اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، غزہ پر مسلط کردہ صہیونی ـ مغربی جنگ کے 311 دن گذرے ہیں،
صہیونی گماشتے اپنے جنگی جرائم کا سلسلہ جاری رکھنے پر بضد ہیں، اور غزہ کے عوام
کو زور زبرستی نقل مکانی پر مجبور کرتے ہیں، اور شہداء کی تعداد میں بھی مسلسل
اضافہ ہو رہا ہے۔
دریں اثناء فارن پالیسی میگزین نے اپنی ایک رپورٹ بعنوان "The Undoing of Israel" لکھا:
گذشتہ کئی عشروں
سے مذکورہ تضادات بار بار صہیونی ریاست میں آشکار ہوتے رہے ہیں، جن کی وجہ سے
اسرائیل کے اپنے [جعلی] معاشرے کو بھی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ہے اور ان مسائل میں
سے کوئی بھی اب تک حل نہیں ہؤا ہے۔ یہاں تک کہ غزہ کی جنگ اور عدالتی بحران کے
بموجب اسرائیل کا راستہ کٹھن ہوچکا ہے اور اس صورت حال نے اس کے شکست کے نقطے پر
لا کھڑا کیا ہے۔
تل ابیب کے اپنے دارالحکومت تل ابیب کا حال بھی ناگفتہ بہ ہے۔ اسرائیل نے ایک غیر لبرل، تشدد آمیز اور تباہ کن کے راستے پر گامزن ہو چکا ہے۔ اگر اس راستے میں تبدیلی نہ آئے، تو اسرائیل کا مستقبل اس سے بھی زيادہ تاریک دور میں داخل ہوگا۔ یہ ایک ایسا دور ہے جس کے سیاسی نظام اور معاشرے کے خد و خال کا تعین غیر لبرل اقدار کے ہاتھ میں ہوگا۔ اسرائیلی حکومت جس ڈگر پر چل رہی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نہ صرف فلسطینیوں کے ساتھ آمرانہ انداز سے پیش آتی ہے بلکہ خود اسرائیلیوں کے مقابلے میں بھی اسی سمت میں بڑھ رہی ہے۔ اسرائیل بہت تیزرفتاری سے اپنے دوستوں کو کھو سکتی ہے اور تنہا رہ سکتی ہے اور وہ دور بہت جلد آ سکتا ہے جب آج کے دوست اسے لات ماریں گے۔ یہ ریاست ہر روز تنہا سے تنہا تر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے اندرون خانہ بھی اس نت نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ریاست بہت جلد تباہی اور شکست و ریخت سے دوجآر ہوگی۔
صہیونیت کا اختتام
طوفان الاقصیٰ نے سات اکتوبر 2023ع کو ایسے حال میں تل ابیب پر کاری ضرب لگا دی کہ وہ پہلے ہی غیر مستحکم ہو چکی تھی۔ سنہ 2019ع اور سنہ 2022ع کے دوران صہیونی ریاست مستحکم کابینہ تشکیل دینے میں ناکام رہی اور اس مختصر سے عرصے میں اسے پانچ مرتبہ پارلیمانی انتخابات منعقد کرانا پڑے۔ آخری انتخابات میں بنیامین نیتن یاہو نے دائیں بازو کی انتہاپسند جماعتوں کے ساتھ مل کر کابینہ تشکیل دی۔ سنہ 2023ع کے آغاز پر نیتن یاہو اور اس کی انتہاپسند کابینہ نے عدالتی اصلاحات کا اعلان کیا جس کا مقصد اسرائیلی سپریم کورٹ کو کمزور کرنا تھا جو کہ صہیونی قوانین کے مطابق اس ریاست کا با اختیار ترین عدالتی ادارہ ہے۔ اس اقدام کی وجہ سے مقبوضہ فلسطین میں طویل المدت تنازعات کھڑے ہوئے اور مقبوضہ سرزمین کے رہائشیوں نے ان تنازعات میں کردار ادا کیا۔
عدالتی اصلاحات کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاج
فارن افیئرز لکھتا ہے:
عدالتی اصاحات کے خلاف احتجاجی تحریک نے اسرائیل کے اندر جمہوریت کے مسئلے کے سلسلے میں اندیشوں کو جنم دیا، لیکن اس تحریک نے لیکن اسرائیل کے قبضے میں رہنے پر مجبور فلسطینیوں کے تئیں اسرائیل کی ذمہ داریوں اور برتاؤ پر کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کے برعکس، مغربی کنارے اور بیت المقدس میں ان کے زیر قبضہ رہنے والے فلسطینیوں پر فوجی قوانین (اور مارشل لا) لاگو کرتا ہے؛ آج تک بننے والی اسرائیلی حکومتوں نے مغربی کناروں میں نوآباد بستیوں کی تعمیر کی تائید کی ہے اور اس کی نگرانی کی ہے اور وہ "مستقبل" میں فلسطینی ریاست کے قیام کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ غزہ پر جنگ مسلط کی ہے اور وہاں 40000 ہزار سے زائد فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل یا تو ان اصولوں کی پابندی سے عاجز ہے جن کی پابندی کا اس نے وعدہ دیا تھا یہ ان ان اصولوں کی پابندی کا ارادہ ہی نہیں رکھتا۔
صہیونی دانشور اور فلسفی یشایاہو لیبووٹز (Yeshayahu Leibowitz) کا خیال ہے: "صہیونیت کا خاتمہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے جتنا کہ بہت سے اسرائیلیوں نے اعتراف کیا ہے۔"
صہیونی ریاست پر جنگ غزہ کے اثرات
فارن افیئرز نے آخر میں لکھا ہے: غزہ کی جنگ نے اسرائیل ـ بالخصوص دائیں بازو اور بائیں بازو کی جماعتوں ـ کے درمیان اختلافات اور فاصلوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ نیز غزہ میں جنگ نے سیکولر یہودیوں اور مذہبی یہودیوں کے درمیان اختلافات کو شدت بخشی ہے اور علاوہ ازیں اس جنگ نے اسرائیلی معیشت کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔ المختصر، غزہ میں جنگ نے اسرائیل کو ایک بڑی شکست سے دوچار کر دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110