اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعہ

16 فروری 2024

6:13:57 PM
1438278

امام علی بن الحسین، زين العابدين (عليہما السلام) کی حیات طیبہ

جبر کا عقیدہ امویوں کے ظلم و جبر کا جواز بن چکا تھا اور امام سجاد (علیہ السلام) اس حقیقت سے آگاہ تھے چنانچہ جب ابن زیاد نے کہا کہ "آپ کے بھائی کو خدا نے مارا ہے" تو اس کی یہ بات اسی عقیدہ جبر پر مبنی تھی لیکن امام (علیہ السلام) نے فرمایا: انسان جب مرتا ہے تو اس کی روح اللہ خود ہی قبض کرتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ قاتل بے گناہ ہو۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

امام علي ‏بن ‏الحسين (علیہما السلام)، زین العابدین اور سجاد کے القاب سے مشہور ہیں اور روایت مشہور کے مطابق آپؑ کی ولادت شعبان المعظم سنہ 38 ہجری مدینہ منورہ میں ہوئی۔ کربلا کے واقعے میں آپؑ 22 یا 23 سال کے نوجوان تھے اور مسلم مؤرخین و سیرت نگاروں کے مطابق آپؑ عمر کے لحاظ سے اپنے بھائی علی اکبر (علیہ السلام) سے چھوٹے تھے۔

امام سجاد (علیہ السلام)  کی حیات طیبہ کا سماجی، علمی، سیاسی اور تہذیبی حوالوں سے جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ امام سجاد (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کا ایک نہایت اہم پہلو یہ ہے کہ آپؑ کربلا کے واقعے میں اپنے والد ماجد سیدالشہداء امام حسین (علیہ السلام) کے ہمراہ تھے اور شہیدوں کی شہادت کے بعد اپنی پھوپھی ثانی زہراء سلام اللہ علیہا کے ہمراہ کربلا کے انقلاب اور عاشورا کی تحریک کا پیغام لے کر بنو امیہ کے ہاتھوں اسیری کی زندگی قبول کرلی اور اسیری کے ایام میں عاشورا کا پیغام مؤثرترین انداز سے دنیا والوں تک اور رہتی دنیا تک کے حریت پسندوں تک، پہنچایا۔

عاشورا کا قیام زندہ جاوید اسلامی تحریک ہے جو محرم سنہ 61 ہجری کو انجام پائی۔ یہ تحریک دو مرحلوں پر مشتمل تھی۔ پہلا مرحلہ تحریک کا آغاز، جہاد و جانبازی اور اسلامی کرامت کے دفاع کے لئے خون و جان کی قربانی دینے کا مرحلہ تھا جس میں عدل کے قیام کی دعوت بھی دی گئی اور دین محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے احیاء کے لئے اور سیرت نبوی و علوی کو زندہ کرنے کے لئے جان نثاری بھی کی گئی۔ پہلا مرحلہ رجب المرجب سنہ 60 ہجری سے شروع اور 10 محرم سنہ 61 ہجری پر مکمل ہوا۔ جبکہ دوسرا مرحلہ اس قیام و انقلاب کو استحکام بخشنے، تحریک کا پیغام پہنچانے اور علمی و تہذیبی جدوجہد نیز اس قیام مقدس کے اہداف کی تشریح کا مرحلہ تھا۔ پہلے مرحلے کی قیادت امام سیدالشہداء (علیہ السلام) نے کی تھی تو دوسرے مرحلے کی قیادت سید الساجدین امام زین العابدین (علیہ السلام) نے سنبھالی۔ 

امامت شیعہ اور تحریک عاشورا کی قیادت امام سجاد (علیہ السلام) نے ایسے حال میں سنبھالی تھی کہ آل علی (علیہ السلام) کے اہم ترین افراد آپؑ کے ہمراہ اسیر ہوکر امویوں کے دارالحکومت دمشق کی طرف منتقل کئے جارہے تھے؛ آل علی (علیہم السلام) پر ہر قسم کی تہمتوں اور بہتانوں کے ساتھ ساتھ فیزیکی اور جسمانی طور پر بھی بنی امیہ کے اذیت و آزار کا نشانہ بنے ہوئے تھے اور ان کے متعدد افراد امام حسین (علیہ السلام) کے اصحاب کے ہمراہ کربلا میں شہادت پاچکے تھے اور بنی امیہ کے دغل باز حکمران موقع سے فائدہ اٹھا کر ہر قسم کا الزام لگانے میں اپنے آپ کو مکمل طور پر آزاد سمجھ رہے تھے کیونکہ مسلمان جہاد کا جذبہ کھوچکے تھے اور ہر کوئی اپنی خیریت کو اولی سمجھتا تھا۔

اس زمانے میں دینی اقدار تغیر و تحریف کا شکار تھیں لوگوں کی دینی حمیت ختم ہوچکی تھی، دینی احکامات اموی نااہلوں کے ہاتھوں کا بازیچہ بن چکے تھے؛ خرافات و توہمات کو رواج دیا جاچکا تھا، امویوں کی دہشت گردی، اور تشدد و خوف و ہراس پھیلانے کے حربوں کے تحت مسلمانوں میں شہادت و شجاعت کے جذبات جواب دے چکے تھے۔ اگر ایک طرف دینی احکام و تعلیمات سے روگردانی پر کوئی روک ٹوک نہ تھی تو دوسری طرف سے حکومت وقت پر تنقید و اعتراض کی پاداش میں شدید ترین سزائیں دی جاتی تھیں، لوگوں کو غیرانسانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور ان کا گھر بار لوٹ لیا جاتا تھا اور ان کے اموال و املاک کو اموی حکمرانوں کے حق میں ضبط کیا جاتا تھا اور انہیں اسلامی معاشرے کی تمام مراعاتوں سے محروم کیا جاتا تھا اور اس سلسلے میں آل ہاشم کو خاص طور پر نشانے پر رکھا گیا تھا۔ ادھر آل امیہ کی عام پالیسی یہ تھی کہ وہ لوگوں کو خاندان وحی سے رابطہ کرنے سے روک لیتے تھے اور انہیں اہل بیت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خلاف اقدامات کرنے پر آمادہ کیا کرتے تھے وہ لوگوں کو اہل بیت (علیہم السلام) کی باتیں سننے تک سے روک لیتے تھے جیسا کہ یزید کا دادا اور معاویہ کا باپ  صخر بن حرب (ابوسفیان) ابوجہل اور ابولہب وغیرہ کے ساتھ مل کر بعثت کے بعد کے ایام میں عوام کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی باتیں سننے سے روک لیتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ آپؐ کی باتوں میں سحر ہے، سنوگے تو سحر کا شکار ہوجاؤ گے۔

امام زين‏ العابدين (علیہ السلام) نے ایسے حالات میں امامت کا عہدہ سنبھالا جبکہ صرف تین افراد آپؑ کے حقیقی پیروکار تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ایسے ہی حال میں اپنی علمی و تہذیبی و تعلیمی جدوجہد اور بزرگی علمی و ثقافتی شخصیات کی تربیت کا آغاز کیا اور ایک گہری اور مدبرانہ اور وسیع تحریک کے ذریعے امامت کا کردار ادا کرنا شروع کیا اور امام سجاد (علیہ السلام) کی یہی تعلیمی و تربیتی تحریک امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہما السلام) کی عظیم علمی تحریک کی بنیاد ثابت ہوئی۔ اسی بنا پر بعض مصنفین اور مؤلفین نے امام سجاد (علیہ السلام) کو "باعث الاسلام من جديد"۔ (نئے سرے سے اسلام کو متحرک اور فعال کرنے والے) کا لقب دیا ہے۔

واقعے کے گواہ

امام سجاد (علیہ السلام) کربلا میں حسینی تحریک میں شریک تھے اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہيں ہے لیکن تحریک حسینی کے آغاز کے ایام سے امام سجاد (علیہ السلام) کے معاشرتی اور سیاسی کردار کے بارے میں تاریخ ہمیں کچھ زیادہ معلومات دینے سے قاصر نظر آرہی ہے۔ یعنی وسط رجب سے ـ جب امام حسین (علیہ السلام) مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی جانب روانہ ہوئے، مکہ میں قیام کیا اور پھر کوفہ روانہ ہوئے اور 10 محرم سنہ 61 ہجری کو شہید ہوئے لیکن ـ امام سجاد (علیہ السلام) کے کردار کے بارے میں تاریخ کچھ زیادہ اطلاعات ہم تک پہنچانے سے قاصر ہے اور تاریخ و سیرت اور سوانح نگاریوں میں ہمیں امام سجاد (علیہ السلام) شب عاشور دکھائی دیتے ہیں اور شب عاشورا امام سجاد (علیہ السلام) کا پہلا سیاسی اور سماجی کردار ثبت ہوچکا ہے۔

امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہيں: شب عاشور میرے والد (سیدالشہداء فرزند رسول امام حسین بن علی (علیہ السلام)) نے اپنے اصحاب کو بلوایا۔ میں بیماری کی حالت میں اپنے والد کی خدمت میں حاضر ہوا تا کہ آپؑ کا کلام سن لوں۔ میرے والد نے فرمایا: میں خداوند متعال کی تعریف کرتا ہوں اور ہر خوشی اور ناخوشی میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں ... میں اپنے اصحاب سے زیادہ با وفا اور بہتر اصحاب کو نہیں جانتا اور اپنے خاندان سے زیادہ مطیع و فرمانبردار اور اپنے قرابتداروں سے زیادہ صلہ رحمی کے پابند، قرابتدار نہيں جانتا۔ خداوند متعال تم سب کو جزائے خیر عنایت فرمائے۔ میں جانتا ہوں کہ کل (روز عاشورا) ہمارا معاملہ ان کے ساتھ جنگ پر منتج ہوگا۔ میں آپ سب کو اجازت دیتا ہوں اور اپنی بیعت تم سے اٹھا دیتا ہوں تا کہ تم فاصلہ طے کرنے اور خطرے سے دور ہونے کے لئے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاسکو اور تم میں سے ہر فرد میرے خاندان کے ایک فرد کا ہاتھ پکڑ لے اور سب مختلف شہروں میں منتشر ہوجاؤ تا کہ خداوند اپنی فراخی تمہارے لئے مقرر فرمائے۔ کیونکہ یہ لوگ صرف مجھ سے سروکار رکھتے ہیں اور اگر مجھے اپنے نرغے میں پائیں تو تم سے کوئی کام نہ رکھیں گے۔

اس رات امام سجاد (علیہ السلام) بیمار بھی تھے اور یہ حقائق بھی دیکھ رہے تھے چنانچہ آپؑ کے لئے وہ رات بہت عجیب و غریب رات تھی۔ آپؑ نے اس رات امام حسین (علیہ السلام) کی روح کی عظمت اور امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھیوں کی شجاعت اور وفاداری کے اعلی ترین مراتب و مدارج کا مشاہدہ فرمایا جبکہ آپؑ اپنے آپ کو بعد کے ایام کے لئے تیار کررہے تھے۔

حضرت علی بن حسین علیھما السلام سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں: جس شام کی صبح کو میرے باباشھید کردئے گئے اسی شب میں بیٹھا تھا اور میری پھوپھی زینب میری تیمارداری کررہی تھیں۔ اسی اثنا میں میرے بابا اصحاب سے جدا ہوکر اپنے خیمے میں آئے۔ آپ کے خیمے میں  ابوذر (رض) کے غلام ''جَون'' بھی تھے جو آپؑ کی تلوار کو کو صیقل دے رہے تھے اور اس کی دھار سدھار رہے تھے جبکہ میرے بابا یہ اشعار پڑھ رہے تھے:

يا دهر افٍّ لک من خليل

کَمْ لَکَ في الاشراق و الأَصيل

من طالبٍ و صاحبٍ قتيل

و الدّهر لايقَنُع بالبديل

و انّما الأمر الي الجليل

و کلُّ حيٍّ سالکُ سبيلا

اے دنیا اور اے زمانے! اف ہے تیری دوستی پر

کہ تو اپنے بہت سے دوستوں کو صبح و شام موت کے سپرد کرتی ہے اور مارتے ہوئے کسی کا عوض بھی قبول نہيں کرتی۔ اور بے شک امور سارے کے سارے خدائے جلیل کے دست قدرت میں ہیں اور شک نہیں ہے کہ ہر ذی روح کو اس دنیا سے جانا ہے۔ (بحارالانوار ج45 ص2)

سیدالشہداء (علیہ السلام) شعر اور شمشیر کیا امتزاج ہے اور کیا راوی ہیں اس نہایت لطیف و ظریف واقعے کے؛ امام سجاد (علیہ السلام)۔

تقریبا تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ امام سجاد (علیہ السلام) کربلا میں بیمار تھے اور یہ بیماری امت کے لئے اللہ کی ایک مصلحت تھی اور مقصد یہ تھا کہ حجت خداوندی روئے زمین پر باقی رہے اور اس کے کوئی گزند نہ پہنچے اور اللہ عز و جل کی ولایت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی وصایت و ولایت کا سلسلہ منقطع نہ ہو چنانچہ امام سجاد (علیہ السلام) اسی بیماری کی وجہ سے میدان جنگ میں حاضر نہیں ہوئے۔ امام سجاد (علیہ السلام) اور امام باقر (علیہ السلام) آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے مردوں میں سے دو ہی تھے جو زندہ رہے اور ہدایت امت کا پرچم سنبھالے رہے۔ امام محمد باقر (علیہ السلام) اس وقت 4 سال یا اس سے بھی کم عمر کے تھے۔

واقعے کے بعد

کربلا کا واقعہ عصر عاشورا امام حسین (علیہ السلام) اور آپؑ کے اصحاب کی شہادت پر اختتام پذیر ہوا اور تحریک کا دوسرا مرحلہ امام علی بن الحسین زین العابدین (علیہ السلام) کی قیادت میں شروع ہوا۔ اب امام سجاد (علیہ السلام) کی باری تھی کہ کربلائیوں کے مشن کو اسیری کے منفرد جہاد کی صورت میں جاری رکھیں اور پیغام عاشورا کو مواعظ حسنہ اور بحث و مناظرے کی صورت میں لوگوں کے گوش گذار کردیں اور عوام کو ـ جو امویوں کی جاہلیت پسندانہ پالیسیوں کے مقہور و مغلوب ہوچکے تھے ـ حقیقی اسلام اور محمد و علی (علیہما السلام) کے اسلام ـ یعنی خالص محمدی اسلام ـ کی دعوت دیں۔

عاشورائیوں کی پیغام رسانی کی ذمہ داری ساجدین کے امام اور عارفین کے سرور و سردار حضرت امام سجاد (علیہ السلام) پر عائد ہوئی تھی جو نہایت بھاری ذمہ داری تھی اور اگر وہ امام نہ ہوتے تو یہ ذمہ داری انہیں سونپنا ممکن ہی نہ تھا اور اگر یہ ذمہ داری ایک امام معصوم کو نہ سونپی جاتی تو تحریک حسینی کو کربلا کی خاک پر دفنایا بھی جاسکتا تھا اور اسلام کے چراغ کو ہمیشہ کے لئے گل بھی کیا جاسکتا تھا۔

زمانہ ناامیدی کا تھا جس میں امید کا چراغ امام سجاد (علیہ السلام) کو روشن کرنا تھا اور لوگوں کو امامت و رہبری کے مسئلے سے نئے سرے سے روشناس کرانا تھا؛ لوگوں کو بتانا تھا کہ امام عادل کی شناخت ضروری ہے اور یہ کہ اگر کوئی شخص اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا جس کی مثال کربلا میں اپنا چہرہ دکھا چکی تھی جہاں امام عادل کی بات نہيں سنی گئی بلکہ امام عادل کو شہید کیا گیا اور امام عادل کے خاندان کو اسیر کیا گیا اور یہ سب امام کی عدم شناخت کا بھی نتیجہ تھا۔

امام (علیہ السلام) کی ذمہ داری تھی کہ اسیری کے لباس میں جہاد کا نیا اسلوب متعارف کراتے ہوئے لوگوں کو فاسق و فاجر حکمرانوں کی بھی شناخت کرادیں اور انہیں ظلم و ستم کے سرکردگان کی نشانیوں سے آشنا کردیں اور غفلت اور جہل میں مبتلا کئے جانے والے انسانوں کو امام عادل کی نسبت اپنی ذمہ داریوں کی یادآوری کرادیں اور ان میں معاشرتی اصلاح کے لئے ہمت و عزم پیدا کریں؛ ناامیدی کو امید میں بدل دیں؛ بنیادی اور حقیقی اسلامی تفکر کا احیاء کریں تا کہ معاشرے میں حقیقی اسلامی حکومت کے قیام کی امید پیدا کی جاسکے اور انہیں باور کرایا جاسکے کہ ایسی حکومت کا قیام ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی قیادت میں ہی ممکن ہے۔

دوسری جانب سے امام سجاد (علیہ السلام) واقعۂ کربلا کے عینی گواہ تھے اور معاشرے میں کربلا کے شہداء کے مشن کا احیاء بھی آپ کی ذمہ داریوں میں شام تھا۔ دشمن بھی تمام زمانوں اور اعصار و دہور کی مانند، اس نکتے سے واقف تھا کہ تمام انقلابات اور حق طلبی کی ہر قسم کی جدوجہد کا محور و مرکز ولایت اور امامت ہے۔

کوفہ کے اموی گورنر عبیداللہ بن زياد بن ابیہ نے یزید کے حکم پر کربلا میں اپنے فوجی کمانڈروں کو لکھا تھا کہ "امام حسین (علیہ السلام) کے خاندان کے کسی بھی مرد کو زندہ نہ رہنے دیں"، حتی کہ بعض روایات میں ہے کہ عبیداللہ نے امام زین العابدین (علیہ السلام) کی گرفتاری کے لئے انعام مقرر کررکھا تھا۔

کربلا میں یزیدی فوج کے واقعہ نگار "حمید بن مسلم" لکھتا ہے: "یزیدی لشکر کے اہلکار علی بن الحسین کو ڈھونڈنے نکلے اور دیکھا کہ وہ بستر علالت پر ہیں اور شمر نے انہیں قتل کرنا چاہا لیکن میں رکاوٹ بنا اور کہنے لگا "سبحان اللہ! تم بچوں اور مریضوں کو بھی قتل کرتے ہو!" اس اثناء میں عمر بن سعد بن ابی وقاص آیا اور کہا: اس بیمار کو نقصان پہنچانے سے باز رہو۔

يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ؛

یہ (منکرینِ حق) چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا دیں، جبکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے خواہ یہ کافروں کو ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔

اسیری کے دوران امام سجاد (علیہ السلام) کا سیاسی کردار

امام سجاد (علیہ السلام) کربلا کے واقعے سے زندہ بچنے والے واحد بالغ مرد تھے اور اس میں شک نہیں ہے کہ حسینی تحریک کی بقاء اور اس کا دوام آپؑ کی کوششوں اور کردار کا مرہون منت ہے اور سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے بھی اپنا ناقابل انکار کردار امام سجاد (علیہ السلام) کی امامت و قیادت کے دائرے میں انجام دیا ہے چنانچہ سیدہؑ کا کردار امام سجاد (علیہ السلام) کے کردار کا تسلسل ہے اور امام کے کردار کو مکمل کردینے والا ہے اور سیدہؑ نے کبھی بھی امام سجاد (علیہ السلام) کی رائے اور تفکر اور احکامات کو نظر انداز نہيں کیا ہے۔

امام سجاد (علیہ السلام) کے مشن کے خاص خاص نکتے

الف. کوفی دھوکے بازوں کے موقف پر شدیدترین تنقید

مؤرخین نے لکھا ہے کہ آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اسیروں کو 12 محرم الحرام کے دن کوفہ میں داخل کیا گیا۔ خاندان وحی و رسالت کے لئے کوفہ ایک جانا پہچانا شہر تھا اور کچھ ہی عرصہ قبل سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اس شہر کی معزز خاتون تھیں۔ کچھ ہی عرصہ قبل، جب امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) نے کوفہ کو اپنا دارالحکومت قرار دیا تھا۔ کوفی بھی اہل بیت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو ابھی تک نہیں بھول سکے تھے۔ امام سجاد (علیہ السلام) بیمار بھی تھے اور آپ کو بیڑیاں بھی پہنائی گئی تھیں اور آپ اسی حال میں کوفہ میں داخل کئے گئے تو آپؑ نے کوفیوں سے خطاب کیا اور کوفیوں کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا:

اے لوگو! تم میں سے جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو مجھے نہيں جانتا میں اس کو اپنا تعارف کراتا ہوں؛ میں علی فرزند حسین فرزند علی امیرالمؤمنین فرزند ابوطالب ہوں۔ میں اس بزرگ اور محترم شخصیت کا بیٹا ہوں جن کی حرمت شکنی کی گئی اور ان کے مال و نعمت کو غارت کیا گیا اور ان کے خاندان کو پابند سلاسل کیا گیا۔ میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جن کا سر دریائے فرات کے کنار تن سے جدا کیا گیا حالانکہ انھوں نے نہ کسی پر ظلم کیا تھا اور نہ کسی کے خلاف کوئی سازش کی تھی۔ میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جن کا سر پشت گردن سے جدا کیا گیا اور یہ میرے لئے عظیم فخر و اعزاز ہے۔

اے لوگو! کیا تم نے میرے والد کو خطوط نہیں لکھے؟ کیا تم نے ان کی بیعت نہیں کی؟ کیا تم نے ان سے عہد و پیمان نہیں باندھا؟ کیا تم نے انہیں دھوکا نہيں دیا؟ کیا تم ان کے خلاف لڑنے کے لئے تیار نہیں ہوئے؟ کتنے بھونڈے کردار کے مالک ہو تم اور کتنے بدفکر اور بدکردار ہو تم! اگر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) تم سے کہہ دیں کہ: "تم نے میرے بچوں کو قتل کیا! تم میری امت میں سے نہيں ہو؛ تم کس منہ سے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھو گے؟"۔

کوفی بظاہر اسیروں کو دیکھ کر تفریح کرنے کے لئے گھروں سے باہر آئے تھے یا گھروں کی چھتوں پر گئے تھے لیکن امام سجاد (علیہ السلام) کے کلام نے فضا کو سرے سے بدل دیا اور ہر طرف سے گریہ و بکاء کی صدائیں بلند ہوئیں اور ہر کوئی دوسرے کو قصور وار ٹہرانے لگا۔ اس کے بعد امام سجاد (علیہ السلام) نے اس نکتے پر زور دیا کہ "ہماری سیرت رسول خدا کی سیرت کی مانند ہونی چاہئے جو بہترین سیرت و کردار ہے"۔

کوفی امام سجاد (علیہ السلام) کے کلام سے متأثر ہوچکے تھے اور کہہ رہے تھے کہ "ہم آپ کے فرمانبردار ہیں اور آپ سے الگ نہيں ہونگے اور آپ جس کے خلاف لڑنے کا حکم دیں گے ہم لڑیں گے اور جس سے امن و آشتی میں رہنے کا حکم دیں گے اس کے ساتھ پر امن رہیں گے۔ ہم یزید کو پکڑ کر سزا دیں گے اور آپ پر ظلم کرنے والوں سے بیزاری اور برائت کا اعلان کرتے ہیں"۔ لیکن امام سجاد (علیہ السلام) کوفیوں کی خصلت سے واقف تھے چنانچہ آپؑ نے فرمایا:

"ہیہات! (کبھی نہیں)! اے دغل باز دھوکے بازو! اے شہوت و لالچ کے اسیرو! کیا تم مجھ سے بھی وہی سلوک کرنا چاہتے ہو جو تم نے میرے باپ دادا کے ساتھ روا رکھا؟ اللہ کی قسم ہرگز نہيں! ابھی اس زخم سے خون رس رہا ہے جو تم نے ہم پر وارد کیا! ابھی میرا سینہ اپنے والد اور بھائیوں کے قتل سے سلگ رہا ہے۔ ان غموں کی تلخی نے میرے گلے کو پکڑ لیا ہے اور میرا اندوہ ناقابل تسکین ہے۔ میں تم سے تقاضا کرتا ہوں کہ نہ ہمارا ساتھ دو اور نہ ہی ہمارے دشمنوں کا ساتھ دو"۔

ب: اموی حکمرانوں کے خلاف جدوجہد

ظلم و ستم اور ظالموں اور ستمگروں کے خلاف جدوجہد اور مظلوموں کے حقوق کا تحفظ آسمانی پیشواؤں کی خصوصیات میں شامل ہے۔ شیعیان آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے تمام پیشواؤں کی سیرت میں یہ خصوصیت بطور اتمّ موجود ہے اور انہیں اس راہ میں شہادت کی سرحد پارکرنے تک، بے انتہا مصائب برداشت کرنے پڑے اور صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔

امام سجاد (علیہ السلام) بھی دوسرے آسمانی مصلحین کی مانند ظلم و گناہ کے خلاف جدوجہد سے ایک لمحے تک غفلت روا نہيں رکھی اور کسی بھی ستمگر کے سامنے کرنش بجا نہیں لائی۔ امام سجاد (علیہ السلام) نے اسیری کے ایام میں بخوبی ثابت کیا کہ حتی اسارت میں بھی اور ظالموں بیڑياں پہن کر بھی ابن زيادہ اور یزید جیسے سنگدل اور درندہ صفت حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق زبان پر لایا جاسکتا ہے خواہ انھوں نے فرزند رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو قتل کرنے جیسے قبیح ترین اور ظالمانہ ترین جرم کا ارتکاب کرکے اپنی قساوت قلبی کا ثبوت ہی کیوں نہ دیا ہو۔ انھوں نے ریحانۃالرسول حضرت امام حسین (علیہ السلام) کو قتل کرکے ثابت کیا تھا کہ وہ کسی کو بھی قتل کرسکتے ہیں لیکن امام سجاد (علیہ السلام) نے ان کے سامنے ایسا کوئی بھی لفظ ادا نہ کیا اور ایسی کوئی بھی حرکت نہیں کی جو اموی حکمرانوں کے سامنے ذلت کی علامت ہوسکتی تھی۔

کوفہ کے یزیدی گورنر عبیداللہ بن زیادہ کے ساتھ امام (علیہ السلام) کا سامنا، کرکے امام (علیہ السلام) نے درحقیقت امویوں حکمرانوں کے ساتھ مناظرہ اور مباحثہ کرنے کا باب پہلی بار کھول دیا۔

جب اسیران آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو ابن زیاد کے قصر ستم میں داخل کیا گیا تو ابن زیاد نے آپؑ کا نام پوچھا۔

امام (علیہ السلام) نے فرمایا: میں علی بن الحسین ہوں۔

بولا: کیا خدا نے علی بن الحسین کو مارا نہیں!

فرمایا: میرے ایک بھائی کا نام علی تھا جس کو لوگوں نے قتل کیا۔

زیاد بن ابیہ کے بیٹے نے کہا: خدا نے اس کو مارا!

فرمایا: 

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا۔ (الآیہ)

خداوند متعال جانوں کو موت کے وقت لے لیتا ہے (اور اپنی جانب منتقل کرتا ہے۔

امام (علیہ السلام) نے اس استدلال میں واضح کیا کہ ان کے بھائی کو امویوں نے قتل کیا اور ان کی روح خدا نے قبض کرلی اور یہ سلسلہ سنت الہیہ میں متعین ہے۔

اموی حکمرانوں کو کبھی کسی کی دلیل سننے کی عادت نہیں تھی؛ وہ تو شامی بادشاہ کے احکامات سنتے اور بحث کئے بغیر اس پر عملدرآمد کرنے اور کرانے کے پابند تھے چنانچہ طاقت اور ظاہری فتح کے نشے میں مست ابن زياد امام سجاد (علیہ السلام) کے زبردست استدلال اور عمدہ منطق کے سامنے بے بس ہوگیا اور غصے میں آکر اموی منطق کا سہارا لیا اور آپؑ کے قتل کا حکم جاری کیا۔ یہی منطق تھی اموی مستبدین کی جو بعد میں عباسیوں کو بھی ورثے میں ملی اور آج بھی آمروں اور مستبدوں کے ہاں بوفور پائی جاتی ہے۔ یہ اموی منطق تھی منطق اور استدلال کو دبانے کے لئے، جو یہاں اپنی حقانیت کی دلیل پیش کرے گا اس کو موت کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ یہاں حکمران طاقت کو وجہ حقانیت سمجھتے ہیں اور کوفی و شامی بزدل بھی اسی منطق کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے تھے اور دین و ایمان سمیت سب کچھ لٹا چکے تھے لیکن مرجانہ کے بیٹے کو معلوم نہ تھا کہ جس کو قتل کی دھمکی دی جارہی ہے وہ ہے کون؟ علی ابن الحسین کوفی و شامی بزدل نہيں تھے بلکہ حسین بن علی کے بیٹے تھے چنانچہ آپؑ نے ابن مرجانہ کی دھمکی سے خوفزدہ ہونے کی بجائے، شجاعت اور دلاوری کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا:

"أ بالقتل تُهِدّدني؟ أما علمت انّ القتلَ لَنا عادةً و کرامتنا الشَّهادة"۔

کیا تم مجھے موت کی دھمکی دیتے ہو؟ کیا تم اب نہیں سمجھے کہ قتل ہونا ہمارا معمول ہے اور ہماری کرامت اور فخر و اعزاز، شہادت ہے!؟۔

اس گفتگو کا اہم نکتہ یہ ہے کہ امام سجاد (علیہ السلام) شجاعت اور شہادت طلبی کا اظہار کیا ہے اور پھر یہ گفتگو بنو امیہ کی مطلق العنان حکومت کی فکری اور منطقی پس منظر اور اعتقادی سرمائے سے امامؑ کی مکمل واقفیت بھی واضح کرتی ہے۔

حکومت جتنی بھی طاقتور ہو اس کو اتنی ہی قوی فلسفی اور اعتقادی سرمائے کی بھی ضرورت ہے جو اس حکومت کے موقف اور رویوں کی دلیل پیش کر سکے اور یہ فکری، فلسفی اور اعتقادی پس منظر معاشروں کے درمیان فرق و تفاوت کے تناسب سے مختلف ہوتا ہے اور استبدادی قوتیں اپنے معاشرے کے بنیادی اعتقادی رجحانات کی نسبت سے اپنے خاص ہتھکنڈے ـ جو حکومت کے لئے مفید ہوسکتے ہیں ـ اپناتے ہیں چنانچہ امویوں نے بھی معاشرے کو اپنی ناجائز حکمرانی سے منحرف کرنے کے لئے مختلف قسم کی روشیں اپنائیں جن میں ایک اہم روش اس عقیدے کی ترویج تھی کہ "انسان مجبور مطلق ہے اور کوئی چیز اور کوئی عمل اپنی ذات میں نہ برا ہے اور نہ ہی اچھا ہے اور انسان کوئی بھی عمل اپنی مرضی سے نہیں کرتا بلکہ انسان جو بھی کرتا ہے وہ در حقیقت خدا ہی کراتا ہے"۔ اموی حکمران جب بھی اپنے اقتدار کو تحفظ دینے کے لئے دین و ایمان کے تمام اصولوں کو پامال کرکے کوئی فعل سرانجام دیتے تو لوگوں سے کہا جاتا کہ "یہ سب خدا کی مرضی تھی کیونکہ انسان تو مجبور ہے چنانچہ جب یزید کا دور آیا تو معاویہ نے اس عقیدے کو اتنا راسخ کردیا تھا کہ حکمرانوں کو مزيد اپنے کاموں کی توجیہ کرانے کی زحمت گوارا کرنا نہیں پڑتی تھی بلکہ عوام اور نام نہاد علماء اس بات کے قائل ہوجاتے تھے کہ جو امویوں نے کیا وہ "کار خدا" تھا (معاذاللہ) اور یہ اعتقاد آج بھی مسلم معاشروں میں پایا جاتا ہے جس کے تحت قاتل اور مقتول دونوں کے بارے میں رضی اللہ عنہ جیسی دعا کی جاتی ہے۔ چنانچہ جب کہا جاتا ہے کہ معاویہ نے ام المؤمنین عائشہ کو قتل کیا تو کہنا پڑتا ہے کہ "خال المؤمنین رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کو شہید کیا!"۔

جبر کا عقیدہ امویوں کے ظلم و جبر کا جواز بن چکا تھا اور امام سجاد (علیہ السلام) اس حقیقت سے آگاہ تھے چنانچہ جب ابن زیاد نے کہا کہ "آپ کے بھائی کو خدا نے مارا ہے" تو اس کی یہ بات اسی عقیدہ جبر پر مبنی تھی لیکن امام (علیہ السلام) نے اس کے اس باطل عقیدے کو چیلنج کیا اور فرمایا کہ میرے بھائی کو لوگوں نے قتل کیا" اور جب اس نے اپنی بات پر زور دیا تو امام (علیہ السلام) نے فرمایا کہ انسان جب مرتا ہے تو اس کی روح اللہ خود ہی قبض کرتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ قاتل بے گناہ ہے۔ امام سجاد (علیہ السلام) نے دربار یزید میں بھی امویوں کے اس سیاسی عقیدے کو چیلنج کیا اور قرآنی آیات کی روشنی میں اس کا بطلان واضح کردیا۔

 ج: انسانوں کو اسلام کے حقیقی پیشواؤں کی طرف دعوت دینا

شام جب سے اسلامی مملکت کا حصہ بنا تھا اس کے دارالحکومت اور دوسرے شہروں کو اموی حکمرانوں کے سوا کسی قابل ذکر اسلامی شخصیت کا چہرہ دیکھنے کی توفیق نہیں مل سکی تھی۔ اس سرزمین کے عوام نے نہ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو دیکھا تھا اور نہ ہی صالح صحابہ کی روش سے واقف تھے۔ شامیوں نے اسلام کو امویوں کے لبادے میں دیکھا تھا اور وہ بنی امیہ کو خاندان رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بلامنازع پسماندگان کی نظر سے دیکھتے تھے۔ معاویہ نے اپنی چالیس سالہ مطلق العنان حکمرانی کے دوران شام کے عوام کو جہل اور نادانی میں مبتلا کئے رکھا تھا اسی بنا پر جب امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت ہوئی تو بنی امیہ نے کوفیوں کو خاموش کرنے کے لئے پروپيگنڈا کیا کہ "خاندان رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھی اگر حکومت وقت کے خلاف قیام کرے تو اس کو سزا ملنی چاہئے چنانچہ کوفیوں کو سمجھانے کے لئے انہیں کافی محنت کرنی پڑی لیکن شامیوں کو بتایا گیا کہ "ایک خارجی نے خلیفہ مسلمین کے خلاف خروج کیا تھا جس کو قتل کیا گیا اور اس کے خاندان کو قید کرکے شام لایا جارہا ہے"، اور شامی بھی مان گئے اور جشن و چراغاں کے لئے تیار ہوگئے۔ اور جب اہل بیت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو شام لایا گیا تو وہاں جشن کا سماں تھا۔

علی بن الحسین (علیہ السلام) کو غل و زنجیر میں شام کے دارالحکومت دمشق میں داخل کیا گیا۔

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہيں کہ میرے والد کو ننگے اونٹ پر سوار کیا گیا تھا جس پر کوئی محمل اور کوئی کجاوہ نہ تھا اور آپؑ کے والد امام حسین (علیہ السلام) کا سر نیزے پر آگے آگے لے جایا جارہا تھا ... اور ہم اس حالت میں دمشق میں داخل ہوئے۔

یہاں امام سجاد (علیہ السلام) کی ذمہ داری بہت سنگین تھی؛ شہر میں جشن بپا تھا اور لوگ نہیں جانتے تھے کہ وہ کن لوگوں کے میزبان ہیں اور امام سجاد (علیہ السلام) کو انہیں یہ بتانا تھا کہ وہ خارجی نہیں ہیں بلکہ فرزندان رسول اور اہل بیت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہیں جن کو رسول خدا نے قرآن کا ہمسر قرار دیا تھا اور اور ابتدائے بعثت سے فرماتے آئے تھے کہ:

"إنی تارك فیكم الثقلین كتاب الله وعترتی ما ان تمسكتم بهما لن تضلوا بعدی: كتاب الله فیه‌الهدی والنور حبل ممدود من السماء الی الارض وعترتی اهل بیتی وان اللطیف الخبیر قد اخبرنی‌انهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض وانظروا كیف تخلفونی فیهما"۔

ترجمہ: میں تمہارے درمیان دو گران بہاء چیزیں چھوڑے جارہا ہوں: کتاب اللہ (قرآن) میں نور اور میری عترت، جب تک ان دونوں کا دامن تھامے رہوگے میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ اﷲ تعالیٰ کی کتاب آسمان سے زمین تک بندھی ہوئی رسی ہے؛ اور میری عترت میرے اہلِ بیت ہیں۔ اور خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے یہاں تک کہ اکٹھے میرے پاس حوضِ کوثر پر آئیں گے۔ دیکھو کہ تم میرے بعد میری ان یادگاروں کے حق میں کیا سلوک روا رکھتے ہو اور کیا ان دو کے سلسلے میں میری وصیتوں پر عمل کرتے ہو یا نہیں۔

حدیث ثقلین کے منابع: صحیح ترمذی، ج ۵، ص ۶۶۳-۶۶۲، ۳۲۸، 30 صحابیوں کے حوالے سے۔ مستدرک الصحیحین باب "فضیلت اصحاب"، ج ۳، ص ۱۰۹، ۱۱۰، ۱۴۸، ۵۳۳؛ حاکم لکھتے ہیں کہ یہ حدیث بخاری اور مسلم کی نظر میں صحیح ہےـ سنن ابن ماجه، ج ۲، ص ۴۳۲ ـ مسند حنبل، ج ۳، ص ۱۴، ۱۷، ۲۶، ۵۹، ج ۴، ص ۳۶۶، ۳۷۲-۳۷۰ ـ فضائل صحابہ، احمد بن حنبل، ج ۲، ص ۵۸۵، حدیث ۹۹۰ ـ خصائص نسائی، ص ۲۱، ۳۰ ـ صواعق المحرقه، ابن حجر هیثمی، فصل ۱۱، بخش ۱، ص ۲۳۰ ـ معجم كبیر طبرانی، ج ۳، ص ۶۳-۶۲، ۱۳۷ ـ كنزالعمال، متقی هندی، فصل "اعتصام به حبل اللہ ج ۱، ص ۴۴ ـ تفسیر ابن كثیر، ج ۴، ص ۱۱۳، تفسیر ذیل تفسیر "قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى"  سورہ شوری آیت 23۔  طبقات الكبری، ابن سعد، ج ۲، ص ۱۹۴، طبع لبنان ـ الجامع الصغیر، سیوطی، ج ۱، ص ۳۵۳ نیز در جلد ۲ ـ مجمع الزوائد، هیثمی، ج ۹، ص ۱۶۳ـ فاتح الكبیر، بنهانی، ج ۱، ص ۴۵۱ ـ جامع الاصول، ابن اثیر، ج ۱، ص ۱۸۷ ـ تاریخ ابن عساكر، ج ۵، ص ۴۳۶ ـ درالمنثور، حافظ سیوطی، ج ۲، ص ۶۰ ـ ینابیع المودة، قندوزی حنفی، ص ۳۸، ۱۸۳۔

شامیوں کو اس حقیقت سے دور رکھا گیا تھا اور امام (علیہ السلام) کو اسیر کرکے لايا گیا تھا لیکن وہ اسیر ہوتے ہی اپنی ذمہ داری سے بخوبی آگاہ تھے اور اب شامیوں کو اہل بیت (علیہم السلام) کا تعارف کرانا تھا تا کہ لوگوں پر اتمام حجت ہو اور فکری استضعاف کا خاتمہ۔ امامؑ نے شام کے راستے میں بھی اور دمشق کے دربار میں بھی اس حقیقت کو عیاں کیا اور جب یزید نے اپنی کامرانی جتانے کے لئے مسجد اموی میں محفل سجائی اور امام سجاد (علیہ السلام) منبر پر رونق افروز ہوئے تو یزید کو لینے کے دینے پڑے اور امامؑ نے بنو امیہ کی رسوائی کا خوب خوب اہتمام کیا اور اہل بیت رسول (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کی حقانیت اور خاندان وحی کی امامت کی کامیاب وکالت فرمائی۔

د: بنو امیہ کے چہرے سے نقاب کشائی اور رائے عامہ کی بیداری کا اہتمام

بنو امیہ اپنا حقیقی چہرہ "خلافت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ)" کے جھوٹے عنوان، ریا اور مکر و حیلہ اور کبھی حتی ظاہری تقدس کے نقاب میں چھپائے رکھتے تھے۔ سیدالشہداء (علیہ السلام) کی شہادت نے کسی حد تک ان رازوں کو برملا کردیا تھا تاہم اموی مکر و فریب کے چہرے سے نقاب کشائی کا کام امام سجاد (علیہ السلام) کی اسیری نے سرانجام دیا اور لوگوں کے سامنے واضح کیا کہ وہ دینی اور اخلاقی اقدار کے پابند نہيں ہیں اور لوگوں پر پہلی مرتبہ انکشاف ہوا کہ بنی امیہ اپنی حکمرانی میں کن کن المیوں کا سبب بنے ہیں۔

مؤرخین نے لکھا ہے کہ امام سجاد (علیہ السلام) ایسے حال میں قصر یزید میں لائے گئے کہ آپؑ کے ہاتھ پاؤں زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ آپ ایک آزاد اور باوقار اسیر تھے اور غل و زنجیر کے باوجود آپؑ نے یزید کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کیا۔ جب داخل ہوئے تو یزید حصین بن حمام مری کے اشعار پڑھ کر خوش ہورہا تھا چنانچہ امام سجاد (علیہ السلام) نے فرمایا:

تمہارے لئے قرآنی آیات شعر پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے اور پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی:

"مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ٭ لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ"۔ (سورہ الحدید آیات 22 و 23) 

کوئی بھی مصیبت نہ تو زمین میں پہنچتی ہے اور نہ تمہاری زندگیوں میں مگر وہ ایک کتاب میں (یعنی لوحِ محفوظ میں جو اللہ کے علمِ قدیم کا مرتبہ ہے) اس سے قبل کہ ہم اسے پیدا کریں (موجود) ہوتی ہے، بیشک یہ (علمِ محیط و کامل) اللہ کے لئے بہت ہی آسان ہے *   تاکہ تم اس چیز پر غم نہ کرو جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی اور اس چیز پر نہ اِتراؤ جو اس نے تمہیں عطا کی، اور اللہ کسی تکبّر کرنے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔

سیدالعابدین کا قرآنی استدلال مغرور اور خودغرض اموی حکمران یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کے سر پر کسی بھاری ہتھوڑے سے کم نہ تھا چنانچہ وہ غضبناک ہوا اور کہا: تمہارے باپ نے قرابتداری کا رشتہ توڑ دیا اور میرے حق کو نظر انداز کیا اور اقتدار کے لئے مجھ سے لڑے۔ خدا نے ان کے ساتھ وہ کیا جو تم نے دیکھا۔

امام سجاد (علیہ السلام) نے قرآن مجید سے استدلال کیا اور یزید کی ہرزہ سرائی کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اے معاویہ و ہند (معاویہ کی ماں) و صخر (ابوسفیان) کے بیٹے! تمہاری پیدائش سے بھی پہلے نبوت اور حکومت میرے والد میرے باپ دادا کی تھی؛ بدر، احد اور احزاب کی جنگوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا پرچم میرے والد (امیرالمؤمنین) کے ہاتھ میں تھا اور ان ہی جنگوں میں تمہارے باپ اور دادا کفار کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔

اور پھر فرمایا: اے یزید! اگر تم جانتے کہ تم نے کیا کیا ہے اور میرے والد، بھائیوں اور چچازاد بھائیوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے، پہاڑوں کی طرف بھاگ جاتے اور ریت پر لیٹتے اور نالہ و فریاد کرتے۔ میرے والد حسین بن علی اور فاطمہ (س) کے فرزند اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی امانت ہیں اور ان کا سر آج تمہارے شہر کے دروازے پر لٹکا ہوا ہے! روز قیامت جب لوگ اکٹھے ہوجائیں تو جان لو کہ ذلت و خواری اور پشیمانی کے سوا تمہارے پاس کچھ بھی نہ ہوگا۔

یہ وہ باتیں تھیں کہ جن کی یزید کو کوئی توقع نہ تھی اور دربار یزید کے حاشیہ بردار سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ان کا حکمران اتنے جرائم کا ارتکاب بھی کرسکتا ہے چنانچہ یزیدی جشن امویوں کے غم کی داستان میں بدلنے لگا۔

هـ: اہل بیت (علیہم السلام) کے تعارف کا منشور

کربلا کے پیامبر حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کے درخشان ترین صفحات میں سے ایک، وہ خطبہ ہے جو آپؑ مسجد اموی میں دیا۔

امام سجاد (علیہ السلام) بظاہر اسیر تھے لیکن قید و بند سے رہا مدعی بھی جہاد کے وہ مدارج طے کرنے کا تصور نہيں کرسکتے جو آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے غل و زنجیر میں طے کئے اور اسی جہاد کا ایک اور مرحلہ طے کیا جو سیدالشہداء (علیہ السلام) نے کربلا میں اپنی اور اپنے اصحاب و اولاد کی قربانی دے کر شروع کیا تھا۔ آپؑ نے اس دن شام کی سلطنت میں وہ حیرت انگیز انقلاب بپا کیا جس کا نہ اہل شام تصور کرسکتے تھے اور نہ ہی اہل کوفہ و حجاز؛ 40 برسوں سے جہل و نادانی کے بھنور میں گرفتار شامیوں کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا اور چالیس سالہ اموی مکر و فریب کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا۔

اہل بیت رسول (علیہم السلام) کی اسیری کے ان ہی ایام میں ایک روز یزید نے اپنے درباری خطیب کو منبر پر بٹھایا جس نے علی اور حسین (علیہما السلام) کی مذمت اور معاویہ اور یزید کی مداحی میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیئے۔ امام سجاد (علیہ السلام) مسجد میں حاضر تھے اور عوام کی بھیڑ میں سے آواز دی: وائے ہو تم پر اے خطیب! تو نے خلق کی خوشنودی کے لئے اللہ کا غضب کمایا اور اپنا مقام دوزخ کی آگ میں قرار دی!

امام (علیہ السلام) نے اس کے بعد یزید سے کہا: مجھے بھی لکڑی کے اس چوپائے پر بیٹھنے دو تا کہ میں ایسے حقائق بیان کروں جن سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہو اور حاضرین بھی اجر و ثواب پائیں۔

یزید ہرگز اجازت دینے کے لئے تیار نہ تھا اور اپنے درباریوں سے کہہ چکا تھا کہ اگر کبھی یہ نوجوان منبر پر بیٹھے تو اس کو بھی اور ابوسفیان کے خاندان کو بھی رسوا کرے گا لیکن عوام نے امام (علیہ السلام) کی حق گوئی دیکھ کر جرئت کی اور اصرار کیا اور کہا کہ انہیں بھی بولنے دو چنانچہ يزید نے اجازت دے دی۔

امام سجاد (علیہ السلام) منبر پر رونق افروز ہوئے اور فرمایا:

اے لوگو! خداوند متعال نے ہم خاندان رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو چھ امتیازات سے نوازا ہے اور سات فضیلتوں سے ہمیں دوسروں پر فضیلت عطا فرمائی ہے؛ ہمارے چھ امتیازات علم، حلم، بخشش و کرم، فصاحت، شجاعت، اور مؤمنین کے دل میں ودیعت کردہ محبت سے عبارت ہیں۔ ہماری ساتھ فضیلتیں یہ ہیں:

1۔ خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہم سے ہیں۔

2۔ صدیق (امیرالمؤمنین علی) (علیہ السلام) ہم سے ہیں۔

3۔ جعفر طیار ہم سے ہیں۔

4۔ شیر خدا اور شیر رسول خدا حضرت حمزہ سیدالشہداء ہم سے ہیں۔

5۔ اس امت کے دو سبط حسن و حسین (علیہما السلام) ہم سے ہیں۔

6۔ زہرائے بتول (سلام اللہ علیہما) ہم سے ہیں اور

7۔ مہدی امت ہم سے ہیں۔

لوگو! جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا میں اس سے اپنا تعارف کراتا ہوں: میں مکہ و مِنٰی کا بیٹا ہوں، میں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں، میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جس نے حجرالاسود کو اپنی عبا کے پلو سے اٹھایا، میں بہترین عالم کا بیٹا ہوں، میں اس ‏عظیم ہستی کا بیٹا ہوں جس نے احرام باندھا اور طواف س سعی بجالائے، میں ہوں بہترین خلق کا بیٹا، میں ہوں اس والا صفات کا بیٹا جن کو معراج کی شب مسجدالحرام سے مسجدالاقصٰی لے جایا گیا، میں ہوں بیٹا اس عظیم پیغمبر کا جو اپنی آسمانی سیر کے دوران سدرةالمنتهٰی پہنچے، میں ہوں بیٹا اس بزرگ کا جس نے اپنا لباس قاب قوسین او ادنی سے مس کیا، میں ہوں بیٹا اس شخصیت کا جس نے آسمان کے فرشتوں کے ساتھ نماز ادا کی۔ میں ہوں بیٹا اس رسول کا جس کو خدائے بزرگ و برتر نے وحی بھیجی۔ میں محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا بیٹا اور میں ہوں علی مرتضی (علیہ السلام) کا بیٹا، میں اس شخصیت کا بیٹا ہوں جس نے مشرکان کے خلاف اس قدر جہاد کیا کہ انھوں نے زبان پر لاالہ الا اللہ کا کلمہ جاری کیا۔ میں اس مجاہد کا بیٹا ہوں جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے رکاب میں دو شمشیروں اور دو نیزوں سے جہاد کیا اور دوبار ہجرت کی اور دو بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ہاتھ پر بیعت کی؛ بدر و حنین میں شجاعانہ جہاد کیا اور ایک لمحہ بھر کفر نہیں برتا؛ میں بیٹا ہوں اس ہستی کا جو مؤمنین میں سب سے زيادہ نیک و صالح، خدا کے خوف سے گریہ و بکاء کرنے والوں کے وارث، صابروں میں سے زیادہ صبر کرنے والے اور آل یسین ميں سے سب سے زیادہ قیام کرنے والے ہیں۔ میرے نانا وہ ہیں جن کے حامی جبرائیل اور مددگار میکائیل ہیں اور وہ خود مسلمانوں کے ناموس کے حامی و نگہبان ہیں۔ وہی جو ناکثین (پیمان شکنوں اور اہل جمل) قاسطین (صفین میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے خلاف صف آرا ہونے والے اہم ستم) اور مارقین (جنگ نہروان میں دین سے خارج ہونے والے خوارج) کے خلاف لڑے اور خدا کے کینہ پرور دشمنوں کے خلاف جہاد کیا۔ میں ہوں قریش کے بہترین بزرگ کا بیٹا جو  سب سے پہلے پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر ایمان لائے اور تمام مسلمان کے سرخیل تھے۔ وہ باغیوں اور نافرمانوں کے دشمن، مشرکین کو نابود کرنے والے، منافقوں کو نابود کرنے کے لئے خداوند متعال کا تیر، عابدوں کی حکمت کی زبان، دین خدا کے حامی و یار و یاور، اللہ کے ولی امر، حکمت الہیہ کا بوستان اور اللہ کے علوم کا مرکز تھے۔ میں ہوں سیدۃنساء العالمین فاطمہ زہراء (س) کا فرزند، میں ہوں خدیجۃالکبری کا فرزند، میں ہوں فرزند اس مظلوم کا جن کو ظلم و ستم سے خون میں تڑپایا گیا اور ان کے کا سر قفا (پشت گردن) سے جدا کیا گیا ہے اور ان کا تن کربلا کی خاک پر گرا۔ ان کی عبا و عمامہ کو لوٹ لیا گیا جبکہ آسمان کے فرشتے گریہ کناں تھے ... میں اس شہید کا بیٹا ہوں جن کا سر نیزے پر چڑھایا گیا اور ان کی خواتین کو عراق سے اسیر بنا کر لايا گیا ...

امام سجاد (علیہ السلام) نے اپنا تعارف کرایا اور امامت و رسالت کا شجرہ نامہ بیان کیا اور اس قدر اپنا تعارف کرانے میں بلاغت کے جوہر جگادیئے کہ حاضرین بآواز بلند رونے لگے۔ یزید خوفزدہ ہوا کہ کہيں عوام اس کے خلاف انقلاب نہ کردیں چنانچہ اس نے مؤذن کو اذان کا حکم دیا تا کہ امام سجاد (علیہ السلام) کے کلام کو منقطع کیا جاسکے اور جب مؤذن نے کہا: "اشهد انَّ محمداً رسول اللَّه (صلی اللہ علیہ و آلہ)" تو امام (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: اے یزید محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) میرے نانا ہیں یہ تمہارے؟ اگر کہو گے کہ آپؐ آپ کے جد ہیں تو جھوٹ بولوگے اور حق کا انکار کروگے اور اگر کہوگے کہ آپؐ میرے جد ہیں تو تم نے آپؐ کے فرزندوں کو قتل کیوں کیا؟

مسجد میں جمع ہونے والے شامی، جو اموی تشہیری مہم کے نتیجے میں غفلت سے دوچار ہوگئے تھے اور خاندان نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو نہیں جانتے تھے، اما سجاد (علیہ السلام) کا خطبہ سن کر حقائق سے آگاہ ہوئے چنانچہ یزید نے اذان کے ذریعے امام (علیہ السلام) کو خطبہ جاری رکھنے سے روک لیا اور ابن زیاد کو قصور وار ٹہرا کر اپنے آپ کے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی تا کہ مسجد میں موجود لوگوں کو باور کراسکے کہ یزید اس مسئلے میں بے قصور تھا لیکن ابھی اسیران اہل بیت شام میں تھے اور امام حسین (علیہ السلام) اور دوسرے شہداء کے شام میں تھے لہذا یہ ممکن نہ تھا کہ لوگ اس کو بے گناہ سمجھیں۔

اس خطبے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ امام سجاد (علیہ السلام) نے اہل بیت (علیہم السلام) کو اولاد رسول کے عنوان سے متعارف کرایا جبکہ بنی امیہ نے یہ رشتہ توڑنے کی کوشش کی تھی اور انہیں اولاد علی (علیہم السلام) کے عنوان سے متعارف کرایا تھا اور علی (علیہ السلام) کے خلاف معاویہ نے جو تشہیری مہم چلائی تھی اس کے نتیجے میں شامی عوام خود بخود اولاد علی (عنیہم السلام) کو بدسلوکی کا حقدار سمجھتے تھے لیکن امام سجاد (علیہم السلام) نے اس خطبے میں اپنے آپ کو اور اہل بیت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو جامع انداز میں تعارف کرایا اور علی (علیہ السلام) کا تعارف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) علمدار کے عنوان سے جبکہ یزید کے باپ دادا کا کفر کر پرچمداروں کی حیثیت سے متعارف کرایا۔

خون حسین بن علی  اور امام زین العابدین اور عقیلہ بنی ہاشم زینب کبریٰ (علیہم السلام) نے یزید اور بنو امیہ کو اس انداز سے رسوا کردیا کہ اس زمانے کے ایک مؤرخ "مجاہد بن جبر" لکھتا ہے: خدا کی قسم! لوگوں نے عمومی طور پر یزید پر لعن و سب کرنا شروع کیا اور اس پر تنقید و اعتراض کرنے لگے اور اس سے روگردان ہوگئے"۔

و۔ شہدائے کربلا کی یاد کا احیاء

آج بھی ہم عزاداری کو پیغام عاشورا کے ابلاغ، عاشورا کی تعلیمات کی تبلیغ اور شہدائے کربلا اور واقعہ عاشورا کی یاد زندہ رکھنے کا وسیلہ سمجھتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ عزاداری کی بنیاد سید العابدین اور عقیلہ بنی ہاشم نے رکھی اور اس کا بنیادی اور ابتدائی مقصد بھی یہی تھا۔ شام میں امام سجاد اور سیدہ ثانی زہراء سلام اللہ علیہما کے مناظرے،  مباحثے اور خطبے بھی عزاداری کی مجالس کا اتم نمونہ تھے اور اس میں پیغام عاشورا بھی تھا اور کربلا کے شہیدوں کی یاد کا احیاء بھی تھا۔ امام سجاد (علیہ السلام) کی حکمت عملی یہ تھی کہ اموی گھٹن کے قلب میں بیٹھ کر کربلا کے شہداء کی یاد کو زندہ رکھیں کیونکہ ان کی یاد نہ صرف شہداء کا حق ادا کرنے کا وسیلہ تھی بلکہ فلسفہ شہادت اور معارف مکتب کے احیاء کا ذریعہ بھی تھی۔

شیخ صدوق نے "الخصال" میں امام باقر (علیہ السلام) اور ابو عبد الله (ابوجعفر) رشیدالدین محمدبن علی بن شهر آشوب نے اپنی کتاب "مناقب آل ابی طالب" میں امام صادق (علیہ السلام) کے حوالے سے لکھا ہے: امام سجاد (علیہ السلام) 20 سال تک اپنے والد کے لئے روئے اور جب بھی کھانا آپؑ کے سامنے رکھا جاتا اور آپؑ کی نظر کھانے اور پانی پر پڑتی بےاختیار آبدیدہ ہوجاتے۔ حتی کہ ایک دن ایک غلام نے آپؑ سے عرض کیا: اے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)! کیا اب وقت نہیں آیا کہ آپ اس غم میں رونا چھوڑ دیں مجھے خوف ہے کہ آپ غم کی شدت سے کہیں دنیا سے رخصت نہ ہوں"؛ تو امام (علیہ السلام) نے فرمایا: "وائے ہو تم پر! یعقوب (علیہ السلام) کے بارے بیٹے تھے جن میں سے ایک کو خدا نے غائب کردیا اور اس کے لاپتہ ہونے پر یعقوب اتنی شدت سے اور اتنے طویل عرصے تک روئے کہ ان کی آنکھيں سفید ہوگئیں اور غم کی وجہ سے اس کے سر کے بال سفید ہوگئے اور ان کی کمر جھک گئی جبکہ ان کا بیٹا اسی دنیا میں زندہ تھا؛ اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میرے والد، میرے بھائی، میرے چچا اور میرے سترہ افراد خاندان میرے ارد گرد ہی قتل کئے گئے۔ تو میں غمگیں کیوں نہ ہونگا بے شک میں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد صرف اﷲ کے حضور کرتا ہوں اور میں کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

ز. امام حسین علیہ السلای کی خونخواہی کی تحریکوں کی بنیاد

بے شک امام سجاد اور سیدہ زینب سلام اللہ علیہما نے اسیری کے ایام میں امت اسلامی کے خفتہ ضمیروں کو بیدار کردیا اور ان کی فطرت میں خون حسینؑ کے انتقام کا جذبہ پیدا کیا اور خونخواہی اور انتقام کی تحریکیں شروع ہوئیں؛ جبکہ سلیمان بن صرد خزاعی اور مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کی تحریکوں کے علاوہ چھوٹی چھوٹی تحریکیں حرم رسول (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کے سفر کوفہ و شام کے دوران اٹھیں اور بڑی تعداد میں شامی فوجی مارے گئے اور خون حسینؑ کے حامی شہید ہوئے گوکہ بڑی تحریکوں میں بھی شدید اموی گھٹن کی وجہ سے امامؑ کا موقف اعلانیہ نہ تھا لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کوفہ اور شام میں بھی اور کوفہ و شام کے راستے میں واقع مختلف شہروں میں بھی امامؑ کے خطبوں اور دو طرفہ مکالموں نے ان تحریکوں کو بارآور کیا اور توابین اور مختار کے قیام کی بھی آپؑ نے کبھی کوئی مخالفت نہ کی۔

دسویں اموی اور ساتویں مروانی بادشاہ  ولید بن عبدالملک بن مروان کے سامنے امام سجاد (علیہ السلام) کا فیصلہ کن موقف اور عراق و شام میں آپؑ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے ولید نے امام (علیہ السلام) کے قتل کی سازش بنائی اور آپؑ کو مسموم کیا جس کی وجہ سے آپؑ جام شہادت نوش کرگئے؛ جبکہ آپؑ کا جرم صرف اور صرف اسلام کا دفاع کرنا اور طاغوت کے خلاف علمی اور تبلیغی جدوجہد کے سوا کچھ نہ تھا۔

آپ ۲۵/ محرم الحرام ۹۵ ھ بمطابق 23 نومبر ۷۱3 عیسوی کودرجہ شہادت پرفائز ہوئے۔ امام محمدباقر(علیہ السلام) نے غسل و کفن دیا اور نمازجنازہ پڑھائی۔

علامہ شبلنجی ،علامہ ابن حجر،علامہ ابن صباغ مالکی، علامہ سبط ابن جوزی تحریرکرتے ہیں”وان الذی سَمَّه الولید بن عبدالملک“ جس نے آپ کوزہردے کر شہید کیا،وہ ولیدبن عبدالملک ہے (نورالابصار ص ۱۲۸ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۰ ،فصول المہمہ، تذکرہ سبط ابن جوزی، ارجح المطالب ص ۴۴۴ ، مناقب جلد ۴ ص ۱۳۱) ۔

ملاجامی لکھتے ہیں کہ تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کی شہادت کے بعدآپؑ کی اونٹنی قبرپرنالہ وفریاد کرتی ہوئی تیسرے روزمیں مرگئي (شواهد النبوة ص ۱۷۹ ، شہادت کے وقت آپ کی عمر ۵۷/ سال تھی۔

امامؑ اموی اور مروانی حکمرانوں کے ہاتھوں مسموم ہونے کے بعد کئی روز تک بستر شہادت پر پڑے رہے؛ دوا اور علاج سے افاقہ نہ ہوا حتی کہ آخری لمحہ آن پہنچا اور آپؑ نے وہی وصیت فرمائی جو آپؑ کے والد امام حسین (علیہ السلام) نے فرمائی تھی اور فرمایا: امام حسین (علیہ السلام) نے اپنی شہادت سے تھوڑی دیر پہلے مجھے اپنے سینے سے چپکایا اور فرمایا:

"يا بني اياك و ظلم من لايجد عليك ناصراً إلا الله؛

 بیٹا! ایسے شخص پر ظلم کرنے سے پرہیز کرو جس کا تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے خدا کے سوا کوئی ناصر و مددگار نہیں ہے۔

آپؑ نے اپنے فرزند ارجمند حضرت امام باقر (علیہ السلام) سے مخاطب ہوکر فرمایا:  بیٹا! میں آپ کو اسی چیز کی وصیت کرتا ہوں جس کی میرے والد نے مجھے وصیت کی:

"يا بني اصبر علي الحق و ان کان مرا"۔

بیٹا! حق کے راستے میں صبر و استقامت اپناؤ خواہ وہ کڑوا اور تکلیف دہ کیوں نہ ہو۔

امام سجاد (علیہ السلام) نے امام حسین (علیہ السلام) کی تحریک کے بعد 35 سال تک امامت و ولایت کے تمام فرائض کو بطریق احسن نبھانے کے بعد 57 سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا اور اپنے خون سے تحریک حسینی کے منشور پر دستخط کردیئے۔

امام سجاد (علیہ السلام) مدینہ منورہ کے قبرستان "جنۃالبقیع" میں چچا امام حسن مجتبی، بیٹے امام محمد باقر اور پوتے امام جعفر صادق (علیہم السلام) کے ساتھ ایک قطعہ بہشتی میں مدفون ہیں جس کی گنبد و بارگاہ وہابیت کے اندھے تعصب کی بنا پر منہدم کی گئی ہے۔

امام سجاد (علیہ السلام) اپنے گنجینۂ معارف و عرفان "صحیفہ سجادیہ" ميں یوں التجا کرتے ہیں: "خدایا! محمد اور آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر درود بھیج  اور مجھے ان لوگوں پر غلبہ پانے کی طاقت و قوت عطاکر جو مجھ پر ظلم روا رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے خلاف برہان و زبان عطا کر جو میرے ساتھ نزاع اور جھگڑا کرتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل فتح و کامرانی عطا فرما جو میرے ساتھ عناد و عداوت برتتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل راہ و تدبیر عطا کر جو میرے بداندیش ہیں اور میرے خلاف حیلہ گری اور مکر کا سہارا لیتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل مجھے طاقت و قدرت عطا فرما جو مجھے آزار پہنچاتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل قوت تردید عطا فرما جو میری عیب جوئی ہیں اور دشنام طرازی کرتے ہیں [تا کہ میں ان کی تہمتوں کو جھٹلا سکوں] اور دشمنوں کے خطرات کے مقابل مجھے امن و سلامتی عطا فرما۔۔۔"

………

منبع: ابنا ـ ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی