اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ مڈل ایسٹ آئی کا تبصرہ، ایران میں ترقی کا باریک بینانہ سفر، جس نے اس ملک کو بڑی طاقتوں کا سنجیدہ ترین رقیب بنایا ہے اور اس کے علاقائی اثر و رسوخ میں زبردست اضافہ کیا ہے۔
قومی ترجیح
مڈل ایسٹ آئی کی رپورٹ:
بغیر پائلٹ طیاروں کی صنعت عشروں سے ایران کی قومی ترجیح رہی ہے، جسے اس ملک کے ذمہ داروں نے پالا پوسا ہے اور شدید اقتصادی پابندیوں کے باوجود اس کا تحفظ کیا ہے۔
سنہ 1979ع میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران کو وسیع پیمانے پر مغربی ممالک کی دشمنی کا سامنا رہا ہے، لیکن اس ملک نے سر تسلیم جھکانے کے بجائے، بین الاقوامی پابندیوں کو غنیمت سمجھ کر مختلف قسم کی ضروریات کی اشیاء - خاص کر فوجی مصنوعات - میں خودکفالت کو اپنا مطمع نظر بنایا۔
سنہ 1980ع کی دہائی میں - ایران پر صدام حسین کے ہاتھوں مغرب کی مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کے وسط میں - ایرانیوں نے مشہور [قرآنی] پرندوں کے نام پر "ابابیل" نامی ڈرون طیارہ بنایا جس کے نام سے ہی معلوم ہوتا تھا کہ ایران میدان جنگ میں ڈرون طیاروں سے تزویراتی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، اور یہ کام اس وقت شروع ہؤا۔
بین الاقوامی اور سلامتی کے جرمن انسٹی ٹیوٹ (Stiftung Wissenschaft und Politik [SWP]) کے ایک ماہر کا کہنا تھا کہ "جنگ کے بعد کی دہائیوں میں ڈرون طیاروں کا منصوبہ اس ملک کی افواج کے ناقابل جدائی حصے کے طور پر تیار کیا گیا ہے؛ ڈرون طیاروں کی حکمت عملی ایران کی فوجی تزویرانی حکمت عملی کے چار ستونوں میں سے ایک ستون ہے، اور بقیہ تین ستون میزائل قوت، ایران کے علاقائی غیر سرکاری اتحادی اور مقاومتی قوتیں، اور سائبر جنگ (Cyber warfare) میں اس کی پھلتی پھولتی صلاحیتیں ہیں"۔
مذکورہ ماہر کے اعتراف کے مطابق، ایران کے یہ چار ستون مل کر غیر متناسب تسدید (Asymmetric deterrence) کو تشکیل دیتے ہیں، جس کو ایران نے مفلوج کر دینے والی پابندیوں کے مقابلے میں قائم کردیا۔۔۔ ایران نے ایک کارآمد فضائیہ کی ضروریات کی تکمیل و تقویت کے لئے ڈرون اور میزائل ٹیکنالوجی کو توسیع اور تقویت پہنچائی اور مقامی ترقی ایران کے فوجی تفکر میں ترجیح بن گئی۔
ایک دوسرے ماہر نے برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی (Durham University) نے مڈل ایسٹ کو بتایا: "ایران کی میزائل قوت، اسرائیل کے مقابلے میں مؤثر تسدیدی اہمیت کی رو سے، ہمیشہ لائق توجہ رہی ہے۔ ڈرون ٹیکنالوجی حالیہ 10 سالہ عرصے میں ترقی کی منزلیں طے کر چکی ہے ۔۔۔ [مڈل ایسٹ آئی کے اس برطانوی ماہر کے بقول] اس ترقی کی ایک بڑی وجہ اس امریکی ڈرون طیارے تک رسائی تھی جو ایران میں مارا گرایا گیا تھا۔ [یاد رہے کہ ایران نے مختلف قسم کے درجنوں امریکی ڈرونز امریکیوں کی دسترس سے نکال کر اتار دیئے ہیں جن میں ایک جدیدترین آرکیو- 70 تھا جس کی طرف مذکورہ ماہر نے اشارہ کیا ہے، اور اس کے کہنے کے برعکس اس طیارے کو بھی صحیح و سالم اتار دیا گیا تھا]۔
ایران اس وقت ڈرون طیاروں کے ایک عظیم بیڑے کا مالک ہے جو 2000 کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائلوں کے حمل ہیں اور ان میں سے کثیر تعداد دشمن کے علاقوں سے معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں [اور ریڈاروں کی زد میں نہیں آتے]۔
نیا طلوع
ایران ماضی میں [سنہ 1970ع کی دہائی تک] مغربی ممالک سے ہتھیار خریدتا ہے [اور انقلاب اسلامی کے بعد ان ممالک نے ایران پر پابندی لگائی تو] ہتھیار فراہم کرنے والے ممالک سے الگ تھلگ ہونے کی بنا پر اس نے خودکفالت پر زور دیا ہے۔ ڈرہم یونیورسٹی کے ماہر کا کہنا تھا کہ "گوکہ شاید ایرانی ڈرون طیارے اسرائیلی، امریکی یا ترکی ڈرونز کی نسبت سادہ ہوں، لیکن بہت مؤثر ہیں۔۔۔ اور پھر گذشتہ ایک دہائی میں ایرانی ڈرونز نے بہت ترقی کی ہے، اس کے پاس اس وقت مختلف قسم کے پیچیدہ فنی صلاحیتوں کے حامل ڈرون طیارے ہیں، جن کے ذریعے وہ دشمن کی نگرانی کرنے کے سات ساتھ، گولہ بارود بھی بھجواتا ہے، دشمن کے ریڈاروں میں خلل ڈالتا ہے، ان سے اشیاء کی منتقلی کا کام لیتا ہے اور دشمن پر حملہ کرتا ہے"۔
شہرت کی چوٹیاں سر کرنے والا ایک ایرانی حملہ آور ڈرون طیارہ "شاہد 136" ہے جو اپنی حد تک اس حقیقت کو نمایاں کر رہا ہے کہ ایران نے ڈرون ٹیکنالوجی کی طاقت کے طور پر کس حد تک ترقی کی ہے اور اپنی طاقت کو مستحکم کرنے میں کس حد تک کامیاب رہا ہے۔ ایران نے اس ڈرون کو سنہ 2021ع میں باضابطہ طور پر متعارف کرایا اور اس کا مقصد دشمن کے طیارہ شکن نظامات کو ناکام کرکے پیچھے چھوڑنا اور دشمن کی بری فوج پر غلبہ پانا تھا۔ یہ ڈرون 35 کلوگرام وار ہیڈ کا حامل ہے اور کبھی یہ کامیکازے ڈرون یا خودکش ڈرون (Kamikaze drone) کا کام بھی دیتا ہے، کیونکہ یہ براہ راست نشانے کی طرف پرواز کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
ایران کے اسلحہ خانے میں ایک ہلاکت خیز جنگی ڈرون شاہد 129 بھی ہے جو اوٹاوا یونیورسٹی کے پروفیسر تھامس جونو (Thomas Juneau) کے دعوے کے مطابق ایران نے اپنے محدود وسائل کو بڑے، نسبتا ابتدائی مگر بہت مؤثر ڈرون طیارے بنانے پر صرف کئے ہیں۔
امریکی جرنیلوں نے بھی حالیہ برسوں میں ایرانی ڈرون طیاروں کی اعلیٰ صلاحیتوں کے حوالے سے خبردار کیا ہے اور ڈرون طیاروں کی ٹیکنالوجی میں ایران کی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ ایران "اپنے خطے میں فضائی بالادستی" حاصل کر چکا ہے۔ ایک امریکی جرنیل نے کانگریس کو رپورٹ دیتے ہوئے کہا ہے کہ "ہم - جنگ کوریا کے بعد پہلی مرتبہ - فوجی کاروائیوں میں مکمل فضائی بالادستی سے محروم ہیں"۔
مڈل ایسٹ آئی نے اپنی رپورٹ میں یوکرین کی جنگ میں روس کے ہاتھوں ایرانی ڈرون طیاروں کے بے بنیاد دعؤوں کی رو سے - جس کی روس اور ایران دونون نے بارہا تردید کی ہے - کہا ہے: "گوکہ ایران کے خلاف جاری پابندیاں ایرانی ڈرون طیاروں کی فروخت کو محدود کرتی ہیں، یوکرین کی جنگ ممکنہ طور پر ایرانی ڈرون طیاروں کے لئے وہی کردار ادا کر رہی ہے، جو ارمینیا اور جمہوریہ آذربائی جان کی جنگ نے ترکی کے کے ڈرون طیاروں کے لئے ادا کیا۔ اور یہ جنگ ثابت کرے گی کہ ایران ڈرون ممالک کے درمیان تنازعات میں طاقتور اور مؤثر ہیں"۔
ڈرہم یونیورسٹی کے استاد نے مڈل ایسٹ آئی کے ساتھ بات چیت جاری رکھتے ہوئے کہا: "گوکہ ایران ڈرون طیارے ہنوز قابل قدر اقتصادی قدر و قیمت نہیں رکھتے لیکن ان کی سیاسی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے۔ جس قدر کہ دنیا ان ایرانی طیاروں کی فوجی صلاحیتوں کا مشاہدہ کرے گی، تہران میں بیٹھے لوگ زیادہ مطمئن ہونگے؛ اور ہاں! ایران کے لئے یہ طیارے تسدیدی حکمت عملی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
قومی ترجیح
مڈل ایسٹ آئی کی رپورٹ:
بغیر پائلٹ طیاروں کی صنعت عشروں سے ایران کی قومی ترجیح رہی ہے، جسے اس ملک کے ذمہ داروں نے پالا پوسا ہے اور شدید اقتصادی پابندیوں کے باوجود اس کا تحفظ کیا ہے۔
سنہ 1979ع میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران کو وسیع پیمانے پر مغربی ممالک کی دشمنی کا سامنا رہا ہے، لیکن اس ملک نے سر تسلیم جھکانے کے بجائے، بین الاقوامی پابندیوں کو غنیمت سمجھ کر مختلف قسم کی ضروریات کی اشیاء - خاص کر فوجی مصنوعات - میں خودکفالت کو اپنا مطمع نظر بنایا۔
سنہ 1980ع کی دہائی میں - ایران پر صدام حسین کے ہاتھوں مغرب کی مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کے وسط میں - ایرانیوں نے مشہور [قرآنی] پرندوں کے نام پر "ابابیل" نامی ڈرون طیارہ بنایا جس کے نام سے ہی معلوم ہوتا تھا کہ ایران میدان جنگ میں ڈرون طیاروں سے تزویراتی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، اور یہ کام اس وقت شروع ہؤا۔
بین الاقوامی اور سلامتی کے جرمن انسٹی ٹیوٹ (Stiftung Wissenschaft und Politik [SWP]) کے ایک ماہر کا کہنا تھا کہ "جنگ کے بعد کی دہائیوں میں ڈرون طیاروں کا منصوبہ اس ملک کی افواج کے ناقابل جدائی حصے کے طور پر تیار کیا گیا ہے؛ ڈرون طیاروں کی حکمت عملی ایران کی فوجی تزویرانی حکمت عملی کے چار ستونوں میں سے ایک ستون ہے، اور بقیہ تین ستون میزائل قوت، ایران کے علاقائی غیر سرکاری اتحادی اور مقاومتی قوتیں، اور سائبر جنگ (Cyber warfare) میں اس کی پھلتی پھولتی صلاحیتیں ہیں"۔
مذکورہ ماہر کے اعتراف کے مطابق، ایران کے یہ چار ستون مل کر غیر متناسب تسدید (Asymmetric deterrence) کو تشکیل دیتے ہیں، جس کو ایران نے مفلوج کر دینے والی پابندیوں کے مقابلے میں قائم کردیا۔۔۔ ایران نے ایک کارآمد فضائیہ کی ضروریات کی تکمیل و تقویت کے لئے ڈرون اور میزائل ٹیکنالوجی کو توسیع اور تقویت پہنچائی اور مقامی ترقی ایران کے فوجی تفکر میں ترجیح بن گئی۔
ایک دوسرے ماہر نے برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی (Durham University) نے مڈل ایسٹ کو بتایا: "ایران کی میزائل قوت، اسرائیل کے مقابلے میں مؤثر تسدیدی اہمیت کی رو سے، ہمیشہ لائق توجہ رہی ہے۔ ڈرون ٹیکنالوجی حالیہ 10 سالہ عرصے میں ترقی کی منزلیں طے کر چکی ہے ۔۔۔ [مڈل ایسٹ آئی کے اس برطانوی ماہر کے بقول] اس ترقی کی ایک بڑی وجہ اس امریکی ڈرون طیارے تک رسائی تھی جو ایران میں مارا گرایا گیا تھا۔ [یاد رہے کہ ایران نے مختلف قسم کے درجنوں امریکی ڈرونز امریکیوں کی دسترس سے نکال کر اتار دیئے ہیں جن میں ایک جدیدترین آرکیو- 70 تھا جس کی طرف مذکورہ ماہر نے اشارہ کیا ہے، اور اس کے کہنے کے برعکس اس طیارے کو بھی صحیح و سالم اتار دیا گیا تھا]۔
ایران اس وقت ڈرون طیاروں کے ایک عظیم بیڑے کا مالک ہے جو 2000 کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائلوں کے حمل ہیں اور ان میں سے کثیر تعداد دشمن کے علاقوں سے معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں [اور ریڈاروں کی زد میں نہیں آتے]۔
نیا طلوع
ایران ماضی میں [سنہ 1970ع کی دہائی تک] مغربی ممالک سے ہتھیار خریدتا ہے [اور انقلاب اسلامی کے بعد ان ممالک نے ایران پر پابندی لگائی تو] ہتھیار فراہم کرنے والے ممالک سے الگ تھلگ ہونے کی بنا پر اس نے خودکفالت پر زور دیا ہے۔ ڈرہم یونیورسٹی کے ماہر کا کہنا تھا کہ "گوکہ شاید ایرانی ڈرون طیارے اسرائیلی، امریکی یا ترکی ڈرونز کی نسبت سادہ ہوں، لیکن بہت مؤثر ہیں۔۔۔ اور پھر گذشتہ ایک دہائی میں ایرانی ڈرونز نے بہت ترقی کی ہے، اس کے پاس اس وقت مختلف قسم کے پیچیدہ فنی صلاحیتوں کے حامل ڈرون طیارے ہیں، جن کے ذریعے وہ دشمن کی نگرانی کرنے کے سات ساتھ، گولہ بارود بھی بھجواتا ہے، دشمن کے ریڈاروں میں خلل ڈالتا ہے، ان سے اشیاء کی منتقلی کا کام لیتا ہے اور دشمن پر حملہ کرتا ہے"۔
شہرت کی چوٹیاں سر کرنے والا ایک ایرانی حملہ آور ڈرون طیارہ "شاہد 136" ہے جو اپنی حد تک اس حقیقت کو نمایاں کر رہا ہے کہ ایران نے ڈرون ٹیکنالوجی کی طاقت کے طور پر کس حد تک ترقی کی ہے اور اپنی طاقت کو مستحکم کرنے میں کس حد تک کامیاب رہا ہے۔ ایران نے اس ڈرون کو سنہ 2021ع میں باضابطہ طور پر متعارف کرایا اور اس کا مقصد دشمن کے طیارہ شکن نظامات کو ناکام کرکے پیچھے چھوڑنا اور دشمن کی بری فوج پر غلبہ پانا تھا۔ یہ ڈرون 35 کلوگرام وار ہیڈ کا حامل ہے اور کبھی یہ کامیکازے ڈرون یا خودکش ڈرون (Kamikaze drone) کا کام بھی دیتا ہے، کیونکہ یہ براہ راست نشانے کی طرف پرواز کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
ایران کے اسلحہ خانے میں ایک ہلاکت خیز جنگی ڈرون شاہد 129 بھی ہے جو اوٹاوا یونیورسٹی کے پروفیسر تھامس جونو (Thomas Juneau) کے دعوے کے مطابق ایران نے اپنے محدود وسائل کو بڑے، نسبتا ابتدائی مگر بہت مؤثر ڈرون طیارے بنانے پر صرف کئے ہیں۔
امریکی جرنیلوں نے بھی حالیہ برسوں میں ایرانی ڈرون طیاروں کی اعلیٰ صلاحیتوں کے حوالے سے خبردار کیا ہے اور ڈرون طیاروں کی ٹیکنالوجی میں ایران کی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ ایران "اپنے خطے میں فضائی بالادستی" حاصل کر چکا ہے۔ ایک امریکی جرنیل نے کانگریس کو رپورٹ دیتے ہوئے کہا ہے کہ "ہم - جنگ کوریا کے بعد پہلی مرتبہ - فوجی کاروائیوں میں مکمل فضائی بالادستی سے محروم ہیں"۔
مڈل ایسٹ آئی نے اپنی رپورٹ میں یوکرین کی جنگ میں روس کے ہاتھوں ایرانی ڈرون طیاروں کے بے بنیاد دعؤوں کی رو سے - جس کی روس اور ایران دونون نے بارہا تردید کی ہے - کہا ہے: "گوکہ ایران کے خلاف جاری پابندیاں ایرانی ڈرون طیاروں کی فروخت کو محدود کرتی ہیں، یوکرین کی جنگ ممکنہ طور پر ایرانی ڈرون طیاروں کے لئے وہی کردار ادا کر رہی ہے، جو ارمینیا اور جمہوریہ آذربائی جان کی جنگ نے ترکی کے کے ڈرون طیاروں کے لئے ادا کیا۔ اور یہ جنگ ثابت کرے گی کہ ایران ڈرون ممالک کے درمیان تنازعات میں طاقتور اور مؤثر ہیں"۔
ڈرہم یونیورسٹی کے استاد نے مڈل ایسٹ آئی کے ساتھ بات چیت جاری رکھتے ہوئے کہا: "گوکہ ایران ڈرون طیارے ہنوز قابل قدر اقتصادی قدر و قیمت نہیں رکھتے لیکن ان کی سیاسی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے۔ جس قدر کہ دنیا ان ایرانی طیاروں کی فوجی صلاحیتوں کا مشاہدہ کرے گی، تہران میں بیٹھے لوگ زیادہ مطمئن ہونگے؛ اور ہاں! ایران کے لئے یہ طیارے تسدیدی حکمت عملی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110