اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق،صہیونی
ریاست کے شماریاتی مرکز کے مطابق، سنہ 2023ع اور سنہ 2024ع کے دوران [دوسرے
ملکوں سے آکر مقبوضہ فلسطین میں آباد کئے جانے والے] ہزاروں یہودی مقبوضہ فلسطین
کو چھوڑ گئے ہیں اور واپس نہیں آئے ہیں، اور بعض ذرائع نے کہا ہے کہ فلسطین سے الٹی نقل مکانی کرنے والے ہر ایک یک ہزار آبادکار
یہودیوں میں سے صرف 2.9 فلسطین واپس
آئے ہیں۔ یہ طوفان الاقصیٰ کا سب سے اہم ثمرہ ہے جس نے صہیونی حکام اور ذرائع کو
شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
المیادین نے جعلی ریاست کے شماریاتی ادارے کو
مرکزی دفتر کے حوالے سے کہا ہے کہ ان یہودی آبادکاروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو
رہا ہے جو مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں اور واپسی کا ارادہ نہیں رکھتے۔
فلسطینی مقاومتی تحریکوں کی طرف سے انجام پانے
والے معرکۂ طوفان الاقصیٰ کے ساتھ ہی مقبوضہ فلسطین سے یہودی آبادکاروں کی الٹی
نقل مکانی میں اضافہ ہؤا ہے اور صہیونی ذرائع طوفان الاقصیٰ کے بعد سے اب تک سے
بڑی تعداد میں صہیونی-یہودی آبادکاروں کی مقبوضہ اراضی سے الٹی نقل مکانی پر بحث
مباحثے کر رہے ہیں۔
صہیونیوں کے شماریاتی مرکز سے مقبوضہ فلسطین سے واپس
چلے جانے والے غاصب آبادکاروں کے بارے میں شائع ہونے والے اعداد و شمار کا تعلق ان
یہودی افراد اور خاندانوں سے ہے جو طوفان الاقصیٰ کے بعد سنہ 2023ع اور 2024ع کے
دوران مقبوضہ اراضی چھوڑ کر اپنے آبائی ملکوں میں واپس چلے گئے ہیں۔ یہ صورت حال
صہیونیوں کے لئے فکرمندی کا باعث ہے اور صہیونی ذرائع نے اسے "باعث تشویش"
قرار دیا ہے۔
صہیونی اخبار یدیعوت آحارونوت نے رپورٹ دی ہے کہ
سنہ 2023 [کے آخری تین مہینوں] میں 55 ہزار 300 یہودی آباکار مقبوضہ سرزمین چھوڑ
کر چلے گئے ہیں جن میں سے کوئی بھی واپس نہیں آیا ہے اور میں سے کچھ یہودیوں نے
دوسرے ممالک میں مستقل سکونت اختیار کر لی ہے۔ اور صہیونی ذرائع نے اس کم عرصے میں
الٹی نقل مکانی کرنے والوں کی اتنی تعداد عدیم المثال ہے۔ صہیونی شماریاتی مرکز نے
پیش گوئی تھی کہ غزہ پر صہیونی ریاست کی جارحیت کے بعد سنہ 2024 ميں یہ تعداد بڑھ
جائے گی۔ رپورٹوں کے مطابق مغربی ممالک میں فلسطین سے
بھاگنے والے یہودیوں کے مستقل قیام کے لئے قوانین بھی نرم ہو گئے ہیں، جس کی وجہ
سے الٹی نقل مکانی میں اضافے کی توقع ہے۔
مذکورہ شماریاتی مرکز نے رپورٹ دی ہے کہ اس عرصے میں 27
ہزار 800 صہیونی واپس آئے ہیں جو مقبوضہ فلسطین سے نقل مکانی کرنے والے ہر ایک
ہزار کے مقابلے میں 2.9
افراد بنتے ہیں اور اس حساب سے نقل مکانی کرنے والے آبادکاروں کی تعداد آٹھ لاکھ
سے بھی بڑھ کر ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں بڑھ کر ہو، کیونکہ مقبوضہ فلسطین سے آبادکاروں
کے فرار کا سلسلہ ایک لمحے کے لئے نہیں رکا ہے اور مسلسل جاری ہے۔
اعداد و شمار سے ایک دلچسپ نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ الٹی نقل مکانی کرنے والوں میں مردوں کی تعداد
عورتوں سے زیادہ ہے۔
الٹی نقل مکانی کرنے والوں 58.8 فیصد یہودی آباکار مقبوضہ فلسطین سے باہر پیدا ہوئے ہیں اور پھر
مقبوضہ اراضی کے غاصبوں سے آ ملے ہیں، اور 41.2 فیصد مقبوضہ فلسطین میں، پیدا ہوئے ہیں اور درحقیقت ان کے باپ یا
دادا بھی غاصبوں میں شامل تھے۔
مقبوضہ فلسطینی سرزمین سے باہر پیدا ہونے والے 72.3 فیصد وہ یہودی آـادکار حو سنہ 2023ع میں فلسطین چھوڑ کر
واپس چلے گئے ہیں، وہ یہودی ہیں جو دولت مشترکہ کے رکن ممالک (اور برطانوی استعمار
کی سابقہ کالونیوں) میں پیدا ہوئے ہیں۔ 8.7 امریکی شہری، 4.2 فیصد فرانسیسی شہری اور 14.8 فیصد دوسرے ممالک میں پیدا ہونے ہیں۔
مقبوضہ فلسطین سے الٹی نقل مکانی کرنے والے زیادہ
تر یہودی آبادکاروں کی عمریں 25 سے 44 سال کے درمیان ہیں اور یہ عمر گروپ (Age Group) لیبر
مارکیٹ کے لئے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
مقبوضہ فلسطین سے واپس جانے والے یہودی آبادکار اعلیٰ تعلیم یافتہ
ہیں؛ اور ٹیکنالوجی اور معاشیات جیسے شعبوں میں ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں۔
اس سے قبل صہیونی ذرائع نے اعتراف کیا تھا کہ طوفان
الاقصیٰ کے پہلے چھ مہینوں میں پانچ لاکھ
یہودی آباکار مقبوضہ فلسطین سے واپس چلے گئے ہیں۔
مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے زیادہ تر یہودی آبادکار
دوہری شہریت کے حامل ہیں، یا خود کسی دوسرے ملک میں پیدا ہوئے ہیں یا ان کا باپ،
یا ماں یا دادا، نانا، دوسرے ممالک میں پیدا ہوکر مقبوضہ فلسطین میں آ بسے ہیں۔
معرکۂ طوفان الاقصیٰ کے بعد، دوہری شہریت کے
حامل زیادہ تر یہودی آبادکار اپنے ملکوں میں واپس چلے گئے ہیں اور دوسرے ممالک میں
یہودی آبادکاروں کی الٹی نقل مکانی اس وقت صہیونی ریاست کے سرغنوں کے اہم خدشات میں سے ایک ہے۔
سیاسی مسائل کے ماہرین کا کہنا ہے کہ قابض
آبادکاروں کو مقبوضہ سرزمین ترک کرنے پر مجبور کرنا، معرکۂ طوفان الاقصیٰ کے اہم
ثمرات میں سے ایک ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہے تو یہ صہیونی ریاست کی شکست و ریخت
اور زوال کا سبب بن سکتا ہے۔
قُلتُ:
مقبوضہ فلسطین سے دوسرے
ممالک کی طرف صہیونیوں کی الٹی نقل مکانی کے ساتھ ساتھ، شمالی فلسطین سے حزب اللہ
کے حملوں کی وجہ سے اور غزہ کے اطراف کی نوآبادیوں اور قصبوں سے حماس اور جہاد
اسلامی کے حملوں کی وجہ سے، لاکھوں افراد مرکز کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں
اور انہیں ہوٹلوں اور اسکولوں میں ٹہرایا گیا ہے اور یوں 75 برس سے فلسطینیوں کے گھروں
پر قبضہ کرکے انہيں پناہ گزینی کی زندگی گذآرنے پر مجبور کرنے والے صہیونیوں کو پناہ
گزینی کے دن دیکھنا پڑے ہیں۔
جعلی صہیونی ریاست نے
شمالی فلسطین میں صہیونی آبادکاروں کو لوٹانے کے بہانے لبنان پر حملہ کیا، حزب
اللہ کے قائد سید حسن نصراللہ کو شہید کردیا گوکہ اس حملے کا ایک اہم اور پس پردہ
مقصد، نیتن یاہو کے خلاف احتجاج کرنے والے آبادکاروں کی توجہ ہٹانا اور اس کی
سیاسی زندگی کو طول دینا ہے۔
احتجاج کرنے والے صہیونی
آبادکار اب پوچھنے لگے ہیں کہ کیا لبنان پر حملے کے بعد شمالی فلسطین میں بحال ہو
سکا ہے یا نہیں بلکہ حزب اللہ نے اب زیادہ طویل فاصلے پر مار کرنے والے میزائل
داغنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جس کے نتیجے میں مزید نوآبادیوں کو خطرے سے دوچار
کر دیا اور ان علاقوں سے بھی صہیونی آبادکاروں کی نقل مکانی شروع ہو چکی ہے۔
عراق اور یمن کی مقاومت کے
میزائل اور ڈرون حملوں نے جلتی پر تیل کا کام دیا ہے اور ہر حملے کے ساتھ 10 لاکھ
سے زائد آبادکار بھاگ کر شیلٹرز میں پناہ لینے پر مجبور ہیں اور مبصرین کا خیال ہے
کہ یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چلنے کی صورت میں مقبوضہ فلسطین سے آبادکاروں کی الٹی
نقل مکانی میں شدید اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے خیال میں اس غصب شدہ سرزمین میں
مزید غاصبوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ و تکمیل: فرحت حسین
مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110











