اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

18 جون 2024

11:29:50 PM
1466314

عید الأضحی؛

ابراہیم علیہ السلام کی قربانی قرآن اور توریت کی روشنی میں: اسماعیلؑ یا اسحاقؑ؟ / اہم تحریر

یہاں یہ سمجھنا ممکن ہو جاتا ہے کہ قربانی کی نسل میں رکھی گئی برکتوں کا تعلق اسماعیل (علیہ السلام) سے ہے، اور یہ اس بات کی بہت اہم بڑی دلیل ہے کہ اللہ نے ان کی نسل سے چلنے والی امت کو وسیع کر دیا ہے اور آج مسلمان پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور وسیع سرزمینوں کے مالک ہیں۔ جبکہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی نسل کہلوانے والوں کی مجموعی آبادی بھی بہت کم ہے، یہ لوگ ظالم اور غاصب بھی ہیں،انسانیت کے دشمن بھی ہیں اور نسل پرست بھی ہیں چنانچہ ان کا دنیا بھر میں پھیلاؤ عقلی لحاظ سے بھی ممکن نہیں ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 
مختصر جواب:

توریت میں بیان ہؤا ہے کہ "اسحاقؑ" کو قربان گاہ لے جایا گیا، اسماعیلؑ کو نہیں؛ لیکن قرآن اور عقل کی گواہی ہے کہ وہ اسماعیلؑ تھے۔ قرآن کے بیان کے شواہد یہ ہیں:

1۔ توریت کے متن میں عبارت "تیرا اکلوتا بیٹا"، آئی ہے جو اسحاقؑ کی قربانی سے سازگار نہیں ہے کیونکہ وہ اسماعیلؑ کے دوسرے بھائی اور ان سے 14 سال چھوٹے تھے۔ چنانچہ "واحد فرزند" اسماعیلؑ ہی تھے کیونکہ اس وقت اسحاقؑ پیدا نہیں ہوئے تھے؛ چنانچہ یہ اسماعیلؑ ہی ہیں جنہیں قربانگاہ لے جایا گیا۔

2۔ قرآن اور توریت کے بیانات کے مطابق قربان ہونے والے کو بابرکت نسل دی گئی ہے اور اسماعیلؑ ہی تھے جن کی نسل میں دنیا والوں یے لئے برکتیں ودیعت رکھی گئی ہیں؛ اور گوکہ اسحاقؑ نبی اللہ اور قابل تعظیم و تکریم ہیں لیکن ان کی نسل (بنی اسرائیل) عالم، اقوام عالم اور دنیا کے ممالک کے لئے بدبختی، تباہی اور کشت و خون کا سبب بنتی آئی ہے۔

تفصیلی جواب:

توریت کی سِفرِ پیدائش کے باب نمبر 22 میں بیان ہؤا ہے:

"ان باتوں کے بعد یُوں ہوا کہ خُدا نے ابراہیمؑ کو آزمایا اور اسے کہا اے ابراہیمؑ! انھوں نے کہا لبیک! کہا۔ تب اس نے کہا کہ تُو اپنے بیٹے، جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تُو پیار کرتا ہے یعنی اسحاقؑ، کو ساتھ لیکر موریا کی سرزمین میں جا اور وہاں اسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جَو میں تجھے بتاؤنگا سوختنی قُربانی کے طَور پر چڑھا۔ جب اس مقام پر پہنچے جو خدا نے انہیں بتایا تھا تو انھوں نے ایک مذبح [مقام ذبح] تیار کیا اور سوختنی لکڑیاں چُنیں اور اسحاق کو باندھ کر مذبح میں لکڑیوں کے اوپر رکھا۔ تو ابراہیمؑ نے اپنا ہاتھ پھیلایا اور چھری اٹھا لی تاکہ بیٹے کو ذبح کریں۔ کہ اسی حال میں خدا کے فرشتے نے آسمان سے ندا دی اور کہا: اے ابراہیم! بولے: لبیک! کہا: اپنا ہاتھ بیٹے کی طرف مت پھیلا اور بیٹے پر مت چلا، کیونکہ اب میں جان گیا کہ تو خدا سے ڈر تا ہے اس لئے کہ تُو نے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اِکلوتا ہے مُجھ سے دریغ نہ کِیا۔

اور پھر ابراہیمؑ نے نگاہ اٹھائی اور اپنے پیچھے ایک مینڈھا دیکھا جِس کے سِینگ جھاڑی میں اٹکے تھے۔ تب ابراہیم نے جا کر اُس مینڈے کو پکڑا اور اپنے بیٹے کے بدلے سوختنی قُربانی کے طور پر چڑھایا۔۔۔ اور خدا کے فرشتے نے ابراہیمؑ کو پکارا اور کہا کہ: خدا فرماتا ہے چونکہ تو نے یہ کام کِیا کہ اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے دریغ نہ رکّھا، اس لئےمیں نے بھی اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ میں تجھے برکت پر برکت دونگا اور تیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں اور سمندر کے کنارے کی ریت کی مانِند کر دونگا اور تیری اَولاد اپنے دشمنوں کے پھاٹکوں کی مالِک ہوگی۔ اور تیری ذریت کے وسیلے سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی کیونکہ تُو نے میری بات مانی"۔

یہ [تحریف سے دوچار کتاب میں مندرجہ یہ] منظرنامہ یہودی نقطۂ نظر کی بنیاد پر لکھا گیا اور اس کے ہیرو اسحاقؑ ہیں، اور کوشش ہوئی ہے کہ بنی اسرائیل کو کسی طرح اس قصے کے اندر گھسیڑ دیا جائے، جس سے بنی اسرائیلیوں کی اس شدید خواہش کا اظہار ہوتا ہے کہ اپنے اپنے باپ اسحاقؑ کو اس عظیم قربانی کا مصداق قرار دیا جائے، جس نے اطاعت پروردگار کے راستے میں جان بکف ہوئے اور "اس" کی نسل میں برکت قرار دی گئی!

لیکن عبارت ""تیرا اکلوتا بیٹا" ـ جو اطاعت الٰہیہ کی راہ میں میں ابراہیمؑ کی پاکبازی کی علامت ہے ـ اسحاقؑ کی قربانی سے سازگار نہیں ہے کیونکہ وہ اسماعیلؑ کے دوسرے بھائی اور ان سے 14 سال چھوٹے تھے۔ چنانچہ "واحد فرزند" اسماعیلؑ ہی تھے کیونکہ اس وقت اسحاقؑ پیدا نہیں ہوئے تھے؛ چنانچہ یہ اسماعیلؑ ہی ہیں جنہیں قربانگاہ لے جایا گیا۔

دوسرا شاہد یہ ہے کہ قرآن اور توریت کے بیانات کے مطابق قربان ہونے والے کو بابرکت نسل دی گئی ہے جو اسماعیلؑ ہی ہیں جن کی نسل میں دنیا والوں یے لئے برکتیں ودیعت رکھی گئی ہیں؛ اور اور گوکہ اسحاقؑ نبی اللہ اور قابل تعظیم و تکریم ہیں لیکن ان کی نسل (بنی اسرائیل) عالم، اقوام عالم اور دنیا کے ممالک کے لئے بدبختی، تباہی اور کشت و خون کا سبب بنتی آئی ہے۔ قرآن کریم اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے جہاں ارشاد ہوتا ہے:

"فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ * فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ * فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ * وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ * قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ * إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ * وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ * وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآَخِرِينَ * سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ * كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ * إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ * وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ * وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِنَفْسِهِ مُبِينٌ؛ (1)

چنانچہ ہم نے انہیں ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی * پھر جب وہ ان کے ساتھ کام کاج کی عمر کو پہنچا تو کہا: اے بیٹا! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، پس دیکھ لو تمہاری کیا رائے ہے، اس نے کہا : اے ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے * پس جب دونوں نے (حکم خدا کو) تسلیم کیا اور اسے ماتھے کے بل لٹا دیا * تو ہم نے ندا دی: اے ابراہیم! * تو نے خواب سچ کر دکھایا، بے شک ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں * یقیناً یہ ایک نمایاں امتحان تھا * اور ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا * اور ہم نے آنے والوں میں ان کے لیے (ذکر جمیل) باقی رکھا * ابراہیم پر سلام ہو  * ہم نیکو کاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں * یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے * اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق کی بشارت دی کہ وہ صالحین میں سے نبی ہوں گے * اور ہم نے ان پر اور اسحاق پر برکات نازل کیں، ان دونوں کی اولاد میں نیکی کرنے والا بھی ہے اور اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والا بھی ہے"۔

ان آیات کریمہ میں ابراہیم (علیہ السلام) کو دی گئی پہلی خوشخبری ایک بردبار بیٹے کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیمؑ کا اس وقت تک کوئی بیٹا نہیں تھا۔

دوسری خوشخبری بالکل واضح طور پر، اور نام کے ساتھ ہے اسحاقؑ کی پیدائش کی ہے جو صالحین میں سے ہیں، یعنی پہلی خوشخبری ایک بیٹے کی ہے جو اسحاقؑ نہیں ہے، چنانچہ وہ اسماعیلؑ ہی ہے۔

توریت کی سِفرِ پیدائش کے باب نمبر 21 میں بھی ابراہیم (علیہ السلام) کو دو نسلوں کی بشارت دی گئی ہے ایک نسل جو اسماعیلؑ سے اور ایک نسل جو اسحاقؑ سے، چلے گی۔ اس باب کی آیت 12 میں مذکور ہے کہ " اِسحاق سے تیری نسل کا نام چلے گا"، اور آیت نمبر 13 میں بیان ہؤا ہے کہ " "اس لونڈی [ہاجر] کے بیٹے سے بھی میں ایک امت پیدا کروں گا اِس لئے کہ وہ تیری نسل ہے"۔

یہیں سے یہ بات قابل فہم ہو جاتی ہے کہ جو وسیع اور ہمہ گیر برکتیں قربانی کی نسل میں قرار دی گئی ہیں ان کا تعلق صرف اور صرف حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے ہے، اور یہ اس بات کی بہت اہم بڑی دلیل ہے کہ خدائے متعال نے ان کی نسل سے چلنے والی امت کو وسیع و عریض کر دیا ہے اور آج مسلمان پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور وسیع سرزمینوں کے مالک ہیں۔ جبکہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی نسل کہلوانے والوں کی مجموعی آبادی بھی بہت کم ہے، یہ لوگ ظالم اور غاصب بھی ہیں،انسانیت کے دشمن بھی ہیں اور نسل پرست بھی ہیں چنانچہ ان کا دنیا بھر میں پھیلاؤ عقلی لحاظ سے بھی ممکن نہیں ہے۔

*****

اسماعیل یا اسحاق؟

1۔ یہودی اور عیسائی علما اسحاقؑ کو ابراہیمؑ کی قربانی کے طور پر متعارف کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔

2۔ حتیٰ کہ پولس (یا پولوس = Paul)  ـ جو ایک ہی رات میں یہودیت سے عیسائیت میں آیا اور عیسائیت میں یہودی پیشہ شخص کا کردار ادا کرتا رہا ہے، کہتا ہے:

وہ لونڈی زادہ (یعنی اسماعیلؑ فرزندِ ہاجر) آزاد عورت کے بیٹے (یعنی اسحاقؑ فرزندِ سارہ) کے ساتھ برابر نہیں ہے۔ (عہد، غلاطیون کے نام پولس کا خط، باب نمبر 4، 22 سے 31)

3۔ یاد رہے کہ پولس نے یہ دعویٰ ایسے وقت اور ایسے مقام پر اور ایسی ثقافت اور رہن سہن کی ایسی روشوں میں کیا ہے جہاں حتیٰ کہ اسماعیلؑ کی اولاد میں سے ایک فرد بھی نہیں تھا۔ (غور کیجئے)

4۔ پولس کے اس کلام نے ایک تاریخی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے جو بوضوح بتاتی ہے کہ پولس کا خطاب غیر متعصب عیسائیوں سے ہے جو اپنے ہاں کے دستیاب مکتوبات اور تحریروں کی رو سے، اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا تعلق نسلِ اسماعیلؑ سے ہے نہ کہ نسلِ اسحاقؑ سے۔

5۔ لگتا ہے کہ حضرت عیسی (علیہ السلام) کے ساتھ یہودیوں کی شدید مخالفت اور انہیں قتل کرنے کی یہودی سازشوں کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے پیغمبر موعود (صلی اللہ علیہ و الہ) کی تشریف آوری کی خوشخبری دی تھی اور ان کی نسل اور نسب کو واضح کیا تھا اور فرمایا تھا کہ احمد (صلی اللہ علیہ و الہ) اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں۔ (2)

*****

1۔ سورہ صافات، آیت 101 تا 113۔

2۔  (رضا مصطفوی، التیام (فرجام‌شناسی جریان‌های تاریخ = تاریخ کے دھاروں کی فرجامیات [Eschatology])، ص45-46)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔

110