اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
بدھ

24 اپریل 2024

8:16:29 AM
1453690

امارات کی یہود نوازی کا راز؛

ڈیوڈ مِیدان ((David Meidan) ) کون ہے / موساد کا سابق اہلکار اور مغربی ایشیا میں اسرائیلی دراندازی پر مامور + اہم تصویریں

غاصب صہیونی ریاست کے ساتھ خطے کے بعض ممالک کے تعلقات کی تہیں بہت گہری ہیں، اور ان کی جڑیں اس وہم میں پیوست ہیں کہ اس ریاست اور مختلف ممالک میں اس کے خفیہ گماشتوں کے ساتھ ان کے مفادات مشترکہ ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

ہم یہاں موساد کے سابق اعلیٰ اہلکار ڈيوڈ مِیدان (David Meidan) کا تعارف کرنے جا رہے ہیں:

ڈیوڈ مِیدان کون ہے؟

ڈیوڈ مِیدان (1) سنہ 1955ع‍ میں مصر میں پیدا ہؤا اور 1957ع‍ میں والدین کے ساتھ مقبوضہ فلسطین چلا گیا اور قابضین و غاصیبن کی صف میں شامل ہؤا۔ ابتداء میں یونٹ 8200 نامی عسکری انٹیلی جنس میں شامل ہؤا اور 1977ع‍ میں موساد میں منتقل ہؤا۔ اور زومیٹ (Tzomet بمعنی چوراہا) نامی محکمے میں شامل ہؤکر جاسوسوں کی بھرتی اور تربیت کا عہدہ دار ہؤا۔ اس نے موساد میں اپنی خدمات کے دوران کئی غیر ملکی کاروائیوں میں شریک ٹیموں کی کمان سنبھالی۔ 

مِیدان سنہ 2006ع‍ میں ٹیویل (Tevel) کا سربراہ مقرر ہؤا۔ یہ پوری دنیا میں جاسوسی اداروں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لئے موساد کا بیرونی تعلقات کا شعبہ ہے۔ ڈیوڈ مِیدان نے اس شعبے میں مشرق وسطیٰ کے ان ممالک کے ساتھ غیر رسمی تعلقات قائم کئے، جن کے غاصب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں تھے۔ اس شخص کا نام اسی عہدے پر، سنہ 2011ع‍ میں حماس کے ہاں قید اسرائیلی سپاہی گیلاد شالیت (2) کی آزادی کے ساتھ منظر عام پر آیا۔ گیلاد شالیت کو حماس کے مجاہدین نے سنہ 2006ع‍ میں پکڑ لیا اور کئی سال قید میں رہا۔ 2011ع‍ میں حماس اور غاصب اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے دوران رہا ہؤا۔ مِیدان نے اس تبادلے میں کردار ادا کیا اور سنہ 2011ع‍ میں ہی [بظاہر] موساد سے سبکدوش ہؤا۔

اپریل سنہ 2011 میں غاصب ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس کو موساد کے رکن اور گیلاد شالیت کی رہائی کے لئے اسرائیل کے خصوصی نمائندے ہاگان ہاداس کی جگہ مقرر کیا تھا۔ (3) اور اس نے اس سلسلے میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کی۔ وہ اسرائیلی وفد کا کلیدی رکن تھا اور اس کے مصری حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور اسی نے شالیت کی رہائی کے لئے ماحول فراہم کیا۔ اس منصب پر اس نے مختلف افراد کے ساتھ بات چیت کی اور مختلف ممالک کے باآثر لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کئے۔ آخرکار اکتوبر 2011 میں حماس اور صہیونیوں کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے اور شالیت کو 1027 فلسطینی اسیروں کی رہائی کے عوض رہا کیا گیا۔ اسی سال نیتن یاہو نے مِیدان کو جنگی قیدیوں اور گمشدگان کے ادارے کا سربراہ مقرر کیا۔

نبتن یاہو کے چلے جانے کے بعد مِیدان بھی سرکاری امور سے الگ ہؤا لیکن ایک طرف سے اس اسرائیلی خفیہ اہلکاروں کے ساتھ وسیع تعلقات تھے اور دوسری طرف سے خطے کے ممالک میں بھی اس کا کافی اثر و رسوخ تھا چنانچہ صہیونی سرمایہ داراس شخص کو کسی صورت مین بھی نظر انداز نہیں کر سکتے تھے، وہ جو مشرق وسطیٰ میں منافع بخش مواقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے تھے۔ چنانچہ ڈیوڈ مِیدان کو تمام جدید ٹیکنالوجیز کے مِیدان میں ایک تجارتی عامل اور ایک مشہور بروکر کے طور پر جانا جاتا ہے اور ان تمام ٹیکنالوجیز میں غاصب ریاست حصص بھی رکھتی ہے اور مہارت بھی: سائبر اسپیس، ہتھیاروں اور جاسوسی اور معلومات نیز پانی صاف کرنے کی فنی سہولیات وغیرہ۔ مِیدان ان تمام شعبوں میں سرکاری اور غیر سرکاری تاجروں اور اہلکاروں کے ساتھ تعاون کرتا ہے تا کہ مشرق وسطیٰ کے خطے کے ممالک میں نفوذ کر سکے۔ 

مِیدان نے خطے کے ممالک میں اسرائیل اثر و رسوخ کو استحکام بخشا ہے۔ اور وہ یوں کہ اس سے قبل کے کہنہ مشق لوگ - جو صہیونی ایجنسیوں سیکورٹی اداروں کے ملازم تھے - اسرائیلی کمپنیوں کے لئے ضروری پلیٹ فارم فراہم کر چکے ہیں اور اب یہ کام ڈيوڈ مِیدان سمیت دوسروں کے سپرد کیا گیا ہے جنہوں و سابقہ ایجنٹوں کی فراہم کردہ پوزیشن کو استحکام اور فروغ دیا ہے۔ امارات میں سائبر اسپیس اور ہتھیاروں کے حوالے سے ماتی کوچاوی (Mati Kochavi) کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے جس کو امارات کی سائبر ٹیکنالوجی کا گاڈ فادر کہا جا سکتا ہے۔ جو کچھ عرصہ بعد [بظاہر] آل نہیان کے ساتھ کسی اختلاف میں الجھ گیا اور اسے مِیدان سے نکال باہر کیا گیا اور ڈیوڈ مِیدان نے اس کی جگہ لے لی۔ کوچاوی نے نے سیکورٹی اور سائبر کے مِیدان میں امارات کے ساتھ بڑے بڑے معاہدے منعقد کئے لیکن مِیدان ہی وہ شخص تھا جس نے اس مِیدان میں امارات کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو دوام اور فروغ دیا۔

ڈیوڈ مِیدان بھی مشرق مشرق وسطیٰ کے بااثر حکام اور شخصیات کے ساتھ اپنے وسیع ذاتی تعلقات کی بنا پر، ہمیشہ ایک مذاکرات کار ایجنٹ کے طور پر، خطے کے ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی غرض سے اسرائیل کے لئے راستہ ہموار کرتا رہا ہے اور اس حوالے سے اس نے غاصب ریاست کے ہاں مثبت کارکردگی دکھائی ہے۔ ڈیوذ مِیدان نے - اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ مغربی ایشیا میں کسی ملک کے ساتھ تعلقات سے صہیونی ریاست کے کیا مقاصد ہوتے ہوتے ہیں، - ایک پیش رو سپاہی کے طور پر عمل کیا ہے اور رابطے کے تمام راستوں کو فعال کر دیا ہے۔

ڈیوڈ مِیدان - سیکورٹی اور جاسوسی کے شعبوں میں طویل تجربے، وسیع اور متنوع مواصلاتی نیٹ ورک سے متصل ہونے، اور اسرائیل کی غاصب ریاست کے اندر کے سرمایہ کاری کے ذرائع اور صاحب ثروت افراد جڑے رہنے کے بدولت - اسرائیل کے مؤثرترین مذاکراتی کردار میں تبدیل ہؤا ہے۔ مصر میں انفارمیشن ایکسچینچ کے مشن کی انجام دہی، ترکی کو قریبی تعلقات کی بحالی پر آمادہ کرنا اور اسرائیل میں فنی اثر و رسوخ کی بنیادیں مستحکم کرنا، اس کثیر مشنوں میں شامل ہیں جو اس نے صہیونی ریاست کے لئے سرانجام دیئے ہیں اور اگر ان کا صحیح جائزہ لیا جائے تو اس شخص کی صحیح شناخت ممکن ہو جائے گی۔

متحدہ عرب امارات میں اسرائیلی جڑوں کو مستحکم کرنا

جیسا کہ کہا گیا مِیدان مصر میں پیدا ہؤا ہے اور اس نے فوجی انٹیلی جنس سروس بعنوان "یونٹ 8200" میں بھی کام کیا ہے۔ موساد میں بھی مِیدان کوآرڈینیشن کے ادارے "ٹیویل" کی سربراہی تک کے عہدے پر فائز ہؤا۔ کام کا آغاز کرتے ہی فلسطینی سیاستدان اور غزہ کی پٹی میں فتح گروپ کے سابق سربراہ محمد دحلان کے ساتھ اس کی شناسائی تھی اور آج بھی اس کا قریبی دوست ہے۔ دوسری طرف سے بنیامین نیتن یاہو کا بھی قریبی دوست تھا، اور اسی کے کہنے پر اسرائیلی قیدیوں کے مسائل دیکھتا تھا؛ اور یہ خاص مسئلہ بھی بجائے خود فلسطینی اتھارٹی کے اہلکاروں نیز غزہ میں بعض اہلکاروں کے ساتھ بھی جڑا ہؤا تھا۔ دحلان کے ساتھ اس کے تعلقات اس وقت اور بہت ہی گہرے ہو گئے جب وہ [دحلان] فلسطینی اتھارٹی کے ایک حفاظتی محکمے "فلسطین کی تسدیدی حفاظت" کے ادارے (4) کا سربراہ تھا۔

محمد دحلان کو فلسطینی اتھارٹی کے جاسوسی ادارے سے برخاست کیا گیا تو اس نے رضاکارانہ ترک وطن اختیار کرکے ابوظہبی میں سکونت اختیار کی اور امارات کے [اس وقت کے] ولی عہد اور امارات کے کمانڈر انچیف محمد بن زاید آل نہیان [جو آج بھائی خلیفہ بن زاید کے انتقال کے بعد اس ریاست کا سربراہ بنا ہؤا ہے] کا معتمد بنا۔ مِیدان اسرائیلی ریاست میں محمد دحلان کے سیاسی اور تجارتی رابط کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ ان دو افراد [مِیدان اور دحلان] نے سنہ 2010ع‍ کے عشرے میں متحدہ عرب امارات کے سرکاری اداروں میں اسرائیل کی سائبر انڈسٹری کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا۔ قبل ازیں سائبر کے شعبے میں اسرائیل اور امارات کے تعلقات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ مِیدان وہی شخص ہے جس نے محمد دحلان کے ساتھ مل کر ان تعلقات کو عروج تک پہنچایا۔ (5)

مِیدان کئی سال تک متحدہ عرب امارات میں – اسرائیل کی سپائی ویئر اور سیل فون ٹریکنگ سافٹ ویئر، اور (نیا کے بیشتر حصوں میں فون کال مینجمنٹ سسٹم کی جاسوسی کرنے والے اور لوگوں کی ٹیلی فون کالیں) چوری چھپے سننے کے ماہر "سگنلنگ سسٹم نمبر 7" (NSO-7) (6) بنانے والی "سرکلز کمپنی" (Circles Company) کا - نمائندہ تھا۔ یہ کمپنی آج این اس او گروپ کے زیر انتظآم ہے۔ اور اس نے ایسے حالات پیدا کئے کہ اس کمپنی نے آخرکار متحدہ عرب امارات کے ساتھ ایک معاہدہ منعقد کیا۔ سرکلز کمپنی بعد میں این ایس او گروپ (7) میں ضم ہوئی۔ اس ٹھیکے کی مقامی شریک کمپنی (قبرض میں سرگرم عمل) الثریا کنسلٹنسی اینڈ ریسرچ کمپنی تھی جو در حقیقت محمد دحلان کے ماتحت چل رہی تھی۔ اور یوں سرکلز کمپنی متحدہ عرب امارات کی قومی الیکٹرانک سیکیورٹی اتھارٹی  کے ساتھ لین دین اور تعاون میں مصروف ہوئی۔ یہ کمپنی بعد میں سگنلز انٹیلی جنس ایجنسی یا آیس آئی اے کہلائی۔ (8) امارات کے صدر محمد بن زاید کے بیٹے خالد بن محمد آل نہیان نے رفتہ رفتہ چوری چھپے سننے (Eavesdropping) کی ذمہ داری اپنے چچا طحنون بن زاید آل نہیان سے لے لی۔ طحنون امارات کا قومی سلامتی کا مشیر ہے اور بجائے خود خصوصی سلامتی کے میدان میں ایک بڑی سلطنت (empire) کا مالک ہے جس کا اس رپورٹ میں جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ (9) 

ڈیوڈ مِیدان عرصہ دراز سے متحدہ عرب امارات میں آوی لیومی (10) نامی شخص کے ساتھ تعاون کرتا تھا۔ لیومی اسرائیلی ایروناٹکس دفاعی نظام (11) کا بانی اور سابق ڈائریکٹر، بغیر پائلٹ طیاروں (ڈرونز) تیار کرنے والا شخص ہے اور رافائل ایڈوانسڈ ڈیفنس سسٹمز (12) کے ماتحت کام کرتا ہے۔ اسی نے سنہ 2012ع‍ میں امارات کے ساتھ غاصب اسرائیل کے پہلے معاہدوں میں سے ایک فنی معاہدے پر دستخط کئے۔ اس معاہدے کے تحت امارات نے ڈرونز کی تیاری کا آغاز کیا۔ لیومی بھی ماتی کوچاوی کی طرح، ان پہلے افراد میں سے ایک ہے جنہوں نے امارات اور اسرائیل کے درمیان فنی رابطے کے لئے ماحول سازی کی۔ (13)

میدان نے اصل کڑی کے طور پر اسرائیل اور امارات کے درمیان سیکورٹی تعاون کو مستحکم کیا۔ سنہ 2020ع‍ (ڈیجیٹل ڈیٹا جمع کرنے، اس کا تجزیہ کرنے، جائزہ لینے اور انتظام کرنے کے شعبے میں سرگرم اسرائیلی کمپنی) سیلبرائٹ (14) کو واگذار ہونے والے ٹھیکے میں بھی بنیادی کردار میدان نے ادا کیا۔ اور سنہ 2021ع‍ کے اوائل میں بھی میدان ہی اسرائیلی ٹینڈر کا مرکزی مذاکرات تھا جو اسرائیل میں قائم بین الاقوامی دفاعی الیکٹرانکس کمپنی البیت سسٹمز (15) اور متعدد دیگر کمپنیوں کے ذریعے متحدہ عرب امارات میں منعقد کیا گیا تھا اور اس کا مقصد امارات میں سائبر سیکیورٹی کے ڈھانچے کو مضبوط بنانا ہے۔ سیلبرائٹ نے یہ ٹینڈر جیت لیا اور امارات کے سائبر نظآم کی تکمیل کے لئے سائبر فن تعمیر کے لیے ہنگامی کمپیوٹر ریسپانس ٹیموں (16) (یعنی کمپیوٹر-سائبر سیکیورٹی کے مسائل حل کرنے کے لئے ماہرین کے مختلف گروپوں) کی تشکیل کو اپنے منصوبے میں شامل کیا۔ جن میں سے سب سے پہلا گروپ 34 کروڑ ڈالر کی لاگت سے دبئی میں تشکیل دیا گیا۔

​ ڈیویڈ مِیدان پراحیکٹس (17) پانی صاف کرنے کی اسرائیلی کمپنی پیورامون (18) کا بانی اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کا رکن بھی ہے اور امریکی ریاست سان فرانسسکو میں واقع اور امریکہ اور مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے یہودیوں کی حامی کوریٹ فاؤنڈیشن (19) نیز اسرائیلی دواساز کمپنی ریڈ ہل بائیو فارما (20) کو مشورہ دیتا ہے۔ علاوہ ازیں مشین لرننگ اور کمپیوٹر سسٹمز مانیٹرنگ کی اسرائیلی "لوم کمپنی" (21) کے ساتھ بھی تعاون کرتا ہے۔ (22)

امارات کے اسرائیلی سیلبرائٹ کمپنی کے سیکورٹی معاہدے میں میدان کا کردار

جیسا کہ کہا گیا سیلبرائٹ ایک اسرائیلی کمپنی ہے جو ڈیجیٹل ڈیٹا کے شعبے میں سرگرم عمل ہے۔ اس بارے میں اضافی معلومات یہ ہیں کہ سیلبرائٹ کی مصنوعات کے صارفین دنیا بھر میں سیکیورٹی، انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے، ساتھ ہی دنیا کی بہت سی بڑی ڈیجیٹل کمپنیاں، بشمول ایپل، گوگل، اور رائزن (23) نیز  بڑے بینک ہیں جو اندرونی قانونی تحقیقات کے لئے اس کمپنی کی مصنوعات کو بروئے کار لاتے ہیں۔ سیلبرائٹ کمپنی سنہ 2020ع‍ میں، ڈیوڈ مِیدان کی ثالثی اور متحدہ عرب امارات کے اس وقت کے ولی عہد اور موجودہ سربراہ محمد بن زائد کے ساتھ محمد دحلان کے تول مول کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات کے سیکیورٹی ادارے کے ساتھ 30 لاکھ ڈالر کے ایک اہم معاہدے پر دستخط کرنے میں کامیاب ہوئی۔ (24)

اماراتی حکومت موبائل فونز، ذاتی کمپیوٹروں، کلاؤڈ کمپیوٹنگ اسپیس میں موجود معلومات، یہاں تک کہ ذاتی ڈرونز کی وہ معلومات - جنہیں امارات کی سیکورٹی فورسز نے ریکارڈ کیا ہوتا ہے - کو جمع کرنے کے لئے سیلبرائٹ کی مصنوعات استعمال کرتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سنہ 2019ع‍ کے وسط کے اعداد و شمار کے مطابق، امارات کے ساتھ اس معاہدے سے قبل مبینہ "موبائل قانونی طب" (25) (یعنی موبائل فون سے شواہد کو اکٹھا کرنا اور جانچنے کے اوزاروں کا استعمال) کی منڈی کے 45 فیصد حصے پر سیلبرائٹ کمپنی ہی قابض تھی اور اس کی مصنوعات دنیا بھر کی پولیس کی 75 فیصد تحقیقات (تفنتیش) میں بنیادی کردار ادا کرتی تھیں۔

چنانچہ اس طرح کے معاہدے پر اماراتی حکومت کے دستخط کرنا، خلاف توقع نہ تھا؛ اور پھر بن زائد آل نہیان قبیلے کی پالیسی بھی اسی روش پر مرتب کی گئی ہیں اور سائبر اسپیس پر جاسوسی کے آلات کا استعمال اس قبیلے کی حکمرانی میں معمول کا مسئلہ ہے۔ اسی بنیاد پر، سیلبرائٹ کمپنی این ایس او اور البیت سسٹمز سمیت دوسری اسرائیلی کمپنیاں "شہریوں کی فون کالز چوری چھپے سننا، پڑوسی ممالک کی جاسوسی اور ڈیٹا ٹریفک کو محدود کرنے" کی تین تہہوں میں امارات کا ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ (26)

آل نہیان کے انتظامی روشیں مِیدان کے زبانی

جیسا کہ پہلے بھی بیان ہؤا، ڈیویڈ مِیدان امارات میں متعدد اسرائیلی کمپنی کا مشیر اور کارگزآر ہے۔ وہ امارات میں اسرائیلی کمپنیوں اور کاراندازوں (27) کو مدد بہم پہنچاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں سے آیک امارات کا نام دبئی ہے جس کے بارے میں مِیدان کا دعویٰ ہے کہ 'جو چیز دبئی اور متحدہ عرب امارات کو دوسری عرب ریاستوں سے ممتاز بناتی ہے یہ ہے کہ یہاں اثرگذار انتظام موجود ہے۔ امارات کی قیادت بالکل صحتمند ہے اور اپنے کام کو پیشہ ورانہ انداز سے آگے بڑھاتی ہے۔ آپ اس چیز کو پوری اماراتی مملکت میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں کے عوام اپنے قائدین کا احترام کرتے ہیں اور حکومت عوام کو اپنی دولت میں شریک سمجھتی ہے اور اسی وجہ سے یہاں کا انتظآم اثرگذار ہے'۔ (28)

مِیدان امارات کی انتظامیہ کی افادیت کی تعریف کرتا ہے جس کی بنیاد ہی اس کے سابقین اور پیشرو جاسوسوں نے رکھی ہے اور یہ ریاست اسرائیلی قواعد کے مطابق قائم ہے اور کام کر رہی ہے چنانچہ ایک اسرائیلی جاسوس اس کو ایک منظم، کازگزار اور کارآمد حکومت جیسے القاب دے رہا ہے۔

یہ کہنا ضروری ہے کہ امارات کی آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: 21 لاکھ مقام عرب اور 70 لاکھ غیر ملکی مزدور جنہیں سو فیصد امتنیازی سلوک کا سامنا ہے نہ ان کو انشورنس کی سہولت دی جاتی ہے اور نہ ہی عرصہ دراز تک اس ملک کی خدمت کرکے انہيں شہریت دی جاتی ہے اور پھر انہیں اپنے موجروں کے ظلم و جبر کا سامنا بھی ہوتا ہے، اقامتی پرمٹ کے عوض انہیں کفیل کو اچھی خاصی رقم ادا کرنا پڑتی ہے اور معمولی سے بہانے پر انہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں، یا پھر دہشت گردی وغیرہ جیسے القابات سے نواز کر عرصے تک جیل میں رکھ کر انہيں ملک بند کیا جاتا ہے، اور یوں وہ بےروزگار ہوجاتے ہیں جبکہ انہیں ریٹائرمنٹ کے حوالے سے کچھ بھی نہیں دیا جاتا۔ حال ہی میں صہونی دشمن کے ساتھ اعلانیہ تعلقات کی بحالی کی تمہید کے طور پر آل نہیان ہزاروں پاکستانی تاجروں اور مزدوروں کو گرفتار کیا جن میں سے اکثر افراد کو اس لئے قید یا ملک بند کیا گیا کہ ان پر صہیونی ریاست کی مخالفت کا شبہہ تھا۔ بہرصورت صہیونی جاسوس ڈیوڈ مِیدان غاصب صہیونی ریاست کے آنکھ کے تارے "متحدہ عرب امارات" کی قصیدہ گوئی میں آسمان و زمین کے قلابے ملاتے ہوئے ایک قدم اور بھی آگے بڑھاتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ "بھارت اور پاکستان اور دنیا بھر کے مختلف ممالک سے آنے والے مزدور بھی اس ملک میں مقیم ہے لیکن اس نکتے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ یہ غیر ملکی مزدور اس ملک میں بہت خوش ہیں؛ ان کے تمام حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے، انہیں اچھی خاصی تنخواہیں دی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ منصفانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے!"۔

مِیدان کی نظر ميں متحدہ عرب امارات کا بانی اور خودخواندہ باپ "شیخ زائد بن سلطان آل نہیان اماراتیوں کا داوید بن گوریون (29) ہے"۔ جو اس ملک کے تمام اہم قبائل کو متحد کرنے میں کامیاب ہؤا اور ایک وفاق کی بنیاد رکھی۔ مِیدان کا کہنا ہے: "شیخ زائد کے نظریات بہت سادہ اور قابل فہم ہیں: تحمل و بردباری، میانہ روی اور اعتدال پسندی اور امن و آشتی۔ شیخ زائد کے یہ اصول تربیت اور ترقی کے میدان میں وسیع  سرمایہ کاریوں کے ساتھ آگے بڑھے ہیں۔ اماراتی [اپنے صہیونی استادوں کی مدد سے] نوجوان اہلیتوں اور صلاحیتوں کا سراغ لگاتے ہیں اور تعلیم جاری رکھنے کے لئے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں روانہ کرتے ہیں اور پھر اس کا پھل چن لیتے ہیں اور اپنی سرمایہ کاری کو جاری رکھتے ہیں، یہ عمل غیر معمولی ہے۔ بطور مثال امارات کی سائبر سیکورٹی کا "محمد الکویتی" ہی کو لے لیجئے: وہ اسرائیل کو اپنی ہتھیلی کی طرح پہچانتا ہے۔ اس نے کمپیوٹر سائنس میں تین ڈگریاں امریکی یونیورسٹیوں سے حاصل کی ہیں۔ ایک پیشہ ور انسان ہے جو سیاست میں ملوث نہیں ہوتا؛ اس کی پوری توجہ سائبر سیکورٹی اور اس شعبے میں مستقبل کی ترقی پر مرکوز ہے"۔

سوال: دشمن کا جاسوس ایک ملک کے حکام کی تعریف کرے تو اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ جواب آپ خود ہی تلاش کیجئے۔

"مصر کی تبدیلی کے لئے اسرائیل کا تھوڑا سا علم ہی کافی ہے"

صہیونی ریاست کے ساتھ انور السادات کی سربراہی میں مصر کی ساز باز [کیمپ ڈیوڈ معاہدے] اور دو طرفہ تعلقات کی بحالی کو 44 سال کا عرصہ گذر چکا ہے اور آج مصر کے سیکورٹی ادارے السیسی کی سربراہی میں، جاسوسی کے شعبوں میں اسرائیلی آلات اور حکمت عملیوں کے سب سے بڑے خریداروں میں شامل ہیں۔ موساد کے سابق اور موجودہ اہلکار دو طرفہ تعاون میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور پھر ڈیویڈ مِیدان خود مصر کا پیدائشی ہے، جو ان شعبوں میں نمایاں ترین کردار ادا کر رہا ہے۔ بطور مثال سنہ 2018ع‍ میں مصر اور غاصب صہیونی ریاست کے درمیان سلامتی کے شعبے میں ایک باضابطہ معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے لئے ماحول مِیدان نے فراہم کیا تھا۔

چونکہ ڈیوڈ مِیدان اپنے دوستوں کو اپنی جاسوسانہ نگاہ سے دیکھتا اور متعارف کراتا ہے لہٰذا دیکھتے ہیں وہ اس مصر اور غاصب ریاست کے درمیان سیکورٹی اور جاسوسی کے شعبوں میں تعاون کے بارے میں کیا کہتا ہے؛ کہتا ہے:  "اسرائیل کی عظیم دانش اور ٹیکنالوجی کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی مصر کو اتنا طاقتور بنا سکتی ہے کہ وہ اپنے لئے درپیش  سیکورٹی خطرات سے نمٹ سکے گا۔ دو ملکوں کے درمیان تعاون بھی ان خطرات کا مقابلہ کرنا ہے جو دونوں کو درپیش ہیں۔۔۔ اسرائیلی سائنس اور ٹیکنالوجی خفیہ روشوں سے مصر منتقل ہؤا کرتی ہے اور دو ملکوں کی خفیہ معلومات کے تبادلے کے لئے ٹیلی فون کال محفوظ نہیں ہے"۔

مِیدان اس سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا کہ کہ 44 سالہ سازباز اور مصر پر عملی تسلط کے باوجود اسرائیل نے مصر کو اپنے علم و سائنس اور ٹیکنالوجی سے کیوں محروم رکھا ہے؟! اور لگتا ہے کہ اس کے پاس اس کے پاس اس کا جواب ہوگا بھی نہیں۔

مِیدان اس سے قبل موساد کی ملازمت کے دوران بھی اور اس کے بعد سبکدوشی کے ایام میں بھی صہیونی ریاست اور مصر کے معلوماتی تعاون کے سلسلے میں کوآرڈینیٹر کا کردار ادا کرتا رہا ہے؛ ایسا تعاون جو دنیا کی دہشت گرد ترین ریاست کے اس جاسوس کے بقول "انسداد دہشت گردی" کے مرکوز ہے؛ دہشت گردی سے مراد غاصب ریاست کے خلاف فلسطینی مزاحمت ہے؛ جیسا کہ اس (مِیدان) کا دعویٰ ہے کہ "مصر اس تعاون کے عوض اسرائیل کو ایسی معلومات فراہم کرتا ہے جو اسرائیل کی قومی سلامتی کے لئے بہت اہم اور مؤثر ہیں!!"۔ نیز وہ دعویٰ کرتا ہے کہ "چونکہ اسرائیل مصر سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہے! لہٰذا معلومات اکٹھے کرنے کے سلسلے میں بھی اسرائیل کی قوت مصر سے زیادہ ہے؛ چنانچہ صحرائے سینا میں مصر کے ساتھ مسلسل تعاون سے اسرائیل کا مقصد یہ ہے کہ وہ مصری سرحد کے قریب واقع مقبوضہ فلسطینی [مبینہ اسرائیلی] شہر "ایلات" کے امن و سلامتی سے مطمئن رہے۔ [مِیدان کے بقول] جس قدر کہ دہشت گرد [یعنی فلسطین کی] مقاومتی تنظیمیں اپنی سرگرمیوں کا پیمانہ وسیع تر کر دیتی ہیں، ایلات کو درپیش خطروں میں اضافہ ہوگا۔ مصر کے صحرائے سینا میں موجود کوئی بھی خطرہ، اسرائیل کے لئے خطرے کے مترادف ہے"۔ (30)

اردوگان کے ہاں بھی صہیونیوں کی محبت کا دلال "مِیدان"

سنہ 2011ع‍ میں گیلاد شالیت کے واقعے کے بعد، نیتان یاہو نے مِیدان کو ترکی میں خصوصی ایلچی کے طور پر متعین کیا اور اس کو انقرہ کے ساتھ گرمجوش تعلقات دوبارہ بحال کرنے کا مشن سونپا؛ البتہ انقرہ نے بھی اس کی تائید کی اور اس کی تعیناتی کو منظور کر لیا؛ اور اس واقعے کے بعد ہی ترکی نے غاصب اسرائیل کو 23 اکتوبر 2011ع‍ کے زلزلے کے متاثرین کے لئے انسانی امداد بھیجنے کی اجازت دی۔ اسی دور میں ہی ترکی نے غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لئے دو امدادی بحری جہاز غزہ روانہ کئے تھے جنہیں ترکی نے انتہائی سنگدلانہ انداز سے روک لیا اور جہازوں پر سوار کئی افراد صہیونیوں کی کاروائی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن اردوگانی ترکی نے اسی بنا پر رد عمل ہی ظاہر نہیں کیا!! علاوہ ازیں مِیدان کو یہ مشن بھی سونپ دیا گیا کہ اردوگان حکومت کو قائل کرے - کہ وہ اسرائیل کی باضابطہ معذرت خواہی پر اپنا اصرار ترک کرے اور معذرت خواہی کے لفظ کو اپنے مطالبے سے حذف کرے، - اور یوں ترکی - اسرائیل تعلقات کی دوبارہ بحالی کو ممکن بنا دے۔ (31)

ترکی اور یہودی ریاست کے درمیان سفارتی تعلقات تقریبا 75 سال پرانے ہیں اور کچھ عرصے کے ریاکارانہ تعطل کے بعد حال ہی میں یہودی ریاست کے صدر اسحاق ہرزوگ نے ترکی کا دورہ کیا اور جناب اردوگان نے ان کے سامنے کرنش بجا لائی اور وسیع پیمانے پر تعاون کے وعدوں کا تبادلہ ہؤا اور اردوگان نے فلسطینی کے گیس کے ذخائر چوری کرنے اور یورپ تک پہنچانے کے سلسلے میں یہودی ریاست کو پائپ لائن بچھانے کے لئے اپنی سرزمین کی پیشکش کی اور ساتھ ہی اسلامی مقاومت کی تحریک "حماس" کے بہت سارے نمائندوں کو یہودیوں کی خوشامد کے لئے اپنی سرزمین سے نکال باہر کیا؛ چنانچہ ترکی اور صہیونی ریاست کے تعلقات بہت وسیع ہیں لیکن جس طرح کے ترکی کے تعلقات دوسرے ممالک بالخصوص اسلامی دنیا کے ساتھ بہت پیچیدہ اور مبہم ہیں، یہودی ریاست کے ساتھ بھی اس کے تعلقات پیچیدہ ہیں۔ اس وقت دوطرفہ تعاون کو ذیل کے چند شعبوں میں اختصار کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے:

◄ اسرائیلی سائبر سیکیورٹی کمپنیوں اور ترکی کی سرکاری ایجنسیوں کے درمیان معاہدوں کے ذریعے انٹیلی جنس کا کاروبار؛

◄ ترکی فوجی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کے لئے اسرائیلی کمپنیوں سے فوجی ساز و سامان اور ہتھیار خریدتا ہے۔ ترکی اس شعبے میں ٹیکنالوجی کی منتقلی کی توقع بھی رکھتا ہے اور بہت شدت کے ساتھ ڈرونز کے شعبے میں مکمل جارحانہ اور معلوماتی صلاحیت حاصل کرنے کے درپے ہے؛ و

◄ شمالی افریقہ میں ترک اثر و رسوخ کی توسیع، خطے میں اسرائیلی انٹیلی جنس کی صلاحیتوں پر انحصار، اور مصر اور لیبیا میں مختلف سیاسی اور بین الاقوامی بازیگروں کے ساتھ اسرائیلیوں کے تعامل و تعاون سے فائدہ اٹھانا۔

البتہ یہ تعلقات ان ہی چند موضوعات تک محدود نہیں ہوتے، لیکن کم از کم اس مضمون میں اس مسئلے کی مکمل تشریح کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے باوجود، جس مسئلے کا صحیح ادراک لازم اور ضروری ہے وہ یہ ہے کہ "ڈیوڈ مِیدان مذکورہ بالا تینوں شعبوں میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور اس نے ایک مذاکرات کار اور دلال (بروکر) کا کردار ادا کیا ہے۔ فی الحال، البیت سسٹمز ترکی کے چند اہم ہتھیاروں کے منصوبوں کے ٹھیکیدار کے طور پر، البیت سسٹمز نے ملک کی اسلحہ اور گولہ بارود کے کارخانوں کے ساتھ کئی معاہدے منعقد کئے ہیں۔ ان اور اکثر معاملات میں، ڈیوڈ مِیدان اسرائیل میں ترک فیکٹریوں کا اسرائیلی مشیر اور رابطہ کار رہا ہے۔ فی الحال البیت سسٹمز نے ترکی کے چند اہم اسلحہ ساز منصوبوں کے ٹھیکیدار کے طور پر، اسرائیل کے کئی گولہ بارود اور اسلحہ بنانے والے کارخانوں کے ساتھ کئی معاہدے منعقد کئے ہیں اور ان ان میں سے زیادہ تر معاملات میں، ڈیوڈ مِیدان اسرائیل میں ترک فیکٹریوں کے اسرائیلی مشیر اور رابطہ کار کے طور پر کردار ادا کرتا رہا ہے۔

علاوہ ازیں، ڈیوڈ مِیدان ترکی کے خفیہ ادارے کا سربراہ "ہاکان فیدان" (33) بہت قریبی دوست ہے۔ مِیدان نے سنہ 2014ع‍ میں ہاکان فیدان کو خبردار کیا تھا کہ ترکی کو صدر بشار الاسد کے خلاف فوجی اقدام سے باز رہنا چاہئے۔ (34) گوکہ ترکی نے اس انتباہ کو لائق توجہ نہیں سمجھا لیکن نکتے کی بات یہ ہے کہ ڈیوڈ میدان کے ترک انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ اعلیٰ سطحی رابطے رہے ہیں اور یہ تعلقات ہنوز جاری ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1. David Meidan: https://en.wikipedia.org/wiki/David_Meidan

2. Gilad Shalit: https://en.wikipedia.org/wiki/Gilad_Shalit

3. Appointment of Hagai Hadas as PM Netanyahu's Special Representative on the Return of Abducted IDF Soldier Gilad Shalit:

https://www.gov.il/en/Departments/news/spokehadas310509

4.  Palestinian Preventive Security:

https://en.wikipedia.org/wiki/Palestinian_Preventive_Security

5. Stinging Blow for Israel in Major Dubai Cyber Bid 

https://www.haaretz.com/israel-news/.premium.HIGHLIGHT-stinging-blow-for-israel-in-major-dubai-cyber-bid-1.9575865

6. Signaling System No. 7:

https://en.wikipedia.org/wiki/Signalling_System_No._7

7. NSO Group: https://en.wikipedia.org/wiki/NSO_Group

8. UAE National Electronic Security Authority [NESA] later named as Signals Intelligence Agency: https://en.wikipedia.org/wiki/Signals_Intelligence_Agency

9. The Real Deal for Israel and the UAE Is Weapons:

https://www.haaretz.com/israel-news/business/.premium-the-real-deal-for-israel-and-the-uae-is-weapons-1.9077725

10. Avi Leumi: https://m.facebook.com/public/Avi-Leumi

11. Aeronautics Defense Systems:

https://en.wikipedia.org/wiki/Aeronautics_Defense_Systems

12. Rafael Advanced Defense Systems:

https://en.wikipedia.org/wiki/Rafael_Advanced_Defense_Systems

13. Intelligence Report: The Israel-Abu Dhabi connection:

https://www.jpost.com/jerusalem-report/intelligence-report-the-israel-abu-dhabi-connection-592414

14. Cellebrite: https://en.wikipedia.org/wiki/Cellebrite

15. Elbit Systems: https://en.wikipedia.org/wiki/Elbit_Systems

16. Computer emergency response team:

https://en.wikipedia.org/wiki/Computer_emergency_response_team

17. David Meidan Projects:

www.dunsguide.co.il/en/C2e5bbac9e00a823749ecaee4520bc9fb_alarm_and_security_systems/david_meidan_projects/

18.  Purammon Water Treatment Company: www.purammon.com/the-company/

19. Koret Foundation: https://en.wikipedia.org/wiki/Koret_Foundation

20.  RedHill Biopharma: redhillbio.com/home/default.aspx

21. Machine learning and monitoring of computer systems Loom Systems:

https://www.loomsystems.com/

22. David Meidan: https://www.linkedin.com/in/david-meidan-35853176/

23. Ryzen

24. Israeli cyber intelligence co Cellebrite signs deal in UAE:

https://en.globes.co.il/en/article-cellebrite-1001346762

25. The mobile forensics process: steps and types - Infosec Resources (infosecinstitute.com)

26. Cyber, defense and water projects: Israeli companies have made billions working in the UAE:

https://www.calcalistech.com/ctech/articles/0,7340,L-3845233,00.html

27.  Emirates or bust - Israeli entrepreneurs spend productive week in Dubai:

https://www.jpost.com/israel-news/emirates-or-bust-israeli-entrepreneurs-spend-productive-week-in-dubai-648876

28. The Signals Intelligence Agency (SIA):

https://en.wikipedia.org/wiki/Signals_Intelligence_Agency

29۔ داوید بن گوریون (David Ben-Gurion) فلسطینی سرزمین پر یہودی ایجنسی کی جعلی ریاست "اسرائیل" کا بانی اور پہلا وزیر اعظم تھا۔

30. Ex-Mossad agent: Egypt benefits from Israel's intelligence capabilities:

https://www.middleeastmonitor.com/20180409-ex-mossad-agent-egypt-benefits-from-israels-intelligence-capabilities/

31. David Meidan is New Israeli Envoy to Turkey:

https://www.israelnationalnews.com/news/149625

32. Yohanan [or Johanan] Locker: 

https://www.haaretz.com/2011-12-04/ty-article/how-netanyahus-military-secretary-became-his-most-trusted-adviser/0000017f-ded1-db22-a17f-fef11a430000

33. Hakan Fidan, Head of Turke's National Intelligence Organization (Turkish: Millî İstihbarat Teşkilatı, MİT):

https://en.wikipedia.org/wiki/National_Intelligence_Organization

34. Israel said to warn Turkey: Don’t attack Assad:

https://www.timesofisrael.com/israel-said-to-warn-turkey-dont-attack-assad/


ماتی کوچاوی کو بہتر جاننے کے لئے اس لنک سے رجوع کیجئے: https://ur.abna24.com/story/1453335

تصاویر ضرور دیکھئے: