اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

2 فروری 2023

5:49:07 PM
1343142

ڈوبتی ہوئی غاصب ریاست؛

دریائے اردن کے مغربی کنارے، قدس اور جنین میں فلسطینی یونٹوں کی بے پناہ کاروائیاں

فلسطینی مقاومت کے 21 سالہ نوجوان "خیر اللقم" نے مقبوضہ قدس شریف کے قصبے "نبی یعقوب" میں غاصب یہودی ریاست کی بنیادوں پر لرزہ طاری کردیا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ خیر اللقم فلسطینی تنظیم الفتح کی ایک عسکری یونٹ کے رکن تھے، انھوں نے ایک مقبوضہ قصبے میں غاصبوں کے خلاف انتہائی باریک بینانہ اور کامیاب کاروائی کی۔ انھوں نے روز جمعہ کی رات کو کم از کم 10 غاصب صہیونیوں کو فی النار کردیا اور 15 کو زخمی کیا لیکن صہیونی عورتوں کو نشانہ نہیں بنایا ورنہ صہیونی ہالکین کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی۔ صہیونی طیاروں جوابی کاروائی کے طور پر غزہ میں کاروائیاں کرنے کا ارادہ کیا تو انقلابی تنظیم حماس (حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ) کی القسام یونٹوں نے پہلی بار طیارہ شکن میزائل استعمال کرکے انہیں غزہ کی فضاؤں سے مار بھگایا، اور جہاد اسلامی نے غزہ کے اطراف میں واقع صہیونی نوآبادیوں پر زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل داغ کر جمعرات (26 فروری 2023ع‍) کو جنین پر صہیونی جلادوں کے حملے میں درجنوں فلسطینیوں کی شہادت پر اپنا رد عمل ظاہر کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس منظرنامے میں مختلف جماعتوں کی عسکری شاخوں نے اپنی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ اندرون فلسطین اور بیرون فلسطین رہنے والے تمام فلسطینی شہریوں نے ان کاروائیوں کی حمایت کی جبکہ اسی اثناء میں ہزاروں صہیونیوں نے مقبوضہ علاقوں - تل ابیب، حیفا اور نقب - میں جعلی ریاست کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور اس کی انتہاپسند یہودی کابینہ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا۔

یہ در حقیقت مقبوضہ علاقوں میں منظرنامے کے دو فریقوں کی صورت حال کی ایک چھوٹی تصویر ہے؛ اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کونسا فریق حملہ کر رہا ہے اور کونسا فریق دفاعی پوزیشن میں ہے۔ اس مسئلے کے بارے میں کچھ نکات پائے جاتے ہیں جو حسب ذیل ہیں:

1۔ جس کو سنہ 1991ع‍ کے میڈرڈ سمجھوتے اور سنہ 1993ع‍ کے اوسلو معاہدے (Oslo Accords) کے تحت دریائے اردن کے مغربی کنارے کے کچھ حصے - زون 1 میں - پرامن انداز سے رہنے کا اختیار پانے والی تحریک آزادی فلسطین (PLO)، سے منسلک الفتح جہادی تحریک کے ایک رکن کی جرات مندانہ کاروائی نے ایک بنیادی نکتے کو واضح کر دیا اور وہ یہ تھا کہ فلسطینی جہادی قوتوں نے پرانے اختلافات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اب وہ مکمل طور پر یکجان اور متحد ہیں۔ "خیر اللقم" کی کاروائی نے ایک طرف سے غاصب ریاست اور اس کی نوآبادیوں کی توسیع پسندانہ پالیسی پر کاری ضرب لگائی، تو دوسری طرف سے الفتح تحریک میں ان کی رکنیت کے ناطے، انھوں نے عملی طور پر پی ایل او کے حامی فلسطینیوں اور جعلی ریاست کے درمیان امن معاہدوں کو تاریخ کے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر رکھ دیا۔ اس اثناء میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ اگرچہ فلسطینی کی بے اختیار مگر خودمختار کہلانے والی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے گذشتہ سال اکتوبر میں کہا تھا کہ "اگرچہ میں سے 1996ع‍ نیتن یاہو کو جانتا ہوں اور میں اس کو امن پسند نہیں سمجھتا مگر اس کے ساتھ تعاون کے سوا میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے"، مگر انھوں نے حالیہ ایام میں فلسطینیوں اور غاصب اسرائیلی فوجیوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد کہا ہے کہ "اسرائیل کے ساتھ امن سمجھوتے معطل کئے جا چکے ہیں"۔

البتہ محمود عباس نے متعدد بار ثابت کرکے دکھایا ہے کہ وہ بہت جلد سازباز کی طرف لڑھک جاتے ہیں، اور حالیہ ایام میں دو امریکی اہلکاروں سے ان کی ملاقاتیں بھی ان کی غیر مستقل مزاجی کی علامت ہیں۔

محمود عباس نے سابق امریکی صدر ٹرمپ کی حکومت کے آخری ایام میں فلسطینی اتھارٹی اور نیتن یاہو کی سابقہ حکومت کے درمیان سلامتی کے حوالے سے تعاون کو چھ مہینوں تک معطل کئے رکھا تھا۔ لیکن بہرحال یہ بھی ایک نمایاں حقیقت ہے کہ خودمختار اتھارٹی اور محمود عباس فلسطینیوں کے درمیان زیادہ اثر و رسوخ نہیں رکھتے اور تازہ ترین رائے شماریوں کے مطابق فلسطین میں رہنے والے فلسطینیوں کے درمیان ان کی مقبولیت 10 فیصد سے بھی کم ہے؛ چنانچہ ان کی کارکردگی کی نوعیت فلسطینیوں پر کسی طور بھی اثرانداز نہیں ہؤا کرتی؛ اور اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ الفتح تحریک سے منسلک فلسطینی مجاہد کی جرات مندانہ کاروائی اور اس کاروائی کے نتیجے میں 10 سے زائد غاصب صہیونیوں کی ہلاکت نے ثابت کر دیا ہے کہ PLO تنظیم سے وابستہ جہادی تحریک "الفتح" بھی ابو مازن (یعنی محمود عباس) اور ان کی جماعت کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔

2۔ فلسطینی جماعتیں اسرائیل کی جعلی ریاست کے ساتھ جھڑپوں کو شدت دینے کی خواہاں تھیں جبکہ غاصب فوج کی پالیسی یہ تھی کہ فلسطینیوں کے ساتھ تنازعے کو وسعت نہ دی جائے؛ اور یہ نکتہ بجائے خود بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

غاصب فوج نے - عسقلان کی یہودی آبادیوں پر جہاد اسلامی تحریک کے میزائل حملے کے جواب میں - غزہ کے خلاف ایک علامتی اقدام پر ہی اکتفا کیا۔ جہاد اسلامی نے جمعہ کی صبح کو عسقلان کے علاقے پر کئی میزائل داغے تھے، اور اسی روز، شب کو، صہیونی طیاروں نے 12 گھنٹوں کی تاخیر سے، غزہ کے مرکز میں واقع المغازی کیمپ پر 15 میزائل داغے، لیکن انھوں اس بات کا خصوصی لحاظ رکھا کہ کسی فلسطینی کو کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے؛ چنانچہ اس حملے میں کوئی فلسطینی شہید یا زخمی نہیں ہؤا۔ 12 گھنٹوں کی تاخیر بھی اسی مقصد سے ہوئی کہ ایک ایسے نقطے کو نشانہ بنائے جہاں فلسطینی شہریوں کو نقصان پہنچنے کا امکان تک نہ ہو۔ جبکہ اسی دوران بھی مغربی کنارے کے مختلف علاقے، قدس شریف اور جنین میں فلسطینی مجاہدین اور غاصب اسرائیلی فوج کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری رہی اور غاصب فوجیوں کو قدس کے شمالی قصبے "رام"، نابلس کے قصبوں "دجن اور بیتا"، قدس کے علاقے سلوان میں واقع "عین اللوزہ"، الخلیل کے شمالی قصبے "بیت امر"، نابلس میں واقع "بلاطہ کیمپ"، جنوبی نابلس کے قصبے "الحوارہ"، "بیت فوریک"، العیزریہ نامی قصبے کے صہیونی محلے "راس العامود"، رام اللہ میں واقع "شعناط کیمپ" اور "نبی صالح" نامی گاؤں، نابلس کے علاقے "گرزیم"، اور شہر سیلۃ الظہر کے نواحی صہیونی قصبے "حومش" میں فلسطینی مجاہدین کے ساتھ سینہ بہ سینہ لڑائی لڑنا پڑی لیکن اس دوران بھی ان کی پوری کوشش تھی کہ کوئی فلسطینی بھی نہ مارا جائے۔

شہید خیری اللقم کی کاروائی - جس میں صہیونی محلے نبی یعقوب کے 25 سے زائد بستی نشین ہلاک اور زخمی ہوئے - ایسے وقت میں انجام کو پہنچی جب فلسطینی شہری جمعرات کی صبح نابلس میں انجام کو پہنچنے والے صہیونی جرم کے شہیدوں کو سپرد خاک کر رہے تھے۔ اگرچہ نیتن یاہو اس سے پہلے نوآباد بستیوں میں رہائش پذیر کیل کانٹے سے لیس اور تربیت یافتہ تشدد پسند یہودیوں کو بستیوں کی تعمیر پر احتجاج کرنے والے فلسطینیوں کے خلاف اکساتا رہا تھا، لیکن اس بار 25 صہیونیوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے باوجود، انہیں صبر و تحمل کی تلقین کرتا نظر آیا اور اس نے قدس شریف، جنین اور مغربی کنارے میں جارحیت میں مصروف یہودی فوجیوں کو ہدایت کی کہ ایسے کسی بھی اقدام سے باز رہیں جو فلسطینیوں کے اشتعال کا سبب بن سکتا ہے۔

یہودی ریاست کو گذشتہ دو دہائیوں کے دوران قدس اور مغربی کنارے میں اس طرح کی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ نیتن یاہو اور اس کے اندرونی سلامتی کے وزیر بن گویر کے چہرے خیری اللقم کی جرات مندانہ کاروائی کے مقام کا دورہ کرتے وقت اداس اور دھندلائے ہوئے تھے جو ان کی بے بسی کی عکاسی کر رہے تھے جبکہ بستی نشین غاصب یہودیوں کو ان سے اولوالعزمی دکھانے کی توقع کر رہے تھے، اور یہ سب مرتی ہوئی صہیونی ریاست کی انفعالیت کا عینی اظہار و اعتراف تھا۔

3۔ "جنین"، "نابلس"، "قدس شریف"، اور "الخلیل" میں کی حالیہ جھڑپوں نے مغربی کنارے کی صحیح تصویرکشی کر لی اور اس اثناء میں نابلس نے مغربی کنارے میں مسلحانہ جدوجہد کا شعلہ بھڑکانے میں خصوصی کردار ادا کیا۔ نابلس شہر کا رقبہ 85 کلومیٹر اور آبادی ایک لاکھ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور مغربی کنارے میں نابلس قلب کی حیثیت رکھتا ہے۔ مغربی کنارے کے شمالی شہر جنین میں جمعرات (26 فروری 2023ع‍) کے واقعات فوری طور پر نابلس شہر تک سرایت کر گئے اور یہ شہر جرائم پیشہ صہیونی فوج کے خلاف مسلحانہ اور غیر مسلحانہ اقدامات کا مرکز بن گیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گذشتہ دو مہینوں کے دوران مغربی کنارے پر صہیونی جارحیتوں کے نتیجے میں 31 فلسطینی شہید ہو گئے تھے جن میں سے 19 (یعنی دو تہائی) شہداء کا تعلق نابلس سے تھا۔ آج کی صورت حال یہ ہے کہ مغربی کنارے کے شمال میں جنین اور نابلس، مغرب میں قدس شریف، اور جنوب میں الخلیل - جو عملی طور پر فلسطینی سرزمین کے 18 فیصد حصے کو تشکیل دیتے ہیں - غاصب یہودی ریاست کے خلاف آتشفشان میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ خود غاصب صہیونی حکام نے خود ہی اعتراف کیا ہے کہ آج آدھی صہیونی فوج - منجملہ اس کی تمام ایلیٹ فورسز بشمول چھاتہ بردار بریگیڈ، - اسی 18 فیصد حصے میں تعینات ہیں۔ چنانچہ فطری طور پر غاصب اور جرائم پیشہ صہیونی ریاست جنوبی، شمالی اور مرکزی فلسطین میں قابو سے باہر جنگی صورت حال کی بنا پر دریائے اردن سے بحیرہ روم تک کے علاقوں میں، خوف و ہراس میں مبتلا ہوچکی ہے۔

4۔ اسی اثناء میں غاصب صہیونی ریاست - اس منحوس ریاست کے بانی بن گوریون کے نظریۂ برائے بقاء کی رو سے - اندرونی جنگ آس پاس کے علاقوں میں برآمد کرنے پر تلی ہوئی ہے؛ اور اصفہان کے صحراؤں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت دفاع کی ایک تنصیب ڈرون طیاروں کا ناکام حملہ اسی نظریئے پر عملدرآمد کی ایک مثال ہے۔ لیکن شاید صہیونی ریاست کے اندر کچھ خوش فہمی میں مبتلا حکام نہیں جانتے کہ بن گوریون کے نظریہ برائے بقاء کا زمانہ گذر چکا ہے اور یہ نظریہ اپنی افادیت کھو چکی ہے۔

یقینا اگر بن گوریون زندہ ہوتا تو وہ نیتن یاہو اور بن گویر سے کہہ دیتا کہ "جو فوج مغربی کنارے کے غیر مسلح یا چھوٹے ہتھیاروں سے لیس نوجوانوں پر غلبہ پانے سے عاجز ہو آس پاس کے ممالک میں اس فوج کی دھمکیوں کو سنجیدہ نہیں سمجھا جاتا"۔

علاوہ ازیں اصفہان میں فوجی تنصیبات پر ناکام حملے کا انجام بھی صہیونیوں خوف میں مبتلا کئے ہوئے ہے اور ان کی عافیت اسی میں ہے کہ گھربار چھوڑ کر اپنے آبائی ممالک میں واپس چلے جائیں، ورنہ تو انہیں بحیرہ روم میں تیراکی کی مشق کرنا پڑے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: ڈاکٹر سعداللہ زارعی

ترجمہ: ابو فروہ مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110