اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
اتوار

30 اکتوبر 2022

2:54:00 PM
1318721

"یورپ"؛ امریکی کانٹے پر طعمہ؛

فرانس: گیس نہیں تو روٹی نہیں / برطانیہ: کیڑے کھاؤ جان بناؤ

یوکرین کی جنگ امریکہ کی جنگ ہے، امریکہ کی زائل ہوتی ہوئی بالادستی قائم رکھنے کا بہانہ ہے جس کی وجہ سے روسی تیل اور گیس پر پابندی لگی ہے اور روس نے بھی یورپ کو گیس کی ترسیل بند کردی ہے / توانائی کے بحران نے فرانس کی بیکریوں اور تنوروں کو بھی بحران سے دوچار کیا ہے؛ یہاں تک کہ ان دنوں بہت سی روٹی اور مٹھائی پکانے والی بیکریاں بند ہو چکی ہیں/ جرمنی، اٹلی اور برطانیہ کی صورت حال بھی فرانس سے بہتر نہیں ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ابتداء میں لگ رہا تھا کہ امریکہ اور یورپی ممالک یوکرین کی جنگ میں روس کو بہت جلد گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کریں گے مگر جنگ جاری رہی، امریکہ یورپ کو گیس بیچ کر [فی الحال] پیسہ کما رہا ہے، یورپ میں ایندھن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہا ہے، یورپی حکومت عاجز و بے بس ہیں، ہزاروں کمپنیاں مفلوج ہو چکی ہیں اور اب روٹی کی باری ہے اور دنیا بھر کا استحصال کرنے والا یورپ روٹی کے بحران میں مبتلا ہے۔
کچھ دن قبل رائٹرز نے جرمنی سے رپورٹ دیتے ہوئے لکھا: "جرمنی کے بعد فرانس بھی توانائی کے بحران سے دوچار ہؤا ہے اور ہزاروں بیکریاں بند ہو چکی ہیں"۔ ایندھن کی شدید قلت اس بحران کا سبب ہے۔ موصولہ رپورٹوں کے مطابق بہت بیکریوں اور روٹی کی دکانوں پر لگے بورڈ پر لکھا ہے: "ہمارے پاس گیس نہیں ہے، ہمارے ہاں روٹی نہیں ہے"۔ فرانس ان دنوں شدید معاشی بحران سے دوچار ہے؛ اور کئی ہفتوں سے اس ملک میں تشدت آمیز احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں؛ اور  امانوئل میکرون انتظامیہ بھی آہنی مکے سے ان مناظروں سے نمٹ رہی ہے اور اب تک کے مظاہروں کو شدت سے کچل دیا گیا ہے۔ فرانس ہی میں انجام اپنے والے ایک سروے کے مطابق افراط زر کی شرح میں اضافہ اور معاشرے میں معرض وجود میں آنے واالی کثیر الجہتی بدامنی کی وجہ سے امانوئل میکرون کی مقبولیت میں شدید کمی آئی ہے اور ان کے اقتدار کو سنجیدہ خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ لو پواَن (Le Point) نامی ہفتہ وار فرانسیسی جریدے کے مطابق BVA انسٹی ٹیوٹ کے - ریڈیو RTL کو فراہم کردہ - معطیات کو جمعہ کے روز شائع کیا گیا، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر امانوئل میکرون اور وزیر اعظم ایلیزبتھ بورن (Élisabeth Borne) پر مشتمل حکمران جوڑا، تنزل کے ڈھلان پر لڑھک رہا ہے۔ اس سروے کے مطابق، میکرون کی مقبولیت ستمبر اور اکتوبر کے درمیان تنرلی کا شکار ہوئی ہے اور ایک مہینے میں ان کی مقبولیت سات فیصد تنزلی کا شکار ہو کر 36 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
مغرب کا ڈسے جرمن مشرق کی طرف رخ کر رہے ہیں
جرمنی یورو کے علاقے کا سب سے بڑا صنعتی ملک ہے لیکن یورپی ممالک میں اس کی صورت حال سب سے زیادہ نازک ہے؛ اور گذشتہ ہفتے کی خبروں اور رپورٹوں کے مطابق جرمنی میں ہزاروں کمپنیوں اور شاپنگ سینٹرز کو بند کر دیا گیا ہے۔ جرمن اخبار ڈائی ولٹ (Die Welt) نے اسی ہفتے کے آغاز میں (سینچر مورخہ 22 اکتوبر 2022ع‍ کو) اس ملک کے اسٹیٹ بینک کے معطیات (ڈیٹا) کے حوالے سے لکھا کہ اس ملک کی معیشت جلد کساد بازاری کے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے، اور اس مشکل سے بچنے کے لئے جرمن حکمرانوں نے چین کا دامن تھام لیا ہے۔ ایرنا نے فائنانشل ٹائمز کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جرمن چانسلر اولاف شولز (Olaf Scholz) نومبر (2022ع‍) کے اوائل میں چین کا دورہ کریں گے؛ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنی نے بیجنگ کے سلسلے میں اپنی (روایتی مغربی) پالیسی پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے۔ گذشتہ سال کے آخر میں جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد، یہ ان کا پہلا دورہ چین ہوگا۔
اس دورے کی منصوبہ بندی ایسے وقت میں ہو رہی ہے کہ جرمن وزارت خارجہ توانائی کے شعبے میں روس پر حد سے زیادہ انحصار کے ناکام تجربے کے بعد، چین کے ساتھ لین دین کی نئی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔ جرمن وزیر خارجہ انالینا بائربوک (Analna Bierbock) کا کہنا تھا کہ "جرمنی کو روس پر لامحدود معاشی انحصار کے ناکام تجربے کے بعد، اب کسی بھی ایسے ملک پر بھی انحصار نہیں کرنا چاہئے جو ہمارے ملک (جرمنی) کی اقدار سے مختلف دیگر اقدار پر یقین رکھتا ہے! ایسی غلطیوں کو دو بار ہرگز نہیں دہرانا چاہئے"۔ (البتہ گویا انھوں نے اس حقیقت کو شاید نظر انداز کیا کہ روس چین کی نسبت جرمنی کے ساتھ زیادہ اقداری اشتراکات رکھتا ہے اور چین کے ساتھ اس کی شباہتیں نہ ہونے کے برابر ہیں) یہ دورہ ایسے حال میں انجام پانے جا رہا ہے کہ جرمن کی خفیہ اور سیکورٹی اداروں نے چین کے بارے میں [اپنے حکام کو] خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ طاقت کا یہ ایشیائی مرکز [Asian nucleus of Power] (یعنی) چین طویل مدت میں، جرمنی کے سلامتی کے مفادات کے لئے، زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
موصولہ رپورٹوں کے مطابق ایک بڑا تجارتی وفد بھی جرمن چانسلر کی معیت میں چین کا دورہ کرے گا۔ ادھر اقتصاد اور خارجہ امور کے وزارت خانوں میں اہم عہدوں پر فائز جرمن گرین پارٹی کے راہنماؤں نے چین کے سلسلے میں سختگیر رویہ اپنانے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ جرمن کا سیاسی قائد - یعنی جرمن چانسلر - اس قسم کے رویے کے خواہاں نہیں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، جرمن چانسلر یوکرین کی جنگ کی وجہ سے اپنے ملک کی معاشی بدحالی کے اس مرحلے میں چین کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کا موقع کسی صورت میں نہیں گنوانا چاہتے۔
دریں اثناء اعداد و شمار کے مطابق، جرمن-چین دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری نے موجودہ مالی سال کے پہلی شش ماہی میں نیا ریکارڈ قائم کر لیا ہے۔ چنانچہ جرمن کمپنیاں کسی صورت میں بھی دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے ساتھ تعاون کی اپنی پالیسی سے پسپائی اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بالفاظ دیگر، چین اگر آج دوسری بڑی معیشت ہے تو مستقبل قریب میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر پہلی عالمی معیشت میں تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ دوسری طرف سے غالبا یوکرین کی جنگ کی وجہ سے یورپ کی معیشت کی بدحالی، توانائی کے بحران، افراط زر اور کمرتوڑ مہنگائی کی بنا پر، چین کی معیشت یورپ سے کہیں بہتر ہے۔
جنگ کی توالت تشویشناک ہے!
ہنگری کے وزیر خارجہ نے بھی روس-یوکرین کو طول دینے کی یورپی پالیسی پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ "یورپی یونین کا یہ دعوی کہ "جنگ کی یوکرین صرف روس کی شکست پر منتج ہو سکتی ہے" "خطرناک اور ناقابل قبول" ہے۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق رشیا ٹوڈے ویب گاہ نے لکھا ہے کہ "ہنگری کے خارجہ امور اور تجارت کے وزیر پیٹر سیجارتو (Peter Szijjarto) نے یوکرین کے مقابلے میں روس کو شکست دینے کے یورپی اتحاد کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی اتحاد کو تنازعات کو طول دینے کے بجائے امن و آشتی کی ضرورت ہے۔ قبل ازیں یورپی اتحاد کے داخلہ امور کی کمشنر یلوا جوہانسن (Ylva Johansson) چند ہفتے قبل دشمنی پر مبنی موقف اپناتے ہوئے کہتی رہی ہیں کہ "خواہ یہ جنگ جب تک بھی جاری رہے، یورپی اتحاد یوکرین کی حمایت کے لئے پر عزم ہے"۔ یلوا نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ "اس بحران کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ صدر پیوٹن کو شکست دی جائے"۔
ہنگرین وزارت خارجہ کے وزیر مملکت برائے دوطرفہ تعلقات ٹاماس مینزر (Tamás Menczer) نے 21 اکتوبر کو یلوا جوہانسن کو "بہت خطرناک موقف" اختیار کرنے کا ملزم ٹہرایا اور کہا: "مسز جوہانسن جنگ کے اختتام کو ایک ایسے فوجی واقعے سے مشروط کر رہی ہیں، کہ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ وہ واقعہ رونما بھی ہوگا یا نہیں، اور اگر رونما ہوگا تو کب ہوگا؟؛ یقینا برسلز کی طرف اس جنگ کی حمایت، اس کی مزید طوالت کا سبب بنے گی اور اس کے درد و رنج اور ہولناکیوں میں مزید اضافہ کرے گی اور یہ بہت ہی خطرناک اور ناقابل قبول ہے"۔
اٹلی کی وزیر اعظم کا انتخاب
یوکرین کی جنگ کی وجہ سے، اٹلی کی حالت بھی دوسرے یورپی ممالک سے کچھ بہتر نہیں ہے یہاں تک کہ اٹلی کے اقتصادی بحران کی وجہ سے اس کی حکومت گر گئی اور ذرائع نے بتایا کہ اطالوی صدر سیرجیو ماتاریلا (Sergio Mattarella) نے انتہائی دائیں بازو کی جماعت برادرز آف اٹلی (Brothers of Italy) کی راہنما جورجیا میلونی (Giorgia Meloni) کو حکومت تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے، اور یوں جورجیا میلونی 22 اکتوبر 2022ع‍ کو اٹلی کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ واضح رہے کہ 25 ستمبر کو منعقدہ اٹلی کے پارلیمانی انتخابات میں برادرز آف اٹلی، فورزا ایتالیا، اور لیگا (لیگ) نامی دائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد کامیابی سے ہم کنار ہؤا۔ فورتزا ایتالیا اور لیگا کی جماعتوں کو روس کے حوالے سے نرم موقف کی وجہ سے، سیاسی رقیبوں کی تنقید کا نشانہ بننا پڑا ہے۔  [واضح رہے کہ ترکی میں اعتدال پسندانہ ذہنیت رکھنے والے دانشور اور سیاستدان میلونی کے فکری منظومے کو بینیتو موسولینی (Benito Mussolini) کی قومی عصبیت پر مبنی تحریک فسطائیت (Fascism) کا تسلسل سمجھتے ہیں۔]
یوکرین میں فوجی دستے بھیجنے کے لئے امریکی شرطیں
ادھر امریکی چینل سی بی ایس نیوز کے مطابق، روس اور یوکرین کے درمیان تناؤ میں شدت آنے یا پھر روس کی طرف سے نیٹو کے کسی بھی رکن ملک پر روسی حملے کی صورت میں امریکہ کا 101 ایئر بورن ڈویژن یوکرین میں مداخلت کے لئے تیار ہے۔ سی بی ایس نیوز نے مذکورہ ڈویژن کے نائب کمانڈر بریگیڈیئر جنرل جان لوباس (John Lobas) کے حوالے سے اعلان کیا کہ "ہم نیٹو ممالک کے ہر انچ کے تحفظ کے لئے تیار ہیں"۔ دوسرے بریگیڈ کی جنگی ٹیم کے کمانڈر کرنل ایڈون ماتھائیڈز (Edwin D. Matthaidess) نے بھی کہا "میری نفری رومانیہ میں تعینات ہوئی ہے، اور میرے افسر اور جوان قریب سے روسی افواج کی نگرانی کر رہے ہیں؛ وہ مشقوں کے لئے اہداف تیار کرتے ہیں اور ان کی مشقیں بالکل روس یوکرین جنگ سے مماثلت رکھتی ہیں"۔
روسی خبر ایجنسی "تاس" (TASS) نے سی بی ایس کے حوالے سے مزید لکھا ہے: مجموعی طور پر 4700 امریکی فوجی ریاست کینٹکی (Kentucky) میں فورٹ کیمپبل (Fort Campbell) میں واقع "101 ایئربورن ڈویژن" کی مقامی چھاؤنی سے مشرقی یورپ میں منتقل ہوکر نیٹو کے مشرقی بازوں کی پشت پناہی کے لئے تعینات کئے گئے ہیں، اور امریکی کمانڈروں نے تسلسل کے ساتھ سی بی ایس کو بتایا ہے کہ "ہم ہر وقت - حتی کہ اسی رات بھی - جنگ کے لئے تیار ہیں اور جنگ میں شدت آنے یا نیٹو کے کسی ملک پر حملے کی صورت میں یوکرین کی سرحدوں سے گذرنے کے لئے مستعد ہیں"۔ یہ نعرے ایسے حال میں سنائی دے رہے ہیں کہ امریکہ اور یورپ نے دل کھول کر دسیوں ارب ڈالر کی نقد اور فوجی امداد یوکرین کو فراہم کی ہے اور ساتھ ہی امریکی صدر نے بارہا اعلان کیا ہے کہ امریکہ کسی صورت میں بھی اپنی فوج یوکرین میں نہیں بھجوائے گا؛ [اب دیکھنا ہے کہ فوجیوں کی بات زیادہ قابل اعتماد ہے یا پھر بائیڈن کی! گوکہ فی الحال چھ گنا زیادہ قیمت پر گیس بیچ کر امریکی خسارہ پورا کیا جا رہا ہے، گویا کہ یوکرین کی جنگ میں یورپی مالی ذخائر خاص طور پر امریکہ کے نشانے پر ہیں!]
برطانیہ میں افراط زر کی شرح 15 فیصد کے قریب
صرف متحدہ ہندوستان سے 45 کھرب ڈالر چوری کرنے والے اور آج تک برطانیہ عظمیٰ کہلوانے پر اصرار کرنے والے جزیرہ برطانیہ میں کی معاشی صورت حال بھی ہر روز بد سے بدتر ہو رہی ہے۔ بلومبرگ (Bloomberg) کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں افراط کی شرح اگلے سال کے آغاز تک 15٪ تک پہنچ سکتی ہے؛ کیونکہ ایندھن اور توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات روزمرہ اشیائے ضروری کی قیمتوں میں اضافے کا باعث ہو رہے ہیں۔ بلومبرگ کے اندازوں کے مطابق، برطانیہ میں مہنگائی میں مزید شدت آئے گی اور شدت توقعات سے کہیں زیادہ اور ناقابل برداشت ہوگی۔ موصولہ تخمینوں کے مطابق اشیائے ضرورت اور خدمات کی قیمت گذشتہ 40 سال میں سب سے اونچی سطح پر پہنچ چکی ہے ستمبر 2022 تک کے 12 مہینوں میں صارف اشاریہ قیمت (CPI) کے مطابق قیمتوں میں 10.1٪ اضافہ ہؤا ہے۔
برطانیہ میں اشیائے خورد و نوش کی مہنگائی کیڑے مکوڑے کھانے کا رواج
معاشی بحران کی وجہ سے برطانیہ کے سوپر اسٹور کیڑے مکوڑوں سے تیار کردہ سستے کھانے کی ترویج کر رہے ہیں۔
موصولہ رپورٹ کے مطابق، برطانیہ میں شدید معاشی بحران اور زندگی کے اخراجات میں اضافے نیز یورپ کے کھانے کے بینکوں (Food Bank) کے انتباہات کی رو سے، اس ملک کے سوپر اسٹور لوگوں کو حشرات الارض (کیڑے مکوڑوں) سے تیار کردہ سستا کھانا تیار کرنے اور کھانے کی ترغیب دلا رہے ہیں۔
ٹویٹر کے ایک برطانوی صارف نے اپنے پیغام میں لکھا ہے: "برطانیہ کے بڑے سوپر اسٹور کیڑے مکوڑوں سے تیار کردہ کھانے کی فراہمی کا آغاز کر چکے ہیں اور وہ اس قسم کا کھانا - پروٹین سے سرشار، مقوی اور سستے کھانے کے طور پر - لوگوں کو بیچ رہے ہیں"۔
ادھر برطانوی تحقیقاتی گروپ  کنٹار(Kantar Group) کی تحقیق بتاتی ہے کہ برطانیہ میں 2 اکتوبر پر اختتام پذیر ہونے والی سہ ماہی کے دوران خوراک کی افراط زر کی شرح 13/9٪ تک پہنچ گئی ہے اور یوں روزمرہ زندگی کے فی کس سالانہ اخراجات میں 643 پونڈ کا اضافہ ہؤا ہے۔ افراط زر کے اشاریے میں غیر معمولی اچھال اور زندگی کے اخراجات میں بے لگام اضافے نے جزیرہ انگلستان کو پچھلی نصف صدی کے بدترین معاشی حالات میں پلٹا دیا ہے۔ برطانیہ کے قومی ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس ملک میں افراط زر کی شرح 9/9 فیصد تک پہنچی ہے جو اس ملک کی گذشتہ چار دہائیوں کی تاریخ میں بے مثال ہے۔
بہرحال، یورپ نے امریکی تحریک پر، یوکرین کی جنگ میں روس کی دشمنی مول لے کر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے، گوکہ ان کے رویے، ابھی تک نسل پرستانہ اور سامراجیت پر مبنی ہیں، لیکن لگتا ہے کہ موسم سرما - جس کا یورپ میں آغاز ہو چکا ہے - انہیں اپنی شرمناک تاریخ کے پر فخر کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی پر آمادہ ہی کرے گی کیونکہ آج انہیں اب روٹی کے علاوہ گھروں کو گرم رکھنے کے لئے ایندھن کی بھی ضرورت ہے، اور وہ ابھی سے لکڑیوں، کوئلے اور اپلوں کا ذخیرہ اکٹھا کر رہے ہیں، سردی کی شدت میں اضافہ ہوگا تو دیکھا جائے گا کہ یورپ کو باغ اور دنیا کو جنگل سمجھنے والے "تہذیب یافتہ!" یورپی مزید کیا کچھ کرتے ہیں! کیا وہ روسی قدرتی گیس کے متبادل کے طور پر چھ گنا زیادہ قیمت پر امریکی ایل پی جی کب تک خرید سکیں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ و تکمیل: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110

https://kayhan.ir/fa/news/251873