اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

9 اپریل 2024

7:22:36 PM
1450290

امام علی الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہيں: "قیامت کا دن ہوگا تو چار دن فخر و مباہات کے ساتھ اللہ تعالٰی کی درگاہ میں حاضر ہونگے۔ جس طرح کہ شب زفاف دلہن اپنے شوہر پر وارد ہوتی ہے"۔ پوچھا گیا: "یہ چار دن کونسے دن ہیں؟"۔ امام نے فرمایا: "روز عید الاضحٰی کا دن اور عید فطر کا دن، اور جمعہ کا دن اور عید غدیر کا دن"۔

اکتیسواں درس

عید سعید فطر

عید فطر کے چودہ پیغامات

تمہید

چودہ معصومین (علیہم السلام) نے چار دنوں کو عید کے طور پر متعارف کرایا ہے: عید فطر، عید الاضحٰی، عید غدیر اور روز جمعہ۔

امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہيں:

"إِذَا كَانَ يَوْمُ القِيَامَةِ زَفَّتْ اَربَعَةُ اَيَّامٍ إِلَى اللهِ كَمَا تَزِفُّ العرُوْسُ إِلَى خِدْرِهَا، قِيْلَ: مَا هَذِهِ الأَيَّامُ؟ قَالَ: يَوْمُ الأَضْحَى وَيَوْمُ الفِطْرِ وَيَوْمُ الجُمُعَةِ وَيَوْمُ الغَدِيرِ، وَإِنَّ يَوْمَ الغَدِيْرِ بَيْنَ الأَضْحَى وَالفِطْرِ وَالجُمُعَةِ؛ (1)

جب قیامت کا دن ہوگا تو چار دن فخر و مباہات کے ساتھ اللہ تعالٰی کی درگاہ میں حاضر ہونگے۔ جس طرح کہ شب زفاف دلہن اپنے شوہر پر وارد ہوتی ہے"۔ پوچھا گیا: "یہ چار دن کونسے دن ہیں؟"۔ امام نے فرمایا: "روز عید الاضحٰی کا دن اور عید فطر کا دن، اور جمعہ کا دن اور عید غدیر کا دن"۔

کچھ عرصے سے کچھ لوگوں نے عید فطر کے خلاف بھی بولنا شروع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عید فطر اس لئے عید نہیں ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں امیر المؤمنین (علیہ السلام) کی شہادت کا واقعہ پیش آیا ہے اور ابھی تو چالیسویں بھی نہیں ہوئی تو ہم عید کیوں منائیں؟

تو عرض یہ ہے کہ یقیناً جو روزہ رکھتے ہیں وہ عید رمضان کی مخالفت نہیں کرتے چنانچہ ان شبہات کا تعلق ان ہی لوگوں سے ہوگا جو دین و ایمان کے تمام مظاہر کے آگے کچھ شکوک و شبہات کھڑے کر دیتے ہیں۔ قبل ازیں، "عید فطر احادیث کی روشنی میں" کے عنوان سے ایک مستند مضمون کے ضمن میں ان کا جواب دیا جا چکا ہے۔

ان حضرات سے کہا جاسکتا ہے کہ قمری سال کے بارہ مہینوں اور 355 دنوں میں ہمارے 14 معصومین، ہزاروں علماء، شہداء اور بزرگوں کی شہادت کے ایام بھی شامل ہیں؛ تو اگر ہم اعیاد کو نظرانداز کرنا چاہیں تو یقیناً غم منانے کے لئے تو یہ ایام کم پڑ جائیں گے۔

بےشک ہم شیعیان اہل بیت ائمۂ معصومین (علیہم السلام) کے فرمان پر غم بھی مناتے ہیں اور عید بھی؛ جیسا کہ امام رضا (علیہ السلام) اپنے صحابی ریان ابن شبیب سے ارشاد فرماتے ہیں:

"يَا بْنِ شَبِيبٍ، إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَكُونَ مَعَنَا فِي الدَّرَجَاتِ الْعُلَى مِنَ الْجِنَانِ، فَاحْزَنْ لِحُزْنِنَا وَافْرَحْ لِفَرَحِنَا؛ (2)

اے فرزند شبیب! اگر پسند کرتے ہو کہ جنت کے اعلٰی درجات میں ہمارے ساتھ رہو، تو ہمارے غم میں محزون رہو اور ہماری خوشی میں خوشی مناؤ"۔

ہم تو عید کے دن اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور شکر خدا بجا لاتے ہیں اور اہل بیت (علیہم السلام) کی مظلومیت کا تذکرہ کرتے ہیں اور ظلم کی حکمرانیوں پر غم مناتے ہیں اور اہل بیت (علیہم السلام) کے پیروکاروں کی مظلومیت اور دفاع امت میں ان کی تنہائی کو روتے ہیں۔

عبداللہ بن ذبیان کہتے ہیں کہ امام محمد باقر (علیہ السلام) نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا:

"يَا عَبْدَ اللهِ مَا مِنْ یَوْمِ عِیْدٍ لِلمُسْلِمِیْنَ اَضْحَىً وَلَا فِطرٍ اِلّا وَهُوَ یُجَدِّدُ اللهُ لآلِ مُحَمَّدٍ (عَلَيهِمُ السَّلامُ) فِیْهِ حُزْناً قَالَ قُلْتُ وَلِمَ ذَلِكَ قَالَ اِنَّهُمْ یَرَوْنَ حَقَّهُمْ فِي أَیْدي غَيْرِهِمْ؛ (3)

اے بندہ خدا! مسلمانوں کے لئے کوئی بھی عید، کوئی ضحٰی اور کوئی فطر نہیں ہے سوا اس کے، کہ اللہ اس دن آل محمد (علیہم السلام) کے غم و حزن کی تجدید فرماتا ہے۔۔ میں نے عرض کیا: اس کی وجہ کیا ہے، تو آپ نے فرمایا: کیونکہ خاندان محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنے حق کو دوسروں کے ہاتھ میں [لٹا ہؤا] دیکھتے ہیں"۔

یقیناَ امت مسلمہ پر آج نا اہل لوگوں کی حکمرانی ہے، جو اپنے نا اہل گماشتوں کے ذریعے امت کو غفلت سے دوچار کر رہے ہیں اور ان ہی کی وہ سے دشمنان دین امت مسلمہ کے مقدرات پر مسلط ہیں؛ جبکہ منتظرین امام زمانہ (علیہ السلام) اچھے دنوں کے منتظر ہیں اور ان ظالموں سے نجات کے طلبگار ہیں اور جب تک امام برحق کا ظہور نہیں ہوگا تب تک امت چین و سکون نہيں دیکھ پائے گی؛ لیکن ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ان غموم و ہموم کے باوجود امام محمد باقر (علیہ السلام) - جو خود واقعۂ عاشورا کے عینی شاہد ہیں - عید کا انکار نہیں کرتے بلکہ فرماتے ہیں کہ عید کے دنوں میں بھی ہم غمگین رہتے ہیں اور یہ حقیقت ہماری مجالس اور محافل عید میں بھی صاف اور بآسانی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن منکرین عید فطر کو ایسا کوئی مسئلہ بھی لاحق نہیں ہے اور ان کے ہاں کا جواز ہرگز خدا، رسول خدا اور آل رسول (علیہم السلام) کی طرف کا نہیں ہے؛ انہیں دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کا کوئی غم نہیں ہے بلکہ وہ تو ستمگروں کے تسلط کو مزید مضبوط بنانے کی سعی باطل کررہے ہیں۔

ہماری سوگواریوں اور عیدوں کا تعلق ہمارے جذبات و احساسات سے نہیں بلکہ حکم کے مطابق ہے اور ہر عید و عزا کا کوئی فلسفہ ہے۔ عید فطر کے منکرین آٹھ ربیع الاول کا ظہر ہوتے ہی امت میں تفرقہ ڈالنے کے لئے ایک خرافاتی عید منانا شروع کرتے ہیں اور چند ہی گھنٹے قبل کا یوم شہادت یکسر بھول جاتے ہیں، کیونکہ یہ مسئلہ امت پر مسلط ظالم قوتوں کے مفاد اور امت کے مفادات کے خلاف ہے۔

وہ 9 ربیع الاول کو جھوٹا جشن منا کر شہادت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کو یکسر بھول جاتے ہیں اور والد ماجد کے غم میں سوگوار امام زمانہ (علیہ السلام) کی سوگواری کو نظرانداز کرکے، ان کا نام لئے بغیر، اور ان کی امامت کے آغاز کی طرف اشارہ کئے بغیر، عید شجاع اور عیدالزہراء جیسی موہوم عید مناتے ہیں جس کی نہ 14 معصومین نے اجازت دی ہے اور نہ ہی ایسی کسی مناسبت کا تاریخ سے کوئی تعلق ہے۔ ایک جھوٹی روایت اور ایک جھوٹی عید، جسے وہ بغیر کسی لیت و لعل کے منا دیتے ہیں کیونکہ اس سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف کو ہوا ملتی ہے اور حضرات کے مغربی آقاؤ‎ں کے منصوبے کے لئے مفید اور انگریزی شیعوں کی تبلیغ کا موضوع ہے لیکن سوچے سمجھے بغیر، یا پھر سوجھ بوجھ کر دنیاوی مفادات حاصل کرکے یہاں عید مناتے اور رمضان کے آخر میں عید فطر کا انکار کردیتے ہیں!

ہم بھی امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی شہادت کا سوگ اور اسی دن کے خاتمے پر عید مناتے ہیں لیکن ہماری یہ عید بھی ایک حکمت پر استوار ہے؛ چنانچہ رات کے وقت امام مہدی (علیہ السلام) کی امامت کے آغاز کے سلسلے میں عید اور جشن مناتے ہیں اور عجب یہ ہے کہ رمضان میں مسلمان روزہ رکھتے ہیں، نماز ادا کرتے ہیں اور روزوں کے آخر میں ایک ماہہ عبادات کا جشن مناتے ہیں۔ چنانچہ عید فطر امت مسلمہ کی عید ہے؛ لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں کی عیدیں بھی دوسروں کے لئے تکلیف دہ ہیں، جس طرح کہ بہت سوں کو ہمارے محرم اور صفر کی عزاداریوں سے کافی تکلیف ہوتی ہے!

ہم عید الفطر اور عید الاضحٰیٰ کی نمازوں میں ذیل کی دعا پڑھتے ہیں:

"... أَسْأَلُكَ بِحَقِّ هَذَا الْيَوْمِ الَّذِي جَعَلْتَهُ لِلْمُسْلِمِينَ عِيداً وَلِمُحَمَّدٍ صلّی‌الله علیه وآله ذُخراً وَشَرَفاً وَکَرامَتاً وَمَزیداً اَنْ تُصَلِّىَ عَلى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ، وَاَنْ تُدْخِلَنى فى كُلِّ خَيْرٍ اَدْخَلْتَ فيهِ مُحَمَّداً وَ الَ مُحَمَّدٍ، وَاَنْ تُخْرِجَنى مِنْ كُلِّ سُوءٍ اَخْرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّداً وَ الَ مُحَمَّدٍ، صَلَواتُكَ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ؛ (4)

یا الله میں تجھ سے التجا کرتا ہوں اس دن کے صدقے جس کو تو نے "مسلمین کے لئے عید" قرار دیا اور محمد و آل محمد کے لئے ذخیرہ، شرف، مقام و مرتبت کی مزید بلندی، کا سبب؛ درود بھیج دے محمد و آل محمد پر اور مجھے ہر اس خیر و نیکی میں داخل کردے جس میں تو نے محمد و آل محمد کو داخل کیا ہے اور ہر اس برائی سے مجھے خارج کردے جس سے تو محمد و آل محمد کو خارج کرچکا ہے، درود و سلام ہو محمد پر اور آپ کے خاندان پر"۔

عید الفطر مسلمانوں کے لئے اللہ اور اس کے رسول اور اہل بیت (علیہم صلوات اللہ اجمعین) کی مقرر کردہ عید ہے؛ جو ان دو عیدوں میں سے ہے جن میں حج کے بعد کا دوسرا بڑا اسلامی اجتماع منعقد کیا جاتا ہے؛ تا کہ وہ اکٹھے ہوجائیں، اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوجائیں، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور اس کی بارگاہ میں تعظیم کریں۔ یہ روز عید ہے، روز اجتماع ہے، روز فطر ہے، روز زکوٰۃ ہے، روز رغبت ہے، روز مناجات ہے۔ اور اللہ تعالٰی اور اس کے انبیاء اور اولیاء (علیہم السلام) نے پسند کیا ہے کہ مسلمان اس دن عظیم اجتماعات منعقد کرکے اس کی حمد و ثناء کریں۔

مستحب ہے کہ روزہ دار نماز عید کے آغاز سے پہلے، چار نمازوں کے بعد چار تکبیریں کہیں: شب عید کی نماز مغرب کے بعد، نیز نماز عشاء، اور روز عید کی نماز صبح کے بعد۔ تکبیر کا مفہوم بت شکنی، طاغوت کا انکار اور طاغوت اور طاغوتیوں کی نابودی اور مشرکین کے خلاف جہاد کا اعلان ہے۔

1۔ مغفرت اور فضیلتوں کی عید

عید فطر گناہ اور نافرمانیوں کی زنجیروں سے آزادی کا دن ہے؛ ہر پلیدی اور ناپاکی سے پاک ہونے کا دن ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) رمضان کی فضیلت کے سلسلے میں منقولہ ایک مقصل حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں:

"فَإِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ الْفِطْرِ وَهِيَ تُسَمَّى لَيْلَةَ الْجَوَائِزِ أَعْطَى اللَّهُ الْعَالَمِينَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ فَإِذَا كَانَتْ غَدَاةُ يَوْمِ الْفِطْرِ بَعَثَ اللَّهُ الْمَلَائِكَةَ فِي كُلِّ الْبِلَادِ فَيَهْبِطُونَ إِلَى الْأَرْضِ وَيَقِفُونَ عَلَى أَفْوَاهِ السِّكَكِ فَيَقُولُونَ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ اخْرُجُوا إِلَى رَبٍّ كَرِيمٍ يُعْطِي الْجَزِيلَ وَيَغْفِرُ الْعَظِيمَ فَإِذَا بَرَزُوا إِلَى مُصَلَّاهُمْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمَلَائِكَةِ مَلَائِكَتِي مَا جَزَاءُ الْأَجِيرِ إِذَا عَمِلَ عَمَلَهُ قَالَ فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ إِلَهَنَا وَسَيِّدَنَا جَزَاؤُهُ أَنْ تُوَفِّيَ أَجْرَهُ قَالَ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ مَلَائِكَتِي أَنِّي قَدْ جَعَلْتُ ثَوَابَهُمْ عَنْ صِيَامِهِمْ شَهْرَ رَمَضَانَ وَقِيَامِهِمْ فِيهِ رِضَايَ وَمَغْفِرَتِي وَيَقُولُ يَا عِبَادِي سَلُونِي فَوَ عِزَّتِي وَجَلَالِي لَا تَسْأَلُونِّي الْيَوْمَ فِي جَمْعِكُمْ لِآخِرَتِكُمْ وَدُنْيَاكُمْ إِلَّا أَعْطَيْتُكُمْ‌ وَعِزَّتِي لَأَسْتُرَنَّ عَلَيْكُمْ عَوْرَاتِكُمْ مَا رَاقَبْتُمُونِي وَعِزَّتِي لَآجَرْتُكُمْ وَلَا أَفْضَحُكُمْ‌ بَيْنَ يَدَيْ أَصْحَابِ الْخُلُودِ انْصَرِفُوا مَغْفُوراً لَكُمْ قَدْ أَرْضَيْتُمُونِي وَرَضِيتُ عَنْكُمْ قَالَ: فَتَفْرَحُ الْمَلَائِكَةُ وَتَسْتَبْشِرُ وَيُهَنِّئُ بَعْضُهَا بَعْضاً بِمَا يُعْطِي اللَّهُ هَذِهِ الْأُمَّةَ إِذَا أَفْطَرُوا؛ (5)

اور جب عید فطر کی شب ہو - جو انعامات کی شب کہلاتی ہے - اللہ تعالٰی عالمین کو ان کا اجر بے اندازہ عطا کرتا ہے؛

اور جب عید کی صبح ہوجائے، خدائے متعال فرشتوں کو مختلف شہروں میں روانہ کرتا ہے، تو وہ زمین پر اترتے ہیں اور گلیوں اور اور راستوں کے سِروں پر کھڑے ہوتے ہیں، اور کہتے ہیں: اے امت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ)! رب کریم کی طرف نکل پڑو جو اجر بکثرت عطا کرتا ہے اور عظیم گناہوں کو بخشتا ہے؛

اور جب نماز عید کے لئے، عیدگاہ کی طرف چل نکلتے ہیں، خدائے بزرگ و برتر فرشتوں سے ارشاد فرماتا ہے، اے میرے فرشتو! اس اجیر (ملازم) کی جزا کیا ہے جس نے اپنا کام سرانجام دیا ہے؟ فرمایا: فرشتے عرض کرتے ہیں: اے ہمارے معبود اور اے ہمارے سید و آقا! اس کی جزا یہ ہے کہ اس کی اجرت کو مکمل طور پر عطا فرما دے۔ تو خدائے بزرگ و برتر فرماتا ہے: تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں ان (روزہ داروں) کو ماہ رمضان میں ان کے روزوں اور نمازوں کا اجر اپنی خوشنودی اور مغفرت کی صورت میں عطا کرتا ہوں؛

اور [اللہ اپنے بندوں سے] ارشاد فرماتا ہے: [جو چاہو] مانگو، میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں کہ آج تم اپنے اس اجتماع میں دنیا اور آخرت میں سے جو کچھ بھی مانگوگے، میں عطا کروں گا؛

اور اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں کہ میں تمہاری عزت و آبرو کو [دنیا کی نگاہوں سے] مستور رکھوں گا اور میری عزت کی قسم! کہ جب تک کہ تم مجھے اپنے اوپر ناظر و نگران سمجھوگے [اور گناہوں سے پرہیز کروگے] میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں اور ان لوگوں کے سامنے تمہیں خوار و رسوا نہيں کروں گا جو دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنے والے ہیں؛ پلٹ جاؤ، تمہیں بخش دیا گیا، بلا شبہ تم نے مجھے خوشنود کردیا اور میں تم سے خوشنود ہؤا۔

فرمایا: تو فرشتے - اس لئے کہ اللہ نے اس امت کو عید کے دن اس قدر انعام و اکرام سے نوازا ہے - خوش ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو بشارت اور مبارکباد دیتے ہیں"۔

2۔ انعام اور صلے کا دن

الف۔ حقیقی انعام و اکرام کا دن

امام محمد باقر (علیہ السلام) جابر جعفی سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"إِذَا كَانَ أَوَّلُ يَوْمٍ مِنْ شَوَّالٍ نَادَى مُنَادٍ: أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ اغْدُوا إِلَى جَوَائِزِكُمْ، ثُمَّ قَالَ: يَا جَابِرُ جَوَائِزُ اللَّهِ لَيْسَتْ بِجَوَائِزِ هَؤُلَاءِ الْمُلُوكِ، ثُمَّ قَالَ: هُوَ يَوْمُ الْجَوَائِزِ؛ (6)

شوال کے پہلے دن، منادی ندا دیتا ہے: اے مؤمنو! اس صبح کو اپنے انعامات کی طرف لپکو [جو رمضان کی عبادت کے صلے میں تمہیں عطا ہونگے] بعدازاں امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا: اے جابر! اللہ کے عطا کردہ انعامات ان [دنیاوی] بادشاہوں کے انعامات جیسے [مادی اور فانی] نہیں [بلکہ بہت عمدہ اور عظیم] ہیں؛ اور پھر فرمایا: آج کا دن انعامات وصول کرنے کا دن ہے"۔

ب۔ روزہ داروں کی پاداشِ کا موقع

امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقولہ حدیث:

"إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ إِنَّ الْمَغْفِرَةَ تَنْزِلُ عَلَى مَنْ صَامَ شَهْرَ رَمَضَانَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ فَقَالَ: يَا حَسَنُ إِنَّ الْقَارِيجَارَ (7) إِنَّمَا يُعْطَى أُجْرَتَهُ عِنْدَ فَرَاغِهِ وَذَلِكَ لَيْلَةُ الْعِيدِ، قُلْتُ: جُعِلْتُ فِدَاكَ فَمَا يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَعْمَلَ فِيهَا؟ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَاغْتَسِلْ وَإِذَا صَلَّيْتَ الثَّلَاثَ مِنَ الْمَغْرِبِ فَارْفَعْ يَدَيْكَ وَقُلْ:

حسن بن راشد کہتے ہیں: میں نے امام جعفر (علیہ السلام) سے عرض کیا: لوگ کہتے ہیں کہ ماہ رمضان کا روزہ رکھنے والے پر مغفرت و بخشش شب قدر کو نازل ہوتی ہے۔ تو آپ نے فرمایا: اے حسن! یقیناً مزدور کو کام سے فارغ ہونے پر اجرت دی جاتی ہے، اور یہ موقع روزہ داروں کے لئے موقع عید [فطر] کی شب ہے۔

میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہوجاؤں! تو ہمارے لئے اس شب کونسا عمل مناسب ہے؟

فرمایا: جب سورج غروب ہوجائے تو غسل کرو، اور جب مغرب کی تین رکعت نماز پڑھو تو اپنے ہاتھ اٹھاؤ اور کہہ دو:

"يَا ذَا المَنِّ، ذَا الطُّولِ، يَا ذَا الْجُودِ، يَا مُصْطَفِياً مُحَمَّداً وَنَاصِرَهُ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاغْفِرْ لِي كُلَّ ذَنْبٍ أَذْنَبْتُهُ أَحْصَيْتَهُ عَلَىَّ وَنَسِيتُهُ وَهُوَ عِنْدَكَ فِي كِتَابِكَ"۔

اے صاحبِ احسان و عطا، اے کرم نواز! اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا منتخب کنندہ اور مددگار، درود بھیج محمد اور آل محمد (صلی اللہ علیہم اجمعین) پر اور بخش دے مجھے ہر وہ گناہ جس کا میں نے ارتکاب کیا، تو نے تو اسے میرے لئے گنوایا مگر میں اسے بھول گیا جبکہ وہ تیرے پاس تیری کتاب میں ثبت ہو چکا ہے۔

وَتَخِرُّ سَاجِداً وَتَقُولُ مِائَةَ مَرَّةٍ: "أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ" وَأَنْتَ سَاجِدُ وَتَسْأَلُ حَوَائِجَكَ"۔ (8)

اور پھر سجدہ ریز ہوجاؤ اور 100 مرتبہ کہو: "أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ؛ (میں تیری طرف پلٹتا ہوں)"۔ اور اپنی حاجت روائی کی التجا کرو"۔

3۔ رمضان المبارک مقابلے کا میدان

"نَظَرَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ (عَليهِ السَّلام) إِلَى أُنَاسٍ فِي يَوْمِ فِطْرٍ يَلْعَبُونَ وَيَضْحَكُونَ فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ وَالْتَفَتَ إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ شَهْرَ رَمَضَانَ مِضْمَاراً لِخَلْقِهِ يَسْتَبِقُونَ فِيهِ بِطَاعَتِهِ إِلَى رِضْوَانِهِ فَسَبَقَ فِيهِ قَوْمٌ فَفَازُوا وَتَخَلَّفَ آخَرُونَ فَخَابُوا فَالْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ مِنَ الضَّاحِكِ اللَّاعِبِ فِي الْيَوْمِ الَّذِي يُثَابُ فِيهِ الْمُحْسِنُونَ وَيَخِيبُ فِيهِ الْمُقَصِّرُونَ؛ (9)

امام حسن مجتبی (علیہ السلام) نے عید فطر کے دن کچھ ہنستے کھیلتے لوگوں پر نظر ڈالی؛ تو آپ نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے اصحاب سے فرمایا: یقیناً خدائے بزرگ و برتر نے ماہ رمضان کو اپنی مخلوقات کے لئے مسابقت [اور مقابلے] کا میدان قرار دیا جس میں اللہ کی اطاعت کے ذریعے اس کی رضا و خوشنودی کمانے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لیتے ہیں؛ تو ان میں سے ایک گروہ سبقت لینے میں کامیاب ہوتا ہے اور باقی لوگ کوتاہی اور خلاف ورزی کرکے گھاٹا اٹھا لیتے ہیں۔ تو حیرت ہے، بہت حیرت ہے ہنسنے کھیلنے والے سے، اس دن جبکہ نیکوکاروں کو اجر و ثواب دیا جاتا ہے، اور قصور وار لوگ گھاٹا اٹھاتے ہیں"۔

4۔ جس دن خدا کی نافرمانی نہ ہو، وہ عید کا دن ہے

امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِنَّمَا هُوَ عِيدُ لِمَنْ قَبِلَ اللَّهُ صِيَامَهُ وَشَكَرَ قِيَامَهُ وَكَّلَ يَوْمٍ لَا يُعْصَى اللَّهُ فِيهِ فَهُوَ يَوْمُ عِيدٍ؛ (10)

یہ عید ہے اس آدمی کی جس کا روزہ خدا قبول کرے اور اس کی نماز اور عبادات کا قدرداں ہے؛ اور جس دن خدا کی نافرمانی نہ ہو وہ عید کا دن ہے"۔

5۔ خوشی اور نیا لباس عید کا معیار نہیں ہے

امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"لَيْسَ الْعِيدِ لِمَنْ لُبْسِ الْجَدِيدِ، إِنَّما الْعِيدِ لِمَنْ سَلِمَ مِنَ الْوَعِيدِ؛ (11)

عید نیا لباس پہننے والوں کے لئے نہيں ہے بلکہ بلا شبہ اس انسان کے لئے ہے جو عذاب کی وعید سے اپنے آپ کو محفوظ کرے"۔

6۔ عید اور تکبیر

الف۔ تکبیر مستحب ہے

مستحب ہے کہ روزہ دار نماز عید کے آغاز سے پہلے، چار نمازوں کے بعد چار تکبیریں کہے: شب عید کی نماز مغرب کے بعد، نماز عشاء کے بعد، روز عید کی نماز صبح کے بعد۔ تکبیر کا مفہوم بت شکنی، طاغوت کا انکار اور طاغوت اور طاغوتیوں کی نابود اور مشرکین کے خلاف جہاد کا اعلان ہے۔ نماز سے پہلے تکبیریں اور حمد و شکر مستحبات میں شامل ہیں.

سعید النقاش کہتے ہیں: امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے مجھ سے فرمایا:

"أَمَا إِنَّ فِي اَلْفِطْرِ تَكْبِيراً وَلَكِنَّهُ مَسْنُونٌ قَالَ قُلْتُ فَأَيْنَ هُوَ قَالَ فِي لَيْلَةِ اَلْفِطْرِ فِي اَلْمَغْرِبِ وَاَلْعِشَاءِ اَلْآخِرَةِ وَفِي صَلاَةِ اَلْفَجْرِ وَفِي صَلاَةِ اَلْعِيدِ... قَالَ قُلْتُ كَيْفَ أَقُولُ قَالَ تَقُولُ اللّهُ أَكْبَرْ اللّهُ أَكْبَرْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ اللّهُ أَكْبَرْ وَلِلّهِ الْحَمْدُ اللَّهُ أَكْبَرُ عَلٰى ما هَدَیٰنا وَلَهُ الشُّکْرُ عَلَٰى مَا اَبْلَانَا وَهُوَ قَوْلُ اَللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ "وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ (يَعْنِي اَلصِّيَامَ) وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ؛ (12) ۔ (13)

فطر میں ایک تکبیر ہے جو کہ مسنون [یعنی مستحب] ہے؛

میں نے عرض کیا: اس کا وقت کونسا ہے؟

فرمایا: شب عید کی نماز مغرب کے بعد، نماز عشاء کے بعد، روز عید کی نماز صبح کے بعد اور نماز عید (فطر) کے بعد۔ ...

میں نے عرض کیا: ان تکبیروں کی کیفیت کیا ہے؟

فرمایا: کہو: "اللّهُ أَكْبَرْ، اللّهُ أَكْبَرْ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللّهُ أَكْبَرْ وَلِلّهِ الْحَمْدُ، اللَّهُ أَكْبَرُ عَلٰى ما هَدیٰنا وَلَهُ الشُّکْرُ عَلَٰى مَا اَبْلَانَا" اور یہ خدائے بزرگ و برتر کے اس قول کے معنی ہیں کہ: "اور یہ بھی کہ تم گنتی کو پورا کرو (یعنی روزوں کی)، اور خدا کی کبریائی کا اقرار کرو اس لئے کہ اس نے تمہیں سچا راستہ دکھایا ہے"۔ ([14])

ب۔ عیدوں کو تکبیر سے مزین کرو

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"زَيِّنُوا أَعْيَادِكُمْ بِالتَّكْبِيرِ؛ (15)

اپنی [تمام] عیدوں کو تکبیر (اللہ اکبر کہنے) سے زینت دو"۔

ج۔ دو عیدوں کو تکبیر، و تسبیح سے مزین کرو

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"زَيِّنُوا الْعِيدَيْنِ بِالتَّهْلِيلِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ وَالتَّقْدِيسِ؛ (16)

عید فطر اور عید الاضحٰی کو زینت دو تہلیل (وَلَا إِلَهَ إِلَاَّ اللّهُ)، تکبیر (اللّهُ أَكْبَرْ)، تحمید (الحَمْدُ للَّهِ)، اور تقدیس ("سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الملائكةِ وَالرُّوحِ" یا "سُبْحَانَ اللّهِ") سے مزیّن کرو"۔

د۔ عید کے دن کی تکبیر کا فلسفہ

امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) نے فرمایا:

"فَإِنْ قَالَ (قائلٌ) فَلِمَ جُعِلَ التَّكْبِيرُ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْهُ فِي غَيْرِهَا مِنَ الصَّلَاةِ قِيلَ لِأَّنَّ التَّكْبِيرَ إِنَّمَا هُوَ تَكْبِيرٌ لِلَّهِ وَتَمْجِيدٌ عَلَى مَا هَدَى وَعَافَى؛ (17)

اگر کوئی کہنے والا کہہ دے کہ یوم عید تکبیریں دوسرے دنوں سے زیادہ کیوں قرار دی گئی ہیں تو کہا جائے گا: تکبیر، بےشک اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور تعظیم وتکریم ہے اس پر جو اس نے ہمیں ہدایت و عافیت عطا کی ہے"۔

7۔ آخرت کی یاددہانی

امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے عید کے ایک خطبے کے ضمن میں فرمایا:

"أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الدُّنْيَا أَدْبَرَتْ وَآذَنَتْ بِوَدَاعٍ وَإِنَّ الْآخِرَةَ قَدْ أَقْبَلَتْ وَأَشْرَفَتْ بِاطِّلَاعٍ أَلَا وَإِنَّ الْيَوْمَ الْمِضْمَارَ وَغَداً السِّبَاقَ وَالسَّبَقَةُ الْجَنَّةُ وَالْغَايَةُ النَّارُ أَ فَلَا تَائِبٌ مِنْ خَطِيئَتِهِ قَبْلَ مَنِيَّتِهِ أَ لَا عَامِلٌ لِنَفْسِهِ قَبْلَ يَوْمِ بُؤْسِهِ أَلَا وَإِنَّكُمْ فِي أَيَّامِ أَمَلٍ مِنْ وَرَائِهِ أَجَلٌ فَمَنْ عَمِلَ فِي أَيَّامِ أَمَلِهِ قَبْلَ حُضُورِ أَجَلِهِ فَقَدْ نَفَعَهُ عَمَلُهُ وَلَمْ يَضْرُرْهُ أَجَلُهُ وَمَنْ قَصَّرَ فِي أَيَّامِ أَمَلِهِ قَبْلَ حُضُورِ أَجَلِهِ فَقَدْ خَسِرَ عَمَلُهُ وَضَرَّهُ أَجَلُهُ أَلَا فَاعْمَلُوا فِي الرَّغْبَةِ كَمَا تَعْمَلُونَ فِي الرَّهْبَةِ أَلَا وَإِنِّي لَمْ أَرَ كَالْجَنَّةِ نَامَ طَالِبُهَا وَلَا كَالنَّارِ نَامَ هَارِبُهَا أَلَا وَإِنَّهُ مَنْ لَا يَنْفَعُهُ الْحَقُّ يَضُرُّهُ الْبَاطِلُ وَمَنْ لَا يَسْتَقِيمُ بِهِ الْهُدَى يَجُرُّ بِهِ الضَّلَالُ إِلَى الرَّدَى أَلَا وَإِنَّكُمْ قَدْ أُمِرْتُمْ بِالظَّعْنِ وَدُلِلْتُمْ عَلَى الزَّادِ وَإِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ اثْنَتَانِ اتِّبَاعُ الْهَوَى وَطُولُ الْأَمَلِ فَتَزَوَّدُوا فِي الدُّنْيَا مِنَ الدُّنْيَا مَا تَحْرُزُونَ بِهِ أَنْفُسَكُمْ غَداً؛ (18)

اما بعد، یقیناً دنیا اپنے وداع کا اعلان، اور آخرت ہماری طرف رخ، کر چکی ہے اور اس [آخرت] کے ہراول دستے نمایاں ہوچکے ہیں، اور یقیناً آج کا دن تمرین، مشق اور تیاری کا دن ہے، اور کل مسابقت (اور مقابلے) کا دن۔ جیتنے والوں کا صلہ جنت اور پیچھے رہنے والوں کی سزا دوزخ ہے۔ کیا کوئی ہے جو موت سے پہلے اپنی خطاؤں سے توبہ کر لے؟ کیا ہے کوئی، جو قیامت کے نہایت دشوار دن سے پہلے نیک اعمال انجام دے؟ آگاہ رہو کہ اِس وقت تم آرزؤوں اور خواہشوں کے زمانے سے گذر رہے ہو، جس کے پیچھے موت لگی ہوئی ہے؛ تو جس نے آرزؤوں کے دن اور موت سے پہلے نیک اعمال انجام دیئے، تو اس کا عمل اس کو فائدہ پہنچائے گا اور موت اس کو ضرر نہيں پہنچائے گی؛ اور جس نے خواہشوں اور آرزؤوں کے دن، اور اجل کے آ پہنچنے سے پہلے، کوتاہی [اور غفلت] کی، وہ گھاٹے میں رہے گا اور اس کی موت اسے نقصان پہنچائے گی۔ تو خبردار، خوشی اور کامیابی کے ایام میں ویسا ہی عمل کرو جیسا کہ خوف اور شدت کے ایام میں عمل کرتے ہو؛ اور جان لو کہ میں نے جنت کی کسی چیز کو نہیں دیکھا جس کے خواہشمند خواب غفلت میں مبتلا ہوں، اور نہ ہی میں نے جہنم کی طرح کی کسی چیز کو دیکھا جس سے بھاگنے والے خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے ہوں؛ اور یقیناً جس کو حق، نفع نہ پہنچا سکے، اس کو باطل نقصان پہنچائے گا؛ اور جس شخص کی راہنما، ہدایت نہ ہو، گمراہی اس کو تباہ کرے گی؛ جان لو کہ تمہیں کوچ کا حکم مل چکا ہے اور آخرت کا توشہ اکٹھا کرنے کی طرف راہنمائی پا چکے ہو [غرضیکہ حجت تمام ہوچکی ہے]؛ اور مجھے تمہارے اوپر جن خوفناک ترین چیزوں کا اندیشہ ہے وہ دو ہیں: نفسانی خواہشات کی پیروی اور طویل آرزوئیں۔ تو اس دنیا سے سفر خرچ اٹھا لو تاکہ کل اس کے ذریعے اپنی حفاظت کرسکو"۔

8۔ استکبار و استعمار کی مخالفت

عید فطر کو طاغوت کے خلاف جہاد کا دن بھی کہا جاسکتا ہے، اور اس روز نماز عید کے عظیم اجتماع کو مسلمانوں کی وحدت و یگانگت کا بےمثال نمونہ سمجھا جاسکتا ہے۔ مؤمنوں کی باہمی محبت اور نفرتوں کا خاتمہ اس عید [نیز عید الاضحٰی] کی برکتوں میں سے ہے اور ان ایام سے اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ بےشک بیدار مسلمانوں کا اجتماع اسلام کے گھات لگائے حلفیہ دشمنوں کی ناراضگی کا سبب ہے اور ان دنوں میں شیطان خوار و ذلیل ہوتا ہے۔ نماز عید کی طرف روانہ ہونے والے قافلے، اگر بصیرت اور بیداری کے وصف سے متصف ہوں تو یہ بذات خود استکبار اور طاغوت کے خلاف جدوجہد کے زمرے میں آئیں گے۔ نماز سے پہلے تکبیریں اور تسبیح و تہلیل و تقدیس، طاغوت کے لئے ایک ضرب سے کم نہیں ہے۔ دشمن تکبیر سے خائف ہے اور اگر ہماری تکبیر سے خائف نہ ہو تو ہم پر بےبصیرتی کا بجا الزام لگ سکتا ہے۔ ایران کا اسلامی انقلاب تکبیر سے شروع ہؤا اور تکبیر کی برکت سے کامیابی سے ہمکنار ہؤا اور آج صہیونیوں اور استکبار کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کا نعرہ بھی "اللہ اکبر" اور "لبیک یا حسین" ہے جو دشمن کو لرزہ بر اندام کردیتا ہے۔

9۔ سیاسی، سماجی اور انفرادی عبادات کا دن

امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) نے فرمایا:

"انّما جُعِلَ یَوْمُ الفِطْر العیدُ، لِیكُونَ لِلمُسلِمینَ مُجْتمعاً یَجْتَمِعُونَ فیه و یَبْرُزُونَ لِلّهِ عزّ وجلّ فَیُمَجِّدُونَهُ عَلَى‏ مَا مَنَّ عَلَيهِمْ، فَیَكُونُ یَوْمَ عِیْدٍ ویَوْمَ اجْتِمَاعٍ وَیَوْمَ زَكَاةٍ وَیَوْمَ رَغْبَةٍ ویَوْمَ تَضَرُّعٍ وَلِأَنَّهُ أوَّلُ یَوْمٍ مِنَ السَّنَةِ یَحِلُّ فِيْهِ الأكْلُ وَالشُّرْبُ لِأَنَّ أوَّلَ شُهُورِالسَّنَةِ عِنْدَ أهْلِ الْحَقِّ شَهْرُ رَمَضَانَ فَأَحَبَّ اللّه ُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَكُوْنَ لَهُمْ فِي ذَلِكَ مَجْمَعٌ يَحْمِدُونَهُ فِيْهِ وَيُقَدِّسُونَهُ؛

فطر کے دن کو عید قرار دیا گیا تا کہ مسلمانوں کے لئے اجتماع کا دن ہو جس میں وہ اکٹھے ہوں اور اللہ کے سامنے آکر کھڑے ہوں اور اس کی تمجید کریں ان احسانات پر جن سے اللہ نے انہیں نوازا ہے؛ تو یہ عید کا دن ہے، اور اجتماع کا دن ہے، اور زکوٰۃ کا دن ہے اور (اللہ اور اس کی بیان کردہ نیکیوں کی طرف) رغبت کا دن ہے، اور درگاہ رب کریم میں گڑگڑانے کا دن ہے؛ یہ اس لئے ہے کہ یہ سال کا پہلا دن ہے جب کھانا پینا جائز ہو جاتا ہے، کیونکہ اہل حق کے ہاں سال کا پہلا مہینہ رمضان ہے، پس اللہ دوست رکھتا ہے کہ مسلمان اس دن کو اجتماع منعقد کریں، اور اس دن اس کی حمد و ثناء کریں اور اس کی تقدیس کریں"۔ (19)

اس حدیث شریف میں عید فطر اور نماز عید کا فلسفہ کچھ یوں بیان ہؤا ہے:

1۔ اجتماع

2۔ زکوٰۃ اور غرباء کے مسائل حل کرنے کا اہتمام

3۔ اللہ کی طرف رغبت و رجحان

4۔ اللہ کی فضل و بخشش کے لئے اس کی درگاہ میں گڑگڑانا

اور یہ سب اس عید اور اس دن منعقدہ تکبیروں والی نماز اور اس عظیم دینی تقریب کے معنوی اور عرفانی پہلو ہیں، یہاں البتہ اجتماع اور اس کے سماجی آثار و فوائد پر بھی زور دیا گیا ہے، اور لوگ زکوٰۃ فطرہ ادا کرکے بےنواؤں کو امداد پہنچاتے ہیں؛ اس لحاظ سے یہ "عید فقراء" بھی ہے۔

عید فطر [الاضحٰی] کی نماز کے اجتماع کے عظیم سماجی اور سیاسی اثرات بھی ہیں، اس نماز سے امت کی طاقت و شوکت کا اظہار بھی مقصود ہے۔

ایک دفعہ مامون عباسی نے نماز کی عید کی امامت امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) کو سونپ دی لیکن حالات کا جائزہ لے کر خوف کے مارے، امام کو لوٹایا اور خود امامت کے لئے چلا گیا؛ اس کو عوام کے امام کی طرف راغب ہونے کا خوف لاحق ہوچکا تھا۔ اسلامی انقلاب کے آغاز پر بھی سب سے پہلی قومی ریلی کے موقع پر دارالحکومت تہران کے علاقے "قیطریہ" میں شہید آیت اللہ ڈاکٹر محمد مفتح (رضوان اللہ علیہ) نے نماز عید منعقد کروائی اور امت کو شاہ کے خلاف عظیم تحریک کے آغاز کے لئے آمادہ کیا؛ اور معلوم ہؤا کہ نماز عید کا عظیم اور شان و شوکت کا حامل اجتماع عظیم سیاسی اور سماجی آثار کا حامل بھی ہے۔

10۔ عید فطر، مسلمانوں کی بیداری کا جشن

1۔ امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) کے اقوال:

امام خمینی (رضوان اللہ تعالٰی علیہ)، ایک مہینہ روزہ داری کے بعد عید فطر کو مہمانی کا جشن، الٰہی ضیافت اور وصال رب، نفس اور شیطان پر فتح یابی کا جشن اور اللہ کے احکام کی تعمیل میں کامیابی حاصل کرنے کا جشن قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:

الف۔ عید فطر مسلمانوں کی سیاست کا دن

"اسلام سیاست کا دین ہے، جس کے احکام اور اس کے موقف میں سیاست بہ وضوح نمایاں ہے۔ ہر روز اسلامی ممالک کے شہروں سے دیہاتوں، قریوں اور قصبوں تک کی مسجدوں میں کئی مرتبہ جماعت کے لئے اجتماع [ہوتا ہے] ۔۔۔ ہر سال دو عیدیں ہیں، لوگ ان عیدوں میں اجتماع کریں اور ہر عید میں دو خطبے ہیں اور نماز ہے۔ اور ان خطبوں میں حمد الٰہی اور رسول اکرم اور ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) پر درود و سلام کے بعد، سیاسہی پہلؤوں، معاشرتی پہلؤوں، معاشی پہلؤوں، ملکی ضروریات اور علاقائی ضروریات کو زیر بحث لانے کی ضرورت ہے اور خطباء لوگوں کو مسائل سے آگاہ کریں"۔ (20)

ب۔ مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کی عید

"اس عید سعید اور اس مبارک عید فطر کے موقع پر میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو مبارک باد عرض کرتا ہوں۔ مبارک وہ دن ہے جب تمام اسلامی حکومتیں اور مسلم اقوام اکٹھے اور متحد ہوجائیں، یک صدا ہوجائیں اور سب مل کر، ایک ہی مقصد لے کر اسلام کو ہر جگہ زندہ کریں اور تمام اسلامی ممالک متحد ہوجائیں یہاں تک کہ وہ بڑی طاقتوں کے ہاتھ اپنے ممالک سے کاٹ کر رکھ دیں"۔ (21)

2۔ امام سید علی خامنہ ای (ادام اللہ ظلہ) کے اقوال:

الف۔ عبادت، بیداری، اتحاد اور یکجہتی کا دن

"عید فطر ان مواقع میں سے ہے جن سے امت مسلمہ نفع اٹھا سکتی ہے اور خوش قسمتی سے اس قسم کے مواقع بہت ہیں۔ یہ دن تمام مسلمانوں کے لئے عید ہے، یہ وہ دن ہے جب مسلمین ایک مہینے کے روزوں، عبادات اور توجّہ و تذکّر کے بعد، اللہ کی رحمت و نورانیت حاصل کرنے کے لئے بالکل تیار ہوئے ہیں؛ نماز عید اور مختلف قسم کے اجتماعات میں اکٹھے ہوجاتے ہیں اور یہ عالم اسلام کے لئے ایک مناسب موقع ہے۔ مسلمانوں کی تمام عیدوں اور اس طرح کے مواقع کو ہمارے لئے ایسے ہی خواص کا حامل ہونا چاہئے، کہ ہمارے دلوں کو قریب تر کردیں۔ آج پہلے سے کہیں زیادہ مسلمین کو ضرورت ہے کہ ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب تر کیا جائے"۔ (22)  

ب۔ مؤمنوں کی عید

"عید فطر عظیم ترین اسلامی مواقع میں سے ایک ہے۔ مسلمین اس دن کو حقیقی معنوں میں عید سمجھتے ہیں اور جشن مناتے ہیں؛ یہ وہی چیز ہے جو اسلام نے مسلمانوں کو لئے پسند فرمائی ہے: "أَلَا وَإِنَّ هَذَا الْيَوْمَ يَوْمُ جَعَلَهُ اللَّهُ لَكُمْ عِيداً، وَجَعَلَكُمْ لَهُ أَهْلا؛ (23) اللہ نے آج کے دن کو مسلمانوں کے لئے عید اور انہیں اس عید کا لائق قرار دیا۔ زیادہ اہم اس کلام کا مؤخرالذکر حصہ ہے۔  ہمیں اللہ کے اس تحفے سے فائدہ اٹھانا چاہئے، ذاتی اور شخصی فائدہ بھی؛ - بایں معنی کہ معرفت کی روشنی اور توبہ و انابت کا جذبہ اپنے دلوں میں داخل ہونے دیں، کیونکہ اگر عالم معرفت اور خدا کی محبت کا ایک دریچہ اپنے دلوں کی طرف کھول دیں اور اپنے باطن کو روشن کریں تو بیرونی دنیا کی بہت سی تاریکیاں اور مسائل بھی حل ہونگے؛ کیونکہ انسانوں کا دل نیکیوں اور بدیوں کا سرچشمہ ہے - اور عمومی فائدہ بھی"۔ (24)

ج۔ اللہ سے تحفہ لینے کا دن

"آج عید فطر ہے، اللہ تعالٰی سے عید کا تحفہ لینے کا دن ہے؛ ایسا دن ہے کہ کروڑوں انسان اپنی دعائے قنوت میں التجا کرتے ہیں کہ اللہ وہی اچھائیاں انہیں عطا کرے جو اس نے اپنے برگزیدہ ترین بندوں کو عطا کی ہیں اور ان برائیوں سے انہیں دور رکھے جس سے اس نے تاریخ کے عظیم ترین انسانوں کو دور رکھا ہے؛ یہ اچھائیاں پہلے رتبے میں خدا کی طرف توجہ، اللہ کی بندگی اور اس کے ساتھ آشنا اور مرتبط ہونے اور تمام گفتاروں اور کرداروں اور زندگی کے تمام لمحوں میں اللہ کے ساتھ ربط اور اس سے الہام لینے کے درجے پر فائز ہونے سے عبارت ہیں۔ اور سب سے زیادہ خطرناک برائیوں میں اللہ کے ساتھ شرک برتنا، غیر الٰہی طاقتوں اور خدا کے دشمنوں کے آگے سر خم کرنا، اور دوسروں کا غلام اور بندہ بننا، شامل ہیں۔ (25)

د۔ مغفرت پانے والوں کی عید

"امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے صحابی "سُوید بن غَفَلہ" کہتے ہیں:

میں عید فطر کے دن امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے گھر میں، آپ کی خدمت میں حاضر ہؤا "فَإِذَا عِندَهُ فَاثُورٌ"؛ جبکہ آپ کے سامنے ایک دسترخوان بچھا ہؤا تھا اور آپ کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ "وَصَحْفَةٌ فِيهَا خَطِيفَةٌ وَمِلْبَنَةٌ؛ بہت ہی سادہ اور خاکسارانہ غذا آن جناب کے سامنے رکھی ہوئی تھی۔ "خطیفہ" وہ کھانا ہے جو بہت کم وسائل کی دستیابی کے وقت کسی کے لئے تیار کیا جاتا ہے؛ اور اس میں کچھ دودھ اور آٹا ملا دیتے تھے؛ ایک بالکل فقیرانہ کھانا۔ "فقُلْتُ يَا أمِيرَ المُؤمِنينَ! يَوْمُ عيدٍ وَخَطيفَةٌ؟ تو میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! کیا آپ عید کے دن اس قدر غیر اہم اور سستا کھانا کھاتے ہیں؟"۔ رسم یہ تھی کہ عید کے دنوں میں لوگ بہترین کھانا کھا لیتے تھے؛ [تو سُوید بن غَفَلہ کہتے ہیں] کیا آپ نے اس کھانے پر اکتفا کیا ہے؟ "فَقَالَ إنَّمَا هَذَا عِيدُ مَن غُفِرَ لَهُ؛ تو مولا نے فرمایا: آج، عید کا دن ہے؛ لیکن ان لوگوں کے لئے جنہیں اللہ نے بخش دیا ہے۔ (26) یعنی آج کے دن کے عید ہونے کا دارومدار، رنگ برنگے کھانے تناول کرنے اور بچگانہ خوشیوں پر دل خوش کرنے، پر نہیں ہے؛ یہ ایک حقیقی عید ہے ان کے لئے جو اپنے لئے بخشش حاصل کرچکے ہیں، یا حاصل کریں۔

نیز امیر المؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "إِنَّمَا هُوَ عِيدٌ لِمَنْ قَبِلَ اللَّهُ صِيَامَهُ وَشَكَرَ قِيَامَهُ؛ یہ عید ہے اس کے لئے جس کا روزہ خدا نے قبول کیا، اور اللہ اس کی نماز و عبادت کا قدرداں ہے؛ [اور فرمایا] "وَكَّلُّ يَوْمٍ لَا يُعْصَى اللَّهُ فِيهِ فَهُوَ يَوْمُ عِيدٍ؛ (27) اور ہر وہ دن جس میں، میں اور آپ اللہ کی طرف کی توفیق حاصل کرتے ہیں اور ہم سے کوئی معصیت سرزد نہیں ہوتی، عید اور سُرُور وخوشی کا دن ہے"۔ (28)

11۔ زکوٰۃ فطرہ روزوں کی تکمیل

الف۔ قلتوں کا ازالہ

امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَنْ أدّى زَكَاةَ الفِطْرَةِ تَمَّمَ اللّهُ لَهُ بهَا مَا نَقَصَ مِنْ زَكَاةِ مَالِهِ؛ ([29])

جو زکوٰۃ فطرہ ادا کرے، اللہ اس کے سبب اس کمی کو پورا کرے گا جو اس کے مال کی زکوٰۃ کی وجہ سے معرض وجود میں آئی ہے"۔

ب۔ زکوٰۃ فطرہ ادا کئے بغیر روزہ ناقص ہے

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِنَّ مِنْ تَمَامِ الصَّوْمِ إِعْطَاءُ الزَّكَاةِ - يَعْنِي الْفِطْرَةَ - كَمَا أَنَّ الصَّلَاةَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ لِأَنَّهُ مَنْ صَامَ وَلَمْ يُؤَدِّ الزَّكَاةَ فَلَا صَوْمَ لَهُ إِذَا تَرَكَهَا مُتَعَمِّداً، وَلَا صَلَاةَ لَهُ إِذَا تَرَكَ الصَّلَاةَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ؛ (30)

زکوٰۃ - یعنی فطرہ - پورے روزوں کی کاملیت کا سبب ہے. جیسا کہ رسول اللہ [اور آل رسول] (صلی اللہ علیہم اجمعین)  پر درود نماز کی تکمیل کا سبب ہے؛ کیونکہ جو روزہ رکھے اور زکوٰۃ فطرہ ادا نہ کرے، گویا کہ اس نے روزہ ہی نہیں رکھا ہے؛ جیسا کہ، اگر کوئی نماز ادا کرے مگر رسول اللہ [اور آل رسول] (صلی اللہ علیہم اجمعین) پر درود نہ بھیجے، گویا کہ اس نے نماز ہی ادا نہیں کی ہے"۔ (31)

ج۔ زکوٰۃ فطرہ کی عدم ادا‏‏ئیگی جان لیوا ہوسکتی ہے

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"اذْهَبْ فَأَعْطِ عَنْ عِيَالِنَا الْفِطْرَةَ وَأَعْطِ عَنِ الرَّقِيقِ وَاجْمَعْهُمْ وَلَا تَدَعْ مِنْهُمْ أَحَداً، فَإِنَّكَ أَنْ تَرَكْتَ مِنْهُمْ إِنْسَاناً تَخَوَّفْتُ عَلَيْهِ الْفَوْتَ قِلْتُ: وَمَا الْفَوْتِ؟ قَالَ: الْمَوْتُ؛ (32)

جاؤ اور اہل و عیال کی طرف سے فطرہ ادا کرو اور سب کو نظر میں رکھو اور ان میں سے کسی کو مت بھولو کیونکہ اگر ان میں سے کسی ایک کو چھوڑوگے تو مجھے اس پر "فوت" کا اندیشہ ہے۔ راوی نے پوچھا: فوت کیا ہے؟ فرمایا: "موت"۔

د۔ زکوٰۃ فطرہ کا وجوب

شیخ مفید (رضوان اللہ علیہ) لکھتے ہیں:

"وَزَكَاةُ الْفِطْرَةِ وَاجِبَةُ عَلَى كُلِّ حُرٍّ بَالِغٍ كَامِلٍ بِشَرْطِ وُجُودِ الطَّوْلِ لَهَا يُخْرِجُهَا عَنْ نَفْسِهِ وَعَنْ جَمِيعِ مَنْ يَعُولُ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَحَرٍّ وَعَبْدٍ وَعَنْ جَمِيعِ رَقِيقِهِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَأَهْلِ الذِّمَّةِ فِي كُلِّ حَوْلٍ مَرَّةً. رَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَجَّاجِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قَالَ: "تَجِبُ‌ الْفِطْرَةُ عَلَى كُلِّ مَنْ تَجِبُ‌ عَلَيْهِ الزَّكَاةُ؛ (33)

اور زکوٰۃ فطرہ واجب ہے ہر آزاد، بالغ کامل انسان پر بشرطیکہ وہ ادائیگی کی استطاعت رکھتا ہو، [واجب ہے کہ وہ] سال میں ایک مرتبہ زکوٰۃ فطرہ نکال دے اپنی طرف سے اور اپنے پورے کنبے کی طرف سے - جن کے اخراجات وہ برداشت کرتا ہے، بشمول: مرد عورتیں، آزاد اور غلام اور تمام خدام اور غلام و کنیزیں، جو مسلمان ہیں یا اہل ذمہ ہیں۔ عبد الرحمن بن حجاج نے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

زکوٰۃ فطرہ ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر زکوٰۃ واجب ہے"۔ 

چنانچہ تمام شیعہ فقہاء احادیث اور اجماع کی روشنی میں زکوٰۃ فطرہ کے وجوب کے قائل ہوئے ہیں۔ (34)

ھ۔ تمہاری عید ہے، ذکر و دعا اور زکوٰۃ کی عید!

امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"أَلَا وَإِنَّ هَذَا الْيَوْمَ يَوْمُ جَعَلَهُ اللَّهُ لَكُمْ عِيداً، وَجَعَلَكُمْ لَهُ أَهْلًا، فَاذْكُرُوا اللَّهَ يَذْكُرْكُمْ، وَ ادْعُوهُ يَسْتَجِبْ لَكُمْ، وَأَدُّوا فِطْرَتَكُمْ، فَإِنَّهَا سُنَّةُ نَبِيِّكُمْ وَفَرِيضَةُ وَاجِبَةُ مِنْ رَبِّكُمْ، فَلْيُؤَدِّهَا كُلُّ امْرِئٍ مِنْكُمْ عَنْهُ وَعَنْ عِيَالِهِ كُلِّهِمْ، ذَكَرِهِمْ وَأُنْثَاهُمْ، صَغِيرِهِمْ وَكَبِيرِهِمْ، وَحُرِّهِمْ وَمَمْلُوكِهِمْ؛ ([35])

جان لو کہ اللہ نے آج کا دن تمہارے لئے عید قرار دیا ہے اور تمہیں اس کا لائق گردانا ہے، تو اللہ کو یاد کرو، تاکہ وہ بھی تمہیں یاد کرے، اور اس کی بارگاہ سے دعا کرو تا کہ وہ تمہاری دعاؤں کو قبول فرمائے۔ چنانچہ اپنی زکوٰۃ فطرہ ادا کرو، کیونکہ یہ تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی سنت ہے اور تمہارے پروردگار کی طرف سے واجب فریضہ ہے، تو تم میں سے ہر شخص زکوٰۃ فطرہ اپنی طرف سے اور اپنے پورے کنبے کی طرف سے ادا کرے، چاہے وہ مذکر ہوں چاہے مؤنث، چاہے چھوٹے ہوں، چاہے بڑے، اور خواہ وہ آزاد ہوں یا غلام و کنیز"۔

12۔ عید فطر اور امام زمانہ (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) کا ظہور

عید فطر کے دن مسلمانوں کے اعمال کا امام زمانہ (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) کے ظہور کے ساتھ خاص قسم کا تعلق ہے۔

الف۔ عید فطر اور ظہور کے درمیان مشابہت

مسلمین ماہ مبارک رمضان کی روزہ داری، اللہ کے احکامات کی تعمیل، عید فطر کے دن اس انعام کے منتظر ہیں: یعنی ظہور اور صالحین کی حکمرانی اور اس سے حاصل ہونے والی سلامتی اور امن و سکون، جس کا وعدہ قرآن کریم میں خدائے متعال نے دیا ہے۔

عید فطر کو امام عصر (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) کے ظہور کی ماحول سازی کا وسیلہ بنانا چاہئے کیونکہ یہ منتظرین کو ظہور کی یاددہانی کراتی ہے اور ظہور کے لئے ماحول سازی منتظرین پر واجب ہے۔

ب۔ نماز عید اور ظہور کی یاددہانی

نماز عید کی میں نو مرتبہ دعائے قنوت کا حکم ہے، پہلی رکعت میں پانچ مرتبہ اور دوسری میں 4 مرتبہ۔ اس دعا میں مسلمین خدا سے اپنے لئے ان بہترین نیکیوں کی التجا کرتے ہیں جو خدا نے 14 معصومین (علیہم السلام) کو عطا کی ہیں اور ہر برائی اور شر سے نجات مانگتے ہیں جنہیں اللہ نے ان سے دور کردیا ہے۔ یقیناً اس دعا کی قبولیت کے لئے ایک ماحول کی ضرورت ہے جو امام عصر (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) کے ظہور کی صورت میں ہی فراہم ہوسکتا ہے، چنانچہ مسلمانوں کو ظہور میں تعجیل کے لئے بھی دعا کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ یعنی عید کو بھی اور منتظرین کو بھی امام کے ظہور کے لئے ماحول سازی میں کردار ادا کرنا چاہئے۔

ج۔ پرہیزگار روزہ دار امام زمانہ (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) کے اصحاب و انصار

روزہ داری، پرہیزگاری اور نیک کاموں کی انجام دہی تقویٰ کے مرتبے تک پہنچنے کا وسیلہ ہے، اور تقویٰ کی رعایت ہمیں ظہور تک پہنچاتی ہے۔ امام زمانہ (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) کے اصحاب و انصار کو تقویٰ کے مرتبے تک پہنچنے کے لئے دوسروں سے زیادہ کوشاں ہونا چاہئے اور انہیں انتظار کا جذبہ اپنے اندر محفوظ رکھنا چاہئے۔

جس طرح کہ اصحاب امام زمانہ (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) ماہ رمضان تقوائے الٰہی کو ملحوظ رکھے ہوئے ہیں، عصر غیبت میں بھی انہیں یہ سلسلہ جاری رکھنا چاہئے، تقویٰ کی رعایت کو رمضان میں بھی، دوسرے مہینوں میں بھی، غیبت کے زمانے میں بھی اور ظہور کے زمانے میں بھی جاری و ساری رکھنا چاہئے تاکہ فیض الٰہی سے بہرہ وری کا سلسلہ بھی جاری رہے۔ تقویٰ کا یہ سلسلہ ظہور اور دیدار پر منتج ہوتا ہے اور یہ وہ مرحلہ ہے جو ایک مؤمن کے لئے کامیابی اور سعادت سے سے مالامال ہے۔

د۔ ظہور امام زمانہ (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) کے لئے تیاری

ماہ مبارک رمضان میں ہم روزہ رکھتے ہیں، رمضان میں مختلف قسم کی خوشیاں بھی مناتے ہیں، سحری کے لئے اٹھنے کی خوشی، نماز جماعت میں شرکت کی خوشی، روزہ دار دوستوں سے ملن کی خوشی، مشترکہ قرائت قرآن کی محافل کی خوشی، افطار کے لمحات میں، عید اور نماز عید کی آمد، یہ ساری خوشیاں در حقیقت مشق اور تمرین کے مترادف ہیں اس عظیم خوشی اور امن و امان سے معمور ایام کے لئے جو امام زمانہ (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) کے ظہور کی وجہ سے مؤمنین کو میسر ہونگے۔

ظہور امام زمانہ (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) کا انتظار انسان کو ایک راستہ عطا کرتا ہے اور اسے گمراہی سے محفوظ رکھتا ہے۔ ظہور کے جو منتظرین عصر غیبت میں تقویٰ کی رعایت کرتے ہیں، وہ حضرت حجت (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) کی خوشنودی کے خواہاں ہیں۔

ظہور کے حوالے سے منتظرین کی شادمانی کا ایک حصہ اس امن و سرور سے تعلق رکھتا ہے جو بنی نوع انسان کے عصرِ مطلوب میں انسان کو حاصل ہوگا اور شادمانی کی ایک سطح قیامت سے تعلق رکھتی ہے جس دن ہر قوم کو اس کے امام کے ساتھ اٹھایا جائے گا؛ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:

يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ؛ (36)

اس دن ہم [ہر دور کے] لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے"۔

اور چونکہ منتظرین امام زمانہ اپنے امام کی عظمت اور اللہ کے ہاں اس کی منزلت سے پوری آگہی رکھتے ہیں، اور اس نے اپنی زندگی اپنے امام کے انتظار میں گذاری ہے چنانچہ وہ حشر کے حوالے سے بھی خوش رہتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس دن وہ کامیابی کے اعلٰی ترین درجے اور سعادت کی انتہاؤں پر فائز ہوگا اور اپنے زمانے کے امام کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

ھ۔ عید فطر کو دعائے ندبہ کی قرائت

امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے بقول، الٰہی ادبیات میں عید وہ دن ہے جب خدا کی نافرمانی کا ارتکاب نہیں ہوتا۔ ماہ مبارک رمضان غفران الٰہی کا دن ہے جس کے آخر میں لوگ اپنے پروردگار کی بندگی اور جہنم کی آگ سے آزادی و نجات کا جشن مناتے ہیں اور عید فطر درحقیقت جہنم سے نجات کی عید ہے۔ اسی بنا پر ماہ مبارک کا اختتام عید سمجھا جاتا ہے۔

شب جمعہ بھی غفران و بخشش کی رات ہے اور اس کا دن، یعنی یوم الجمعہ بھی عید ہے چنانچہ عید فطر اور روز جمعہ کی ایک دعا، دعائے ندبہ ہے۔ اسلامی ادب میں عید در حقیقت بندگی اور شکر خدا سے عبارت ہے اور اللہ کے بندے اس کی مغفرت و بخشش کی شکرگزاری کرتے ہیں۔

"فلسفۂ عید" اور "دعائے ندبہ کے استحباب" کو ملا کر نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ عید کے دن مُنتَظِر کی شکرگزاری کے ساتھ ساتھ اللہ کے حضور اس کا "ندبہ" اس لئے ہے کہ یہ سرور اس لئے ہے کہ اللہ نے اسے بخش دیا ہے، لیکن وہ اس انعام کو کافی نہیں سمجھتا اور دل میں حزن بھی رکھتا ہے کہ کاش یہ بخشش ظہورِ امام کے ساتھ مکمل ہوجاتا۔

عید فطر کے دن شکر اور ندبہ اور سرور و افسوس کی معیت، اس لئے ہے کہ ہم اللہ کی نعمت پر اس کا شکر کرتے ہیں اور ساتھ ہی اللہ کی درگاہ میں گریہ و بکاء اور منت و زاری کرتے ہیں، کہ ہمیں ملنے والی یہ نعمت اور اس نعمت سے حاصل ہونے والی یہ خوشی حضرت بقیۃ اللہ (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) کے ظہور کے ساتھ مکمل کیوں نہیں ہوئی؛ عید سعید فطر کو دعائے ندبہ ہمیں یاددہانی کراتی ہے کہ اس عظیم عید کو ہم اپنا اصلی انعام اپنے خالق و مالک سے وصول کریں؛ یعنی ظہور امام زمانہ (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ)۔

و۔ روز عید فطر اور زیارت امام حسین (علیہ السلام)

حکم ہے کہ مختلف عیدوں اور مناسبتوں اور مواقع پر زیارتِ امام حسین (علیہ السلام) پڑھی جائے؛ اس لئے کہ امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھ ربط و تعلق مکتب سازی کا ذریعہ ہے اور جمعہ، عید فطر اور عید الاضحٰی کو دعائے ندبہ پڑھی جائے کیونکہ امام زمانہ (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) کے ساتھ ربط اس مکتب کو اس کے مطلوبہ عروج تک پہنچا دیتا ہے۔ اور ہم ان دو اماموں کے مشن اور تعلیمات کے سائے میں مطلوبہ معاشرے کی تعمیر کا عہد کرتے ہیں؛ وہ معاشرہ جس کے امام بقیۃ اللہ الاعظم (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) ہیں۔

ز۔ عید فطر اور ظہورِ امام کے لئے دعائے فَرَج

عید فطر، انسانی فطرت کی طرف پلٹ جانے کی عید ہے۔ انسان عید فطر کو اپنی بنیادی فطرت کی طرف پلٹتا ہے اور جب وہ اپنی فطرت کی طرف پلٹتا ہے تو بہت سے حقائق کا بہ آسانی ادراک کرلیتا ہے۔ دعائے فَرَج بھی عید فطر کی دعاؤں میں شامل ہے۔ چونکہ ہم اس عید کو اپنی فطرت کی طرف پلٹتے ہیں اور یہ دن دعائے فَرَج کے لئے مناسب ترین موقع ہے۔

یہ دعا ندبہ اور بلاؤں اور ابتلاؤں کی شکایت سے شروع ہوتی ہے:

"اِلَهى عَظُمَ الْبَلاَّءُ وَبَرِحَ الْخَفَاَّءُ وَانْكَشَفَ الْغِطاَّءُ وَانْقَطَعَ الرَّجاَّء وَضاقَتِ الاْرْضُ وَمُنِعَتِ السَّماَّءُ ..."

اور اگر منتظرین اس یقین تک پہنچیں کہ واقعاً بلائیں نازل ہو چکی ہیں، اور ظہور امام زمانہ (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) ہی ان مصیبتوں کے خاتمے کا سبب ہے، اور خلوص دل سے دعا و راز و نیاز کریں، یقیناً امام ظہور فرمائیں گے۔ بنی اسرائیل نے چالیس شب و روز اللہ کی بارگاہ میں گریہ و بکاء کرکے دعا کی تو اللہ نے ان کے نجات دہندہ کے ظہور کی مدت کو 400 سال سے کم کرکے 230 سال کردیا، تو ہم کیا ہم بنی اسرائیل سے کمتر ہیں، کیا ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ)، ہماری کتاب، ہماری شریعت اور ہمارا دین افضل و اعلٰی نہیں ہے؟ تو پھر ہم میں کیا کمی ہے کہ ہم اپنی عمریں انتظار میں گذارتے ہیں اور بوڑھے ہوجاتے ہیں اور مرتے ہیں لیکن ظہور کی آرزو بر نہیں آتی؟ سوچنے کا مقام ہے۔ جب تک کہ قلوب کا اجتماع عمل میں نہیں آئے گا، منتظرین یک دل و یک صدا نہیں ہونگے، غم و مصیبت کا ایک سطح پر احساس نہیں کریں گے، اس ظہور کے لئے سرگرم نہیں ہونگے، ظہور حاصل نہیں ہوگا۔

دعائے فَرَج کا متن:

"إِلَهِي عَظُمَ البَلاءُ وَبَرِحَ الخَفاءُ وَانْكَشَفَ الغِطاءُ وَانْقَطَعَ الرَّجاءُ وَضاقَتِ الأَرْضُ وَمُنِعَتِ السَّماء وَأَنْتَ المُسْتَعانُ وَإِلَيْكَ المُشْتَكَى وَعَلَيْكَ المُعَوَّلُ فِي الشَّدِّةِ وَالرَّخاءِ، اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ أَولِي الأَمْرِ الَّذِينَ فَرَضْتَ عَلَيْنا طاعَتَهُمْ وَعَرَّفْتَنا بِذلِكَ مَنْزِلَتَهُمْ، فَفَرِّجْ عَنَّا بِحَقِّهِمْ فَرَجاً عاجِلاً قَرِيباً كَلَمْحِ البَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ ؛ يامُحَمَّدُ ياعَلِيُّ ياعَلِيُّ يامُحَمَّدُ إكْفِيانِي فَإنَّكُما كافِيانِ وَانْصُرانِي فَإنَّكُما ناصِرانِ يامَوْلانا ياصاحِبَ الزَّمانِ الغَوْثَ الغَوْثَ الغَوْثَ، أَدْرِكْنِي أَدْرِكْنِي أَدْرِكْنِي، السَّاعَةَ السَّاعَةَ السَّاعَةَ، العَجَلَ العَجَلَ العَجَلَ، ياأَرْحَمَ الرَّاحِمينَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الطّاهِرِينَ؛ (37)

میرے معبود میری مصیبت عظیم ہوچکی ہے، راز کھل چکا ہے، پردہ فاش ہو گیا ہے امید قطع ہوئی ہے زمین تنگ ہوگئی ہے اور آسمان نے رکاوٹ ڈال دی تو ہی مدد کرنے والا ہے اور تجھ ہی سے شکایت ہے اور تنگی و آسانی میں صرف تو ہی سہارا ہے؛ اے معبود درود بھیج محمدۖ و آلِ محمد پر جو صاحبان امر ہیں وہ جن کی اطاعت تو نے ہم پر فرض کی ہے اور یوں ہمیں ان کے مرتبے سے آشنا کرا دیا ہے؛ تو ان کے واسطے ہمیں جلد از جلد فراخی عطا فرما آنکھ جھپکنے میں یا اس سے بھی قریب تر، یا محمدۖ یا علی یا علی یا محمد ۖ  آپ دونوں میری سرپرستی فرمایئے تو آپ دونوں ہی کافی ہیں میری مدد فرمایئے کہ آپ دونوں ہی مددگار ہیں اے ہمارے آقا اے صاحب زمان فریاد کو پہنچئے فریاد کو پہنچئے فریاد کو پہنچئے میری مدد کو آیئے میری مدد کو آیئے میری مدد کو آیئے، اسی گھڑی اسی گھڑی اسی گھڑی، جلد از جلد، جلد از جلد، جلد از جلد؛ [اے اللہ] اے رحم والوں میں سب سے زیادہ مہربان، محمد اور ان کی پاک آل کے واسطے۔ 

ح۔ دعائے ندبہ (38) کے مندرجات

ہم دعائے ندبہ میں اقرار کرتے ہیں کہ ہماری نماز کی قبولیت کا دار و مدار امام زمانہ (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) کے دستخطوں پر ہے، ہمارے گناہ ان ہی کے صدقے بخشے جاتے ہیں، ہماری دعا ان ہی کے واسطے سے قبول ہوتی ہے، ہمارا رزق ان ہی کی برکت سے عطا ہوتا ہے، ہمارے تمام تر اعمال امام زمانہ (عَجَّلَ اللهُ فَرَجَهُ الشَّرِیفَ) کے واسطے سے انجام پاتے ہیں، اور عید کا جو صلہ خدا سے مانگتے ہیں، اس کی عطائیگی آپ کی تائید و امضا سے مشروط ہے۔ چنانچہ ہمیں عید فطر کے دن اللہ سے اپنے امام کے ظہور اور اپنے اعمال کے تئیں امام کی تائید و امضا کی دعا کرنا چاہئے۔

ط۔ ایک ماہ روزہ داری کے بعد منتظرین کی ذمہ داری

جو تقویٰ ہم ماہ رمضان میں روزہ داری، اور افطار کرانے اور اطعام و اذکار اور شب زندہ داریوں کے ذریعے حاصل کرچکے ہیں، اسی کی روشنی میں عید فطر کے عظیم موقع سے بہرہ وری اور عید ظہور سے فیض یابی کا امکان فراہم ہوتا ہے، چنانچہ سال کے بقیہ مہینوں میں اور عمر کے بقیہ ایام میں اس تقویٰ کو محفوظ اور جاری رکھنا چاہئے، ورنہ ہمارا عمل تباہ ہوجائے گا اور ہم "حبط اعمال" (اور اعمال کے اکارت جانے) سے دوچار ہونگے۔

ماہ مبارک رمضان میں اللہ کی طرف کے دروازے ہم پر کھل جاتے ہیں اور ہم تقویٰ اپنا کر نیک اعمال سرانجام دیتے ہیں؛ تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حصول یابیوں کو محفوظ رکھیں تاکہ یہ سب ہمارے لئے ذخیرہ، سرمایہ اور مقام و منزلت میں بلندی کا سبب بنیں اور ان کی برکت سے عصر ظہور میں داخل ہوں؛ نیک اعمال کے ثمرات کی حفاظت بجائے خود ایک جہاد ہے کیونکہ یہ عمل نیک عمل کی انجام دہی سے زیادہ مشکل ہے۔ چنانچہ لازم ہے کہ ماہ مبارک کے بعد پورے سال میں اور اپنی پوری زندگی میں گناہوں سے دوری کو جاری اور محفوظ رکھیں تاکہ، جیسا کہ ہم عید فطر تک پہنچتے ہیں، عصر ظہور تک بھی پہنچ سکيں اور اس کی شادمانیوں سے فیض یاب ہوں۔

14۔ عید فطر کی جامع ترین دعا

"اللَّهُمَّ إنَّا نَتُوبُ إلَيْكَ فِي يَوْمِ فِطْرِنَا الّذِي جَعَلْتَهُ لِلْمُؤْمِنِينَ عِيداً وَسُرُوراً. ولأهْل مِلَّتِكَ مَجْمَعاً وَمُحْتشداً مِنْ كُلِّ ذَنْب أَذْنَبْنَاهُ، أَوْ سُوْء أَسْلَفْنَاهُ، أَوْ خَاطِرِ شَرٍّ أَضْمَرْنَاهُ، تَوْبَةَ مَنْ لاَ يَنْطَوِيْ عَلَى رُجُوع إلَى ذَنْب وَلا يَعُودُ بَعْدَهَا فِي خَطِيئَة، تَوْبَةً نَصوحاً خَلَصَتْ مِنَ الشَّكِّ وَالارْتِيَابِ، فَتَقَبَّلْهَا مِنَّا وَارْضَ عَنَّا وَثَبِّتنَا عَلَيْهَا. اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا خَوْفَ عِقَابِ الْوَعِيدِ، وَشَوْقَ ثَوَابِ الْمَوْعُودِ حَتّى نَجِدَ لَذَّةَ مَا نَدْعُوكَ بِهِ، وكآبة مَا نَسْتَجِيْرُكَ مِنْهُ، وَاجْعَلْنَا عِنْدَكَ مِنَ التَّوَّابِيْنَ الَّذِينَ أَوْجَبْتَ لَهُمْ مَحَبَّتَكَ، وَقَبِلْتَ مِنْهُمْ مُرَاجَعَةَ طَاعَتِكَ، يَا أَعْدَلَ الْعَادِلِينَ. اللَّهُمَّ تَجَاوَزْ عَنْ آبائنا وَأُمَّهَاتِنَا وَأَهْلِ دِيْنِنَا جَمِيعاً مَنْ سَلَفَ مِنْهُمْ وَمَنْ غَبَرَ إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ. اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّد نَبِيِّنَا وَآلِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى مَلائِكَتِكَ الْمُقَرَّبِينَ. وَصَلِّ عَلَيْهِ وَآلِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى أَنْبِيَائِكَ الْمُرْسَلِينَ، وَصَلِّ عَلَيْهِ وَآلِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ، وَأَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ، صَلاَةً تَبْلُغُنَا بَرَكَتُهَا، وَيَنَالُنَا نَفْعُهَا، وَيُسْتَجَابُ لَنَا دُعَاؤُنَا، إنَّكَ أكْرَمُ مَنْ رُغِبَ إلَيْهِ وَأكْفَى مَنْ تُوُكِّلَ عَلَيْهِ وَأَعْطَى مَنْ سُئِلَ مِنْ فَضْلِهِ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْء قَدِيرٌ؛ (39)

اے میرے معبود! ہم اپنی اس عید فطر کے موقع پر - جسے تو نے مؤمنین کے لئے عید و سُرور قرار دیا ہے اور تیری ملت کے لئے اجتماع اور اکٹھے ہونے کا دن۔ ہم تیری بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں ہر اس گناہ سے جس کے ہم مرتکب ہوئے ہیں، اور ہر اس برائی سے، جسے ہم کر گذرے ہیں، اور ہر اس برے عمل سے جو ہم سے سرزد ہؤا ہے، اور ہر بری فکر سے جسے ہم اپنے دل میں چھپائے ہوئے ہیں؛ ایسے شخص کی توبہ، جس کے دل میں گناہ کی طرف پلٹنے کا ارادہ نہیں ہے اور اس [توبہ] کے بعد خطا و گناہ کی طرف واپس نہیں ہوگا، ایسی خالص توبہ جو شک و شبہے سے پاک ہے؛ تو تو اسے ہم سے قبول فرما، اور ہم سے راضی و خوشنود ہو جا اور ہمیں اس پر ثابت قدم رکھ۔

اے معبود! ہمیں [اس دن] عذابِ وعید کا خوف اور ثواب موعود کا شوق عطا فرما تا کہ ہم اس چیز کی لذت محسوس کر سکیں جو ہم تجھ سے مانگتے ہیں، اور اس چیز کے غم و اندوہ کا ادراک کرسکیں جس سے ہم تیری پناہ مانگتے ہیں۔ اور ہمیں ان توبہ کرنے والوں میں قرار دے، جن کے لئے تو نے اپنی محبت واجب کر دی ہے، اور جنہیں اپنی طاعت و پیروی میں پلٹ آنے کو تو نے قبول فرمایا ہے۔ اے عادلوں کے عادل ترین۔

اے معبود! ہمارے باپوں، ماؤں، ہمارے دین کے تمام تر پیروکاروں، ان کے تمام پیشروؤں اور تا قیامت تمام چل بسنے والوں کے گناہوں سے درگذر فرما۔

اے معبود! ہمارے نبی محمد اور آل محمد (صلوات اللہ علیہم اجمعین) پر درود بھیج، جیسا کہ تو نے اپنے مقرب فرشتوں پر درود بھیجا ہے، اور درود بھیج آنحضرت اور آپ کے خاندان پر، جیسا کہ تو نے اپنے مرسل پیغمبروں پر درود بھیجا ہے، اور درود بھیج آنحضرت اور آپ کے خاندان پر، جیسا کہ تو نے اپنے صالح بندوں پر درود بھیجا ہے، اور اس سے بھی بہتر اے تمام جہانوں کے پروردگار؛ ایسا درود جس کی برکت ہم تک بھی پہنچے اور اس کا فائدہ ہمیں بھی ملے، اور اس کے بموجب ہماری دعائیں قبول ہوں؛ یقیناً تو ان کریموں میں سے کریم ترین ہے جس کی طرف لوگ راغب ہوتے ہیں؛ اور سب سے زیادہ غنی اور بےنیاز کرنے والا ہے ان میں سے، جن پر توکل اور بھروسہ کیا جاتا ہے۔ اور تو سب سے زیادہ عطا کرنے والا ہے ان میں سے جن کے فضل کی رو سے، ان سے مانگا جاتا ہے۔ اور تو ہر شیئے پر قادر ہے"۔

*****

اکتیسواں چراغ

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"لَمَّا ضُرِبَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ علیهما السلام بِالسَّیْفِ ثُمَّ ابْتُدِرَ لِیُقْطَعَ رَأْسُهُ نَادَى مُنَادٍ مِنْ قِبَلِ رَبِّ الْعِزَّهِ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى مِنْ بُطْنَانِ الْعَرْشِ فَقَالَ أَلَا أَیَّتُهَا الْأُمَّهُ الْمُتَحَیِّرَهُ الظَّالِمَهُ بَعْدَ نَبِیِّهَا لَا وَفَّقَکُمُ اللَّهُ لِأَضْحًى وَ لَا فِطْرٍ قَالَ ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ لَا جَرَمَ وَ اللَّهِ مَا وُفِّقُوا وَ لَا یُوَفَّقُونَ أَبَداً حَتَّى یَقُومَ ثَائِرُ الْحُسَیْنِ علیه‌السلام؛ (40

"'چونکہ انہوں نے امام حسین (علیہ السلام) کو تلوار سے شہید کیا اور پھر آنجناب کا سر بدن سے جدا کر دیا، اللہ کے منادی نے رب العزت تبارک و تعالیٰ کی جانب سے، عرش کی گہرائیوں سے آواز دی: اے امت، جو اپنے پیغمبر کے بعد گمراہ ہوگئی اور ظلم کی مرتکب ہوئی، خدائے متعال تمہیں عید الاضحیٰ اور عید الفطر کی برکتوں سے فیض اٹھانے کی توفیق نہ دے"' بعد ازاں امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: '"بلا شبہ، اللہ کی قسم انہیں یہ توفیق نہیں ملی اور ہرگز نہیں ملے گی، یہاں تک کہ امام حسین (علیہ السلام) کے خون کا انتقام لینے والا [امام زمانہ (علیہ السلام)] قیام فرمائے"۔  

******

*****

**

*

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔ سید ابن طاؤس، اقبال الأعمال، (ط قم 1415ھ) ج2، ص260؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج86، ص286؛ اور ج95، ص351۔

2۔ شيخ صدوق، الأمالی، ص192؛ وہی مصنف، عيون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج2، ص269۔

3۔ علامہ کلینی، الکافی، ج4، ص169؛ شیخ طوسی، تهذیب الاحكام، ج3، ص289۔

4۔ عید فطر اور عید الضحیٰ کی دعا، جو ان دو عیدوں کی نماز میں پڑھی جاتی ہے۔

5۔ الشيخ المفيد، الأمالي، ص232۔

6۔ علامہ کلینی، ج4، ص168؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج‏1، ص511، ح1478؛ شیخ حر عاملی، وسائل‌الشیعۃ، ج5، ص140۔

7۔ لفظ "قاریجار"، فارسی کے لفظ "کاریگر یا کارگر" کا معرب اور اس کے معنی مزدور کے ہیں۔

8۔ علامہ کلینی، الکافی، ج4، ص167-168؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج2، ص167-168؛ علامہ السيد ہاشم البحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، ج5، ص711۔

9۔ شیخ صدوق، من لا يحضرہ الفقیه، ج1، ص512.

10۔ نہج البلاغہ، حکمت شمارہ 428۔

11۔ علامہ محمد تقی تستری، نہج الصباغہ فی شرح نہج البلاغہ، ج14، ص261۔

12۔ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔ (سورہ بقرہ، آیت 185)۔

13۔ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج2، ص167۔

14۔ سورہ بقرہ، آیت 185۔

15۔ متقی ہندی، کنز العمال، ج8، ص546، ح24094۔

16۔ متقی ہندی، وہی ماخذ، ح24096۔

17۔ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا علیہ السلام، ج1، ص122؛ شیخ صدوق، من لایحضره الفقیہ، ج1، ص522؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، (ط آل البیت) ج‏7، ص‏481، ح‏4۔

18۔ نہج البلاغہ، (دشتی) خطبہ نمبر 28۔

19۔ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا علیہ السلام، ج1، ص122؛ شیخ صدوق، من لایحضره الفقیہ، ج1، ص522؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، (ط آل البیت) ج‏7، ص‏481، ح‏4۔

20۔ صحیفۂ امام خمینی، ج9، ص334-333۔

21۔ صحیفۂ امام خمینی، ج13، ص93۔

22۔ عید فطر 1423ھ (بمطابق 6 دسمبر سنہ 2002ء کے موقع پر حکومت کے کارگزاروں سے خطاب۔

23۔ کلام امیرالمؤمنین (علیہ السلام)، جان لو کہ اللہ نے آج کا دن تمہارے لئے عید قرار دیا ہے اور تمہیں اس کا لائق گردانا ہے۔ (شیخ صدوق، من لایحضره الفقیه، ج1، ص517)۔

24۔ عید فطر (یکم شوال سنہ 1422ھ | بمطابق 16 دسمبر 2001ء) کے موقع پر سرکاری کارگزاروں سے خطاب۔

25۔ عید فطر (یکم شوال سنہ 1424ھ | بمطابق 26 نومبر 2003) کے موقع پر سرکاری کارگزاروں سے خطاب۔

26۔ سُوید بن غَفَلہ کہتے ہیں: "دَخَلْتُ عَلَيهِ [يَعني أمِيرَ المُؤمِنِينَ عَلَيهِ السَّلَامُ] يَوْمَ عِيْدٍ فَإِذَا عِنْدَهُ فَاثُورٌ عَلَيهِ خُبْزُ السَّمْرَاءِ وَصَحْفَةٌ فِيهَا خَطِيفَةٌ وَمِلْبَنَةٌ فقُلْتُ يَا أمِيرَ المُؤمِنينَ! يَوْمُ عيدٍ وَخَطيفَةٌ؟ فَقَالَ: إنَّمَا هَذَا عِيدُ مَن غُفِرَ لَهُ؛ میں عید کے دن امیر المؤمنین (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہؤا جبکہ ایک دسترخوان آپ کے سامنے بچھا تھا جس پر تھوڑی سی گندم کی روٹی اور ایک برتن میں فرنی تھی اور ایک چمچہ؛ میں نے کہا: یا امیر المؤمنین! عید کا دن اور فرنی؟ تو آپ نے فرمایا: بےشک یہ اس کی عید ہے جس کو اللہ نے بخش دیا ہے"۔ (ابن شہر آشوب، المناقب (ط نجف 1956ء) ج1، ص368؛ علامہ مجلسی، البحار، ج40، ص326)۔

27۔ نہج البلاغہ، حکمت شمارہ 428۔

28۔ عید فطر (یکم شوال سنہ 1426ھ | بمطابق 4 نومبر 2005ء) کے موقع پر خطبات نماز عید۔

29۔ شیخ صدوق، من لا يحضرہ الفقیہ، ج2، ص183.

30۔ شیخ صدوق، وہی ماخذ۔

31. امام شافعی: يَا آلَ بَيْتِ رَسُولِ اللَهِ حُبَّكُمُ * فَرْضٌ مِنَ اللَهِ فِي القُرْآنِ أَنْزَلَهُ * يَكْفِيكُمُ مِنْ عَظِيمِ الْقَدْرِ أَنَّكُمُ * مَنْ لَمْ يُصَلِّ عَلَيكُمْ لَا صَلاةَ لَهُ؛ اے اہل بیت رسول اللہ، آپ کی محبت * فرض ہے اس قرآن میں جو اس نے نازل فرمایا ہے * آپ کی قدر و منزلت کی عظمت یہی کافی ہے کہ یقینا آپ وہ ہیں کہ * جن پر اگر کوئی صلوات نہ بھیجے تو اس کی نماز ہی باطل ہے۔ (ابن حجر الہیثمی، الصواعق المحرقہ، (ط لبنان 1997م)، ج2، ص435)۔

32۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج4، ص174۔ بعض نسخوں میں "عَنْ عِيَالِكَ" مذکور ہے۔

33۔ ۔ شیخ مفید، المقنعہ، ص247-248. 

34۔ محقق حلی، شرائع الاسلام، ج1، ص158۔

35۔ شیخ صدوق، من لایحضره الفقیه، ج1، ص517۔

36۔ سورہ اسرا‏ء / بنی اسرائیل، آیت 71۔

37. الکفعمی، ابراہیم بن علی العاملی، جُنَّۃُ الأمانِ الْواقیَۃ وَجَنَّۃُ الإیمان الباقیَۃ المعروف بہ "مصباح کفعمی"، (ط دار الرضى قم 1405ھ)، ص176۔ یہ دعا امام عصر (علیہ السلام) نے ایک اسیر کو رہائی کے لئے سکھائی۔

38۔ دیکھئے: سید بن طاؤس، اقبال الاعمال، (ط قم 1414ھ)، 503 اور بعد کے صفحات۔

39۔ امام سجاد (علیہ السلام)، صحیفۂ سجادیہ، دعا نمبر 45۔

40۔ شیخ صدوق، الأمالی، ص168۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

التماس دعا

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110