اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

19 جنوری 2023

6:11:23 PM
1339607

پاکستان اور ایران کے درمیان 39 یادداشتوں پر دستخط

اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ دونوں فریقین متعلقہ حکام کے ساتھ بات چیت کے ذریعے تازہ پھلوں پر درآمدی ٹیرف کو کم کرنے کی کوششیں کریں گے۔ دونوں فریقین نے دوطرفہ تجارت کے لیے ایران میں پسبندر اور پاکستان میں جیوانی میں میری ٹائم کلیئرنس اسٹیشن قائم کرنے پر اتفاق کیا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے خلیجی ملک کے ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور انتخابات مقررہ وقت پر ہوں۔ پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز خلیجی ممالک کی مدد کے بغیر حل نہیں ہوسکتے تھے، ہم اس امداد کو تجارت، سرمایہ کاری میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں، تاکہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے اور یہاں معاشی بہتری آئے، یہ خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا۔ وزیراعظم کا کہنا بجا ہے اور خوش قسمتی سے پاکستان ایسے خطے میں واقع ہے، جہاں اس کے پڑوسی ممالک زیادہ تر مسلم ریاستیں ہیں، جن کے ساتھ پاکستان کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ ایک طرف مشرق وسطیٰ، ایران اور افغانستان ہیں تو دوسری طرف سنٹرل ایشیاء کی مسلم ریاستیں ہیں، جن سے پاکستان کے صدیوں پرانے تجارتی روابط ہیں۔ پاکستان دور دراز مغربی ملکوں سے تجارت کرکے نقصان اٹھا رہا ہے، اگر ہمسایہ ممالک سے تجارتی شراکت داری قائم ہو تو بہت سا مال ایسا ہے، جو آسانی سے منگوا سکتا ہے اور اپنی برآمدات ان ملکوں کو پہنچا سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق ملکی معیشت کی زبوں حالی کا ایک سبب برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ بھی ہے، جس سے تجارتی خسارہ روز بروز بڑھ رہا ہے، حکومت اس پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے، مگر جس قدر درآمدات کم ہو رہی ہیں، اسی تناسب سے برآمدات بڑھ نہیں رہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ملکی فیکٹریوں کے لئے ضروری خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے اور مال نہ ملنے سے فیکٹریاں بند ہونے کے خطرات سے دو چار ہیں۔ برآمدی مال تیار نہیں ہو پا رہا۔ اس طرح درآمد و برآمد میں توازن قائم نہیں ہو رہا، اس کا منفی اثر ملکی اقتصادیات پر پڑنا فطری امر ہے۔ حکومت دوسری تدابیر کے علاوہ اس مسئلے کا ایک حل ہمسایہ ممالک سے تجارت بڑھانے میں تلاش کر رہی ہے۔ ان حالات میں ایران سے پاکستان کی تجارت خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ دونوں ملکوں کو باہمی تجارت بڑھانے میں گہری دلچسپی بھی ہے۔ مزید اقدامات کے لیے یاد داشتوں پر دستخط کیے گئے ہین۔ جس سے عمل کے مرحلے میں سہولت اور آسانی ہوگی۔

کن شعبوں میں تجارت بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے:

پاکستان اور ایران نے دوطرفہ تجارت بڑھانے، اقتصادی تعلقات میں اضافے، ٹرانسپورٹیشن، سیاحت، ماہی گیری، ڈیری اور معدنیات کے شعبوں میں ایک دوسرے کے وسائل اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لئے مفاہمت کی ایک دو نہیں، 39 یاد داشتوں پر دستخط کئے ہیں۔ دستخطوں کی تقریب دونوں ممالک کی مشترکہ سرحدی کمیٹی کے دو روزہ اجلاس میں منعقد ہوئی۔ پاک ایران مشترکہ سرحدی تجارتی کمیٹی کے اجلاس میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اہداف کے حصول میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے، دوطرفہ تجارت لیگل طریقے سے بڑھانے اور بارٹر معاہدے پر عمل درآمد پر اتفاق کیا گیا۔ کمیٹی کے 10ویں اجلاس میں ایرانی وفد کی قیادت ڈپٹی گورنر سیستان و بلوچستان داؤد شہرکی نے کی، جبکہ پاکستانی وفد کی قیادت کسٹمز چیف کلکٹرز عبدالقادر میمن نے کی۔

ایرانی قونصل جنرل کوئٹہ حسن درویش، صدر کوئٹہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری حاجی عبداللہ اچکزئی، سینیئر نائب صدر حاجی آغا گل خلجی اور دیگر سرکردہ تاجر رہنماؤں اور متعلقہ محکموں کے اعلیٰ حکام نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ داؤد شہرکی نے کہا کہ ایران، پاکستان کے ساتھ طے شدہ تجارتی اہداف کو حاصل کرنے اور تعاون کے ذریعے رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہے، ہم پاکستان کے ساتھ مزید سرحدی منڈیاں کھولنے کے لیے تیار ہیں، کمیٹی کے 2010ء کے اجلاس میں دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ چیف کلکٹر کسٹمز عبدالقادر میمن نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان طے شدہ اہداف کا حصول اور تجارت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ انہوں نے ترقی اور تجارت بڑھانے کے لیے تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔

حاجی عبداللہ اچکزئی نے کہا کہ کاروباری افراد اور صنعتکار پاکستان کے شہر کوئٹہ اور ایران کے شہر زاہدان کے درمیان براہ راست پروازوں کی سہولت کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم دونوں ممالک کے درمیان برابری کی بنیاد پر آزاد باہمی تجارت چاہتے ہیں۔ حاجی عبداللہ اچکزئی نے کہا کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کاروبار اور تجارت کو بڑھانے کے لیے مزید ٹھوس کوششیں کی جانی چاہئیں۔ انہوں نے تاجر برادری کے لیے تفتان میں پاک ایران بارڈر پر علیحدہ گیٹ قائم کرنے کی تجویز دی، تاکہ انہیں اپنے سامان کی نقل و حمل میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اجلاس میں 2006ء اور 2010ء میں دونوں ملکوں میں طے پانے والے معاہدوں پر عملدرآمد کے حوالے سے مختلف پہلوئوں پر غور ہوا، جن کا مقصد باہمی تجارتی حجم بڑھانے اور پاک ایران سرحد پر راہداری اور سامان تجارت کی حوالگی کو آسان اور بہتر بنانا ہے۔

دوسرے معاملات کے علاوہ اس امر پر بھی اتفاق ہوا کہ کوئٹہ اور زاہدان کے تاجر مشترکہ سرمایہ کاری کریں گے اور زاہدان چیمبر آف کامرس، انڈسٹریز، مائنز اینڈ ایگریکلچر اور کوئٹہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کسٹم، تجارت، ٹرانسپورٹیشن اور ایئرلائن کے شعبوں میں مطلوبہ انفرااسٹرکچر کی فراہمی کے لیے مشترکہ طور پر کام کریں گے۔ اشیائے تجارت کی تعداد بڑھائی جائیگی اور ٹیرف میں کمی کی جائے گی۔ دونوں ملکوں نے باہمی تجارتی حجم 5 ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانے کا فیصلہ کیا، تجارتی توازن قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ متعلقہ حکام کی منظوری اور مشترکہ تکنیکی ٹیم کی جانب سے درست مقام کے تعین کے بعد میر جاواہ تفتان، جلغ ماشکیل اور شمسار میں نئی مشترکہ سرحدی منڈیوں کے قیام کے لیے اعلیٰ حکام کو سفارشات بھیجی جائیں۔ فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے متعلقہ وزارتوں اور حکام سے رابطہ کیا جائے گا۔

اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ دونوں فریقین متعلقہ حکام کے ساتھ بات چیت کے ذریعے تازہ پھلوں پر درآمدی ٹیرف کو کم کرنے کی کوششیں کریں گے۔ دونوں فریقین نے دوطرفہ تجارت کے لیے ایران میں پسبندر اور پاکستان میں جیوانی میں میری ٹائم کلیئرنس اسٹیشن قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ دونوں فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کارگو سے لدی گاڑیوں کو ایران میں میر جاواہ اور میر جاوے خصوصی اقتصادی زون کے کسٹم ایریا تک بغیر کارنیٹ، ویزے کے جانے کی اجازت دی جائے گی، جبکہ باہمی تعاون کے اصول پر اسی سہولت کو تفتان میں این ایل سی ٹرمینل اور ریلوے اسٹیشن تک ایرانی کارگو گاڑیوں تک بڑھایا جائے۔ ایرانی حکام نے پاکستانی چاول کو زاہدان کسٹم میں شیلٹر فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی، انہوں نے تجویز پیش کی کہ سلینڈر میں ایل پی جی کو ایران سے پاکستان تک تمام زمینی سرحدی اسٹیشنز کے ذریعے درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ ایران کے ساتھ فیری سروس کو حتمی شکل دی جا رہی ہے اور اسے ضابطۂ اخلاق کی تکمیل کے بعد ایران کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔

پاکستان کی جانب سے کہا گیا کہ تاجروں کی بڑھتی ہوئی مانگ کو دیکھتے ہوئے جون 2023ء کے آخر تک ہیرک ریلوے پل کا تعمیراتی کام مکمل ہونے کے بعد مال برداری کے لیے ریلوے ویگنوں کی تعداد 500 تک بڑھا دی جائے گی۔ سرحدوں پر نئی مشترکہ منڈیوں کا قیام بھی مفاہمتی معاہدے کا حصہ ہے۔ ایک اضافی کراسنگ پوائنٹ بھی کوہک پنجگور سرحد پر قائم کیا جائے گا۔ یہ بھی طے پایا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان آزاد تجارت کا معاہدہ کیا جائے، جس سے اشیائے تجارت کی خرید و فروخت اور تبادلے میں آسانی ہوگی۔ ایرانی علاقے سے ترکی، آذر بائیجان اور دوسرے ملکوں تک سامان تجارت لانے، لے جانے کے لئے راہداری معاہدہ کیا جائے گا، جس سے دونوں ممالک کی تجارت کو فروغ حاصل ہوگا۔ سامان سے لدی گاڑیوں کو ویزا یا اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پاکستان اور ایران کے درمیان فیری سروس کا بھی انتظام کیا جائے گا۔ تجارتی مفاہمت کی یادداشتوں کے معاہدے میں اور بھی کئی اقدامات کا ذکر ہے، جن پر عملدرآمد سے اس خطے میں پاک چین اقتصادی راہداری کے بعد اس تجارتی شراکت سے ایک بڑا معاشی انقلاب آسکتا ہے۔ اگرچہ اس معاملے میں بعض مشکلات بھی ہیں، مگر دونوں ملکوں کے عزم صمیم سے ان پر با آسانی قابو پا یا جاسکتا ہے۔

معاہدوں کا پس منظر:

2021ء کے آواخر میں تہران میں منعقدہ ایران پاکستان مشترکہ تجارتی کمیٹی کے نویں اجلاس کے دوران نئے تجارتی ہدف کے بارے میں طے ہوا تھا کہ پاکستان اور ایران 2023ء تک سالانہ تجارتی تبادلے کو 5 ارب ڈالر تک بڑھانے کے لیے اقدامات کرینگے۔ اس وقت کے وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد نے بھی یہ تاثرات دیئے تھے کہ پاکستان بھی ایران کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو بڑھانا چاہتا ہے۔ دونوں طرف سے حکام نے کہا تھا کہ ایران اور پاکستان خطے کے دو اہم ممالک ہونے کے باوجود اب تک اپنی اقتصادی صلاحیتوں کا صحیح استعمال نہیں کرسکے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت بہت محدود ہے اور پاکستان برآمدات کا 63 فیصد صرف چاول پر مشتمل ہے۔ ایران کے ساتھ 2006ء میں ایک ترجیحی تجارتی معاہدہ پر دستخط کیے گئے تھے، جس میں ایران کو 309 ٹیرف لائنوں پر رعایتیں دی گئی تھیں جبکہ پاکستان کو 338 ٹیرف لائنوں پر رعایتیں دی گئی تھیں۔

سال 2017ء میں دونوں فریقین نے نومبر تک مجوزہ ایف ٹی اے کو حتمی شکل دینے کا بھی فیصلہ کیا تھا۔ دونوں ممالک کی تجارتی مذاکراتی کمیٹی نے ایف ٹی اے پر بات چیت کے دو دور منعقد کیے، جس میں یہ اندازہ لگایا گیا کہ یہ معاہدہ 2016ء میں ہونے والے دو طرفہ تجارت کو 30 کروڑ ڈالر سے بڑھا کر 2021ء تک 5 ارب ڈالر تک لے جائے گا۔ اب دوبارہ 2023ء میں دونوں ممالک کے درمیان یاداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں اور متعدد رکاوٹیں ہٹانے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم منصوبہ اور ادھورا رہ جانیوالا مشترکہ کام پاک ایران گیس پائپ لائن کی تکمیل ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان تیل اور گیس کے معاہدوں کیساتھ پڑوسی اسلامی ملک ایران کیساتھ اس معاہدہ کو پورا کرنے کے حوالے سے امریکی پابندیوں کو بہانہ نہیں بنایا جائیگا۔ دونوں ممالک کے حالات اور ضروریات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مستقبل کے چیلنجز کے کا مقابلہ مل کر کیا جائے۔