیں: تلاوت قرآن، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھنا اور خدا کی راہ میں انفاق کرنا اور خیرات دینا"۔

8۔ اہل بیت (ع﴾ کی اطاعت و امامت کے فوائد

"قالَتْ (سلام الله عليها): فَجَعَلَ اللّه ۔ ۔ ۔ إِطَاعَتَنَا نِظَاماً لِلمِلَّةِ وَإِمَامَتَنَا أَمَاناً لِلفُرْقَةِ؛ [8]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) فرمایا: خدا نے ہم اہل بیت (علیہم السلام) کی اطاعت و پیروی امت اسلامی کو سماجی نظم کا سبب قرار دیا ہے اور ہماری امامت و قیادت کو اتحاد و یکجہتی کا سبب اور تفرقے سے امان قرار دیا ہے"۔

9۔ ایمان اور نماز کے فوائد

"قالَتْ (سلام الله عليها): فَجَعلَ اللهُ الْإِيمَانَ تَطْهِيراً لكمْ مِنَ الشِّرْكِ وَالصَّلَاةَ تَنْزِيهاً لَكُمْ عَنِ الْكِبْرِ؛ [9]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: خدائے تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے شرک سے پاکیزگی کا سبب قرار دیا اور نماز کو تکبر اور خودپرستی سے نجات کا موجب"۔ 

10۔ امام کي مثال کعبہ کي مثال ہے

"قالَتْ (سلام الله عليها): لَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ (صَلَّى اللہُ عَلَيهِ وَآلِهِ): مَثَلُ الْإِمَامِ مَثَلُ الْكَعْبَةِ إِذْ تُؤْتَىٰ وَلَا تَأْتِي؛ [10]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: امام کی مثال کعبہ کی سی ہے، کہ لوگوں کو اس کی جانب آنا اور رجوع کرنا پڑتا ہے جبکہ وہ کسی کے پاس نہیں جاتا (لوگوں کو امام کی خدمت میں حاضرہونا پڑتا ہے چنانچہ امام کے اپنے پاس آنے کی توقع نہیں نہیں رکھنا چاہئے)"۔ 

11۔ صبر و جہاد کے ثمرات

"قالَتْ (سلام الله عليها): وَجَعَلَ اللّه ... الْجِهَادَ عِزّا لِلاِسْلَامِ وَالصَّبرَ مَعُونَةً عَلَىٰ إِسْتِيجَابِ الْأَجْرِ؛ [11]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: خدائے متعال نے جہاد کو اسلام کی عزت و ہیبت کا سبب اور صبر و استقامت کو حق تعالیٰ کے انعام و جزا کے استحقاق کا باعث قرار دیا"۔ 

12۔ ایمان و عدل کی ثمرات

"قالَتْ (سلام الله عليها): فَفَرَضَ اللّهُ الْإيمَانَ تَطْهِيراً مِنَ الشِّركِ وَالعَدْلَ تَسْكِيناً لِلْقُلُوبِ؛ [12]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: خدائے متعال نے ایمان کو شرک سے پاکیزگی کے لئے واجب کر دیا اور عدل و انصاف کو قلوب کی تسکین کے لئے"۔

13۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) ملائکۃ اللہ کے قاضی

"عن عَبْدُ اللّهِ بْنِ مَسْعُود، فالَ: أتَيْتُ فاطِمَةَ صَلَواتُ اللّهِ عَلَيْها، فَقُلْتُ: أيْنَ بَعْلُكِ؟ فَقالَتْ (عليها السلام): عَرَجَ بِهِ جِبْرئيلُ إلَى السَّماءِ، فَقُلْتُ: فِيمَا ذَا؟ فَقالَتْ: إِنَّ نَفَراً مِنَ الْمَلائِكَةِ تَشاجَرُوا فِي شَيْىءٍ فَسَألُوا حَكَماً مِنَ الآدَمِيّينَ، فَأَوْحَىَ اللّهُ إلَيْهِمْ أنْ تَتَخَيَّرُوا فَاخْتارُوا عَليِّ بْنِ أبي طَالِبٍ (عَلَيهِ السَّلامُ)؛ [13]

عبد اللّہ بن مسعود کہتے ہیں: ایک روز میں حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کی خدمت میں حاضر ہؤا اور پوچھا: آپ کے خاوند (علی علیہ السلام) کہاں ہیں؟ تو سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: جبرئیل کے ہمراہ آسمانوں کی جانب عروج کرکے گئے ہیں۔ میں عرض کیا: کس مقصد سے؟ فرمایا: ملائکۃ اللہ کے درمیان نزاع واقع ہؤا اور انہوں نے اللہ سے التجا کی کہ انسانوں میں سے ایک فرد ان کے درمیان فیصلہ اور قضاوت کرے؛ چنانچہ خداوند متعال نے فرشتوں کو وحی بھیجی اور ان کو قاضی کے انتخاب کا اختیار دیا اور انہوں نے حضرت علىّ بن ابى طالب (علیہ السلام) کو اپنے درمیان قاضی کے طور پر منتخب کیا"۔

14۔ امیرالمؤمنین امام علی (علیہ السلام) کا تعارف

"قالَتْ (عليها السلام): وَهُوَ الإمامُ الرَبَّانِيُّ وَالْهَيْكَلُ النُّورَانِيُّ قُطْبُ الْأقْطَابِ وَسُلَالَةُ الْأَطْ‌يَابِ النَّاطِقُ بِالصَّوَابِ نُقْطَةُ دَائِرَةِ الْإِمَامَةِ؛ [14]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) الٰہی پیشوا، نورانی پیکر، تمام موجودات اور قطب الاقطاب اور عارفین و سالکین کا مرکز عقیدت اور طاہرین و طیبین کے خاندان کے پاک و طیب فرزند ہیں؛ حق بولنے والے متکلم ہیں (بولتے ہیں تو حق بولتے ہیں)، اور ہدایت دینے والے راہنما ہیں؛ وہ امامت و قیادت کے دائرے کا مرکز و محور ہیں"۔

15۔ محمد و علی (علیہما السلام) امت کے شفیق باپ

"قالَتْ (عليها السلام): أبَوَا هِذِهِ الاْمَّةِ مُحَمَّدٌ وَعَلىٌّ، يُقْيمانِ أَودَّهُمْ، وَيُنْقِذانِ مِنَ الْعَذابِ الدّائِمِ إنْ أطَاعُوهُمَا وَيُبِيحَانِهِمُ النَّعِيمَ الدّائمَ إنْ وَافَقُوهُمَا؛ [15]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) فرمایا: حضرت محمّد (صلى الله علیہ وآلہ) اور امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) اس امت کے باپ ہیں؛ [انحرافات اور برائیوں سے] اپنے پیاروں کی حفاظت کرتے ہیں، بشرطیکہ [امتی] ان دونوں کی اطاعت و پیروی کریں، اور انہیں دائمی عذاب سے نجات دلاتے ہیں اور دائمی نعمتوں سے بہرہ مند کرتے ہیں بشرطیکہ ان کی سیرت و سنت پر کاربند رہیں"۔

16۔ مؤمنین کے حق میں سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی دعا

"قالَتْ (سلام الله عليها): إِلٰهِي وَسَيدي أسْئَلُكَ بِالَّذينَ اصْطَفَيتَهُمْ، وَبِبُكاءِ وَلَدَيَّ فِي مُفارِقَتي أَنْ تَغْفِرَ لِعُصَاةِ شِيعَتي، وَشيعَةِ ذُرِّيَّتَي؛ [16]

فرمایا: خداوندا! تیرے برگزیدہ (منتخب) اولیاء اور مقربین کے صدقے اور تجھے میری شہادت کے بعد میری جدائی میں میرے بچوں کے گریہ و بکاء کے واسطے، التجاء کرتی ہوں کہ تو میرے اور میری اولاد کے گنہگار شیعوں کے گناہ بخش دے"۔ 

17۔ شیعہ جنتی ہیں

"قالَتْ (سلام الله عليها): شِيعَتُنَا مِنْ خِيَارِ أهْلِ الْجَنَّةِ وَكُلُّ مُحِبّينا وَمَوَالِي اَوْلِيَائِنَا وَمُعَادي أَعْدائِنا وَالْمُسْلِمُ بِقَلْبِهِ وَلِسَانِهِ لَنَا؛ [17]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: ہمارے شیعہ بہترین جنتی ہیں اور ہمارے تمام حبدار بھی اور اور ہمارے دوستوں کے دوست اور ہمارے دشمنوں کے دشمن بھی، اور وہ بھی جو قلب و زبان سے ہمارے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے [بہترین جنتی ہیں]"۔

18۔ اگر بے گناه عذاب میں مبتلا نہ ہوتے بد دعا دیتی

"قالَتْ (سلام الله عليها): وَاللّهِ يَابْنَ الْخَطّابِ لَوْلَا أَنِّي أَكْرَهُ أنْ يُصِيبَ الْبَلَاءُ مَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ، لَعَلِمْتَ أَنِّى سَأُقْسِمُ عَلَى اللّهِ ثُمَّ أجِدُهُ سَريعَ الاْجابَةِ؛ [18]

فرمایا: اے خطّاب کے بیٹے! قسم خدا کی، اگر میں ناپسند نہ کرتی که خدا کا عذاب کسی بے گناه پر نازل ہو جائے تو میں خدائے عالم کو قسم دیتی اور بد دعا دیتی اور تم دیکھ لیتے کہ میری دعا کتنی جلد قبول ہوتی ہے"۔ 

19۔ میں ہرگز تم سے نہ بولوں گی

"قالَتْ (سلام الله عليها): وَاللّهِ! لَا كَلَّمْتُكَ أبَداً، وَاللّهِ! لاَدْعُوَنَّ اللّهَ عَلَيْكَ فى كُلِّ صَلوةٍ؛ [19]

سیدہ کے گھر پر حملہ ہؤا تو آپ نے خلیفہ اول سے مخاطب ہوکر فرمایا: خدا کی قسم! ابد تک تم سے نہیں بولوں گی؛ خدا کی قسم ہر نماز میں تمہیں بددعا دیتی رہوں گی"۔

20۔ تم نےمجھے ناراض و غضبناک کیا ہے

"قالَتْ (سلام الله عليها): أَنْشَدْتُكُمَا اَللَّهَ أَلَمْ تَسْمَعَا رَسُولَ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ رِضَا فَاطِمَةَ مِنْ رِضَايَ وَسَخَطَ فَاطِمَةَ مِنْ سَخَطي، فَمَنْ أَحَبَّ فَاطِمَةَ ابْنَتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي وَمَنْ أَرْضَى فَاطِمَةَ فَقَدْ أَرْضَانِي ومَنْ أَسْخَطَ فَاطِمَةَ فَقَدْ أَسْخَطَنِي؟ قَالَا: نَعَمْ سَمِعْنَاهُ مِنْ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ قَالَتْ: فَإِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ أنَّكُمَا أَسْخَطْتُمَانِي وَمَا أرْضَيْتُمانِي وَلَئِنْ لَقِيتُ النَّبِيَّ لَأَشْكُوَنَّكُمَا إِلَيْهِ؛ [20]

[جب خلیفہ اول و دوئم سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی عیادت کے لئے آئے تو] سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: میں آپ کو خدا کی قسم دیتی ہوں، کیا تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ "فاطمہ کی رضا و خوشنودی میری رضا و خوشنودی ہے اور فاطمہ کی ناراضگی میری نارضگی ہے، تو جس نے فاطمہ سے محبت کی اس نے مجھ سے مجببت کی ہے اور سج نے فاطمہ کو خوشنود کیا اس نے مجھے خوشنود کیا ہے؟ تو ان دو نے کہا: ہاں ہم نے یہ حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنی ہے۔ سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: تو میں نے اللہ اور اس کے فرشتوں کو گواہ بناتی ہوں کہ تم دو نے مجھے ناراض اور مجھے خوشنود نہیں کیا اور جب میں بابا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے دیدار کروں گی تو آپ(ص) سے ضرور بضرور تم دونوں کی شکایت کروں گی"۔

21۔ عہد شکن میری میت پر نماز نہ پڑھیں

"قالَتْ (سلام الله عليها): لَاَ تُصَلِّي عَلَيَّ اُمَّةٌ نَقَضَتْ عَهْدَ اَللَّهِ وَعَهْدَ أَبِي رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ فِي أَمِيرِالْمُؤْمُنِينِ عَلِيٍ عَلَيهِ السَّلامُ وَظَلَمُوا لِي حَقِّي وَاَخَذُوا إِرْثِي وَحَرَّقُوا صَحِيفَتِي الَّتِي كَتَبَهَا لِي أبِي بِمِلْكِ فَدَك؛ [21]

فرمایا: وه لوگ جنہوں نے امیرالمؤمنین علىّ (علیه السلام) کے بارے میں خدا اور میرے والد رسول خدا (ص) کے ساتھ کیا ہوا عہد توڑا اور میرے حق میں ظلم کا ارتکاب کیا اور میرے ارث کو غصب کیا اور جنہوں نے میرے لئے وہ صحیفہ پهاڑ ڈالا جو میرے والد نے فدک کے سلسلے میں میرے لئے لکها تها وه میری میت پر نماز نہ پڑھیں"۔ 

22۔ غدیر کے بعد کو‏ئی عذر نہ رہا

"قالَتْ (سلام الله عليها): إلَيْكُمْ عَنّي فَلَا عُذْرَ بَعْدَ غَدِيرِكُمْ وَالْاَمْرُ بَعْدَ تقْصِيرِكُمْ هَلْ تَرَكَ أبِي يَوْمَ غَدِيرِ خُمَّ لِأَحَدٍ عُذْراً؛ [22]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے مہاجرین و انصار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: مجھ سے دور ہوجاؤ اور مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو اتنی ساری بے رخی اور حق سے چشم پوشی کے بعد، تمہارے لئے اب کوئی عذر باقی نہیں رہا ہے۔ کیا میرے والد نے غدیر خم میں (اپنے جانشین کا تعین کرکے اور مسلمانوں کو اس امر پر گواہ بنا کر) تمہارے لئے کوئی عذر باقی چھوڑا ہے؟"۔  

23۔ ایمان، نماز، زکوٰۃ، روزے اور حج کے ثمرات

"قالَتْ (سلام الله عليها): جَعَلَ اللّهُ الزَّكَاةَ تَزْكِيَةً لِلنَّفْسِ وَنِمَاءً فِي الرِّزقِ وَالصِّيَامَ تَثْبِيتاً لِلاْخْلَاصِ وَالْحَّجَ تَشْيِيداً لِلدّينِ؛ [23]

فرمایا: خدائے سبحان نے زکوٰة کو تزکیہ نفس اور وسعت رزق کا سبب گردانا ہے اور روزے کو ارادے میں استقامت اور اخلاص میں استحکام، کا موجب قرار دیا ہے اور حجّ کو شریعت کی بنیادیں اور دین کی اساس کو مستحکم کرنے کی خاطر واجب کر دیا ہے"۔ 

24۔ میں سب سے پہلے اپنے والد سے جا ملوں گی

"قالَتْ (سلام الله عليها): يَا أَبَا اَلْحَسَنِ إِنَّ رَسُولَ اَللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآله عَهِدَ إِلَيَّ وَحَدَّثَنِي أَنِّي أَوَّلُ أَهْلِهِ لُحُوقاً بِهِ وَلَا بُدَّ مِمَّا لَا بُدَّ مِنْهُ فَاصْبِرْ لِأَمْرِ اللَّهِ تَعالَى وَارْضَ بِقَضَائِهِ؛ [24]

فرمایا: اے ابا الحسن! یقینا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے میرے ساتھ عہد باندھا ہے اور مجھے خبر دی ہے کہ میں آپ(ص) کے خاندان میں سپ سے پہلے آپ سے جا ملوں گی اور اس عہد سے کو‎‎ئی گریز نہیں ہے، لہٰذا صبر کا دامن تھامے رکھنا اور اللہ کی قضا و قدّر پر راضی ہونا"۔ 

25۔ سیدہ (سلام اللہ علیہا) اور آپ کے والد (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر تین روز تک سلام کرنا

"قالَتْ (سلام الله عليها): مَنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ َوَعَلَيَّ ثَلاثَةَ أيّام أوْجَبَ اللّهُ لَهُ الجَنَّةَ، قُلْتُ لَهَا: فى حَيَاتِهِ وَحَيَاتِكِ؟ قالَتْ: نعَمْ وَبَعْدَ مَوْتِنَا؛ [25]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: جو شخص میرے والد ـ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور مجھ پر تین روز تک سلام بھیجے خدا اس پر جنت واجب کردیتا ہے۔ راوی کہتا ہے: میں نے عرض کیا یہ سلام آپ اور آپ کے والد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ایام حیات کے لئے ہے؟ سیدہ (س) نے فرمایا: ہاں! ہمارے ایام حیات میں اور ہماری موت کے بعد کے لئے ہے"۔

26۔ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) نے فریضۂ الٰہی پر عمل کیا

"قالَتْ (سلام الله عليها): مَا صَنَعَ أبُو الْحَسَنِ إِلاّ مَا كَانَ يَنْبَغِى لَهُ وَلَقَدْ صَنَعُوا مَا لِلّهِ حَسِيبُهُمْ وَطَالِبُهُمْ؛ [26]

فرمایا:جو کچھ جضرت ابوالحسن امیرالمؤمنین علی (عليہ السلام)  نے [رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی تدفین اور بیعت کے سلسلے میں] سرانجام دیا وہ خدا کی جانب سے مقررہ فريضہ تھا اور جو کچھ دوسروں نے سرانجام دیا خدائے متعال بہت اچھی طرح ان کا احتساب کرے گا اور ان کو سزا دے گا"۔

27۔ خواتین کے لئے کون سی چیز بہتر ہے؟

قَالَ عَلِيُّ عَلَيْهِ السَّلَامُ اسْتَأْذَنَ أَعْمَى عَلَى فَاطِمَةَ ( عَلَيْهَا السَّلَامُ ) فَحَجَبَتْهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ لَهَا: لِمَ حَجَبْتِهِ وَهُوَ لَا يَرَاكِ؟ فَقَالَتْ عَلَيْهَا السَّلَامُ: إِنْ لَمْ يَكُنْ يَرَانِي فَإِنِّي أَرَاهُ وَهُوَ يَشَمُّ الرِّيحَ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ أَشْهَدُ أَنَّكِ بَضْعَةُ مِنِّي؛ [27]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: عورت کی شخصیت کی حفاظت کے لئے بہترین عمل یہ ہے کہ (غیر) مردوں کو نہ دیکھے اور (غیر) مرد بھی اسے نہ دیکھیں"۔

28۔ مجھے ہرگز نہ بھولنا

"قالَتْ (سلام الله عليها) لِعَلِيٍ عليه السلام: أُوصِيكَ يَا أبَا الْحَسَنِ أنْ لَا تَنْسَانِي، وَتَزُورَنِي بَعْدَ مَمَاتِي؛ [28]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے اپنی وصیت کے ضمن میں فرمایا: اے ابا لحسن! میں آپ کو وصیت کرتی ہوں کہ میری موت کے بعد مجھے کبھی مت بھولنا اور میری زیارت و دیدار کے لئے میری قبر پر آیا کرنا"۔ 

29۔ خواتین کی میت بھی نامحرموں کی نظروں سے محفوظ ہو

"قالَتْ (سلام الله عليها): إِنِي قَدِ اسْتَقْبَحْتُ مَا يُصْنَعُ بِالنِّسَاءِ، إنّهُ يُطْرَحُ عَلَىَ الْمَرْئَةِ الثَّوبَ فَيَصِفُهَا لِمَنْ رَأَى، فَلَا تَحْمِلِينِي عَلى سَريرٍ ظَاهِرٍ، اُسْتُرِينِى، سَتَرَكِ اللهُ مِنَ النّارِ؛ [29]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں اسماء بنت عمیس الخثعمیہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: میں یہ عمل بہت ہی برا اور بھونڈا سمجھتی ہوں کہ لوگ خواتین کی موت کے بعد ان کی میت پر چادر ڈال کر اس کا جنازہ اٹھائیں اور قبرستان تک لے جائیں اور کچھ لوگ ان کے اعضاء اور بدن کے حجم کا دیکھ کر دوسروں کے لئے حکایت کریں؛ چنانچہ میری میت کو ایسی چارپائی یا تختے کے اوپر مت رکھنا جس کے ارد گرد بدن چھپانے کا انتظام نہ ہو اور اس پر ایسا وسیلہ نہ ہو جو لوگوں کے تماشے کے لئے رکاوٹ ہو؛ میرا بدن پوری طرح ڈھانٹ دو، اللہ تمہیں دوزخ کی آگ سے مستور و محفوظ رکھے"۔ 

30۔ پردہ حتی نابینا مردوں سے

"قَالَ عَلِيُّ عَلَيْهِ السَّلَامُ اسْتَأْذَنَ أَعْمَى عَلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ فَحَجَبَتْهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ لَهَا: لِمَ حَجَبْتِهِ وَهُوَ لَا يَرَاكِ؟ فَقَالَتْ عَلَيْهَا السَّلَامُ: إِنْ لَمْ يَكُنْ يَرَانِي فَإِنِّي أَرَاهُ وَهُوَ يَشَمُّ الرِّيحَ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ أَشْهَدُ أَنَّكِ بَضْعَةُ مِنِّي؛ [30]

امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: ایک نابینا شخص نے سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے گھر میں آنے کی اجازت مانگی تو آپ نے اس سے پردہ کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ان سے فرمایا: اس سے پردہ کیوں کر رہی ہیں جبکہ وہ آپ کو نہیں دیکھ سکتا؟ تو سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: اگر وہ مجھے نہیں دیکھ سکتا، تو میں تو اسے دیکھ سکتی ہوں، اور پھر وہ ہوا سے عورت کی بو محسوس کر سکتا ہے؛ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ میرے وجود کا ٹکڑا ہیں"۔

یہ حدیث ان خواتین کی لئے قابل توجہ ہے جو وہ بینا لوگوں سے پردہ تو نہیں کرتیں بلکہ میک اپ کرکے اور بن ٹھن کے دل موہ لینے والے عطریات لگا کر غیر مردوں کے ساتھ  مسکرا مسکرا کر باتیں کرنے سے لذت اٹھاتی ہیں اور اس حرام عمل کو تجدد اور عورت کی آزادی نسوان سمجھتی ہیں۔

31۔  ترک دنیا اور غاصبوں کی ابدی مخالفت ۔ ۔ ۔

"قالَتْ (سلام الله عليها): أصْبَحْتُ وَاللهِ عَاتِقَةً لِدُنْيَاكُمْ، قالِيَةً لِرِجَالِكُمْ؛ [31]

فدک غصب ہوجانے اور سیدہ (سلام اللہ علیہا) کے استدلال وَاعتراض کے بعد مہاجرین و انصار کی بعض عورتیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ کا حال پوچهنے لگیں تو سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: خدا کی قسم! میں نے تمہاری دنیا کو آزاد کیا اور میری اب تمہاری دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور تمہارے مردوں کی ہمیشہ کے لئے دشمن رہوں گی"۔ 

32۔ شیعہ کون ہیں؟

"قالَتْ (سلام الله عليها): إِنْ كُنْتَ تَعْمَلُ بِمَا أمَرْنَاكَ وَتَنْتَهِي عَمَّا زَجَرْنَاكَ عَنْهُ، قَأنْتَ مِنْ شِيعَتِنَا، وَإِلَّا فَلَا؛ [32]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: اگر تم ہم اہل بیت عصمت و طہارت کے اوامر پر عمل کرو اور جن چیزوں سے ہم نے تمہیں باز رکھا ہے ان سے اجتناب کرو تو تم ہمارے شیعوں میں سے ہو ورنہ نہیں [شیعوں میں سے] نہیں ہو"۔ 

33۔ نئی شادی کے سلسلے میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی وصیت

"قالَتْ (سلام الله عليها): أُوصِيكَ اَوَّلاً أنْ تَتَزَوَّجَ بَعْدي بِإبْنَةِ اُخْتِي أَمَامَةَ، فَإنَّهَا تَكُونُ لِوُلْدِي مِثْلي، فَإنَّ الرِّجَالَ لا بُدَّ لَهُمْ مِنَ النِّسَاءِ؛ [33]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے اپنی مختصر سی زندگی کے آخری لمحات میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے وصیت فرمائی: میں آپ کو وصیت کرتی ہوں کہ میرے بعد میری بھانجی "أمامہ" کے ساتھ شادی کرنا، کیونکہ وہ میرے بچوں کے لئے میری طرح ہمدرد اور دلسوز ہے اور پھر مَردوں کے لئے عورتوں میں سے کسی کی ضرورت ہوتی ہے"۔

34۔ ماں کی خدمت اور اس کے ثمرات

"قالَتْ (سلام الله عليها): الْزَمْ رِجْلَهَا، فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ أقْدَامِهَا وَالْزَمْ رِجْلَهَا فَثَمَّ الْجَنَّةَ؛ [34] 

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: ہمیشہ ماں کی خدمت میں رہو کیونکہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے؛ اور ماں کے پابند رہو کیونکہ تمہارے اس عمل کا نتیجہ بہشتى نعمتیں ہیں"۔ 

35۔ روزہ کس طرح ہونا چاہئے؟

"قالَتْ (سلام الله عليها): مَا يَصْنَعُ الصّائِمُ بِصِيَامِهِ إِذَا لَمْ يَصُنْ لِسَانَهُ وَسَمْعَهُ وَبَصَرَهُ وَجَوارِحَهُ؛ [35]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: وہ روزہ دار شخص جو اپنی زبان اور کانوں اور آنکھوں و دیگر اعضاء و جوارح کو قابو میں نہ رکھے اپنے روزے سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے گا"۔ 

36۔ خوش روئی اور اس کے ثمرات

قالَتْ (سلام الله عليها): اَلْبُشْرَى فى وَجْهِ الْمُؤْمِنِ يُوجِبُ لِصَاحِبهِ الْجَنَّةَ وَبُشْرى في وَجْهِ الْمُعَانِدِ يَقِي صَاحِبَهُ عَذابَ النَّار؛ [36]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) فرمایا: مؤمن سے تبسّم اور شادمانى کے ساتھ پیش آنا جنت میں داخلے کا باعث بنتا ہے؛ جبکہ دشمنوں اور مخالفین کے سامنے تبسم عذاب سے بچاؤ کا سبب بنتا ہے"۔

37۔ کھانے کے بعد ہاتھ دہونے کی ضرورت

"قالَتْ (سلام الله عليها): لَا يَلُومَنَّ امْرُءٌ إلاّ نَفْسَهُ، يَبيتُ وَفى يَدِهِ ريحُ غَمَر؛ [37]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: جو شخص کھانا کھانے کے بعد [ہاتھ دھوئے بغیر جبکہ] اس کے ہاتھوں سے (گوشت اور کھانے یا چکناہٹ کی) بو آرہی ہو ـ سو جائے، [اور اسے کوئی پریشانی یا بیماری وغیره لاحق ہوجائے تو وہ اپنے سوا کسی پر بهی ملامت نہ کرے"۔ 

38۔ جمعہ کے روز دعا کا بہترین موقع

قالَتْ (سلام الله عليها): اصْعَدْ عَلَى السَّطْحِ، فَإنْ رَأيْتَ نِصْفَ عَيْنِ الشَّمْسِ قَدْ تَدَلَّى لِلْغُرُوبِ فَأَعْلِمْنِي حَتَّى أدْعُو؛ [38]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) روز جمعہ غروب آفتاب کے قریب خادمہ کو ہدایت کیا کرتی تھیں کہ گھر کی چھت پر جا کر بیٹھو اور جب آدھا سورج ڈوب جائے مجھے خبر کردو تا کہ میں دعا کروں"۔

39۔ خدا تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے

"قالَتْ (سلام الله عليها): 'إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا' وَلَا يُبَالِي؛ [39]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے سورہ زمر کی آیت 53 کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: 'بے شک خدا تمام کے تمام گناہوں کو بخش دے گا' اور اس سلسلے میں کسی کی پروا نہیں کرے گا"۔ 

نکتہ: البتہ حق الناس اور شرک قابل بخشش گناہ نہیں ہیں جس پر قرآن میں بھی تصریح ہوئی ہے اور احادیث میں بھی، البتہ خدا اگر کسی کے سارے گناہ (سوائے شرک کے) بخشنا چاہے تو وہ وسیلہ ساز ہے اور اگر کسی کا اس شخص پر کوئی حق ہے تو اس کے دل میں عفو و درگذر کا احساس پیدا کرتا ہے یا اس کو انعام و اکرام سے نواز کر مطلوبہ شخص کے گناہ بخشوا دیتا ہے اور یہ سارے امور اللہ کے لئے آسان ہیں۔

40۔ سواری اور گھر پر مرد کا حق 

"قالَتْ (سلام الله عليها): الرَّجُلُ اُحَقُّ بِصَدْرِ دابَّتِهِ وَصَدْرِ فِراشِهِ وَالصَّلاةِ فى مَنْزِلِهِ إلاَّ الاْمامَ يَجْتَمِعُ النّاسُ عَلَيْهِ؛ [40]

سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: ہر شخص اپنی سواری، اپنے گھر کے صدر مجلس اور اپنے گھر کے سازو سامان نیز اپنے گھر میں نماز قائم کرنے (اور امامت کے حوالے سے) دوسروں پر ترجیح رکھتا ہے مگر یہ کہ امام جماعت کوئی دوسرا شخص ہو جس کی امامت پر لوگوں کا اتفاق ہو اور لوگ اس کی امامت میں نماز ادا کرنا چاہیں"۔ 

۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات

[1]. ابن شعبہ الحرانی، حسن بن علی بن حسین، تحف العقول، ص960۔

[2]۔ البحرانی الاصفہانی، عبدالله بن نورالدین، عوالم العلوم والمعارف والأحوال من الآیات والأخبار والأقوال، ج21، ص353۔

[3]۔ شیخ صدوق، محمد بن على بن حسين بن بابويہ قمى، الأمالی، ص249؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج2، ص449؛ الہیثمی، علي بن أبي بکر بن سليمان، مجمع الزّوائد مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج9، ص132۔

[4]۔ ابن ابی الحدید المعتزلی، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح‌ نہج‌ البلاغہ، ج16، ص211؛ البحرانی الاصفہانی، عوالم العلوم، ج11، ص894۔

[5]۔ متقی الہندی، کنزالعمال، ج1، ص582۔

[6]۔ طبری (صغیر)، محمد بن جریر، دلائل الإمامہ، ص76؛ متقی االہندی، علي بن حسام الدين، کنز العمال، ج7، ص225۔

[7]۔ واعظ خیابانی، ملاّ علی بن عبدالعظیم تبریزی، وقائع الأیام در احوال محرم الحرام، ج3، ص295۔

[8]۔ الطبرسی، احمد بن علی بن ابی طالب، الإحْتِجاجُ عَلی أہلِ اللّجاج، ج1، ص258؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج43، ص158۔

[9]۔ الطبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج،ج1، ص258۔

[10]۔ البحرانی الاصفہانی، عبدالله بن نورالدین، عوالم العلوم والمعارف،  ج11، ص228؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج36، ص353۔

[11]. الطبرسی، احمد بن علی، الإحْتِجاجُ، ج1، ص258.

[12]۔ شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ج3، ص568۔

[13]۔ المقید، محمد بن محمد، الإختصاص، ص213؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج37، ص150۔

[14]۔ محلاتی، ذبيح الله مشتاق عسکری بن محمد علی بن علی محلاتی، (المعروف بہ ذبیح اللہ محلاتی)، کتاب رَیاحینُ الشَّریعَہ در ترجمۂ بانوان دانشمند شیعہ، ج1، ص93۔

[15]۔ تفسیر الإمام العسکرى (علیہ السلام): ص330، ح191؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج23، ص259، ح8۔

[16]۔ الحائری المازندرانی، مهدی بن عبدالہادی، الکوکب الدری فی أحوال النبی والبتول والوصی، ج1، ص254۔

[17]۔ تفسیر امام حسن عسکری (علیہ السلام)، ص308؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج68، ص155۔ خیال رہے کہ صرف شیعہ کا نام اور عنوان کافی نہیں ہے بلکہ امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "فواللّہ ما شيعتنا إلا من اتّقى اللّہ وأطاعه، ہمارا شیعہ نہیں ہو سکتا مگر وہ شخص جو الٰہی تقویٰ اختیار کرے اور اُس کی اطاعت کرے"۔  (الطبرسی، علی بن حسن بن فضل، مشکاۃ الأنوار فی غرر الأخبار، ج1، ص107)۔

[18]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب، اصول الکافى، ج1، ص460؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج28، ص250؛ محدّث قمی یا شیخ عباس قمی (عباس بن محمد رضا)، بَیْتُ الْاَحْزان فی مَصائبِ سَیّدۃ النِّسْوان، ص104۔

[19]۔ البخاری الجعفی، محمد بن إسماعيل، جامع المسند الصحیح المختصر من أُمور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسننہ وأیامہ، المعروف بہ معروف بہ صحیح البخاری، ج6، ص176؛ القشیری النیسابوری، مسلم بن حجاج، ج2، ص72۔

[20]۔ الدینوری المروزی، عبد اللہ بن مسلم، الإمامۃ والسیاسۃ، ج1، ص31؛ نیز دیکھئے: البخاری، صحیح البخاری، ب5، ص5؛ القشیری النیسابوری، صحیح المسلم، ج2، ص72؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج28، ص303۔

[21]۔ شیخ عباس قمی، بیت الأحزان، ص113؛ الإربلی، علی بن عیسی، کشْفُ الغُمَّۃ فی مَعْرِفَۃ الأئمّۃ، ج2، ص494۔

[22]۔ شیخ صدوق، الخصال: ج1، ص173؛ الطبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج1، ص146۔

[23]۔ الطبرسی، احمد بن علی بن ابی طالب، الإحْتِجاجُ عَلی أہلِ اللّجاج، ج1، ص134؛ ذبیح اللہ محلاتی، رَیاحینُ الشَّریعَہ، ج1، ص312۔

[24]۔ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج43، ص200؛ البحرانی الاصفہانی، عوالم العلوم و المعارف، ج11، ص890۔

[25]۔ شیخ طوسی، محمد بن حسن طوسی، تاذيب الأحکام، ج6، ص9؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج43، ص185۔

[26]۔ ابن قتیبہ الدینوری، الإمامۃ والسیاسۃ، ج1، ص30؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج28، ص355۔ 

[27]۔ الطبرسی، حسن بن فضل، مکارم الأخلاق، ج1، ص233؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار،  ج43، ص54

[28] ۔ الحائری المازندرانی، اکوکب الدّرى: ج1، ص253؛ الانصاری الزنجانی الخوئینی، اسماعیل، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا، ج15، ص117۔

[29]۔ شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، ج1، ص429، الاربلی، کشف الغمّہ: ج2، ص67؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج43، ص189۔

[30]۔ الحسنی الراوندی، سید فضل اللہ بن علی بن عبید اللہ، النوادر، ص13؛ المرعشی الشوشتری، سید نور اللہ بن سید شریف الدین، اِحْقاقُ الحَقّ و اِزْهاقُ الباطِل، ج10، ص258۔؛ البحرانی الاصفہانی، عوالم العلوم والمعارف، ج11، ص276؛ علامہ مجلسی، ج104، ص38۔

[31]۔ شیخ صدوق، معانى الأخبار، ص355؛ طبری (صغیر)، دلائل الإمامہ، ص128۔

[32]۔ تفسیر الإمام العسکرى (علیہ السلام)، ص320۔

[33]۔ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج43، ص192؛ امین العاملی، سید محسن بن سید عبدالکریم، اعیان الشیعہ، ج1، ص321۔

[34]. المتقی الہندی، کنز العمّال: ج16، ص462، ح45443۔

[35]۔ نوری طبرسی، میرزا حسین بن محمد تقی بن علی محمد (المعروف به محدث نوری و حاجی نوری)، مُستَدرَكُ الوَسائل و مُستَنبَطُ المَسائل، ج7، ص336؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج93، ص294۔

[36]۔ تفسیر الإمام العسکرى (علیہ السلام)، ص354؛ النوری الطبرسی، مستدرک الوسائل، ج12، ص262، علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج72، ص401۔

[37]۔ المتقی الہندی، کنز العمّال: ج15، ص342۔

[38]۔ شیخ صدوق، معانى الأخبار: ص399؛ طبری (صغیر)، دلائل الإمامۃ، ص71۔

[39]۔ شیخ طوسی، تفسیر التّبیان، ج9، ص37۔

[40]۔ الرازی الدولابی، محمد بن أحمد بن حماد بن سعید بن مسلم الأنصاری، ج1، ص137؛ عطاردي قوچانی، عزیز الله، مسند فاطمۃ الزہراء (علیہا السلام)، ص175؛ الہیثمی، مجمع الزوائد، ج8، ص108۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110