24 جولائی 2024 - 22:26
عاشورا، صبر و استقامت کی دعوت، جنت کی بشارت

امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: "یقینا اللہ تعالیٰ نے اذن دیا ہے کہ آج میں اور تم مارے جائیں، (یعنی آج جہاد کا حکم ہم پر لاگو ہو چکا ہے اور شہادت ہماری قسمت میں آئی ہے) چنانچہ تم پر واجب ہے کہ سختیوں پر صبر کرو اور دشمن کے خلاف جہاد کرو"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

حسین بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام) نے فرمایا:

1۔ میری بہن! صبر سے کام لو

"يَا أُخْتَاهْ اِتَّقِي اَللَّهَ وَتَعَزَّيْ بِعَزَاءِ اَللَّهِ وَاعْلَمِي أَنَّ أَهْلَ اَلْأَرْضِ يَمُوتُونَ وَأَنَّ أَهْلَ اَلسَّمَاءِ لاَ يَبْقَوْنَ وَأَنَّ كُلَّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلاَّ وَجْهَ اَللَّهِ؛ [1]

میری بہن! تقوائے الٰہی پر کاربند رہنا، اور اللہ کی مدد سے صبر و استقامت سے کام لینا، جان لو کہ زمین کے تمام رہنے والے مریں گے اور آسمان والے باقی نہیں رہیں گے، اور ہر چیز ہلاک اور فنا ہوگی سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات با برکات کے"۔

2- مصیبتوں کے لئے کمر باندھو اور صبر کا دامن تھامے رکھو

"اِسْتَعِدُّوا لِلْبَلاءِ وَاعْلَمُوا أنَّ اللَّهَ تَعَالَى حَامِيكُم وَحَافِظُكُمْ وَسَيُنْجِيكُمْ مِنْ شَرِّ الْأَعْدَاءِ وَيَجْعَلُ عَاقِبَةَ أمْرِكُم إِلَى خَيْرٍ وَيُعَذِّبُ عَدُوَّكُمْ بِأَنْوَاعِ الْعَذابِ وَيُعَوِّضُكُمْ عَنْ هَذِهِ الْبَلِيَّةِ بِأَنْوَاعِ النِّعَمِ وَالكَرَامَةِ فَلَا تَشُكُّوا وَلَا تَقُولُوا بِألْسِنَتِكُمْ مَا يَنْقُصُ قَدْرَكُم؛ [2]

سختیوں کے لئے تیاری کرو، اور جان لو کہ اللہ تمہارا حامی اور پشت پناہ اور حافظ و نگہبان ہے، اور وہ بہت جلد، تمہیں تمہارے دشمنوں کے شر سے نجات دے گا، اور آپ کا انجام کاربخیر فرمائے گا؛ اور تمہارے دشمن کو مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا فرمائے گا اور تمہیں اس آزمائشوں اور مصیبتوں کے عوض مختلف النوع نعمتوں اور عظمتوں اور کرامتوں سے نوازے گا؛ چنانچہ شکوہ شکایت نہ کرو اور ایسی بات زبان پر نہ لاؤ جو تمہاری قدر و قیمت کم کر دے"۔

یہ جملے امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے بہنوں اور حرم کی بیبیوں سے وداع کرتے ہوئے ادا فرمائے۔

3۔ جہاد تمہارا فریضہ اور شہادت تمہاری قسمت

"إِنَّ اَللَّهَ تَعَالَى اَذِنَ فِي قَتْلِكُم وَقَتْلِي فِي هَذَا اليَوْمِ فَعَلَيْكُمْ بِالصَّبْرِ وَالْقِتَالِ؛ [3]

یقینا اللہ تعالیٰ نے اذن دیا ہے کہ آج میں اور تم مارے جائیں، (یعنی آج جہاد کا حکم ہم پر لاگو ہو چکا ہے اور شہادت ہماری قسمت میں آئی ہے) چنانچہ تم پر واجب ہے کہ سختیوں پر صبر کرو اور دشمن کے خلاف جہاد کرو"۔

4۔ جنت کی وسعتوں اور دائمی نعمتوں کی خوشخبری

"صَبْراً بَنِي الْكِرَامِ فَمَا اَلْمَوْتُ إِلاَّ قَنْطَرَةٌ تَعَبُرُ بِكُم عَنِ البُؤسِ وَالضَّرّاءِ إلَى الْجِنانِ الواسِعَةِ والنَّعِيمِ الدَّائِمَةِ فَايُّكُم يَكْرَهُ أن يَنتَقِلَ مِن سِجْنٍ إِلَى قَصْرٍ؛ [4]

اے بزرگوں کے فرزندو! صبر و استقامت اختیار کئے رکھو، کیونکہ موت کچھ بھی نہیں ہے سوا اس پل کے، جو تمہیں سختیوں، ملالتوں اور رنجوں سے گذار دے گی اور وسیع جنت اور دائمی ابدی نعمتوں سے ہم کنار کرے گی، اور کون ہے تم میں سے جو قیدخانے [دنیا] سے محل [جنت] میں منتقل نہ ہونا چاہے"۔

5۔ اے بزرگو! جنت کے دروازے کھل گئے ہیں

یزیدی لشکر نے خیام حسینیؑ پر بارش کے قطروں کی مانند بکثرت تیر برسائے، اور ایک روایت کے مطابق، خیموں میں کم ہی کوئی ہوگا جس کو یزیدیوں کا پھینکا ہؤا کوئی تیر نہ لگا ہواور امام حسین (علیہ السلام) نے اسی صورت حال میں اپنے اصحاب کو "کرام" (بزرگان) کا خطاب دیتے ہوئے فرمایا:

"وَلَمَّا فَرَغَ الحُسَينُ مِنَ الصَّلاةِ قَالَ لِأَصْحَابِهِ يَا كِرَامُ هَذهِ الْجَنَّةُ قَدْ فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَاتَّصَلَتْ أَنْهَارُهَا وَأَيْنَعَتْ ثِمَارُهَا وَهَذا رَسُولُ اللَّهِ وَالشُّهَدَاءُ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَتَوَقَّعُونَ قُدُومَكُمْ وَيَتَبَاشَرُونَ بِكُمْ فَحَامُوا عَنْ دِينِ اَللَّهِ وَدِينَ نَبِيِّهِ وَذُبُّوا عَنْ حَرَمِ اَلرَّسُولِ فَقَالُوا نُفُوسُنَا لِنَفْسِكَ اَلْفِدَاءُ وَدِمَاؤُنَا لِدَمِكَ الوِقاءُ فَوَاللَّهِ لَا يَصِلُ إِلَيْكَ وَإِلَى حَرَمِكَ سُوءٌ وَفيْنا عِرْقٌ يَضْرِبُ؛ [5]

اور جب امام حسین (علیہ السلام) نماز سے فارغ ہوئے تو اپنے اصحاب سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے کریمو! اے بزرگو! یہ لیجئے جنت کے دروازے جو [تمہارے لئے] کھل گئے ہیں، اس کی نہریں جاری ہو گئی ہیں، اور اس کے پھل پک چکے ہیں، اور یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور وہ شہید ہیں جو اللہ کی راہ میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں، اور تمہارے چشم براہ ہیں، اور مشتاقانہ انداز سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں؛ چنانچہ تم اللہ کے دین اور اس کے رسولؐ کے دین کی حمایت اور پشت پناہی کرو، اور اللہ کے رسولؐ کے حرم و خاندان سے، دشمنوں کو دور کر؛ تو اصحاب نے عرض کیا: ہماری جانیں آپ کی جان پر قربان ہیں، اور ہمارا خون آپ کے خون کا نگہبان ہے؛ اللہ کی قسم! جب تک کہ ہماری رگیں دھڑکتی ہیں [اور جب تک کہ ہماری رگوں میں خون جاری ہے] آپ کو اور آپ کے حرم کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچنے دیں گے"۔

6۔ صبر کرو چچازاد بھائیو

امام حسین (علیہ السلام) نے یزیدی لشکر پر اجتماعی حملہ کرنے والے کئی ہاشمی جوانوں کو دیکھ کر انہیں صبر کی تلقین دیتے ہوئے فرمایا:

"صَبْراً عَلَى الْمَوْتِ يَا بَنِي عُمُومَتِي وَاللَّهِ لَا رَأيْتُمْ هَوَاناً بَعْدَ هَذَا اليَوْمِ؛ [6]

اے میرے چچا زاد بھائیو! موت پر صبر کرو، اللہ کی قسم! آج [شہادت پانے] کے بعد کبھی بھی خواری نہیں دیکھو گے"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[1]۔ ابو مخنف، لوط بن یحیی الازدی الغامدی الکوفی، وقعۃ الطف (مقتل ابی مخنف)، ص201؛ شیخ مفید، محمد بن محمد العکبری البغدادی، الارشاد في معرفۃ حجج الله على العباد، ج2، ص94۔

[2]۔ المُقَرَّم، سید عبدالرّزاق بن محمد موسوی، مقتل الحسين (علیہ السلام)، ص281۔

[3]۔ المقرم، مقتل الحسین (علیہ السلام)، ص230؛ ابن قولویہ، جعفر بن محمد القمی، كامل الزيارات، ص73؛ المسعودی، علی بن حسین، إثبات الوصیّۃ، ص139۔ 

[4]. شیخ صدوق، محمد بن علي بن بابویہ القمی، معانی الأخبار، ص289؛ شیخ صدوق، عِلَلُ الشرائع، ج1، ص218؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص297۔

[5]۔ مقرم، مقتل الحسین (علیہ السلام)، ص251؛ فاضل دربندی، شيخ آغا بن عابد شیروانی الحائری، اکسیر العبادات فی اسرار الشہادات (اسرار الشہادہ)، ج2، ص357۔

[6]. المُقَرَّم، مقتل الحسين (علیہ السلام)، ص267؛ طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج6، ص256؛ الخوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین (علیہ السلام)، ج2، ص78؛ سید بن طاؤس، علی بن موسی الحسنی الحسینی، اللہوف علیٰ قتلی الطفوف، ص64۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحقیق و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110