اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا |
حضرت فاطمہ زہرا
(سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: "آیت "لَا تَجْعَلُوا دُعَآءَ
الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا" [1] نازل
ہوئی تو ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو بابا کہنا چھوڑ دیا اور یا رسول
اللہ کہہ کر خطاب کرنے لگے، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مجھے فرمایا، بیٹی
فاطمہ یہ آیت تمہارے اور تمہاری آنے والے نسلوں کے لئے نازل نہیں ہوئی ہے اس لئے
کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں، بلکہ یہ آیت متکبر اور ظالم قریشیوں کے لئے نازل
ہوئی ہے۔ تم مجھے بابا کہہ کر پکارا کرو کیونکہ یہ لفظ میرے دل کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے
اور اس سے خداوند متعال راضی ہوتا ہے۔
سیدہ فاطمہ زہرا
(سلام اللہ علیہا) کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں علمائے اسلام کے درمیان اختلاف ہے۔
لیکن اہل بیت عصمت و طہارت (علیہم السلام) سے منقولہ احادیث کی بنیاد پر آپ نے بعثت
کے پانچویں سال 20 جمادی الثانی، بروز جمعہ مکہ معظمہ میں
آنکھ کھول کر اپنے وجود مبارک سے کائنات کو دنیا کو معطر و منور فرمایا۔
سیدہ فاطمہ زہرا
(سلام اللہ علیہا) دنیا کی وہ خاتون ہیں کہ جن کو خدا نے فرشتوں کے ذریعے سلام بھیجا
اور آپ کا در وہ در ہے کہ جہاں فرشتے بھی اجازت لے کر داخل ہوتے تھے، یہ مقام جو خدا
نے فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو دنیا و آخرت میں عطا کیا ہے آج تک نہ کسی کو حاصل
ہؤا ہے نہ ہوگا؛ آپ کی سیرت مسلم خواتین کے لئے مشعل راہ ہے، آج کی عورت اگر آپ کی
زندگی کو اپنے لئے اسوہ بنا لے تو اس وقت خواتین جن مسائل سے دوچار ہیں وہ حل
ہوجائیں گے اور خواتین کو درپیش مشکلات کا زائل ہونگی۔
فضائلِ حضرت زہرا
(سلام اللہ علیہا)
سیدہ فاطمہ زہرا
(سلام اللہ علیہا) عالم اسلام کی ایسی باعظمت خاتون ہیں جن کی فضیلت زندگی کے ہر شعبے
میں عیاں ہے اور اس بحر عظمت کی فضلیتوں کو قرآنی آیات اور معصومین (علیہم السلام)
کی روایات میں بیان کیا گیا ہے۔
سیدہ زہرا (سلام
اللہ علیہا) کے فضائل کے حوالے سے منقولہ احادیث کی تعداد بہت زیادہ ہے، اور بعض آیات
کریمہ کی شأنِ نزول اور تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سیدہ زہرا (سلام اللہ
علیہا) کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔
تفسیر فرات کوفی
میں امام صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے کہ "إِنَّا
أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر"ِ [2]
میں "لیلۃ" سے مراد سیدہ فاطمہ
زہرا (سلام اللہ علیہا) کی ذات گرامی ہے اور لفظ "القدر" میں ذات خداوند
متعال کی طرف اشارہ ہے۔ لہذٰا جسے بھی فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی حقیقی معرفت
حاصل ہوئی اس نے لیلۃ القدر کا ادراک کرلیا۔ ، آپ کو فاطمہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ
لوگ آپ کی معرفت سے عاجز ہیں۔
علامہ مجلسی (رحمہ
اللہ) انس بن مالک اور بریدہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و
آلہ) نے سورہ نور کی سینتیسویں آیت کی تلاوت فرمائی:
"فِي بُيُوتٍ
أَذِنَ ٱللَّهُ أَن تُرۡفَعَ وَيُذۡكَرَ فِيهَا ٱسۡمُهُۥ يُسَبِّحُ لَهُۥ فِيهَا
بِٱلۡغُدُوِّ وَٱلۡأٓصَالِ" [3]
تو ایک شخص اٹھ کھڑا
ہؤا اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے دریافت کیا؛ یا رسول اللہ (صلی اللہ
علیہ و آلہ)! یہ گھر کس کا ہے؟ فرمایا، انبیاء (علیہم السلام) کا گھر ہے، ابوبکر کھڑے
ہوگئے اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے گھر کی جانب اشارہ کر کے پوچھا، کیا یہ گھر
بھی ان ہی گھروں جیسا ہے؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا، بے شک ایسا ہی
اے! بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، یہ ان میں سب سے اعلیٰ و برتر ہے۔
علامہ سید ہاشم
البحرانی (رحمہ اللہ) کی کتاب "البرہان فی تفسیر القرآن" میں سورۂ بینہ کی
پانچویں آیت کی تفسیر میں امام محمد باقر (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ اس آیت میں
"دِينُ الْقَيِّمَة" سے مراد فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہیں۔ شریعت کے سارے
اعمال، محمد و آل محمد (علیہم السلام) کی ولایت کے بغیر باطل و بے کار ہیں اور روایات
میں اس بات کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ دین کا استحکام فاطمہ (سلام اللہ
علیہا) اور ان کی ذریت کی محبت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ "دِينُ الْقَيِّمَة"
کی تفسیر آپ کی ذات گرامی سے کی گئی ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
"إِنَّ الَّذِينَ
يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ
وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا" [4]
علی بن ابراہیم
قمی (رحمہ اللہ) اپنی کتاب تفسیر میں، لکھتے ہیں: یہ آیت علی و فاطمہ (علیہما السلام)
کا حق غصب کرنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، نیز پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و
آلہ) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ فرمایا، "جو بھی ہماری زندگی میں زہرا (سلام
اللہ علیہا) کو اذیت پہنچائے گویا میرے مرنے کے بعد بھی اس نے سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو اذیت دی ہے اور جو بھی میری رحلت کے بعد
سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو اذیت دے گا گویا اس نے میری زندگی میں سیدہ
فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو اذیت دی ہے، اور جو بھی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو
اذیت دے اس نے مجھے اذیت دی ہے، جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی ہے"؛
اور خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے، "یقینا جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ستاتے
ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسوا کن عذاب مہیاّ
کر رکھا ہے۔"
امام صادق (علیہ
السلام) اپنے اجداد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا،
"جس وقت آیت "لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ
كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا" [5]
نازل ہوئی ہم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو بابا کہنا چھوڑ دیا اور یا رسول
اللہ کہہ کر خطاب کرنے لگے، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مجھے فرمایا، بیٹی
فاطمہ یہ آیت تمہارے اور تمہاری آنے والے نسلوں کے لئے نازل نہیں ہوئی ہے چونکہ تم
مجھ سے ہو اور میں تم سے، بلکہ یہ آیت متکبر اور ظالم قریش کے لئے نازل ہوئی ہے۔ تم
مجھے بابا کہہ کر پکارا کرو چونکہ یہ کلمہ میرے دل کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے اور اس سے خداوند
راضی ہوتا ہے، یہ کہہ کر بابا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے میرے چہرے کا بوسہ لیا۔
خدائے متعال
فرماتا ہے:
"قُلْ لَا
أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ؛ [6]
"اے میرے رسول آپ امت سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا
کوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ میرے اقرباء سے محبت کرو"۔
عبداللہ بن عباس
(رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ
و آلہ) سے سوال کیا گیا: وہ کون لوگ ہیں جن سے ہمیں محبت و مودت کا حکم دیا گیا ہے؟
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا، اس سے مراد علی، فاطمہ اور ان کے دو فرزند
حسن اور حسین (علیہم السلام) ہیں۔
سیدہ (سلام اللہ
علیہا) کا حجاب
اميرالمؤمنين علی
(علیہ السلام) پیامبر گرامی (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نقل کرتے ہیں؛ کہ ايک نابينا
شخص نےحضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے گھر ميں داخل ہونے کے لئے اجازت چاہی تو اس وقت
حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) پردے کے پيچھے چلی گئیں پھر اس کو اندر آنے کي اجازت دی،
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے سوال کيا یا فاطمہ، يہ نابينا ہے اس کو تو کچھ نظر
نہيں آتا کيوں پردہ کر رہی ہیں؟ تو اس وقت جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) نےجواب میں
فرمايا؛ بابا جان وہ مجھے نہيں ديکھ سکتا ليکن ميں تو اس کو ديکھ سکتی ہوں، مجھے ڈر
ہے کہ وہ میری بو استشمام کر لے گا، یہ سن کر پيامبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) بے اختیار
شہادت ديتے ہوئے فرماتے ہیں: "فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي" فاطمہ ميرے وجود
کا ٹکڑا ہے۔
ترک دنیا اور
غاصبوں کی ابدی مخالفت ۔۔۔
فدک غصب ہوجانے
اور سیدہ (سلام اللہ علیہا) کے استدلال وَاعتراض کے بعد مہاجرین اور انصار کی بعض عورتیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں
اور آپ کا حال پوچهنے لگیں تو سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا:
"أصْبَحْتُ وَاللهِ! عاتِقَةً لِدُنْياكُمْ، قالِيَةً
لِرِجالِكُمْ؛ [7]
خدا کی قسم! میں نے تمہاری دنیا کو آزاد کر دیا اور میری اب تمہاری دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور تمہارے مَردوں کی ہمیشہ کے لئے دشمن رہوں گی"۔
[1]۔ " نہ
بناؤ پیغمبر کے پکارنے کو اپنے درمیان اس طرح جیسے تم میں سے ایک دوسرے کو پکارتا
ہے۔" (سورہ
نور، آیت 63)
[2]. سورہ قدر، آیت 1۔
[3]۔ "ان گھروں
میں جن کے لئے اللہ نے طے کر دیا ہے کہ وہ بلند کیے جائیں اور ان میں اللہ کو یاد
کیا جائے، اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ان میں صبح و شام"۔ (سورہ نور، آیت 36)۔
[4]۔ سورہ احزاب، آیت
57۔
[5]۔ سورہ نور، آیت 64۔
[6]۔ سورہ شوریٰ،
آیت 23۔
[7]۔ طبری (صغیر)،
محمد بن جریر، دلائل الإمامہ، ص128، ح 38، شیخ صدوق، محمد بن على بن حسين بن
بابويہ قمى، معانى الأخبار، ص355۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110