اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، سپاہ پاسداران انقلاب
اسلامی کے کمانڈر انچیف میجر جنرل ڈاکٹر حسین سلامی نے آج [بروز اتوار 2 جون 2024ع]
ملک کے بسیجی طلباء کے سربراہوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر شہید رئیسی اور ان کے ساتھیوں
کی شہادت پر تعزیت پیش کی اور کہا: میں اللہ کے شکرگزار ہوں کہ ان نورانی لمحوں میں،
اسلامی جمہوریہ کے بانی حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی رحلت کی پینتیسویں
برسی کی آمد پر آپ سے مخاطب ہوں۔ امام اللہ کے معجزات میں سے ایک تھے ایسے دور میں
جب انسان آزادی، حریت، وقار و عظمت سے دور ہو چکا تھا اور آپ نے ایسے ہی دور میں
عدل و انصاف کا پیغام لے کر اسلامی جمہوری نظام کی بنیادی رکھی۔
جنرل حسین سلامی نے کہا:
حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے اپنے اعجاز کے ذریعے ان انسانی اور دینی مفاہیم کو ایک منظم نمونہ عمل کے طور ایک عینی حقیقت بنا کر پیش کیا اور ہمیں جدید غلامی اور اسیری سے نجات دلائی۔
حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے ہم مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو بحال کیا اور اسلامی تہذیب کا سورج ـ جو ڈھل چکا تھا ـ ایران کے افق سے دوبارہ طلوع ہؤا۔
میں اس موقع پر صدر شہید آیت اللہ رئیسی اور نظام اسلامی میں ان بعض اہم ساتھیوں کی شہادت پر ـ جو عوام کی خدمت کے راستے میں خالق حقیقی سے جا ملے ـ تعزیت پیش کرتا ہوں۔
دنیا کے سیاسی مبصرین ہمارے انقلاب کی توصیف کرتے ہوئے اس کو سرد جنگ کی فضا اور دو قطبی عالمی نظام میں ایک جیوپولیٹیکل تبدیلی سمجھتے ہیں۔
ہمارا انقلاب عالمی سطح کی ایک تبدیلی ہی نہیں بلکہ ایک تاریخی تحریک کا نقطۂ آغاز بھی تھا جس نے دنیا اور ایران کو انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد کے دو ادوار میں تقسیم کر دیا۔ انقلاب سے پہلے ایران ایک وابستہ ملک تھا اور 40ہزار امریکی مشیر ملک کے مختلف سیاسی، فوجی اور ثقافتی شعبوں کا انتظام وانصرام کرتے تھے۔
حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) مکتب اسلامی کو حکمرانی کا نمونہ بنا کر پیش کیا
امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے آکر عالمی جیومیٹر میں طاقت کے نئے ضلع کا اضافہ کیا اور عالمی نظام کے رائج الوقت نظریئے کو درہم برہم کر دیا۔ ایران کی مکمل خودمختاری نے دنیا میں طاقت کا توازن بگاڑ کر رکھ دیا اور امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے اپنے انقلاب کے ذریعے واضح کیا کہ مغربی اور مشرقی مکاتب اقوام عالم کی آزادی، استقلال و خودمختاری اور وقار و عظمت کے حقیقی نسخے نہیں ہیں۔
امام مکتب اسلام کو حکمرانی کا ماڈل بنانے کے لئے آئے اور یہ مسئلہ عالمی مستکبرین کے لئے خطرے کی گھنٹی کے مترادف تھا، چنانچہ مشرق اور مغرب اس کے خاتمے کے لئے مل کر میدان میں آئے۔
اس دن سے آج تک ہمارے دشمنوں نے مختلف قسم کی پالیسیوں اور حکمت عملیوں پر عملدرآمد کیا اور وہ اپنے تمام تجربات کو بروئے کار لائے اس لئے ایران کو سر خم کرنے اور سازو باز کرنے پر مجبور کریں۔
آٹھ سالہ جنگ میں دنیا کی تمام طاقتوں نے محصور شدہ ایران کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت استعمال کی لیکن ہمارے نوجوانوں نے میدان میں آ کر استقامت کی اور جنگ میں غیر متوقعہ طور پر کامیاب ہو گئے۔ جنگ وہ نقطہ تھا جہاں ایران نے اپنی طاقت پر فخر کیا اور ایک قوم کا عزم تھا جو دنیا کی طاقتوں کے اسلحے پر غالب آيا۔
جنگ کے بعد پے درپے سازشیں ہوئیں، اور ہم ایک لمحے کے لئے جنگ سے نہیں نکلے، بلکہ صرف جنگ کی شکل بدل گئی۔ پابندیاں، ثقافتی یلغار، فتنے، نفسیاتی کاروائیاں، ابلاغیاتی یلغار، جیسے اقدامات مسلسل جاری رہے۔ یہ سارے حملے اتنے عظیم تھے کہ اگر کسی بڑے ملک کو ان میں سے صرف ایک بھی حملے کا سامنا ہوتا تو وہ مفلوج ہو کر رہ جاتا؛ لیکن ہم میدان میں جمے رہے اور انقلاب اسلامی کے رہبر امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کی قیادت میں ترقی کے راستے پر گامزن رہے اور اپنا مشن جاری رکھا۔
ہم واحد قوم ہیں جو جنگ کے بارے میں پرسکون اور پراعتماد ہیں
دشوار واقعات میں اس قوم کی ابدیت اور بقاء کا راز اللہ پر توکل اور اپنے رہبر و راہنما کی منطق پر استقامت ہے، رہبر نے فرمایا: استقامت کے اخراجات، سر تسلیم خم کرنے اور ہتھیار ڈالنے کے اخراجات، سے بہت کم ہیں۔ ہم نے ان 46 برسوں میں ان تمام واقعات کا سامنا کیا ہے اور دشمنوں نے اس دوران ایران کو تنہا کرنے کی کوشش کی لیکن آج ایران کی عظیم قوم، ولایت فقیہ کی برکت سے دنیا اور خطے کے مسائل پر بلاواسطہ اثرات مرتب کرتی ہے۔
60 ممالک کے نمائندوں نے شہید صدر جناب سید ابراہیم رئیسی کی مجلس تکریم میں شرکت کی، اقوام متحدہ میں شہید رئیسی کی یاد میں تقریب منعقد کر دی۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملک تنہا ہوگیا ہے؟ اس ملک نے "آپریشن وعدہ صادق" میں کسی قسم کی خفیہ کاری اور رازداری کے بغیر، بالکل آشکارا، ـ یہ جانتے ہوئے کہ مقابلے میں صہیونی ریاست سے ماوراء ایک بڑی طاقت بھی سامنے کھڑی ہے ـ میزائل کاروائی کی اور اس عظیم کاروائی کی عظمت باعث فخر و اعزاز ہے۔
برطانیہ سمیت کچھ ممالک ہمیں اس کاروائی سے چشم پوشی کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے کوشاں تھے، وہ سب فکرمند تھے اور ہم پرسکون تھے اور دشمن کی طرف کے تمام ممکنہ منظرناموں کا سامنے کے لئے مکمل طور پر تیار تھے۔
یہ ہماری طاقت کی علامت ہے۔ ہم نے آپریشن وعدہ صادق کے ذریعے جنگ کو دشمن کی حدود میں منتقل کر دیا اور اس سے بھی آگے بڑھ گئے۔ ہم شرافتمندانہ انداز سے لڑے اور ایرانی عوام بھی میزائل فائر ہونے کی خبر سن کر سرور اور شادمانی کے ساتھ سڑکوں پر آگئے۔ بے شک ہم واحد ملت ہیں جو جنگ کے حوالے سے پرسکون اور پراعتماد ہیں اور ہم خوف اور پریشانی سے دوچار نہیں ہؤا کرتے۔
ایران، آج، ایک عالمی طاقت ہے
ہم جس جنگ میں اترے ہیں، پہلے سے زیادہ کامیاب اور زیادہ طاقتور ہوکر ان جنگوں سے عہدہ برآ ہوئے ہیں، معاشی جنگ میں، ہمارا معرکہ خود کفالت اور معاشی خودمختاری پر منتج ہؤا،
ہم ایک طرف سے پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں اور ایک لحاظ سے محصور ہیں، لیکن اندرونی فتنوں سے ہم نے داخلی استحکام کی تعمیر کر دی اور سیاسی دباؤ کی رو سے دور افتادہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے دروازے کھولنے کا آغاز کیا۔
ہم اپنی قوم کے تحمل و برداشت کی برکت سے، ـ جس نے مسائل اور مشکلات کو برداشت کیا، ـ آج ہم ہر قسم کی دشواریوں کے باوجود، اپنی جائز پوزیشن کی بازیابی کی طاقت کے اس مرتبے تک پہنچے ہیں اور یہ ہماری قوم کی منفرد خصوصیت ہے۔
آج اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جنگ کے امکان کے مفروضوں اور "تمام آپشن میز پر ہیں" (all options on the table) جیسی دھمکیوں کو باطل کر دیا گیا، اسی وجہ سے آپ دیکھتے ہیں کہ ملک میں معاشی اور اقتصادی ترقی کا عمل، سیاسی اور فوجی مسائل سے متاثر ہوئے بغیر جاری و ساری ہے اور ملک میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کے وسیع اور محفوظ امکانات سب کے سامنے ہیں کیونکہ ہمارے ملک پر جنگ مسلط کرنے کے مفروضے بالکل باطل ہیں۔
یہ سب شہداء کے پاک خون کی برکت سے حاصل ہؤا ہے، وہ شہداء جنہوں نے گھر سے ہجرت کو جہاد کی تمہید قرار دیا اور اپنے مورچوں کو کبھی خالی نہیں کیا۔
ہماری امیدیں نوجوانوں سے ہیں، آپ نوجوانوں کو عزم صمیم اور پختہ ارادے کے ساتھ ایران کو زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانے کے لئے اپنی پوری قوت و استعداد اور ہمت و حوصلہ بروئے کار لانا چاہئے۔ بے شک ایران آج ایک عالمی طاقت اور ناقابل شکست ملک ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اہداف کے حصول کے لئے مضبوط ارادے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ آج ایرانی قوم کے نعرے امریکی یونیورسٹیوں میں دہرائے جا رہے ہیں جو کہ اور یہ ایران کی افزودہ ثقافت و تہذیب اور ایران کی طاقتور پوزیشن کی صدائے بازگشت ہے۔
آج امریکہ، صہیونی اور یورپ کے کچھ ممالک ـ جو ہمارے دشمنوں کے زمرے میں آتے ہیں ـ تنہائی سے دوچار ہیں، اخلاقی اور سیاسی لحاظ سے زوال اور تنزل کا شکار ہیں اور ان کا عمل ان کے نعروں سے متصادم ہے جبکہ ایران اور اپنی تہذیب اور ثقافت کی رو سے آج کی دنیا میں ایک شرافتمند اور خودمختار ملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔
110
رہبر انقلاب کے خطوط:
آپ اس وقت تاریخ کی درست
سمت میں کھڑے ہیں / تاریخ عالم کا صفحہ پلٹ رہا ہے۔ امریکہ میں فلسطین کے حامی
طلبہ کے نام امام خامنہ ای کا خط
https://ur.abna24.com/story/1462227
امریکہ اور یورپ میں غزہ کے حامی طلبہ کی تحریک کی مناسبت سے؛ امام خامنہ ای کے دو خطوط یورپی اور امریکی نوجوانوں کے نام
https://ur.abna24.com/story/1454456