اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اردونیوز
جمعرات

8 فروری 2024

10:50:35 PM
1436285

عام انتخابات پاکستان؛

انتخابات کے نتائج میں تاخیر؛ الیکشن کمیشن نے 10 گھنٹے بعد دو صوبائی حلقوں کا نتیجہ جاری کر دیا

تاہم پولنگ کا وقت ختم ہونے کے ساڑھے آٹھ گھنٹے بعد تک بھی کسی ایک قومی یا صوبائی اسمبلی کے حلقے کا سرکاری نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ جس پر مبصرین کی جانب سے حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ ختم ہونے کے 10 گھنٹے بعد الیکشن 2024 کے دو صوبائی حلقوں کے نتائج کا اعلان کیا گیا ہے۔ ادھر الیکشن کمیشن کمیشن نے خود بھی نتائج آنے میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے سپیشل سیکریٹری ظفر اقبال ملک نے میڈیا کو بتایا کہ خیبرپختونخوا کے صوبائی حلقہ پی کے 6 سوات سے آزاد امیدوار فضل حکیم جیتے ہیں جنہوں نے 25,303 ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اسی طرح پی کے 75 سے بھی آزاد امیدوار سمیع اللہ خان 18,888 ووٹ حاصل کیے ہیں۔

پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں ابتدائی نتائج کے مطابق سندھ میں پیپلز پارٹی دوسری جماعتوں سے کچھ آگے ہے جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صورت حال واضح نہیں ہے اسی طرح بلوچستان میں ملے جلے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔

دوسری جانب پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر نے سیاسی جماعتوں اور عوام کو حیرانی میں مبتلا کر دیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ایک ٹویٹ میں کہا ’انتخابی نتائج کے آنے کی رفتار انتہائی سست ہے۔‘ الیکشن کمیشن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا عام انتخابات میں نتائج مرتب کرنے کے لیے نیا الیکشن مینجمنٹ سسٹم(ای ایم ایس) حاصل کیا گیا ہے جس کا انٹرنیٹ سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے ماضی کے انتخابات کے برعکس اب کی بار نتائج نہ صرف شفافیت پر مبنی ہوں گے بلکہ عوام تک جلد بھی پہنچ سکیں گے۔

تاہم پولنگ کا وقت ختم ہونے کے ساڑھے آٹھ گھنٹے بعد تک بھی کسی ایک قومی یا صوبائی اسمبلی کے حلقے کا سرکاری نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ جس پر مبصرین کی جانب سے حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

جمعرات کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں 855 حلقوں میں ہونے والے عام انتخابات کے پولنگ صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہی۔ اکا دکا واقعات کے علاوہ پولنگ مجموعی طور پر پرامن رہی اور کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

تاہم بلوچستان میں دہشت گردی کے کچھ واقعات پیش آئے۔ کچھ پولنگ سٹیشنز کے قریب 20 سے زائد بم دھماکے اور راکٹ حملے ہوئے جبکہ لڑائی جھگڑوں کے واقعات بھی ہوئے، جن میں چار افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہوئے۔

پولنگ کے عمل کے دوران الیکشن کمیشن کو درجنوں شکایات موصول ہوئیں لیکن چیف الیکشن کمشنر کے مطابق یہ تمام شکایات معمولی نوعیت کی تھیں جنھیں جتنی جلدی ممکن ہو سکا، حل کر دیا گیا۔

پانچ بجے پولنگ کا عمل مکمل ہوا اور کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مطالبے کے باوجود وقت نہیں بڑھایا گیا جس کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع ہوا۔

مقامی میڈیا میں آنے والے ابتدائی نتائج کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار برتری حاصل کیے ہوئے ہیں جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو سبقت حاصل ہے۔

کراچی سے اردو نیوز کے نامہ نگار زین علی کے مطابق پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو لاڑکانہ اور قمبر شہداد کوٹ سے دونوں حلقوں پر مخالف امیدواروں سے آگے ہیں۔ سندھ کے علاقے نواب شاہ سے سابق صدر آصف علی زرداری اب تک کے غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق واضع برتری حاصل کرچکے ہیں۔ خیرپور میں قومی اسمبلی پر نفیسہ شاہ اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ مخالف کو شکست دیتے نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح گھوٹکی سے علی گوہر مہر، شکار پور سے شہریار مہر بھی واضح برتری حاصل کرتے نظر آرہے ہیں۔

سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سیہون سے غیرسرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق بھاری اکثریت سے کامیابی سمیٹتے نظر آرہے ہیں۔ سکھر سے خورشید شاہ کی پوزیشن مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ تھرپارکر سے نواب یوسف تالپور آگے ہیں۔

موبائل سروس اور انٹرنیٹ کی بندش

قبل ازیں جمعرات آٹھ فروری کی صبح پولنگ کا عمل شروع ہوا تو ملک بھر میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی جس سے نہ صرف ووٹرز کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ پولنگ عملہ بھی اس مشکل سے دوچار ہوا۔

اس حوالے سے وزارت داخلہ میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’امن و امان قائم رکھنے کے لیے ملک بھر میں موبائل فون سروس کو عارضی طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘ تاہم اس بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ موبائل فون کی سروس کو بحال کب کیا جائے گا۔

اس معاملے پر جب چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا سے سوال ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کا تمام انتخابی نظام انٹرنیٹ سے الگ ہے۔ میں موبائل سروس کھولنے کا نہیں کہہ سکتا کیونکہ اگر دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوگیا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟‘

موبائل سروس بند ہونے سے الیکشن کمیشن ووٹرز کے لیے ایس ایم سروس 8300 بھی بند ہوگئی جس سے ان کو اپنا پولنگ سٹیشن تلاش کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔

انٹرنیٹ بند ہونے کے بعد تحریک انصاف نے جہاں اس پر احتجاج کیا وہیں عوام کو اس کا حل پیش کرتے ہوئے وائی فائی رکھنے والے افراد کو تعاون کی اپیل کی۔

موبائل فون کی بندش پر سیاسی جماعتوں کا ردعمل

آفیشل ایکس اکاؤنٹ پر پی ٹی آئی نے لکھا کہ ’حکومت نے پولنگ کے دن پورے پاکستان میں موبائل فون سروس بند کر دی ہے۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ اپنے ذاتی وائی فائی اکاؤنٹس سے پاس ورڈز ہٹا کر اس حرکت کا مقابلہ کریں، تاکہ اس انتہائی اہم دن پر آس پاس کا کوئی بھی شخص انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کر سکے۔‘

موبائل سروسز بند ہونے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک بھر میں فوری طور پر موبائل فون سروس بحال کی جائے۔

انہوں نے ایکس پر لکھا کہ ’میں نے اپنی پارٹی سے کہا ہے کہ اس کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عدالتوں سے رجوع کیا جائے۔‘

بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ہدایت کے بعد پیپلز پارٹی کے مرکز سیکریٹریٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ موبائل سروسز بحال کی جائیں۔

جماعت اسلامی نے موبائل فون سروس بند کرنے کو گہری سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’موبائل سروس بند کرنے کی وجہ سے دھاندلی کرنا انتہائی آسان ہوگا۔ ابھی تک عملہ مکمل طور پر پولنگ سٹیشنوں تک نہیں پہنچا اب تو رابطہ بھی ممکن نہیں۔ فوری طور پر نیٹ اور موبائل سروس بحال کروائیں ورنہ شفافیت کا مکمل جنازہ نکل جائے گا۔الیکشن کمیشن نوٹس لے کر سروس بحال کروائے۔‘

موبائل سروس کی بندش انتخابات پر اثر انداز ہوگی، میں الیکشن کمیشن اور نگران حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ فوری طور پر موبائل سروس کو بحال کیا جائے تاکہ ووٹنگ کا عمل شفافیت سے جاری رہ سکے۔ ووٹ عوام کی طاقت ہے، باہر نکل کر اپنا جمہوری حق استعمال کریں اور ووٹ کاسٹ کریں۔

— February 8, 2024

مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق نے بھی موبائل فون سروس کی بندش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ووٹرز کو پریشانی کا سامنا ہے۔

اسلام آباد کے دو حلقوں سے قومی اسمبلی کے لیے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ایک بیان میں کہا کہ ’ملک بھر میں موبائل فون بند کرنا، دھاندلی کی ابتدا ہے۔ امیدواروں کا اپنے ایجنٹس اور انتخابی مشینری سے رابطہ کاٹنا سراسر زیادتی ہے۔‘

انہوں نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا کہ ’کچھ عرصے سے پولیس گردی کا بھی سامنا ہے۔ جب کہیں سے اطلاع آئے گی دیر ہو چکی ہو گی۔ دھونس اور دھاندلی کے الیکشن نامنظور۔‘

موبائل فون سروس بندش کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کامن ویلتھ کے مبصر گروپ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کے پولنگ عمل سے مطمئن ہیں، انٹرنیٹ دریافت ہونے سے قبل ہم الیکشن کرا رہے تھے، انٹرنیٹ سے زیادہ اہم ووٹ ڈالنا ہے۔

سربراہ کامن ویلتھ مبصر گروپ نے مزید کہا کہ ووٹنگ عمل میں انٹرنیٹ کی ضرورت نہیں البتہ نتائج بھیجتے وقت انٹرنیٹ کی بندش سے مسئلہ ہو گا۔

تاہم رات گئے ملک کے مختلف علاقوں میں بتدریج جزوی طور پر موبائل سروس کی بحالی شروع کر دی گئی۔