اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
منگل

12 مارچ 2024

9:29:41 PM
1444046

نہج البلاغہ؛

اختلاف امت کے حوالے سے، یہودیوں کا طعنہ اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کا جواب

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: تم [یہودیوں] کے پاؤں ابھی سمندر [بحیرہ احمر] کے پانی سے بھی نہیں سوکھے تھے کہ اپنے پیغمبر [حضرت موسیٰ (علیہ السلام)] سے کہنے لگے: اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایک خدا بنا دیجئے جیسے ان کے خدا [بت] ہیں۔ انھوں نے کہا تم ناسمجھ لوگ ہو"۔ (اعراف ـ 138) (نہج البلاغہ، حکمت نمبر 318)۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا 
"وَقالَ لَهُ بَعْضُ الْيَهُودِ: ما دَفَنْتُمْ نَبِيَّكُمْ حَتَّى اخْتَلَفْتُمْ فيهِ!

یہودیوں میں سے بعض افراد نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے کہا: تم [مسلمانوں] نے ابھی اپنے پیغمبر کی تدفین سے بھی فارغ نہیں ہوئے تھے، کہ ان کے بارے میں اختلاف سے دوچار ہوئے۔

فَقَالَ عَلَيْهِ السَّلامُ لَهُ: إِنَّما اخْتَلَفْنا عَنْهُ لَا فيهِ؛

تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا: ہم ان چیزوں میں اختلاف سے دوچار ہوئے، جو آنحضرت سے ہمیں ملی تھیں، لیکن آنحضرت کے وجود اور رسالت و نبوت میں اختلاف نہیں کیا۔

وَلٰكِنَّكُمْ ما جَفَّتْ اَرْجُلُكُمْ مِنْ الْبَحْرِ حَتّى قُلْتُمْ لِنَبِيِّكُمْ: يَا مُوسَىٰ اجْعَلْ لَنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ؛

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: تم [یہودیوں] کے پاؤں ابھی سمندر [بحیرہ احمر] کے پانی سے بھی نہیں سوکھے تھے کہ اپنے پیغمبر [حضرت موسیٰ (علیہ السلام)] سے کہنے لگے: اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایک خدا بنا دیجئے جیسے ان کے خدا [بت] ہیں۔ انھوں نے کہا تم ناسمجھ لوگ ہو"۔ (اعراف ـ 138) (نہج البلاغہ، حکمت نمبر 318)۔ 

تشریح:

اس کلام شریف میں یہودی تنقید کا دندان شکن جواب دیا گیا ہے۔ یہودی کہتا ہے: تم مسلمانوں نے ابھی اپنے پیغمبر کو دفنایا ہی نہیں تھا کہ آنحضرت کے سلسلے میں اختلاف سے دوچار ہوئے۔ (وَقالَ لَهُ بَعْضُ الْيَهُودِ: ما دَفَنْتُمْ نَبِيَّكُمْ حَتَّى اخْتَلَفْتُمْ فيهِ)

امیر المومنین (علیہ السلام) نے فرمایا: ہم نے ان کے بارے میں اختلاف نہیں کیا بلکہ ان چیزوں کے بارے میں اختلاف کیا جو ان سے ہم تک پہنچی تھیں جبکہ تم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی حیات میں ہی اور بحیرہ احمر سے گذر کر ہی، اور سمندر میں بارہ راستے بننے کا عظیم معجزہ دیکھنے کے فورا بعد ہی، جب سینا کی سرزمین پر قدم رکھا جبکہ ابھی تمہارے پاؤں گیلے تھے، بت پرستوں کا ٹولہ دیکھ کر اپنے پیغمبر سے کہا: ہمارے لئے بھی اسی طرح کا ایک بت قرار دیجئے جیسا کہ ان لوگوں کے بت ہیں۔ اور موسیٰ نے تم سے کہا کہ تم ایک نادان اور ناسمجھ جماعت ہو۔ کیونکہ تم نے اتنے سارے معجزات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا، لیکن ابھی تک توحید کے مسئلے میں دھنسے ہوئے ہو)؛ (إِنَّما اخْتَلَفْنَا عَنْهُ لاَ فِيهِ، وَلكِنَّكُمْ مَا جَفَّتْ أَرْجُلُكُمْ مِنَ الْبَحْرِ حَتَّى قُلْتُمْ لِنَبِيِّكُمْ: (اجْعَلْ لَنَا إِلهاً كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ فَقَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ)).
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اسلام کے خلاف مہم چلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے، جبکہ اسلام نے یہودیوں سمیت غیر مسلموں کو اپنی حدود میں آزادی اظہار کا پورا حق دیا تھا، یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے سربراہ کو چیلنج کر سکتے تھے اور عجیب و غریب سوالات پوچھ سکتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کی سرزنش بھی کر سکتے تھے کہ "تم نے اپنے پیغمبر کی تدفین سے قبل ہی اختلاف کیوں کیا"، لیکن جب انہیں دندان شکن جواب ملتا تھا تو متاثر ہوجاتے تھے اور کبھی تو اسلام بھی قبول کرتے تھے، جیسا کہ بعض کتب میں مذکورہ بالا حدیث کے بعد منقول ہے کہ "فَأَسْلَمَ الْيَهُودِىُّ؛ تو یہودی شخص مسلمان ہو گیا"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے اس جواب کے ضمن میں حساس نقطے کو چھیڑا اور وہ یہ کہ "ہمارے مایین پیغمبر اور دین کے اصولوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛ ہم سب خدا کو واحد و احد سمجھتے ہیں، اپنے پیغمبر کو خاتم الانبیاء کے طور پر جانتے پہچانتے ہیں، لیکن تم نے اپنے پیغمبر سے عجیب و غریب معجزات دیکھ لئے، انھوں نے تمہارے لئے سمندر میں شگاف ڈال کر تمہارے لئے راستے بنائے اور تم اعجاز موسیٰ اور اذن پروردگار سے بننے والے ان راستوں سے سلامتی کے سے گذر گئے اور اسی راستے پر ہی تھے اور تمہارے پاؤں ابھی سمندر کے پانی سے خشک نہيں ہوئے تھے کہ جب تمہاری نظریں بت پرستوں کے بتوں پر پڑھیں اور تم نے کہا: "اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایک خدا بنا دیجئے جیسے ان کے خدا [بت] ہیں۔ اور موسیٰ نے تم سے کہا کہ تم ناسمجھ لوگ ہو"؛ جی ہاں! تم  اصول توحید ـ جو دین کا سب سے اہم رکن ہے ـ میں اپنے پیغمبر سے جھگڑ پڑے۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا یہ کلام کہ "إِنَّما اخْتَلَفْنا عَنْهُ لا فِيهِ"، ایک فصیح و بلیغ اور جامع کلام ہے جس میں آپ نے جواب کا پورا حق ادا کر دیا ہے۔ البتہ امامت بھی توحید، عدل، نبوت اور معاد کی طرح اصول دین میں سے ہے؛ جیسا کہ ابن ابی الحدید نے بھی اشارہ کیا ہے۔ مولائے کائنات کے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ "ہم توحید اور نبوت میں آپس میں کوئی اختلاف نہیں رکھتے جبکہ تم (یہودی) تو توحید میں ہی شک و تذبذب کا شکار ہوئے اور اپنے پیغمبر سے بھی مخالفت کی، یعنی نبوت پر بھی تمہارا کوئی یقین نہیں تھا اور ہمارے ہاں کے اختلاف اور تمہارے درمیان کے اختلاف میں بعد المشرقین ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110