اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

5 مئی 2023

12:16:39 PM
1362815

تیسری عالمی جنگ کی آمد؟

دنیا کو جنگوں میں دھکیلنے والے پینٹاگون کے فلسفی: تیسری عالمی جنگ اور امریکہ کا زوال!

کیا تیسری عالمی جنگ اور پھر بھی کروڑوں انسانوں کے قتل عام کی آمد ہے، کیا دوسری عالمی جنگ کا فاتح مغرب ایک بار پھر - حرص و آز کی بنا پر - پوری دنیا، بالخصوص یورپ اور ایشیا کو تیسری جنگ کی آگے میں دھکیل رہا ہے؟ اگر پینٹاگون (یعنی امریکی وزارت دفاع) کے فلسفی اپنے دماغ کو تھوڑا سا زور دیں تو شاید اس سوال کا جواب تلاش کر سکیں!

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا - کے مطابق، سینئر صحافی محمد کاظم انبار لوئی نے فارس نیوز ایجنسی میں شائع شدہ مضمون بعنوان "پینٹاگون کے فلسفی کہاں ہیں" میں لکھا ہے:

1۔ سنہ 2024ع‍ کے امریکی صدارتی انتخابات کے نامزد امیدوار نے رابرٹ ایف کینڈی، اپنی انتخابی مہم میں ٹرمپ ہی کے تنقیدی روش پر کاربند ہو کر کہا ہے کہ "ایک چوتھائی امریکی شہری راتوں کو بھوکے سوتے ہیں، 33 ہزار سابق امریکی فوجی بے گھر ہیں، اور ہر روز خودکشی کرنے والے سابق فوجیوں کی اوسط تعداد 23 ہے۔ یوکرینی نوجوان - روسی حکومت کے خاتمے کے لئے - امریکی عزائم کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں!"۔

کینڈی اپنی تقاریر میں امریکیوں کے ہاتھوں داعش کی تشکیل پر تنقید کرتے ہوئے اس خونخوار ٹولے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "امریکی فوج نے صدام سے کہیں زیادہ عراقیوں کا خون بہایا ہے"۔

دریں اثناء سابق امریکی صدر اور اگلے صدارتی انتخابات کے دوسرے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی چند روز قبل کہا تھا کہ "امریکہ جہنم کی طرف دوڑ رہا ہے اور انتہائی سیاہ بادل ہمارے ملک پر منڈلا رہے ہیں"۔

2۔ امریکی صورت حال پر صدارتی انتخابات کے ان دو اہم امیدواروں کے خیالات سے یہ بڑا سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ اگر یہ سب درست ہے - جو درست ہے - تو امریکہ اور مغرب کے سیاسی فلاسفر کہاں ہیں، جبکہ امریکی سیاستدان امریکہکی شکست و ریخت کا عندیہ دے رہے ہیں؟ کیا ان کے پاس امریکہ کا زوال روکنے کے لئے کوئی حل نہیں ہے؟

جوزف نائے (Joseph Nye)، فوکویاما (Francis Fukuyama) آنجہانی جین شارپ (Gene Sharp)، آنجہانی ہانٹنگٹن (Samuel P. Huntington)، کے شاگرد اور پیروکار، نیز دوسرے امریکی نظریہ ساز کہاں ہیں؟

جمہوریت کی تیسری لہر (The third wave of democracy)، سیاسی اصلاحات، تاریخ کا خاتمہ، مخملی [اور رنگین] انقلابات، علم سیاست کے نظریات، نرم طاقت کی خصوصیات وغیرہ کے نظریات پیش کرنے والے کیا کر رہے ہیں؟ امریکہ فلاسفروں، سیاسیات کے ماہرین، سیاسی عمرانیات کے ماہرین سے بھرا پڑا ہے اور ان سب نے اپنے لئے مختلف تھنک ٹینکس اور انسٹی ٹیوٹس قائم کر لئے ہیں؛ سوال یہ ہے کہ ان کے ان تھنک ٹینکس اور انسٹی ٹیوٹس سے، امریکہ درپیش سیاسی اور سماجی مصیبتوں سے چھٹکارا پانے کے لئے کوئی شفا بخش نسخہ کیوں سامنے نہیں آ رہا ہے؟

جواب واضح ہے۔ اور وہ یہ کہ مذکورہ افراد در حقیقت امریکی وزارت دفاع یا پینٹاگون ہی کے اعلیٰ ملازمین تھے اور ہیں۔ اور پینٹاگونی فلسفیوں کے ذہن سے انسانی حل باہر نہیں آتا۔ وہ تو صرف امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے نظریہ پردازی کرتے ہیں اور اپنا فلسفہ انسانیت دشمن منصوبوں کے لئے خرچ کرتے ہیں!

مثال کے طور سیموئل ہنٹگنٹن کے اس نظریئے کو ہی دیکھئے جو کہتا ہے: "اسلامی جمہوری نظام ہٹلر اور اسٹالن سے بدتر، برائی ہے اور اس کا تختہ الٹنے کے لئے ہر قسم کا تشدد جائز ہے!"۔

اس نظریئے سے - امریکی سرمایہ کاری سے داعش جیسی تنظمیں - جنم لیتی ہیں۔

اس نظریئے سے 33 ہزار امریکی فوجیوں کے بے خانمانی اور ہر روز 23 سابق امریکی فوجیوں کی خودکشی جنم لیتی ہے، یہ نظریہ لاکھوں بے گناہ انسانوں کے قتل عام کا سبب بنتا ہے؛ یہ نظریہ البتہ دوسری طرف سے افغانستان سے امریکیوں کا رسوا کن فرار اور عراق اور شام پر امریکی جارحیتوں کی پریشان حالی کا سبب بھی بنتا ہے۔ 

ابھی تک مغرب "سرمایہ دارانہ لبرل نظام" اور پوری دنیا میں آزآدیوں اور جمہوریتوں کے خلاف ان کی ریشہ دوانیوں کے حوالے سے کوئی بھی ایسی خبر موصول نہیں ہو رہی ہے کہ "مغرب نے ہوش کے ناخن لئے ہیں، اور مغربی سیاسی فلسفیوں نے دنیا کے مسائل کے پرامن حل کا کوئی راستہ نکالا ہے!

ان بے عقلیوں کے بطن سے - امریکی حکمرانی کی چوٹی پر - ٹرمپ، بائیڈن جیسے لوگ اور امریکی کانگریس کی عمارت پر امریکی عوام کے حملے جیسے واقعات اور سیاسی رسوائیاں جنم لیتی ہیں، اور یہ سب امریکی سیاسی نظامات اور حکومتی معاملاتی کی انتہائی بدصورتی کی عکاسی کرتا ہے۔

3۔ آج سے 44 سال قبل ان ہی دنوں امریکیوں نے ایران کے صحرائے طبس پر فوجی حملہ کیا؛ اس حملے میں امریکیوں کو اپنی تاریخ میں پہلی بار ذلت آمیز ترین شکست ہوئی تھی، لیکن امریکی سیاسی ماہرین اور فلسفی آج تک اس پراسرار اور خفت آمیز شکست کے بارے میں وضاحت دینے پر آمادہ نہیں ہوئے ہیں۔ امریکی نظریہ ساز کبھی بھی پینٹاگون، سی آئی اے کے مسلسل حملوں اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف جارحانہ امریکی پالیسیوں کے خلاف ملت ایران کی استقامت اور مزاحمت کے رازوں کا صحیح تجزیہ نہیں کر سکے ہیں یا انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں مل سکی ہے۔

وہ امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ) اور امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) کی نورانی شخصیات کی قیادت میں قائم ہونے اور رہنے والے نورانی نظام کا موازنہ ہٹلر اور اسٹالن سے کرتے ہیں حالانکہ دنیا کے نمایاں ترین سیاستدان ہمارے نظام اور اس کے قائدین کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں!

اس موازنے کی وجہ سے آج وہ زوال کی خاک میں لڑھک رہے ہیں، انہوں نے انقلاب اسلامی کی حقیقت کے مواقق تفکر، عقلیت اور نظریہ سازی کے دروازے بند کر دیئے۔ وہ مسلسل سخت جنگ اور نرم جنگ کی بندوقیں بھر رہے ہیں۔  

پینٹاگون کے فلسفیوں نے یوکرین کی جنگ شروع کرکے یورپ کو تیسری عالمی جنگ میں دھکیلے ہوئے ہیں اور اب تائیوان کے معاملے پر مشرقی ایشیا میں بحران اٹھانے پر مامور ہیں اور اب وہ ایشیا میں بھی چین کو اس کنویں میں پھینکنا چاہتے ہیں جس میں وہ روس کو پھینک چکے ہیں۔

پینٹاگونی فلسفیوں کے دماغ سے بارود کی بو آتی ہے، اور جب تک کہ یہ فلسفی سرگرم عمل رہیں گے اور بارود کی یہ بو محسوس ہوتی رہے گی، دنیا امن و سلامتی، آزادی اور جمہوریت کا مزہ نہیں چکھ سکے گی۔

4۔ روس کے سابق صدر اور قومی سلامتی کونسل کے موجودہ نائب سربراہ دمتری میدوی ایدف نے کہا ہے: "دنیا تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر ہے جو دوسری عالمی جنگ سے کہیں زیادہ خطرناک ہوگی، اور ایٹمی جنگ کا خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے"۔

نہ جانے پینٹاگونی فلسفی ان انتباہات اور خطرات کے لئے کیا سوچ رہے ہیں؟

کیا کیا ہمیں مستقبل قریب میں یورپ اور ایشیا میں مغرب کی خود غرضیوں اور ہوسناکیوں کی وجہ سے لاکھوں انسانوں کے قتل عام کی توقع رکھنا چاہئے؟ اگر پینٹاگون کے فلسفی اپنے دماغ کو تھوڑا سا زور دیں تو شاید اس سوال کا جواب تلاش کر سکیں۔

لیکن بہرحال یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا وہ اپنے دماغ پر زور دینے کا اختیار رکھتے ہیں؟ یا نہیں بلکہ لبرل سرمایہ داری کی عشروں اندھادھند خدمت کی وجہ سے ان کا دماغ ہی ماؤف ہو کر رہ گیا ہے اور وہ حتی کہ اپنی تنخواہیں دینے والے نظام کے بچاؤ کے لئے کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم محمد کاظم انبار لوئی، سینئر اخبارنویس

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110