اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

14 مارچ 2024

8:33:13 PM
1444436

طوفان الاقصی؛

مقاومتی محاذوں ںے جعلی اسرائیل کی معیشت کو کس انداز سے تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے؟ + ویڈیو

الجزیرہ نے ایک ویڈیو شائع کر دی ہے جس میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ مقاومت کے لبنانی اور یمنی نیز فلسطینی محاذوں نے صہیونی ریاست کی اقتصاد کو کس طرح، تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

اسرائیلی کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں دوہری جنگ لڑی جا رہی ہے جس نے ان کی جیبوں میں آگے کے شعلے ڈال دیئے ہیں کیونکہ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے مطابق اشیائے خورد و نوش تیار کرنے والی نیز اشیائے خورد و نوش باہر سے درآمد کرنے والی اہم ترین کمپنیوں نے اپنی بعض مصنوعات کی قیمتوں میں 15فیص سے 25فیصد اضافہ کیا اور کہا کہ ہ غزہ کی جنگ کے نتائج میں سے ایک ہے۔

حالات بہت دشوار ہو چکے ہیں؛ اسرائیلی حکومت کے نگرانوں نے زور دے کر کہا ہے کہ اسرائیل میں قیمتوں کی سطح، اقتصادی ترقی و تعاون تنظیم کے رکن ممالک میں موجودہ قیمتوں سے تقریبا 27 فیصد زیادہ ہے۔

نیز غذائی مواد کی پیداوار میں دراڑ 37 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور یہ مقدار یورپی ممالک کی نسبت 51 فیصد زیادہ ہے۔

اسرائیل میں مہنگائی کی لہر، غزہ کے اطراف میں یہودی شہروں اور نوآبادیوں میں پیداوار کی مکمل بندش پر بھی مشتمل ہے۔ علاوہ ازیں [مقبوضہ فلسطین کے] شمال میں بھی زرعی سرگرمیاں رک گئی ہیں جس کا سبب یہ ہے کہ اس علاقے کے [یہودی] باشندے، [حزب اللہ کے حملوں اور] شمالی محاذ میں کشیدگی میں اضافے کی وجہ سے جبری نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

ادھر بحیرہ احمر میں [انصار اللہ یمن کے] حملوں کی وجہ سے اسرائیل کی بحری تجارت ٹھپ ہوگئی ہے اور یہ مسئلہ بھی مختلف قسم کی مصنوعات کی قیمتوں اور پیداوار پر اثر انداز ہؤا۔ کیونکہ اشیائے خورد و نوش درآمد کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں کنٹینرز کی ترسیل اور نقل و حمل کی قیمت 1500 ڈالر سے 7200 ڈالر تک بڑھ گئی ہے۔

ادھر اسرائیلی اپوزیشن نے نیتن یاہو کی حکومت کو اس صورت حال کا ذمہ دار قرار دیا اور خبردار کیا کہ اسرائیل کا متوسط طبقہ بنیادی ضرورت کی اشیاء کی شدید مہنگائی کے بوجھ تلے شکست و ریخت سے دوچار ہے۔

ہم تنقیدات کی فہرست میں پڑھ سکتے ہیں کہ اوسط اضافی قدری محصول (Value-added tax)  سترہ (17) فیصد ہے جو بہت زیادہ ہے اور ایندھن اور توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ بلا جواز ہے۔

اب جبکہ ایک اسرائیلیوں کو درپیش دشواریاں دو محاذوں ـ یعنی جنگ اور اقتصاد ـ میں بدستور جاری ہیں، قیمتوں میں اضافے سے نمٹنے کے لئے مالیاتی اور نقدی آپشنز سے کام لینے کا امکان کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیونکہ اسرائیل کے اسٹیٹ بینک نے اپنے تازہ ترین فیصلوں میں سود کی شرح کو 4,5 فیصد رکھی ہے۔ جبکہ اس سے پہلے اس میں کمی کر دی تھی۔ اور یہ موجودہ صورت حال میں مہنگائی اور افراط زر کو کم کرنے یا معاشی ترقی کی حوصلہ افزائی کے درمیان انتخاب کرنے میں دشواری کی علامت ہے۔

یہ ایک ایسی معیشت کی کہانی ہے جو جنگ کی وجہ سے اپنی جی ڈی پی کا پانچواں حصہ کھو چکی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110