اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

21 نومبر 2022

6:25:27 PM
1325138

امریکہ سراسیمگی کے ساتھ خانہ جنگی کی طرف سرپٹ دوڑ رہا ہے / 2024ع‍ کے انتخابات کے فورا بعد اگلی خانہ جنگی کا انتظار کرو

امریکی خاتون سیاسی دانشور ڈاکٹر باربرا والٹر (Barbara F. Walter) نے گذشتہ اتوار (چھ نومبر 2022ع‍) کو برطانوی اخبار دی گارڈیئن میں ایک مضمون بعنوان "یہ حالات سیاسی تشدد کے لئے موزوں ہیں: امریکہ خانہ جنگی کے کتنا قریب ہے؟" (These are conditions ripe for political violence: how close is the US to civil war) شائع کیا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ "امریکی شہری آج کل وسیع پیمانے پر جنگ کی باتیں کر رہے ہیں، اور تقریبا آدھی امریکی آبادی اگلے دس سال کے عرصے میں اپنے ملک کے حصے بخرے ہونے سے فکرمند ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ جامعۂ کیلیفورنیا سان ڈیاگو کے اسکول برائے عالمی پالیسی اور اسٹراٹیجی (School of Global Policy and Strategy [GPS]) کی پروفیسر اور کتاب "خانہ جنگیاں کس طرح شروع ہوتی ہیں اور انہیں کیونکر روکا جا سکتا ہے؟" (How Civil Wars Start: And How to Stop Them) کی مصنفہ ڈاکٹر باربرا والٹر نے - 8 نومبر 2022ع‍ کے امریکی کانگریس کے درمیانی مدت کے انتخابات کی آمد پر - لندن سے شائع ہونے والے اخبار گارڈیئن کی ویب گاہ میں لکھا ہے: اگست (2022ع‍) سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائشگاہ پر ایف بی آئی کے حملے کے بعد سے ٹویٹر پر "خانہ جنگی سے متعلق ہیش ٹیگز اور "جملہ بازیوں" میں 3000 فیصد اضافہ ہؤا۔ ٹرمپ کے حامیوں نے فوری طور پر ٹویٹر پر لکھا کہ "ٹرمپ کو ملزم ٹہرائے جانے کی صورت میں خانہ جنگی کا آغاز کریں گے"۔ ٹرمپ نے بھی پیش گوئی کی کہ "اس ملک [امریکہ] میں سیاسی حساسیت اور تشدد میں کمی نہ لائے جانے کی صورت میں، خوفناک واقعات رونما ہونگے"۔

شاید سب سے زیادہ دشوار صورت حال - امریکہ کے دو لخت شدہ سیاسی ماحول میں - امریکیوں کے اس یقین سے تعلق رکھتی ہے کہ "تشدد قابل قبول اور عذر پذیر ہے"۔ جنوری 2022ع‍ میں امریکہ میں ہونے والی رائے شماری (سروے) میں 34٪ رائے دہندگان نے کہا ہے کہ حکومت کے خلاف کبھی کبھی تشدد سے کام لینا جائز ہے اور اس کے سات مہینے بعد 40٪ سے زیادہ لوگوں نے کہا ہے کہ "انہیں یقین ہے کہ خانہ جنگی کم از اگلے 10 سال کے عرصے میں امکان پذیر ہے۔ حالانکہ دو سال قبل کوئی بھی امریکی شہری خانہ جنگی کی بات نہیں کرتا تھا، جبکہ یہ باتیں آج کے امریکہ میں روز کا معمول ہیں۔

ڈاکٹر والٹر - "خانہ جنگیوں کے بارے میں اپنی کتاب کی اشاعت کے بعد" - ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں دوسری خانہ جنگی کے امکان کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہتی ہیں: "دوسری خانہ جنگی کے بارے میں امریکی ماہرین اور شہریوں کے خیالات ، [انیسویں صدی کی] پہلی خانہ جنگی کی طرح، غلط تصورات پر مبنی ہیں، حالانکہ یہ تصورات نادرست ہیں"۔

ان کا خیال ہے کہ ریاست ہائے متحدہ کی دوسری خانہ جنگی شاید پورے ملک میں چھوٹے چھوٹے نیم عسکری گروہوں کے درمیان گوریلا جنگ کی صورت میں ہو اور ان کا نشانہ عام شہری اور زیادہ تر مذہبی اور نسلی اقلیتیں، مخالف گروپوں کے سرکردہ افراد، سرکاری حکام اور وفاقی حکومت کے کارکنان ہو سکتے ہیں۔ ججوں پر قاتلانہ حملے ہونگے، اعتدال پسند ریپلکن اور ڈیموکریٹ بے بنیاد الزامات کی رو سے گرفتار کئے جائیں گے، سیاہ فام عیسائیوں نیز یہودیوں کی عبادت گاہوں کو بم حملوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود کہ امریکہ ہنوز خانہ جنگی کی کیفیت میں داخل نہیں ہؤا ہے لیکن بغاوتوں کی نشانیوں سے متعلق سی آئی اے کی رپورٹ - جسے سنہ 2012ع‍ میں رازداری سے خارج کر دیا گیا ہے - کے مطابق، جس وقت وسیع پیمانے پر سرگرم عمل انتہاپسندوں کا معمول کا تشدد ایک سماجی معمول کی صورت اختیار کرتا ہے، اور متشدد انتہاپسند بموں جیسے جدیدترین ہتھیاروں سے لیس ہو کر نہ صرف افراد بلکہ ملک کے بنیادی ڈھانچے - جیسے اسپتالوں، پلوں اور تعلیمی مراکز پر حملے شروع کریں تو [سمجھو کہ] ملک اعلانیہ بغاوت سے دوچار ہو گیا ہے۔ یہ حملے زیادہ سے زیادہ جنگجؤوں کے ذریعے انجام کو پہنچتے ہیں جن میں سے کئی افراد سابقہ فوجی ہیں یا جنگ کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اکثراً فوج، قانون نافذ کرنے والے اداروں، سیکورٹی فورسز اور انٹیلی جنس اداروں میں ان کی دراندازی [اور نفوذ] اور تخریبی کارروائیوں کے ثبوت نظر آتے ہیں۔

خانہ جنگی کے آغاز کے بعد کے پہلے مرحلے میں، انتہا پسند گروہ، لوگوں کو جتاتے ہیں کہ حکومت شہریوں کی حفاظت یا ان کی ضروری اور بنیادی ضروریات کی فراہمی سے عاجز، اور نا اہل ہے؛ اور اس طرح وہ لوگوں کو خانہ جنگی کو وسعت دینے پر اکساتے ہیں جس کے لئے وہ حکومت کو ضعیف اور کمزور کرکے پیش کرتے ہیں اور عوام کی بڑھتی ہوئی حمایت کو سمت دیتے ہوئے مزید تشدد کی طرف راغب کرتے ہیں، ملکی آبادی کو موقف اپنانے پر مجبور کرتے ہیں۔

ماہرین کو اب بھی یقین نہیں ہے کہ امریکہ میں کیپیٹل ہل پر 6 جنوری 2021ع‍ کے حملے کا واقعہ ایسے ہی سلسلے میں سے ایک ہو، اور ایف بی آئی کی مسلسل جوابی کاروائیوں اور اقدامات کی وجہ سے ابھی تک اس سلسلے کی اگلی کڑیاں سامنے نہیں آ سکی ہیں۔ ایف بی آئی نے اس بغاوت میں 700 افراد کو گرفتار کیا اور 225 افراد پر پولیس پر حملے، مزاحمت اور پولیس فورس یا کانگریس کے اراکین کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کا الزام ڈال دیا ہے۔

خانہ جنگی کے ماہرین کے مطابق، دو اہم عوامل ایسے ہیں جو ممالک کو خانہ جنگ کے شدید خطرات سے دوچار کرتے ہیں، جن میں سے ایک عامل امریکہ میں پایا جاتا ہے اور یہ ملک بہت خطرناک تیزرفتاری سے دوسرے عامل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پہلا عامل "قومی [نسلی] گروہ بندی" ہے۔ یہ عامل اس وقت سامنے آتا ہے جب سیاسی جماعتوں میں شہریوں کی تنظیم و تشکیل عقیدے کے بجائے، قومی، مذہبی یا نسل تشخص کی بنیاد پر ہوئی ہو۔ دوسرا عامل "انوکریسی (Anocracy)" (یا نظام حکومت کی نیم جمہوری کیفیت) ہے، ایک ایسی کیفیت جب حکومت نہ مکمل طور پر جمہوری ہو اور نہ ہی مکمل طور پر مکمل العنان؛ اور ان دو کے درمیان [یا دونوں نظامات کا ملغوبہ] ہو۔ عام طور پر جہموری، صحتمند اور طاقتور نظاموں میں خانہ جنگی نہیں ہؤا کرتی اور مطلق العنان نظام ہائے حکومت میں شاذ و نادر واقع ہوتی ہے۔ [البتہ] تشدد ہمیشہ ان ممالک میں واقع ہوتا ہے جن کی حکومتیں نیم جمہوری، کمزور اور غیر مستحکم یا درمیانی طرز کی ہوتی ہیں۔ انوکریسی اگر قومی گروہ بندیوں کے ساتھ مل جائے تو ایک خطرناک آمیزہ معرض وجود میں آتا ہے۔

کسی بھی خانہ جنگی کی صرف ایک وجہ نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ کئی عوامل [کسی نظام حکومت] کے زوال اور شکست و ریخت کا سبب بنتے ہیں۔ سی آئی کی رپورٹ میں "خطرے کی شدت میں اضآفہ کرنے والے" عوامل کی طرف اشارہ ہؤا ہے جن میں سے کچھ عوامل موجودہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں پائے جاتے ہیں؛ جن میں مسلسل ماحولیاتی بحرانوں سے جنم لینے والے نقصانات اور اس ملک کے قیام کے بعد سے اب تک کی بلند ترین سطح کی معاشی عدم مساوات اور آبادیاتی نقشے کی تبدیلیاں، شامل ہیں؛ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ملک ایک 20 سالہ دورانئے میں سفید فام اقلیتی سرزمین میں تبدیل ہو جائے گا۔ یہ سارے عوامل و عناصر دنیا کے مختلف ممالک میں رونما ہونے والی اندرونی بے چینیوں اور بد امنیوں میں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

تاہم، امریکہ میں - دوسرے ممالک کی نسبت سے - سیاسی تشدد کے مقابلے میں زد پذیری کا سبب، اس ملک کے اداروں کی بے بسی اور فرسودگی ہے۔ گذشتہ 40 سال کے عرصے میں گرجا گھر، پولیس، اخبارات و جرائد اور یونیورسٹیوں جیسے اداروں پر عمومی اعتماد شدید تنزلی کا شکار ہؤا ہے اور سیاستدانوں پر عوامی اعتماد اس سے بہت کم ہے، اور اعتماد کے لئے کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔ امریکہ کا آئین - جو بلا شبہ اٹھارہویں صدی کے غیر معمولی ذہانت کے حامل شخصیات کی تخلیق ہے - یقینا اکیسویں صدی کے حقائق کا عکاس نہیں ہو سکتا اور ان حقائق پر اپنا ردغ عمل نہیں دکھا سکتا۔

امریکہ کے سیاسی نظام میں بھی اور ہر عمومی خواست کے میں موجودہ دراڑیں مسلسل گہری اور وسیع ہو رہی ہیں، جنہیں کسی صورت میں بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جماعت انتخاب کنندگان (Electoral college) کے ضوابط سبب بنتے ہیں کہ مستقبل قریب میں [سنہ 2000ع‍ کے صدارتی انتخابات کی طرح] ایک بار پھر بھی کوئی ڈیموکریٹ امیدوار کئی ملین زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود بھی ہارا ہؤا مانا جائے! جمہوری نظام کے بحران میں صرف اضافہ ہو رہا ہے۔

حکمرانی کا بناوٹی جواز (pseudo-legitimacy) تشدد پر منتج ہوتا ہے اور امریکہ کے سیاسی ادارے اس وقت اسی قسم کی جواز سے مشتبہ کیفیت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دوسرے ممالک میں خانہ جنگ کی قابل اعتماد و استناد نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ نظام عدل (Judiciary) ایک غیر جماعتی، خودمختار اور حقیقتا قومی نظام سے ایک بدعنوان جماعتی ادارے میں تبدیل ہو جائے، اور یہ واقعہ امریکہ میں رونما ہو چکا ہے۔

انتخابات سے متعلق امور میں تشدد، عام طور پر اس وقت سامنے آتا ہے جب تمام مذکورہ عوامل موجود ہوں: بہت زیادہ مسابقتی انتخابات اقتدار کی مکمل منتقلی کا سبب بنیں، جماعتی اختلاف تشخص کی بنیاد پر ہو، ایسا انتخابی نظام جس میں کامیابی جماعت پورے ملک کی مالک بن جائے اور اس میں ہارنی والی جماعت کو کسی قسم کا حصہ نہ دیا جائے ، اور غالب جماعت کی طرف سے انجام پانے والے تشدد کے واقعات کے لئے کسی قسم کی سزا کا کوئی ارادہ نہ پایا جاتا ہو؛ یہ وہ عوامل ہیں جو نہ صرف آج کے امریکہ میں موجود ہیں، بلکہ ان عوامل کو سنہ 2024ع‍ میں مزید تقویت ملے گی اور ان میں شدت آئے گی۔

باربرا والٹر نے آخر میں نتیجہ لیا ہے کہ امریکہ بےشک انتہائی سراسیمگی کے ساتھ [منزل مقصود سے بے خبر] خانہ جنگی کی طرف سرپٹ دوڑ رہا ہے، اور اہم مسئلہ صرف اس کے آغاز کا ہے، اور 2024ع‍ کے انتخابی دور کے بعد اگلی خانہ جنگ کی توقع رکھو، جب ممکنہ طور پر تشدد کا اگلا دور شروع ہوگا۔ میں شرط کرتی ہوں کہ خانہ جنگی دہشت گردی، گوریلا جنگ، اور نسلی صفایا، پورے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں وقوع پذیر ہوگی اور آخرکار نسلی مسائل اور نسل پرستی اس پورے ملک کو جلا کر راکھ کرے گی۔

۔۔۔۔۔

امریکہ میں خانہ جنگی کا تاریخچہ

امریکہ میں پہلی خانہ جنگی 1861ع‍ سے 1865ع‍ تک جاری رہی۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ جنگ - خاص طور پر - سیاہ فام غلاموں کے مسئلے کی وجہ سے شروع ہوئی، جبکہ بعض دوسروں کا خیال ہے کہ خانہ جنگی پر منتج ہونے والے تضادات کا سبب معاشرے کے ممتاز طبقوں کا باہمی تصادم تھا۔

پندرہویں صدی عیسوی میں برتگالیوں نے سیاہ فام غلاموں کی تیار منڈی کو تلاش کرلیا تھا۔ انھوں نے افریقی ساحلوں کے ساتھ سفر کرکے غلاموں کو گرفتار کر لیا تھا۔

ادھر بر اعظم امریکہ میں مقام سرخ فام باشندوں کو کچلا جا چکا تھا اور تعمیر و ترقی کا کام شروع ہو ہؤا تھا۔ کپاس اور تنباکو کی کھیتیوں، بحیثیت مجموعی زراعت کے شعبے نیز معدنیات میں ان سیاہ فام غلاموں کی ضرورت تھی۔ پرتگالیوں نے 1660ع‍ سے 1786ع‍ تک کے عرصے میں بیس لاکھ غلام منتقل کر لئے۔

ابراہام لنکن (1809-1865ع‍) - جو غلام پروری کے تدریجی خاتمے کے خواہاں تھے - 1860ع‍ میں امریکہ کے صدر بنے۔

وکی پیڈیا کے مندرجات کے مطابق، صدارتی انتخابات کے چند ہی ہفتے بعد 20 ستمبر 1860ع‍ کو جنوبی کیرولینا نے اپنی قانون ساز اسمبلی کی منظوری سے، ریاست ہائے متحدہ کے مجموعے سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ لنکن نے 4 مارچ 1861ع‍ کو صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا، جس کے فورا بعد ریاست ہائے متحدہ کی تقسیم عمل میں آئی۔ اس روز جنوبی کیرولینا، جارجیا، فلوریڈا، آلاباما، میسیسیپی، لوویزیانا اور ٹیکساس نے "امریکی ریاستوں کا کنفیڈریشن" (The Confederate States of America (CSA) OR Confederate States OR Confederacy) تشکیل دیا۔

کچھ ہی عرصہ بعد شمالی کیرولینا، ورجینیا اور ٹینیسی کی ریاستیں بھی باغی ریاستوں سے جا ملیں اور علیحدگی پسند ریاستوں کی تعداد 11 ہو گئی۔ اس کشمکش میں گیارہ جنوبی ریاستوں کو "غلام ریاستیں" کہا جانا لگا تھا۔ کیونکہ ان ریاستوں میں غلام پروری یا غلام داری (Enslavement or slavery) ابھی رائج تھی اور شمالی ریاستوں کے برعکس، ان ریاستوں میں ممنوع نہیں ہوئی تھی۔ جنوبی ریاستوں نے فوری طور پر رچمنڈ (Richmond) کو کنفیڈریسی کا دارالحکومت اور جیفرسن ڈیوس (Jefferson Davis یا Jeff Davis) کو اس کا سربراہ چن لیا گیا۔ موسم خزان سنہ 1860ع‍ میں تازہ قائم جانے والی ریپلکن پارٹی کے نامزد امیدوار ابراہام لنکن کے انتخاب کے بعد، جنوبی ریاستوں کی جدائی کے پس پردہ - پالیسیوں کے درمیان طویل تضادات اور شمال اور جنوب کے مفادات کے درمیان اختلاف جیسے عوامل - مضمر تھے۔

غلام پروری کے اوپر یہ تضادات اور اختلافات ایک اخلاقی مشکل سے شباہت نہیں رکھتے تھے، کیونکہ شمالی ریاستیں غلامی کے مسئلے کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے کہ اس کے لئے جانوں کی قربانی دے دیں۔ یہ تضاد اور تصادم عوام کے درمیان نہیں تھا (شمالی ریاستوں کے سفید فاموں کی اکثریت نہ تو معاشی مفادات رکھتے تھے اور نہ ہی سیاسی اقتدار؛ جنوب میں بھی زیادہ تر سفید فام باشندے غریب کاشتکار تھے اور وہ فیصلہ سازی کی قوت سے محروم تھے) چنانچہ تصادم ممتاز طبقوں اور امراء اور مقتدر شخصیات کے درمیان تھا۔ شمالی ریاستوں کے ممتاز افراد معاشی ترقی کے خواہاں تھے: کھلی سرحدوں، آزاد منڈی، مقامی صنعتکاروں کی حمایت کے لئے کسٹم کی زیادہ سے زیادہ شرح محاصل (Custom-tariff) اور متحدہ ریاستوں کا ایک ملک گیر بینک قائم کرنا۔ یہ مطالبات غلاموں کے مالکین کے مفادات سے متصادم تھے۔ جنوبی سیاستدان اور سرمایہ دار لنکن اور ریپبلکن جماعت کے حامیوں کو اپنی خوشگوار اور پر رونق طرز زندگی کے مستقبل کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔

ستمبر 1862ع‍ میں لنکن نے جنوبی ریاستوں کو آزاد کرنے کا تمہیدی بیان جاری کیا، یہ درحقیقت ایک فوجی کاروائی کا آغاز تھا۔ اس بیان میں جنوبی ریاستوں کو چار مہینوں کی مہلت دی گئی تھی کہ جنگ اور بغاوت سے دستبردار ہوجائیں۔ بیان میں انہیں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر وہ جنگ جاری رکھنا چاہیں تو وہ [لنکن] ان سب کے غلاموں کو آزاد کریں گے لیکن جو ریاستیں شمالی ریاستوں سے جا ملیں تو وہ غلام پروری اور غلامی سے کوئی سروکار نہیں رکھیں گے۔

مورخہ 9 اپریل 1865ع‍ کو کنفیڈریسی کو شکست ہوئی اور اعلان آزادی (Emancipation Proclamation) کے مطابق غلامی کا خاتمہ کر دیا گیا اور چالیس لاکھ غلاموں کو آزاد کر دیا گیا۔ جنگ کے بعد ریاستہائے متحدہ کی تعمیر نو کے دوران آہستہ آہستہ ملک متحد ہو گیا اور مرکزی حکومت نے اپنا اقتدار حاصل کر لیا۔ آئینی ترامیم اور مقامی قوانین کے مطابق آزاد سیاہ فام غلاموں کو شہری اور سیاسی [بظاہر] حقوق دیئے گئے۔ گوکہ آج بھی 177 سال گذرنے کے باوجود آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سیاہ فام شہری نسل پرستی کی بھٹی میں جل رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔