اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
مشہور ہے
کہ امام علی بن موسیٰ الرضا
(علیہ السلام) شہر
نیشابور پہنچے تو طلابِ علم و محدثین نے آپ کے اطراف حلقہ کر لیا جبکہ آپ اونٹ پر
سوار تھے اور آپ سے درخواست کی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی حدیث
بیان فرمائیں ۔ آنحضرت نے اپنے آباء و اجداد کے حوالے سے رسول خدا(ص) سے جنہوں نے
جبرئیل کے ذریعہ خداوند عالم کا یہ ارشاد نقل فرمایا:
"كَلِمَةُ لَا إِلَهَ إِلَّا اَللَّهُ حِصْنِي فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِي أَمِنَ مِنْ عَذَابِي؛
یعنی کلمہ "لا الٰہ الا اللہ" ایک قلعہ ہے، جو اس میں داخل ہو وہ عذاب الٰہی سے محفوظ رہے گا"۔
چونکہ اس حدیث کے سلسلۂ سند میں معصومین (علیہم السلام) ہیں اسی لئے اس کو "حدیث سلسلۃ الذہب" کہا جاتا ہے۔
اس حدیث کو شہر نیشابور میں نقل کرنے کی وجہ بھی یہ تھی کہ آپ مسلمانوں کو توحید اور وحدت کی جانب دعوت دینا چاہتے تھے اور یہ کہ اس کلمے کے ذریعے تمام مسلمان اختلاف وانتشار سے بچ کر رہیں اور ہر طرح کی تشویش و عذاب سے محفوظ ہوں۔
اس حدیث قدسی میں حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) کا مقصد تین نکات بیان کرنا تھے:
1۔ آپ نے یہ حدیث قدسی (1) اپنے آباء و اجداد سے نقل کی جنہوں نے یہ حدیث ایک دوسرے سے نقل کی تھی حتی کہ یہ سلسلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) تک پہنچا؛ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے یہ حدیث جبرائیل (علیہ السلام سے اور انھوں نے نے اللہ عزَّ وَ جلَّ سے نقل کی ہے۔
امام رضا (علیہ السلام) نے اس طرح اپنے آباء و اجداد کا تذکرہ کیا جو سب امام اور اوصیائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) تھے، آپ نے اس مقام پر اکٹھے ہونے والے تمام راویوں اور کاتبین کو اس حقیقت کی یاددہانی کرائی کہ آپ اور آپ کے آباء و اجداد رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) اوصیاء اور ائمہ ہیں۔
2۔ امام رضا (علیہ السلام) نے لوگوں کو یکتا پرستی اور خدا پرستی کی ضرورت یاد دلائی جو کہ تمام اعتقادات کی بنیاد ہے۔ آپ نے توحید کی یاددہانی کراتے ہوئے یہ بات بھی یاد دلائی کہ زمانے کے طاغوتوں اور طاغوت صفت حکمرانوں کے دھوکے میں نہ آئیں۔
3۔ شرک اور ریا سے خالی، حقیقی یکتاپرستی کا لازمہ اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت ہے اور جب تک مسلمانوں کے معاشروں میں عادلانہ قیادت و رہبری قائم نہ ہوگی بت، اور بتوں کی صفات کے حامل انسان، اور طاغوت، توحید اور یکتاپرستی کو اپنے صحیح راستے پر گامزن نہیں ہونے دیں گے۔
تاریخ میں ہے کہ امام رضا (علیہ السلام) سے حدیث سننے کے لئے 24 ہزار افراد نے قلمدان اٹھا رکھے تھے جو فرزند رسول حضرت امام رضا (علیہ السلام) کے سنہری کلمات لکھنے کے لئے آئے تھے۔ (2)
سوال: کیا حدیث حدیث سلسلۃ الذہب (كَلِمَةُ لَا إِلَهَ إِلَّا اَللَّهُ حِصْنِي)، متواتر حدیث ہے؟ اور یہ کہ اس حدیث کے منابع و مصادر کیا ہیں؟
جواب: حدیث سلسلۃ الذہب ایک مشہور و معروف حدیث ہے جو ایک ساتھ 20 ہزار افراد نے امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے اور امام نے اپنے آبائے طاہرین (علیہم السلام) اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے اور جبرائیل (علیہ السلام) سے روایت کی ہے اور جبرائیل نے خدائے بزرگ و برتر سے نقل کی ہے؛ چنانچہ یہ انتہائی نامی گرامی سند سے نقل ہوئی ہے اور اسی وجہ سے سلسلۃ الذہب (سونے کی زنجیر) کے نام سے مشہور ہوئی ہے۔
اہل سنت کے حنبلی مذہب کے امام احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی نے کہا ہے کہ اگر یہ سند مذکورہ بزرگوں کی جلالت کی بنا پر کسی مجنون شخص پر پڑھی جائے تو وہ شفایاب ہو جاتا ہے۔
ابو نعیم الاصبہانی روایت کرتے ہیں:
"حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ إِسْحَاقَ الْمُعَدِّلُ، ثَنَا أَبُو عَلِيٍّ أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْأَنْصَارِيُّ بِنَيْسَابُورَ، ثَنَا أَبُو الصَّلْتِ عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ صَالِحٍ الْهَرَوِيُّ، ثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الرِّضَا، حَدَّثَنِي أَبِي مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنِي أَبِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، حَدَّثَنِي أَبِي الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِىٍّ، حَدَّثَنِي أَبِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قَالَ: " قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: «إِنِّي أَنَا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِي، مَنْ جَاءَنِي مِنْكُمْ بِشَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ بِالْإِخْلَاصِ دَخَلَ فِي حِصْنِي، وَمَنْ دَخَلَ فِي حِصْنِي أَمِنَ مِنْ عَذَابِي». هَذَا حَدِيثٌ ثَابِتٌ مَشْهُورٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِنْ رِوَايَةِ الطَّاهِرِينَ عَنْ آبَائِهِمُ الطَّيِّبِينَ، وَكَانَ بَعْضُ سَلَفِنَا مِنَ الْمُحَدِّثِينَ إِذَا رَوَى هَذَا الْإِسْنَادَ، قَالَ: لَوْ قُرِئَ هَذَا الْإِسْنَادُ عَلَى مَجْنُونٍ لَأَفْاقَ؛ (3)
امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) نے فرمایا: میرے والد امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) نے فرمایا کا امام صادق نے فرمایا: میرے والد امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان کے والد امام علی زین العابدین (علیہ السلام) نے فرمایا: میرے والد امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان کے والد امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے نقل کیا کہ خدائے متعال نے ارشاد فرمایا: "میں اللہ ہوں اور میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے پس میری عبادت اور بندگی کرو۔ تم میں سے جو بھی میرے پاس آئے اور اخلاص کے ساتھ گواہی دے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ میرے قلعے میں داخل ہوتا ہے اور جو بھی میرے قلعے میں داخل ہوجائے میرے عذااب سے محفوظ ہوگا"، یہ حدیث مشہور اور ثابت ہے اسی اسناد سے جو امام رضا (علیہ السلام) نے اپنے طیب و طاہر آباء و اجداد سے روایت کی ہے اور محدثین میں سے ہمارے بعض اسلاف نے کہا ہے کہ اس سند کو اگر کسی آسیب زدہ اور دیوانہ شخص پر پڑھ لیا جائے تو وہ تندرست ہوجائے گا"۔
ابو نعیم از سند سے منقولہ ایک حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:
"قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: قَالَ لِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: إِنْ قَرَأْتَ هَذَا الْإِسْنَادَ عَلَى مَجْنُونٍ بُرِئَ مِنْ جُنُونِهِ؛ (4)
ابو علی نے کہا کہ احمد ابن حنبل نے مجھے بتایا: میں نے اسی سند کو ایک آسیب زدہ [دیوانہ] شخص پر پڑھ لیا تو وہ دیوانگی سے صحت یاب ہو گیا"۔
البتہ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ چونکہ سامانی سلسلے کے ایک امیر نے یہ حدیث سونے کے پانی سے لکھوائی تھی اسی بنا پر اس کو حدیث سلسلۃ الذہب کہا گیا۔
علامہ اربلی (رحمہ اللہ) حدیث سلسلۃ الذہب نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"قَالَ الْأُسْتَاذُ أَبُو اَلْقَاسِمِ اَلْقُشَيْرِيُّ رَحِمَهُ اَللَّهُ إِنَّ هذا اَلْحَدِيثَ بِهَذَا اَلسَّنَدِ بَلَغَ بَعْضَ أُمَرَاءِ السَّامَانِيَّةِ فَكَتَبَهُ بِالذَّهَبِ وَأَوْصَى أنْ يُدْفَنَ مَعَهُ فَلَمَّا مَاتَ رُؤِيَ فِي اَلْمَنَامِ فَقِيلَ مَا فَعَلَ اَللَّهُ بِكَ فَقَالَ غَفَرَ اَللَّهُ لِي بِتَلَفُّظِي بِلاَ إِلَهَ إلاَّ اللَّهُ وَتَصْدِيقِي مُحَمَّداً رَسُولَ اللَّهِ مَخْلِصاً وَإنّي كَتَبْتُ هَذَا الحَدِيثَ بِالذَّهَبِ تَعْظِيماً وُاحْتِرَاماً؛ (5)
استاد ابوالقاسم القشیری (رحمہ اللہ) نے کہا: یقینا یہ حدیث اسی سند کے ساتھ ایک سامانی امیر کے پاس پہنچی تو انھوں نے اس کو سونے کے پانے سے لکھوایا اور وصیت کی کہ اس "اس حدیث کو ان کے ساتھ دفن کیا جائے" اور جب ان کا انتقال ہؤا [اور حدیث ان کے ساتھ دفنا دی گئی] تو بعد لوگوں نے انہیں خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ "خدائے متعال نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟"، تو انھوں نے کہا: "خدائے متعال نے مجھے بخش دیا کیونکہ میں نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا اور اس کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی تصدیق کردی اور یہ کہ میں نے اس حدیث کو تعظیم و احترام کے ساتھ لکھوایا تھا"۔
اور اب اصل روایت شیعہ کتب میں
شیخ صدوق نے اپنی کتب میں یہ روایت نقل کی اور اس کے لئے کئی سندیں بھی ذکر ہیں۔ انھوں نے صرف "کتاب التوحید" میں یہ روایت تین اسناد سے نقل کی ہے اور ہم صرف ایک سند اپنے قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
"حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ اَلْمُتَوَكِّلِ رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو اَلْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ اَلْأَسَدِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اَلْحُسَيْنِ اَلصُّوفِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا يُوسُفُ اِبْنُ عَقِيلٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاهْوَيْهِ قَالَ لَمَّا وَافَى أَبُو الْحَسَنِ الرِّضَا عَلَيْهِ السَّلاَمُ بِنَيْسَابُورَ وَأَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ مِنْهَا إِلَى اَلْمَأْمُونِ اجْتَمَعَ إِلَيْهِ أَصْحَابُ اَلْحَدِيثِ فَقَالُوا لَهُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ تَرْحَلُ عَنَّا وَلَا تُحَدِّثُنا بِحَديثٍ فَنَسْتَفيدَهُ مِنْك؟ وَكَانَ قَدْ قَعَدَ فِي الْعَمَّارِيَّةِ فَأطْلَعَ رَأسَهُ وَقَالَ سَمِعْتُ أَبِي مُوسَى بْنِ جعفرٍ، يَقُولُ سَمِعتُ أَبِي جَعْفَرَ بنَ مُحمَّد، يَقُولُ سَمِعْتُ أبِي مُحَمَّدَ بنَ عَليٍ، يَقُولُ سَمِعْتُ أَبِي عَلِيَّ بنَ الحُسَينِ، يَقُولُ سَمِعْتُ أَبِي اَلْحُسَيْنَ اِبْنَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، يَقُولُ سَمِعْتُ أَبِي أَمِيرَ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ يَقُولُ سَمِعْتُ جِبْرَئِيلَ، يَقُولُ سَمِعْتُ اَللَّهَ جَلَّ جَلاَلُهُ يَقُولُ لَا إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ حِصْنِي فَمَنْ دَخَلَ أَمِنَ مِنْ عَذَابِي، قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَأنَا مِن شُرُوطِهَا.
قَالَ مُصَنِّفُ هَذَا اَلْكِتَابِ: مِنْ شُرُوطِهَا الإِقْرَارُ لِلرِّضَا عَلَيْهِ السَّلاَمُ بِأَنَّهُ إِمَامٌ مِنْ قِبَلِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ عَلَى الْعِبَادِ مُفْتَرَضُ الطَّاعَةِ عَلَيْهِّمْ؛ (6)
امام رضا (علیہ السلام) نیشابور پہنچے اور وہاں سے مامون کی طرف جانے لگے تو نیشابور کے محدثین آپ کے گرد جمع ہوئے اور عرض کیا: اے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)! آپ یہاں سے جا رہے ہیں اور ہمیں ایک حدیث بھی نہیں سنائیں گے تا کہ ہم آپ سے فیض یاب ہوں؟
حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) اونٹ کے ہودج میں تشریف فرما تھے، چنانچہ آپ نے سر کجاوے سے باہر نکال کر فرمایا: میں نے اپنے والد موسیٰ بن جعفر (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا کہ: میں نے اپنے والد جعفر بن محمد (علیہما السلام) سے سنا، جو فرما رہے تھے کہ: میں نے اپنے والد محمد بن علی (علیہما السلام) سے سنا جو فرما رہے تھے کہ: میں نے اپنے والد علی بن الحسین (علیہم السلام) سے سنا جو فرما رہے تھے کہ: میں نے اپنے والد حسین بن علی (علیہما السلام) سے سنا جو فرما رہے تھے: میرے والد امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام) نے فرمایا: میں نے حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سنا کہ: میں نے جبرائیل سے سنا جو کہہ رہے تھے کہ انھوں نے خداوند جلّ جلالہ سے سنا کہ ارشاد فرما رہا تھا: "لا الہ الا اللہ" کا کلمہ میرا مستحکم قلعہ ہے پس جو بھی اس قلعے میں داخل ہؤا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہوگیا۔
پس جب قافلہ روانہ ہؤا تو امام (ع) نے ہم سے مخاطب ہوکر فرمایا: البتہ (اس بات اور عذاب الٰہی سے بچاؤ) کی اپنی شرطیں ہیں "اور میں اس کی شرطوں میں سے ہوں۔
شیخ صدوق (رحمہ اللہ) رقم کرتے ہیں: عذاب سے بچاؤ کی شرطوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اقرار کرے کہ "امام رضا (علیہ السلام) اللہ کی جانب سے اس کے بندوں کے امام ہیں اور آپ کی اطاعت اس کے تمام بندوں پر فرض اور واجب و لازم ہے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱- حديث قدسی وہ حدیث ہے جو پیامبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے قلب مقدس پر اتری ہو۔
۲- حاج شيخ عباس قمى ، (( منتهى الامال )) ص 40 (بخش حالات حضرت رضا عليه السلام ).
3۔ أبو نعیم الأصبہانی (أحمد بن عبد اللہ)، حلیۃ الأولیاء وطبقات الاصفیاء، ج3، ص191۔
4۔ أبو نعیم الأصبہانی، تاریخ أصبہان، ج1، ص174.
5۔ على بن عيسى بن أبي الفتح الإربلي، کشف الغمہ فی معرفۃ الائمۃ (علیہم السلام)، ج3، ص102۔
6۔ محمد بن على بن الحسين بن بابويہ القمی، کتاب "التوحید"، ص25۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110