اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
ہفتہ

1 جنوری 2022

3:38:37 PM
1214348

شہید قاسم سلیمانی کی شہادت اسلام اور مظلومین کے لیے موثر واقع ہوئی: آیت اللہ طائب

دشمن نے آپ کو شہید کر کے یہ سوچا کہ اس اقدام سے وہ اس عظیم مرد سے محفوظ ہو جائے گا، لیکن دشمن کے اس اقدام کا نتیجہ الٹا ہوا، اور بہت ساری کامیابیاں اسلام کو نصیب ہوئی۔ لہذا بغیر کسی شک و شبہہ کے قاسم سلیمانی کی شہادت انقلاب، اسلام اور مظلومین عالم کی کامیابی میں بے حد موثر واقع ہوئی۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ دشمنوں نے الحاج قاسم سلیمانی کو شہید کر کے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا۔ اگرچہ وہ اس شخص کی فراست اور ذہانت سے جان چھڑانا چاہتے تھے، لیکن ان کا یہ اقدام انتہائی غلط تھا۔ کیونکہ وہ شہادت کے مفہوم کو نہیں سمجھتے تھے، اور اگر وہ اس عظیم مفہوم کو سمجھتے تو اسلامی مجاہدین کو شہید نہیں کرتے۔
خداوند متعال کے حکم کے مطابق شہید “زندہ” ہے ۔ خدا فرماتا ہے: “«وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء.»(۱) جو راہ خدا میں قتل ہو جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ البتہ ہم نے بھی لفظ ’’احیاء‘‘ کو اچھے سے درک نہیں کیا۔ لہذا ہمیشہ ’’بل احیاء‘‘ کے حوالے سے ایک مبہم تصویر ہمارے ذہنوں میں رہتی ہے۔ اگر یہ مفہوم قابل ادراک نہ ہوتا تو خداوند متعال اتنی واضح گفتگو نہ کرتا۔ حیات کا تصور تو ہمارے نزدیک معین ہے جو خداوند عالم فرماتا ہے کہ شہداء زندہ ہیں۔ اور «عِندَ رَبِّهِم يُرزَقونَ» (۲) اپنے پروردگار کے نزدیک رزق پاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں سے ہر کوئی خدا کی بارگاہ سے رزق حاصل نہیں کرتا؟ ہم سب بھی تو اپنے رب کا رزق کھاتے ہیں۔ «وَ مَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا» (۳) امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں ’’عالم خدا کے حضور میں ہے، خدا کے حضور میں گناہ نہ کرو‘‘۔ خدا کے حضور کا مطلب یہی ہے کہ ہم سب ’’عند اللہ‘‘ موجود ہیں۔
وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء کی تفسیر
خداوند عالم کا یہ فرمان کہ شہداء زندہ ہیں کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شہداء جسمانی اعتبار سے زندہ ہیں؟ یا ان کی روح زندہ ہے؟ اگر خداوند عالم کے اس کلام سے شہداء کا جسم مراد ہے تو یہ صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ بہت سارے شہداء کے جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ بدن کا کوئی حصہ باتی نہیں رہتا کہ زندگی کا تصور کیا جا سکے۔ مجھے یاد ہے جنگ کے دوران جب شہیدوں کے پاس گولے پڑتے تھے تو ان کا بدن اس قدر ٹکڑے ٹکڑے ہوتا تھا کہ جمع کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اگر مراد شہیدوں کی روح ہے، روح تو سب کی زندہ رہتی ہے، مگر جو شہید نہیں ہوتے ان کی روحیں مر جاتی ہیں؟ روح کو تو موت نہیں آتی۔ عالم برزخ ارواح کی زندگی کا عالم ہے روح کو موت نہیں آتی۔
پس شہداء کو کون سا امتیاز حاصل ہے جو خداوند عالم کے پیش نظر ہے؟ خداوند عالم یہ بھی فرما سکتا تھا کہ شہید کی روح ایک خاص طرح کی زندگی کی حامل ہے۔ زندہ اور مردہ شخص میں فرق یہ ہے کہ زندہ افراد تاثیر گزار ہوتے ہیں لیکن مردہ نہ موثر ہوتے ہیں نہ متاثر۔ تاثیر و تاثر در حقیقت روح سے متعلق ہے۔ لیکن اس دنیا میں اگر کوئی روح موثر واقع ہونا چاہے تو اسے جسم کی ضرورت ہے، جب تک جسم اس کے اختیار میں رہتا ہے کہ روح موثر و متاثر واقع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جہاد اس وقت ممکن ہے جب انسان کا بدن اس کے اختیار میں ہو۔
جب بدن انسان سے چھن جائے تو اس انسان کی کوئی تاثیر باقی نہیں رہتی۔ لہذا زندہ وہ ہے جو کوئی موثر اقدام انجام دے۔ اور مردہ وہ ہے جو کوئی اقدام نہ کر سکے کوئی تاثیر نہ دکھا سکے۔ عام لوگوں کا تصور یہ ہے کہ جو اپنی موت مرتا ہے اس میں اور جو راہ خدا میں شہید ہوتا ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس نظریہ کے مطابق، عام انسانوں جو فطری موت مرتے ہیں اور شہداء جیسے شہید بہشتی، شہید مطہری اور شہید قاسم سلیمانی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
خداوند عالم اس فرق کو واضح کرنے کے لیے شہیدوں کو زندہ کہتا ہے۔ وہ شخص جس نے راہ خدا میں جہاد کیا اور اپنے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا وہ دوسروں کی طرح نہیں ہے، یعنی وہ شہادت کے بعد بھی اثرانداز ہوتا ہے اگر چہ شہید نے اپنا جسم راہ خدا میں دے دیا لیکن خدا اسے ایسا رزق دیتا ہے جس رزق کے واسطے وہ کائنات پر موثر واقع ہوتا ہے۔
حالیہ برسوں میں، دشمن نے ملت اسلام اور اسلامی نظام پر بہت کڑی ضربت لگانے کی کوشش کی ہے لیکن جو افراد اس دوران شہید ہوئے ہیں وہ حقیقت میں مرے نہیں ہیں۔
اگر چہ دشمن یہ تصور کر رہا ہے کہ شہید بہشتی، شہید رجائی کو امت اسلامیہ سے چھین لیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ دشمن نے اپنی ان حرکتوں سے اسلام کی خدمت کی ہے۔
دوسرے لفظوں میں شہید اپنی شہادتوں سے قبل، جو مجاہدت کرتے ہیں جو خدمات انجام دیتے ہیں وہ اپنے معمولی بدن اور مادی آلات کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ یعنی ضروری ہے کہ قاسم سلیمانی مادی آلات کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کریں چونکہ جسم محدود ہے۔
جب دشمن قاسم سلیمانی کے جسم کو مٹاتا ہے تو سوچتا ہے کہ اسے مٹا دیا گیا، لیکن قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق، قاسم سلیمانی زندہ ہیں اور اس رزق کے واسطے جو خداوند عالم کی طرف سے انہیں مل رہا ہے اس دنیا میں سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں بغیر اس کے کہ انہیں کسی بدن کی ضرورت پڑے۔
دشمن نے آپ کو شہید کر کے یہ سوچا کہ اس اقدام سے وہ اس عظیم مرد سے محفوظ ہو جائے گا، لیکن دشمن کے اس اقدام کا نتیجہ الٹا ہوا، اور بہت ساری کامیابیاں اسلام کو نصیب ہوئی۔ لہذا بغیر کسی شک و شبہہ کے قاسم سلیمانی کی شہادت انقلاب، اسلام اور مظلومین عالم کی کامیابی میں بے حد موثر واقع ہوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242