اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
ہفتہ

8 جون 2024

5:50:32 PM
1464217

بسلسلۂ شہادت امام جواد(علیہ السلام)؛

حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام سے مروی حدیث کی مختصر تشریح

امام محمد تقی الجواد علیہ السلام نے فرمایا: "جو بھی کسی بولنے والے [مقرر وغیرہ] کی بات سنے، اس نے اس کی پرستش کی ہے، چنانچہ اگر بولنے والے کا کلام خدا کی طرف سے ہو، تو سننے والے خدا کی بندگی اور پرستش کی ہے اور اگر وہ ابلیس کی زبان سے بول رہا ہے تو یقینا ابلیس کی پرستش کی ہے"۔

مسلمانوں کے نویں امام حضرت امام محمد تقی الجواد (علیہ السلام) سے زندگی کے معاملات میں کامیابی اور اہم فیصلوں کے حوالے سے متعدد فرامین منقول ہوئے ہیں، جن میں سے کچھ منتخب فرامین حسب ذیل ہیں:

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

"يَا عِبَادِ فَاتَّقُونِي * وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوٓا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فَبَشِّرْ عِبَادِ * الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُوْلَـٰٓئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمْ أُوْلُو الْأَلْبَابِ؛ [1]

تو ڈرو تم مجھ سے *  اور جنہوں نے باطل معبودوں سے پرہیز کیا کہ وہ ان کی عبادت کریں اور اللہ سے لو لگائی ان کے لئے خوشخبری ہے تو دے دو خوش خبری میرے ان بندوں کو * جو بات غور سے سنتے ہیں تو جو اس کا بہترین جزء ہے، اس کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کی اللہ نے خاص طور پر راہنمائی فرمائی ہے اور یہ ہیں صاحبان عقل"۔

خدائے سبحان نے اس آیت کریمہ میں حکم بھی دیا، بشارت بھی دی؛ فرمایا مختلف اقوال اور آراء کا جائزہ لو، اور ان میں سے بہترین کو چن لو، اور امام جواد (علیہ السلام) بھی ایسی ہی آیات کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے ہمیں فرمان دیا کہ: خیال رکھنا تم جس کسی کا کلام بھی سنتے ہو، جس کسی کی کتاب، مضمون، اخبار، ہفتہ نامہ، سہ ماہی یا جو کچھ بھی پڑھتے ہو، اگر صرف جائزہ لینے کی حد تک ہو تو حرج نہیں، لیکن ایسی صورت میں تمہیں تجزیئے کی صلاحیت اور تحقیق کی اہلیت سے کا مالک ہونا چاہئے۔ کہ اگرایسی صلاحیت کے مالک ہو اور ساتھ ہی ایسا مقصد تمہارے پیش نظر ہے، تو قابل توجیہ ہے لیکن اگر آنکھیں بند کرکے متابعت کرو گے تو اس کے غلام بن جاؤ گے۔

بعض اوقات انسان کی کی بات سنتا ہے لیکن آنکھیں بند کرے پیروی کا ارادہ نہیں رکھتا، اور بعض ازاں جا کر خود تحقیق کرنا چاہتا ہے، تو یہ اچھی بات ہے؛ لیکن اگر ابتداء ہی سے کسی کی بات سن کر اس کا پیرو بننا چاہے تو امام جواد (علیہ السلام) کا ارشاد ہے:

"مَنْ أَصْغى إِلى ناطِق فَقَدْ عَبَدَهُ، فَإِنْ كانَ النّاطِقُ عَنِ اللّهِ فَقَدْ عَبَدَ اللّهَ وَإِنْ كانَ النّاطِقُ يَنْطِقُ عَنْ لِسانِ إِبْليسَ فَقَدْ عَبَدَ إِبْليسَ؛ [2]

جو بھی کسی بولنے والے [مقرر وغیرہ] کی بات سنے، اس نے اس کی پرستش کی ہے، چنانچہ اگر بولنے والے کا کلام خدا کی طرف سے ہو، تو سننے والے خدا کی بندگی اور پرستش کی ہے اور اگر وہ ابلیس کی زبان سے بول رہا ہے تو  یقینا ابلیس کی پرستش کی ہے"۔

اگر وہ بولنے والا حق گو اور لکھنے والا حق نویس ہو، تو اس شخص نے حق کی پرستش کی ہے، اور حق خدا ہے؛ اور اگر باطل نویس ہو تو اس نے ابلیس کی پوجا کی ہے۔ یہیں سے آیت کریمہ "فَبَشِّرْ عِبَادِ * الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ" کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ یعنی یہ کہ میرے ان بندوں کو خوشخبری دو جو مختلف مکاتب کے مختلف اقوال و آراء کا جائزہ لیتے ہیں، لیکن ہر بات کو قبول نہیں کرتے بلکہ سنتے ہیں تحقیق کے لئے، یا خود تحقیق کرتے ہیں یا پھر محققین کی تحقیقات سے استفادہ کرتے ہیں اور بہترین قول کا اتباع کرتے ہیں۔ 

احسن اور اقویٰ کلام خدا کا ہے، چنانچہ جب خدا بولتا ہے تو سن لو، اور خاموش رہو:

"وَإِذَا قُرِئَ ٱلۡقُرۡءَانُ فَٱسۡتَمِعُواْ لَهُۥ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُونَ؛ [3]

اور جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو توجہ سے سنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر رحمت ہو"۔

گویا، آخری بات قرآن کی بات ہے، اور معیار اور میزان اللہ کا کلام ہے، چنانچہ خاموش رہو، غور سے سنو اور کسی بھی سنی سنائی بات کو اس معیار و میزان پر پرکھ لو، اگر قرآن کے مطابق ہو تو اس کا اتباع کرو، ورنہ اسے ترک کر دو۔

حکم ہے کہ قرآن جو کہے، سن لو اور عمل کرو، اور کسی بھی دوسرے کلام کے بارے میں ایسا حکم نہیں آیا ہے اور حتیٰ کہ پیغمبر اکرم اور اہل بیت طاہرین (علیہم السلام) کے کلام کے لئے بھی معیار قرآن ہے، جو اگر قرآن کے موافق نہ ہو تو معتبر نہیں ہے۔

امام جواد (علیہ السلام) نے محققین کے لئے بھی راستے کا تعین کیا اور فرمایا کہ جب تم تحقیق کرتے ہو، یا کتاب کا مطالعہ کرتے ہو یا کسی کی تقریر سنتے ہو تو یہ ہنر بھی تمہارے پاس ہونا چاہئے کہ ہر بات کا اعتبار نہ کرو بلکہ تحقیق کرو اور اگر درست ہے تو قبول کرو۔

امام جواد (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"إعلَم أنَّكَ لَن تَخلُوَ مِن عَينِ اللّه ِ فَانظُر كَيفَ تَكُونُ؛ [4]

جان لو کہ تم اللہ کی نظروں سے نہاں نہیں ہو، تو دیکھ لو، کیسے ہو [اور کیا ہو]"۔

یعنی تم جہاں بھی ہو، جان لو، کہ خدا کی نظروں سے دور نہیں ہو، ہمیشہ اللہ کی نظروں کے سامنے ہے۔ یعنی یہ کہ ہمیں ضرورت ہے اس بات کی کہ ایک تحقیق ہمارے باطن کے بارے میں بھی ہمارے اندر ہی سے انجام کو پہنچے۔

ریاکاروں کا انجام (آیت اللہ آقا مجتبیٰ کی نگاہ میں)

وہ لوگ جو لوگوں کے سامنے مصلا دھوتا نظر آتا ہے، اور پس پردہ گناہ کرتا ہے۔

"رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍ اَلْجَوَادِ عَلَيْهِمَا اَلسَّلاَمُ قَالَ: لاَ تَكُنْ وَلِيّاً لِلَّهِ فِي اَلْعَلاَنِيَةِ عَدُوّاً لَهُ فِي اَلسِّرِّ؛ [5]

امام علی بن محمد بن علی جواد (علیہما السلام) سے مروی ہے کہ: اعلانیہ طور پر اللہ کے دوست جبکہ خفیہ طور پر اس کے دشمن مت بنو"۔

انسان کو درپیش رذیلتوں اور پستیوں میں سے ایک، جو کہ ہماری احادیث میں کفر سے بھی زیادہ مذموم ہے، نفاق (یا منافقت) اور ریاکاری ہے جسے فارسی میں "دو روئی" کہتے ہیں اور اردو میں اسے "دو چہرگی" کہا جا سکتا ہے۔ نفاق کبھی مخلوقات کے تعلق سے ہوتا ہے؛ مثال کے طور پر انسان لوگوں کے ساتھ منافقانہ تعلق بنا دے، ظاہر میں دوستی کا اظہار کرے اور پیٹھ پیچھے دشمنی کرے (بغل میں چھری منہ میں رام رام)، لیکن کبھی یہ خالق کے تعلق سے ہوتا ہے، مخلوق کے تعلق سے نہیں؛ یعنی منافق انسان آگے بڑھ کر اپنے خالق کے ساتھ منافقانہ رویہ اختیار کرے، کس لئے؟ اس لئے کہ مخلوقات کا استحصال کر سکے۔

امام جواد (علیہ السلام) اس مختصر سی حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں: "لاَ تَكُنْ وَلِيّاً لِلَّهِ فِي اَلْعَلاَنِيَةِ عَدُوّاً لَهُ فِي اَلسِّرِّ" تم ان لوگوں کے زمرے میں شامل مت ہونا جو جلوت میں (یعنی ظاہری طور پر) خدا کے دوستوں کے طور دوستی کی اداکاری کرتے ہیں کہ گویا دیندار اور نیک انسان ہیں، لیکن خلوت میں گناہ کرتے ہیں اور خدا کے دشمن ہیں۔ خلوت میں گناہ خدا کے ساتھ دشمنی ہے اور ایسا شخص بدترین انسان ہے جو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے مُصَلّیٰ (جائے نماز) لہراتا رہتا ہے اور آنکھوں سے اوجھل ہو کر گناہ کرتا ہے۔

امام محمد تقی الجواد (علیہ السلام) فرماتے ہیں یہ لوگ وہ ہیں جنہیں قیامت میں کفار سے بھی شدید انجام کا سامنا ہوگا۔

ایسا نہیں ہے کہ کفار میدان حشر میں داخل ہوتے ہی دوزخ میں داخل ہونگے، غلطی سے بچ کے رہنا؛ کیوں کہ کچھ کفار مستضعف ہیں، اور ابھی تک حق و حقیقت سے دور رہے ہیں، اور حقائق سے آگاہ نہیں ہیں۔ اگرچہ ممکن ہے کہ حق کا نعرہ اسے بھی سنائی دیا ہو لیکن کسی نے اس کے لئے کی تشریح نہیں کی ہے۔

بعض احادیث میں ہے کہ موت کے وقت حق کو اس کے سامنے لایا جاتا ہے، اور اگر قبول کرے تو یہی کافر جنت جائے گا؛ اگر قبول نہ کرے تو معلوم ہوتا کہ خدا کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے چنانچہ اس کا راستہ جہنم پر منتج ہوگا۔ لیکن منافق ایسا نہیں ہے، اور منافقین کا انجام کافروں سے بدتر ہے۔

قرآن کریم میں منافقین کی مذمت پر مبنی متعدد آیات نازل ہوئی ہیں۔ قرآن نے منافقوں کے سلسلے میں "الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ" [6] اور "الْمُنَافِفِينَ وَالْمُنَافِقَاتُ" [7] جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں جبکہ کافرین و کافرات کا توأم تذکرہ کہیں نہیں آیا ہے اور صرف کافر، کفار، کافرین اور کافرون جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ چنانچہ انسان کو خیال رکھنا چاہئے تاکہ معاشرے میں دینی لحاظ سے، ویسا ہی دکھائے جیسا کہ وہ ہے، اور ویسا ہی کہلوائے جیسا کہ وہ ہے، کیونکہ بصورت دیگر، اس کا عمل نفاق (منافقت) کے زمرے میں آتا ہے"۔

لوگوں کے ساتھ خط و کتابت

امام محمد تقی الجواد (علیہ السلام) خطوط کے ذریعے بھی لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے، کیونکہ حکومتی مشینری کی طرف سے گھٹن کی فضا قائم تھی اور لوگوں کے ساتھ براہ راستہ رابطہ رکھنا، آپؑ کے لئے ممکن نہیں تھا۔

قم، اہواز، سیستان اور بُست جیسے شہروں میں آپؑ کے وکلا تعینات تھے اور آپؑ ان کے توسط سے لوگوں کے خطوط اور سوالات موصول کرتے تھے اور سوالات کا جواب ان ہی وکلا کے توسط سے بھجوا دیتے تھے۔ امامؑ لوگوں کے پوچھے گئے علمی اور دینی سوالات کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ، آپ بعض سوالات و مسائل کے جواب میں اہل بیت (علیہ السلام) کی سیرت اور دین مبین کے احکام کی تشریح بھی فرماتے تھے۔

دین و ولایت کے مخالف شخص کو امامؑ کا جواب

"عَنْ بَكْرِ بْنِ صَالِحٍ قَالَ كتَبَ صِهْرٌ لِي إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ اَلثَّاني صَلَواتُ اللَّهِ عَلَيْهِ إنَّ أبِي نَاصِبٌ خَبِيثُ الرَّأْيِ وَقَدْ لَقِيتُ مِنْهُ شِدَّةً وجَهْداً فَرَأْيُكَ جُعِلْتُ فِدَاكَ فِي اَلدُّعَاءِ لِي وَمَا تَرَى جُعِلْتُ فِدَاكَ أَفْتَرِى أَنْ أُكَاشِفَهُ أَمْ أُدَارِيَهُ فَكَتَبَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَدْ فَهِمْتُ كِتابَكَ وَمَا ذَكَرْتَ مِنْ أَمْرِ أبِيكَ وَلَسْتُ أَدَعُ الدُّعَاءَ لَكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ وَالْمُدَارَاةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ المُكاشَفَةِ وَمَعَ العُسْرِ يُسْرٌ فَاصْبِرْ فَإِنَّ الْعَاقِبَة لِلْمُتَّقِينَ ثَبَّتَكَ اللَّهُ عَلَى وِلايَةِ مَنْ تَوَلَّيْتَ نَحْنُ وَأَنْتُمْ فِي وَدِيعَةِ اَللَّهِ اَلَّذِي لَا تَضِيعُ وَدَائِعَهُ قَالَ بَكْر فَعَطَفَ اَللَّهُ بِقَلْبِ أَبِيهِ عَلَيْهِ حَتَّى صَارَ لَا يُخَالِفُهُ فِي شَيْئٍ؛ [8]

بکر بن صلاح کہتے ہیں: میرے داماد نے امام جواد (علیہ السلام) کو خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا: 'میرا باپ بہت خبیث ناصبی است جس کی وجہ سے مجھے شدید رنج و تکلیف سے دوچار ہوں، تو آپ کی رائے کیا ہے میں آپ پر فدا ہو جاؤں، کہ تو میرے لئے دعا کریں، اور آپ کی کیا رائے ہے میں آپ پر فدا ہو جاؤں، کیا آپ کی رائے یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کروں یا یاا رواداری سے کام لوں؟ تو امام جواد (علیہ السلام) نے مرقوم فرمایا: میں تمہارے خط کو سمجھ گیا اور وہ کچھ جو تم نے اپنے باپ کے حوالے سے بیان کیا اور میں تمہارے لئے دعا کرنا ترک نہیں کروں گا ان شاء اللہ، اور رواداری تمہارے لئے لڑنے جھگڑنے سے بہت بہتر ہے، تو صبر سے کام لو، اور ہر سختی کے ساتھ آسانی اور فراخی ہے، اور یقینا پسندیدہ انجام پرہیز گاروں ہی کے لئے ہے؛ خدائے متعال تمہیں ان اولیاء کی ولایت پر ثابت قدم رکھے جن کی پیروی کر رہے ہو؛ اور ہم اور آپ ایسے اللہ کی پناہ میں ہیں جو اپنے جو اپنی پناہ میں آنے والوں کو رائیگان نہیں ہونے دیتا"۔

حضرت عبدالعظیمؑ کا خط امام جواد (علیہ السلام) کے نام

"عن عبدالعَظيمِ الْحَسني قَالَ كَتَبْتُ إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ اَلثَّانِي أَسْأَلُهُ عَنْ ذي الكِفْلِ ما اسمُهُ وَهل كانَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ؛ فَكَتَبَ: بَعَثَ اللَّهُ جلَّ ذِكْرُهُ مائَةَ ألْفِ نَبِيٍ وَأرْبَعَةٌ وَعِشْرِينَ ألْفَ نَبِيّاً مُرْسَلونَ مِنْهُم ثَلاثُمِائَةٍ وثَلاثَ عَشَرَ رَجُلاً وَإنَّ ذي الكِفْلِ مِنْهُم صَلَواتُ الله عليْهِمْ وَكَانَ بَعْدَ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ وَكَانَ يَقْضِي بَيْنَ النَّاسِ كَمَا كانَ يَقْضِي دَاوُدُ وَلَمْ يَغْضَبْ إِلاَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلٌ وَكَانَ اسْمُهُ عُوَيْدِيَا وَهُوَ الَّذِي ذَكَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى جَلَّتْ عَظَمَتُهُ في كِتَابِهِ حَيْثُ قالَ 'وَاذْكُرْ إسْمَاعِيلَ وَاليَسَعَ وَذَا الكِفْلِ وَكُلٌ مِّنَ الْأخْيَارِ' [9]؛ [10]

عبدالعظیم حسنی (علیہ السلام) کہتے ہیں: میں نے ابو جعفر ثانی (امام محمد تقی الجواد) (علیہ السلام) کو خط لکھا اور ذوالکفل (علیہ السلام) کے بارے میں پوچھا کہ ان کا نام کیا ہے اور کیا وہ مرسلین میں سے ہیں؟ تو آپؑ نے جوابا مرقوم فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے ہیں جن میں 313 انبیاء مرسلین ہیں، اور ذوالکفل (علیہ السلام) ان پیغمبروں کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بعد کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں جو داؤد (علیہ السلام) کی طرح لوگوں کے درمیان فیصلے اور حکومت کرتے تھے اور اللہ کے فرمان کے نفاذ میں کوشاں رہتے تھے، احکام کے نفاذ اور اللہ کی رضا کے سوا کسی بھی مسئلے کے لئے غضبناک نہیں ہوتے تھے۔ ان کا نام "عُوَیْدِيَا" تھا اور یہ وہی پیغمبر ہیں جن کا تذکرہ اللہ جلّ عظمتہ نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے اور ارشاد فرمایا ہے: ' اور یاد کرو اسماعیل، یسع اور ذوالکفل کو اور وہ سب نیک آدمیوں میں سے تھے'۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

[1]۔ سورہ زمر، آیات 16-17-18۔

[2]۔ ابن شعبہ الحرانی، تحف العقول، ص479۔

[3]۔ سورہ اعراف، آیت 204۔

[4]۔ ابن شعبہ الحرانی، تحف العقول ، ص 455۔

[5]۔ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج75، ص365۔

[6]۔ سورہ توبہ، آیت 67؛ سورہ حدید، آیت 13۔ 

[7]۔ سورہ توبہ، آیت 68؛ سورہ احزاب، آیت 73؛ سورہ فتح، آیت 6۔

[8]۔ الشیخ المفید (محمد بن محمد)، الأمالی، ص191؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج50، ص37۔

[9]۔ سورہ ص، آیت 48۔

[10] ۔ قطب الراوندی (سعید بن ہبۃ اللہ)، قصص الانبیاء، ص213؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج13، ص405۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110