اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
اتوار

6 فروری 2022

1:19:22 PM
1226519

اسامہ حمدان: فلسطینی نوجوانوں کی کنکریاں ایران کی مدد سے میزائلوں میں بدل گئیں

حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ "حماس" کے راہنما نے کہا: ایران کی مدد سے فلسطینی نوجوانوں کی کنکریاں اور پتھر کے جگہ ميزائلوں نے لے لی / غاصبوں کے خلاف جنگ میں فلسطینی تنہا نہیں ہیں / امام خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ کی ترقی کی راہ ہموار کر دی / ایرانی حمایت نے فلسطین کو ازادی کے مرحلے میں تک پہچایا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ "حماس" کے ایک راہنما اسامہ بن حمدان نے العالم کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا: صہیونی دشمن سنہ 1948ع‍ سے فلسطینیوں سے یہی کہتا رہا کہ "تم میدان جنگ میں تنہا ہو" لیکن اب دشمن دیکھ رہا ہے کہ فلسطینی قوم میدان میں تنہا نہیں ہے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی "نئے مستقبل" کے آغاز کے لئے الٹی گنتی شروع ہوئی۔ وہ مستقبل جس میں اسلامی ایران نے امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) کی قیادت میں ظلم و استبداد اور تسلط پسند قوتوں کے طوق سے آزادی کی تحریک شروع کرکے مستضعفین کے دفاع اور حمایت کا آغاز کیا اور فلسطین اور صہیونی ریاست کے خلاف اسلامی مقاومت، ایران کے عوام اور قائدین کی اسلامی تحریک کی دھڑکتی نبض بن گیا۔ اسلامی انقلاب نے کس طرح فلسطینی مقاومت (مزاحمت) کی جان میں جان ڈالی اور اس انقلاب نے علاقے کی وسعتوں میں مقاومت کی ہمہ جہت حمایت میں کیا کردار ادا کیا؟ اور ماضی کے ایران کی نسبت آج کے ایران کی پوزیشن کیا ہے؟
انقلاب اسلامی کی کامیابی کی تینتالیسویں سالگرہ کے موقع پر حماس کی مقاومتی تنظیم حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ "حماس" کے ایک راہنما آسامہ حمدان کے ساتھ ہونے والے مکالمے میں ان سوالات کے جوابات تلاش کریں گے۔
مکالمے کے اہم ترین نکات:
1۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے خطہ غاصب صہیونی ریاست کے ساتھ سازباز کی ڈھلان پر پہنچایا گیا تھا؛
2۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی نے خطے میں جدوجہد کے جذبے میں اہم تبدیلی پیدا کی اور کامیابی کی امید میں زبردست اضافہ کیا؛
3۔ اگرچہ ہم [مصر کے سابق آمر انور سادات اور یہودی ریاست کے سابق وزیر اعظم میناحم بیگن کے درمیان] کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی وجہ سے مصر کو کھو چکے تھے لیکن صہیونی ریاست بھی اسلامی انقلاب کی کامیابی کی وجہ سے ایک بڑے حلیف سے معروف ہوئی؛
4۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بموجب، امریکہ اور یہودی ریاست کا ایک بڑا اڈہ ظآلمین اور مستکبرین کے مقابلے میں مقاومت اسلامیہ کے حمایتی مرکز اور اسلام کے بڑے مورچے میں تبدیل ہوگیا؛
5۔ ایران اپنے تمام تر سرمایوں اور بے پناہ وسائل کے باوجود ایک وابستہ ملک تھا جس نے اسلامی انقلاب کے بعد ایک ترقی یافتہ ملک اور ایک قائد و زعیم کی حیثیت اختیار کی ہے؛
6۔ امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) کی ایران واپسی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا اور اگر آپ وطن نہ آتے تو حالات مختلف ہو سکتے تھے؛
7۔ امام کی مطلوبہ جنگ ظلم و ستم کے خلاف ایک عمومی اور کُلّی جنگ تھی؛
8۔ اس کے باوجود کہ ایران کے خلاف شدید دشمنی پائی جاتی تھی اور آج بھی پائی جاتی ہے لیکن اس نے تمام شعبوں میں لاجواب ترقی کی ہے؛
9۔ امام خامنہ ای نے اسلامی جمہوریت کے ارتقاء اور نشوونما کے اسباب فراہم کئے؛
10۔ مقاومت کے تئیں ایران کی حمایت نے فلسطینی عوام کی مقاومت اور استقامت میں بنیادی کردار ادا کیا اور مقاومت کی طاقت کو مضبوط بنانے اور اس کی صلاحیتوں اور وسائل کو تقویت پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے؛
11۔ مقاومت کے تئیں ایران کی حمایت غاصب ریاست سے نمٹنے پر گہرے اثرات مرتب کررہی ہے اور غاصب ریاست کے ساتھ جنگ کے انتظام و انصرام میں اپنے قواعد دشمن پر مسلط کر سکتا ہے۔ ایران کے ان ہی مسلط کردہ قواعد نے فلسطینیوں کو پتھروں کی جنگ کے مرحلے سے نکال کر میزائلوں کے جنگ کے مرحلے میں داخل کر دیا ہے؛
12۔ صہیونی دشمن کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی بروقت کارروائی کی رو سے - جیسا کہ آپریشن سیف القدس کے ثابت ہؤا - فلسطینی اپنے دفاع کے مرحلے سے، ملک کی آزادی کے مرحلے میں داخل ہوئے؛
13۔ یہ سب اسلامی جمہوریہ ایران کی بےلوث حمایت کا ثمرہ ہے؛
14۔ صہیونی اور امریکی علاقے پر حکم فرما قواعد کو اس طرح سے مرتب کرنا چاہتے ہیں کہ فلسطینی کاز مکمل طور پر نابود ہو اور مٹ جائے؛
15۔ آج علاقے پر نئے قواعد کی حکمرانی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خطے کی بعض طاقتیں فلسطینی مقاومت کے ساتھ کھڑی ہیں، چنانچہ فلسطینی کاز کا خاتمہ ممکن ہی نہیں ہے؛
16۔ آج فلسطینی قوم اور فلسطینی مقاومت میدان میں تنہا نہیں ہیں۔


مکالمے کی تفصیل:
سوال:
العالم: آج سے 43 سال قبل اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہؤا ہے، اگر آج کے ایران کا انقلاب سے پہلے کے ایران کے ساتھ موازنہ کرنا چاہیں تو کیا کہنا چاہئے؟
اسامہ حمدان: اس طرح کا کوئی بھی موازنہ وسیع بحث کا متفاضی ہے اور ہم یہاں مختصر الفاظ میں یہی کہیں گے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے خطہ غاصب صہیونی ریاست کے ساتھ سازباز کی ڈھلان پر پہنچایا دیا گیا تھا۔ شاہ کی حکومت صہیونی ریاست کی متحد تھی اور مصر - جو خطے اور عالم عرب کا معنوی مرکز سمجھا جاتا تھا، - مقاومت کے اگلے مورچے کو خالی کرکے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی طرف پسپا ہو چکا تھا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی نے جدوجہد کے حوصلوں کو بلند کردیا اور اگرچہ ہم کیمپ ڈیوڈ میں مصر کو کھو چکے تھے لیکن صہہیونی ریاست بھی خطے میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ اپنا ایک دیرینہ حلیف [ایران] سے محروم ہو گئی اور اسلامی انقلاب کے بعد ایران ایک ترقی پسند ملک میں تبدیل ہو گیا۔
سوال: کیا تہران میں یہودی ریاست کے سفارت خانے کی بندش کو اس تبدیلی کی علامت سمجھتے ہیں؟
اسامہ حمدان: یہ مسئلہ یہودی ریاست کے سفارتخانے کی بندش اور سفارت خانے کو فلسطین کی تحویل میں دینے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ میرے خیال میں اسلامی انقلاب کی کامیابی بذات خود خطے میں ایک تزویراتی تبدیلی تھی کیونکہ اس واقعے کے بعد خطے میں امریکہ اور یہودی ریاست کا ایک بڑا اڈہ اسلامی ظآلمین اور مستکبرین کے مقابلے میں مقاومت اسلامیہ کے حمایتی مرکز اور اسلام کے بڑے مورچے میں تبدیل ہوگیا۔
علاوہ ازیں، ہم عالم اسلام کی بیداری کی سطح میں ایک بڑی تبدیلی اور خالص اسلامی اقدار کی طرف واپسی کا مسئلہ ہے۔ جبکہ اس سے پہلے دشمنوں نے امت مسلمہ کو فکری، ثقافتی اور معاشرتی لحاظ سے گمراہ اور منحرف کرنے کی وسیع کوششیں کی تھیں اور امت کو یہ باور کرانے کی وسیع سازشیں چلائی تھیں کہ دین اسلام آج کے انسان کے تقاضوں اور ضروریات کی تکمیل کی صلاحیت نہیں رکھتا؛ لیکن ایران کے پیش کردہ نمونے نے بیسویں اور اکیسویں صدی میں اس سازش کو باطل کر دیا اور یہ حقیقت ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح میں ایک اور اہم موڑ تھی۔

دوسرے اہم نکتے کا تعلق ایران کے اندر سے ہے۔ یہاں ایک آمر، استبدادی اور آزادیوں کے کچلنے والے نظام حکومت کا تخت سرنگوں کیا گیا اور ازآدی، استحکام اور ایک جمہوری نظام کا قیام عمل میں لایا گیا؛ ایک ایسا نظام قائم ہؤا جس کے تحت عوام پارلیمان کے اراکین اور صدر کو ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں اور حکومت کے تمام اداروں پر عوام کی نگرانی کا انتظام کیا گیا؛ ایک ایسا نظام جس میں اقتدار گردش کی حالت میں رہتا ہے اور یہ موقع پورے عوام کو فراہم کیا گیا ہے۔ یہ تبدیلی بلاشبہ ایران کے اندر ایک باعظمت اور حیرت انگيز تبدیلی تھی۔
اگر ہم غائرانہ نگاہ سے دیکھیں تو بآسانی سمجھ لیتے ہیں ایران اسلامی انقلاب سے پہلے اپنے تمام تر سرمایوں اور بے پناہ وسائل کے باوجود ایک وابستہ ملک تھا جس نے اسلامی انقلاب کے بعد ایک ترقی یافتہ ملک اور دوسرے ممالک کی نسبت قائد و زعیم کی حیثیت اختیار کر لی؛ جو اپنی پالیسیوں کا اختیار رکھتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ملک کے راہنما دوسرے ممالک سے ڈکٹیشن لینے کے بجائے خود ہیاپنی پالیسی سازی کا کام سرانجام دیتے ہیں اور ان کی پالیسی سازی قومی مفادات نیز پوری امت مسلمہ کے مفادات کو مد نظر رکھ کر انجام دی جاتی ہے۔ یہ انقلاب سے قبل اور موجودہ ایران کے درمیان ایک سرسری موازنہ تھا گو کہ ایران کے ان دو ادوار کے درمیان موازنہ بہت تفصیلی ہے۔
امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) کی شخصیت اسلامی انقلاب کی تشکیل کا اہم ترین سبب
سوال: جناب اسامہ! ان تمام تبدیلیوں کا تعلق اسلامی انقلاب کے قائد اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) کی شخصیت سے ہے۔ امام ایک مؤثر شخصیت تھے جنہوں نے ایران اور دنیا میں اہم تبدیلیوں کے اسباب فراہم کئے، عالمی رائے عامہ پر اثرانداز ہوئے، بہت سوں نے اس مسئلے کو سراہا کہ اس مرد نے اپنی تعزیری بستی (نجف اور بعدازاں پیرس) سے ایک انقلاب کی قیادت کی اور تاریخی کامیابی حاصل کی؛ آپ کی نظر کیا ہے؟
اسامہ حمدان: شاید علاقائی اور بین الاقوامی فیصلہ ساز قوتوں کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کی امید نہ تھی لیکن میرے خیال میں کئی عوامل موجود تھے جنہوں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی میں کردار ادا کیا۔ شاید اہم ترین عامل وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اس انقلاب کی قیادت کی اور وہ امام خمینی کی شخصیت ہے جن کی ایک نہایت نمایاں ذاتی خصوصیت انتہائی شدید بیرونی دباؤ کے مقابلے میں استقامت، ثابت قدمی اور عدم تزلزل ہے۔
سب جانتے ہیں کہ امام کا تعاقب کیا گیا ہے، انہیں پابند سلاسل کیا گیا ہے، جلا وطن کیا گیا ہے حتیٰ اجلاوطنی کی زندگی میں بھی ان کا تعاقب کیا گیا ہے اور یہ سارے مسائل کسی بھی شخصیت کی پسپائی اور گوشہ عافیت میں پناہ لینے اور اپنے مقاصد چھوڑ دینے کا سبب بن سکتے ہیں لیکن کامیابی کے مرحلے تک پہنچنے کی راہ میں ان کی استقامت بہت سنجیدہ تھی یہاں تک کہ شاہ کو ایران سے فرار ہونا پڑا اور بعض لوگوں نے امام کو ایران نہ جانے کا مشورہ دینے کی کوشش کی کیونکہ اس وقت ایران کی اندرونی صورت حال غیر مستحکم تھی اور کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی رونما ہوسکتا تھا، لیکن امام کا اصرار تھا کہ اس فیصلہ کن اور تاریخی مرحلے میں ایران واپس آجائیں، اور وہ وطن واپس آئے اور میرے خیال میں ان کی ایران واپسی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا اور اگر امام واپس نہ آتے تو حالات مختلف ہوسکتے تھے۔

دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ امام کی جنگ ایک عمومی اور کلی جنگ تھا اور اس جنگ ظلم و ستم کے خلاف تھے؛ بایں معنی کہ ان کے نظریئے کے مطابق محض ایک بدعنوان استبدادی نظام حکومت کے خلاف ہی نہیں لڑنا چاہئے بلکہ جہاں بھی ظلم و ستم ہو اور اس ظلم و ستم کی شکل و صورت جو بھی ہے، اس کے خلاف جدوجہد کرنا چاہئے۔
چنانچہ، حتیٰ وہ لوگ - جن کا تصور یہ تھا کہ "امریکہ پر تنقید سیاست کے خلاف ہے" یا یہ کہ صہیونی ریاست کی سرزنش کرتے ہوئے یہ نہیں کہنا چاہئے کہ "اس ریاست کو ختم ہونا چاہئے"؛ - بھی غلطی کررہے تھے۔ جب کچھ لوگوں نے امام سے مطالبہ کیا کہ آپ ان مسائل کی شدت کو کم کردیں تو آپ کا جواب بہت واضح اور صریح تھا اور وہ یہ کہ "اگر ہم ان مسائل کے بارے میں بات نہ کریں تو کس چیز کے بارے میں بات کریں؟
امام کی خصوصیت یہ تھی کہ ہمیشہ ہر مسئلے کے جڑ پر توجہ مرکوز کرتے تھے اور تمام مسائل کی جڑ در حقیقت وہی عالمی ظلم و ستم ہے جس کی زعامت امریکہ کے ہاتھ میں ہے، وہی امریکہ جو عالمی استکبار اور بڑا شیطان ہے۔
ان تمام باتوں کے معنی ایک ہی ہیں اور امام تاکید کرنا چاہتے ہیں کہ ہر مسئلے کی جڑ ہمارے ملک پر بیرونی تسلط اور اس کے ڈھانچوں اور صلاحیتوں پر تسلط، میں پیوست ہے، اور یہ مسئلہ صرف ظاہری تبدیلیوں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بنیادی تبدیلیوں کا اہتمام کیا جائے۔ یہ مسئلہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ان کے سیاسی نظریئے کو تشکیل دیتا ہے: "وہ لا شرقیہ و لاغریبہ جمہوریہ اسلامیہ" کا نظریہ"۔ یعنی یہ کہ ہم ایک ظلم و ستم سے اس لئے آزاد نہیں ہوئے ہیں کہ دوسرے ظلم و ستم سے دوچار ہوجائیں؛ لہذا ہمیں حقیقی طور پر آزاد ہونا چاہئے اور حقیقی آزادی اسلام کے نفاذ کے سائے میں حاصل ہوتی ہے۔
کچھ لوگوں خطے میں کوئی بھی آزاد و خودمختار ملک نہیں چاہتے
سوال: اگرچہ اسلامی انقلاب کو شکست دینے کے لئے بہت ساری سازشیں کی گئیں اور بہت سے عوامل کو استعمال کیا گیا تھا اور یہ سازشیں اور وہ عوامل شکست کھا چکے ہیں مگر بعض لوگوں نے لکھا کہ یہ انقلاب دیرپا نہیں رہ سکے گا آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
اسامہ حمدان: میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ یہ کچھ لوگوں کی غلط فہمی تھی۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کی اس طرح کی باتیں بدنیتی پر مبنی تھیں، بدنیتی سے مراد یہ ہے کہ عالم ظلم و ستم اور استعمال یہ ہے کہ کوئی اپنا تسلط آپ پر جما دے۔ چنانچہ میرا خیال ہے کہ یہ ممالک یہ ہرگز نہیں چاہتے کہ کسی بھی ریاست کو آزآد، مستقل اور خودمختار نہیں ہونا چاہئے، جو اپنے مقدرات کا خود فیصلہ کرے اور خود اپنے مقدرات کی مالک ہو؛ خواہ نظام حکومت کی نوعیت جو بھی ہو اور اس کی شکل جیسی بھی ہو۔ لہذا، جب ایران استکبار و استعمار کی بالادستی کے دائرے سے خارج ہوکر ایک مستقل اور آزاد ریاست میں تبدیل ہؤا اور اپنی حکمرانی کا مالک بنا، جو اپنے مفاد میں، اپنے عوام کے مفاد میں، اس خطے کے مفاد میں، جس سے اس کا تعلق اور امت مسلمہ کے مفاد میں، فیصلہ کرتا تھا، تو یہ استعمار کے منصوبوں سے متصادم تھا، چنانچہ فطری امر تھا کہ اس انقلاب کو ناکام بنانے کے لئے سازشوں کا سہارا لیا جاتا۔
میں ان لوگوں سے اتفاق نہیں کرتا جو کہتے ہیں کہ "ہم سیاسی سازش کے نظریئے کے خلاف یا اس کے ساتھ منفق ہیں"۔ یہ آپ کے خلاف اسلامی انقلاب کے دشمنوں کی ایک جنگ ہے؛ آپ کا دشمن اس جنگ میں تمام وسائل اور ذرائع کو بروئے کار لاتا ہے اور اور آپ کو بیدار، ہوشیار اور متنبہ رہنا چاہئے ورنہ تو آپ کو خوف و ہراس میں جینا پڑے گا، اور یہ امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) کی نمایاں خصوصیت تھی، جو تصادم اور مقابلے کی سطح اور اہمیت سے واقف تھے لیکن خوف اور اضطراب محسوس کئے بغیر اللہ پر توکل کرکے مقابلے کے لئے تیار رہتے تھے۔
ایران کے خلاف دشمنی کی شدت بہت زیادہ تھی اور اب بھی ہے لیکن ایران آج تمام شعبوں میں بہت آگے ہے، اس نے ان تمام مسائل اور دشمنیوں کو پیچھے چھوڑ رکھا ہے اور ان دشمنیوں کے سامنے استقامت کرکے سب کو حیرت زدہ کردیا ہے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابیوں کے تسلسل میں امام خامنہ ای کا کردار
سوال: اس طاقت اور اتنی ساری دشمنیوں سے نمٹنے کے بارے میں بولنے سے پہلے، آپ امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) کی رحلت کے بعد امام خامنہ ای کی شخصیت اور اسلامی جمہوریہ ایران میں رہبر انقلاب اور انقلاب کے سپہ سالار کی حیثیت سے آپ کی قیادت کی کیفیت کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
اسامہ بن حمدان: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو امانت امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) نے امام خامنہ ای کے سپرد کی تھی، امام کی عظمت اور اسلامی انقلاب کی کامیابی میں آپ کے بنیادی کردار کے پیش نظر، بہت بھاری ذمہ داری تھی، مگر میری رائے یہ ہے کہ امام خامنہ ای نے اس امانت کے تحفظ ميں میں کامیاب رہے ہیں۔
ایران آج جس حقیقت کا سامنا کر رہا ہے، اور اس ملک کی طاقت اور پوزیشن اور داخلی امور کے انتظام و انصرام، سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ صرف وفاداری اور عہد کی پابندی نہیں بلکہ مسئلہ طاقت اور عملی صلاحیت کا ہے جس نے اس انقلاب کو حیات بخشی ہے اور امام خامنہ ای کی قیادت نے اس منصوبے اور اس نقطۂ نظر میں کچھ اضافہ بھی کیا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ان سالوں میں ایران کے حالات میں ایک انوکھی تبدیلی آئی ہے، امام نے فتح حاصل کی اور اسلامی جمہوریہ کو قائم کیا اور امام خامنہ ای نے اس جمہوریہ کی نشوونما اور ترقی کے اسباب فراہم کئے خطے میں بھی اور اندرون ملک بھی اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب رہے۔ آپ نے ایران کو ایک مستحکم ملک بنانے کے اسباب و عوامل پیدا کئے اور اس ملک کو ناقابل شکست بنایا جو تمام تر سازشوں اور دسیسوں کے مقابلے میں جم کر کھڑے ہونے اور انہیں ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
3۔ اسلامی انقلاب کی استقامت کا اصل سبب
سوال: ہم دو عظیم شخصیات - امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) اور امام خامنہ ای - کی طرف پلٹتے ہیں؛ آج کے دور میں ایران کو مختلف قسم کی دشمنیوں کا سامنا ہے، اس کے باوجود یہ ملک مستحکم اور طاقتور ہے، آپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟
اسامہ حمدان: اس مسئلے کے کئی عوامل ہیں لیکن میرے خیال میں تین عوام زیادہ اہمیت رکھتے ہیں:
پہلا عامل اس بات پر ایمان و یقین ہے کہ آپ ان اصولوں پر کاربند رہیں گے جن پر آپ یقین رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ فتح خدا کے لئے ہے اور یہ تمام حساب و کتاب اس ایمان کے بعد کے مرحلے سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ اس سے پہلے مرحلے سے۔
دوسرا عامل، آپ کی استطاعت کی حد تک کوشش کرنا ہے اور خدا کسی کو اس کی برداشت سے باہر کسی کام پر مامور نہیں کرتا؛ اور حقیقت یہ ہے بہت ساری کوششیں کی جاتی ہیں اور ہم ان کے اثرات کو دیکھتے ہیں۔
تیسرا عامل، یقینا اقدام اور عمل میں مضمر ہے۔ انسان اپنی کوششوں کو بروئے کار لاتا ہے لیکن ساتھ ساتھ احتیاط بھی برتتا ہے، لیکن اقدام ایک مختلف مرحلہ ہے۔ یہ ممکن ہے کہ احتیاط کرنے والا شخص کامیاب بھی ہوجائے لیکن جو شخص احتیاط کرتا ہے وہ ترقی نہيں کرتا۔ ایران نے اپنی اقدار اور اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے اپنے اہداف حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ایران نے شدیدترین بیرونی دباؤ کے باوجود فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے؛ اور اور یہ ایک بااثر طاقت بننے کی طرف بڑھتا رہا ہے؛ تاکہ مظلوموں کی حمایت کی راہ میں مسلسل آگے بڑھ سکے؛ اور میری رائے میں یہ وہ اہم ترین عوامل ہیں جو انقلاب کی ترقی اور تسلسل اور اس کے مقاصد کے حصول کا موجب بنے ہیں۔
ایران تمام تر دباؤ اور مشکلات کے باوجود، فلسطینی کاز کی حمایت بدستور جاری رکھے ہوئے ہے، اور حقیقی و موثر طاقت حاصل کرنے اور اپنی صورت حال کی بہتری کے لئے مؤثر اور پائیدار اقدامات کر چکا ہے۔ یہ ملک مظلوموں کے مسائل حل کرنے کی راہ پر مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ سب ایک عملی منصوبے کے تحت ممکن ہے چنانچہ یہ صرف ریزرو فورسز کا مسئلہ نہيں ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ تین وجوہات شاید انقلاب کی مسلسل بیداری، تسلسل اور ترقی اور نشوونما اور بہت سارے مقاصد کے حصول میں سب سے اہم ترین عوامل میں شامل ہیں۔
سوال: جناب اسامہ حمدان! ہم سمجھتے ہيں کہ ایران کو اپنی ذاتی طاقت کی وجہ سے ہمیشہ اپنے دشمنوں کی طرف کے خطروں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آپ کے خیال میں، کیا ایران کو اس کی طاقت کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، یا اس کے پرامن جوہری پروگرام یا میزائل قوت کی وجہ سے یا پھر یا پھر اس کی ذاتی دفاعی طاقت کی وجہ سے؟

اسامہ حمدان: سیاست میں ہمیشہ کوشش کی جاتی ہے کہ مقابل فریق کی بیخ کنی کی جائے اور میرے خیال میں یہ اس طرح کی کوششیں انقلاب کی کامیابی کے بعد کے چند برسوں میں انجام پائی ہیں اور کچھ اندرونی غداروں کی مکاری اور چالبازی اور بیرونی سازشوں کے ذریعے اس ہدف کے حصول کی کوششیں ہوئیں۔
جب مقابل فریق کو سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کرنے کی کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں تو اسو مستقل طور پر کمزور کرنے کی کوششیں بروئے کار لائی جاتی ہیں اور یہ سب اسلامی انقلاب کے ساتھ بھی روا رکھا گیا اور دشمن نے ناکامی کے بعد ایران کو مستقل کمزور کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا۔
ایران نے یہ مرحلہ کامیابی کے ساتھ طے کیا اور اپنی طاقت تعمیر کرنے میں کامیاب ہؤا۔ اس وقت دشمنوں کی تمام تر کوششیں ایران کی طاقت محدود کرنے پر مرکوز ہوئی ہیں تاکہ اسے ایک بہت بڑی اور بااثر طاقت بننے سے روک لیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دشمن اپنی کوششوں میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے گا کیونکہ میرے خیال میں، جو اپنی بیخ کنی کے لئے ہونے والی کوششوں کو ناکام بنا سکے اور اس مرحلے میں کامیاب ہوسکے، ان کوششوں سے بھی نمٹ سکتا ہے جو اس کا محاصرہ کرنے، اسے کمزور کرنے اور اس کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کرنے کے لئے عمل میں لائی جاتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام تر معاندانہ کوششوں اور سازشوں میں ایک منفی پہلو پایا جاتا ہے جو ملکی سطح پر ایرانی قوم کی مشقت اور تکلیف دیئے جانے سے عبارت ہے اور اس سلسلے میں بہت بڑی جانفشانیاں ہوئی ہیں اور قربانیاں دی گئی ہیں لیکن دوسری طرف سے ایرانی قوم نے عزم و ہمت کے ساتھ یہ اٹل نتیجہ حاصل کرلیا ہے کہ جس قدر کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا سہارا لے گی اپنی طاقت میں اضافہ کرے گی اور یوں وہ ایسے اسباب اور ایسے حالات پیدا کرسکتی ہے کہ جن میں وہ دشمن کا سامنا کرسکتی ہے اور دشمن اس کی حقیقی قوت کے سامنے اپنی تمام تر سازشوں میں ناکام ہوجائے۔
فلسطینی میدان میں، مزید تنہا نہیں ہیں
سوال: تمام تر جائز اور برحق مسائل - بشمول فلسطین کاز اور عالمی مسائل - کے تئیں اسلامی انقلاب کی مکمل پابندی، کو دیکھتے ہوئے اگر ہم فلسطینی مقاومت (مزاحمت) بالخصوص حماس کی بات کرنا چاہیں، تو سوال یہ بنتا ہے کہ انقلاب اسلامی صہیونی ریاست کے خلاف مقاومت کی ہمہ جہت حمایتوں کے ساتھ کیونکر فلسطینی مقاومت اور حماس پر اثر انداز ہؤا؟
اسامہ حمدان: مقاومت کے تئیں ایران کی حمایت نے ملت فلسطین کی استقامت اور مزاحمت نیز مقاومت کی بنیادیں مستحکم کرنے اور اس کے وسائل اور صلاحیتوں میں اضافہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کررہی ہے۔ چنانچہ ایران کی طرف سے مقاومت کی حمایت صہیونی ریاست سے تقابل پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اور ایران آج غاصب ریاست کے ساتھ جنگ کے انتظام و انصرام میں اپنے قواعد دشمن پر مسلط کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایران کے ان ہی مسلط کردہ قواعد نے فلسطینیوں کو پتھروں کی جنگ کے مرحلے سے نکال کر میزائلوں کے جنگ کے مرحلے میں داخل کر دیا ہے۔
چنانچہ صہیونی دشمن کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی بروقت کارروائی کی رو سے - جیسا کہ آپریشن سیف القدس کے ثابت ہؤا - فلسطینی اپنے دفاع کے مرحلے سے، ملک کی آزادی کے مرحلے میں داخل ہوئے؛ اور یہ سب مقاومت کے تئیں اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت کا پھل ہے۔
لیکن اس سے زیادہ اہم مسئلہ علاقائی مسائل ہیں۔ صہیونی دشمن اور امریکیوں کی کوشش ہے کہ خطے کے مسائل کو کچھ اس انداز سے رقم کریں کہ مسائل فلسطینی کاز کے منظر عام سے ہٹ کر نابود ہونے پر منتج ہوجائیں؛ لیکن آج خطے میں نئے قواعد نافذ العمل ہوئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے کے کچھ اہم طاقتیں فلسطینی مقاومت کے دوش بدوش کھڑی ہیں، چنانچہ دشمن کی سازشوں کے باوجود، فلسطینی کاز کو منظر عام سے ہٹانا ممکن نہیں ہے اور فلسطینی قوم اور مقاومت آج میدان میں تنہا نہیں ہے۔
صہیونی دشمن سنہ 1948ع‍ سے فلسطینیوں سے یہی کہتا رہا کہ "تم میدان جنگ میں تنہا ہو" لیکن اب دشمن دیکھ رہا ہے کہ فلسطینی قوم میدان میں تنہا نہیں ہے اور اہم علاقائی طاقتیں فلسطینیوں کے کندھے سے کندھا لگا کر کھڑی ہیں اور وہ ہماری حمایت کرتی ہیں، اور یہ بجائے خود غاصب ریاست کے مسلط کردہ قواعد کے بالکل برعکس ایک مختلف قاعدہ ہے جو اللہ کی مدد اور قوت سے فلسطین کی آزادی کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔
سوال: باقیماندہ دقیقوں سے فائدہ اٹھا کر آّپ سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ کچھ الفاظ کی نسبت اپنے جذبات بیان کریں:
سوال (*) ایران
اسامہ حمدان (**): انقلاب، مقاومت اور مستضعفین کا حامی
* امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه)
** صبر، اصرار و ثابت قدمی اور فتح و کامیابی
* امام سید علی خامنہ ای
** خطے میں تمام جائز اور برحق مسائل کی طرف توجہ اور ان مسائل کو ہمہ جہت ترجیح دینا
* آج کے ایران کی جوہری اور میزال قوت
** اس قوم کی طاقت اور اس کے عزم کی کامیابی
* ایران اور فلسطین
** ہم دونوں کی وعدہ گاہ ان شاء اللہ قدس شریف ہے
* ایران اور محور مقاومت (محاذ مزاحمت)
** نقطۂ ارتکاز (Focal Point)
سوال: اس مکالمے کے آخر میں، ان تمام حالات کے باوجود جن کا اس ملک کو سامنا ہے، آپ آج کے ایران کے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں؟
اسامہ حمدان: میرا قوی ایمان و یقین ہے کہ کامیابی اسلام کی ہے، اور ج
میرا پختہ ایمان و یقین ہے کہ اٹل فتح اسلام کی ہے اور اس قوم کو جس چیز کا سامنا ہے وہ ایک امتحان و آزمائش اور آخری فتح کا پیش خیمہ ہے اور یہ اللہ کا حقانی وعدہ ہے۔
جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہؤا ہے کہ اللہ کے صالح بندے زمین کے وارث ہونگے: "وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ؛ اور ہم نے زبور میں - توریت کے بعد - لکھ لیا کہ زمین کے ورثہ دار میرے صالح (نیک) بندے (ہی) ہوں گے"۔
اگر ہم اس قاعدے کو نافذ کریں اور اللہ کے اذن و توفیق سے حقیقی معنوں میں اللہ کے صالح بندے بنیں تو زمین کے ورثہ دار بنیں گے۔ میں اس حقیقت پر ایمان کامل رکھتا ہوں۔ سیاست کی دنیا میں اب ہم خطے کی تاریخ کے آخری (پچھلے) 40 سالہ عرصے کے بارے میں بات کر رہے ہیں جب میں ہمیں ہر طرح کی مکاریوں، دھوکہ بازیوں اور ہر طرح کی دشمنیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نتیجہ کیا رہا؟ نتیجہ یہ رہا کہ آج ایک منصوبہ ہمارے سامنے ہے جس کا تعلق بڑھتی ہوئی [فلسطینی] قومی بیداری سے ہے اور دوسرا منصوبہ - جو ہمارے سامنے ہے جو ہم سے چاہتا ہے کہ ہماری قوم اس راستے کو کھو دے۔ لیکن آخرکار اللہ کی مرضی اور توفیق سے، فتح اس کے صالح بندوں کے لئے [مخصوص] ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110