اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

14 دسمبر 2021

3:12:24 PM
1208516

خطے میں مزاحمتی محاذ کا پس منظر اور پیش منظر

آج، اسلامی مزاحمت عالمی سلامتی، معیشت اور سیاست کے شعبوں سے متعلق فیصلہ ساز اداروں میں بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر کردار ادا کرنے کے مواقع حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے، اس نے مزاحمت مخالف فیصلہ سازیوں کو روکا ہے اور اپنے اراکین کے لیے اقتصادی، سیاسی، اور دیگر شعبوں میں کامیابیوں کے راستے کھول لئے ہیں۔ تنقید کرنے والے تنقید کرتے رہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ حالیہ عشروں میں اسلامی مزاحمت اپنی تشکیل کے مراحل طے کرچکی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ محاذ مزاحمت اپنے تمام اراکین کے لئے ایک زندہ جاوید اور لافانی سرمایہ ہے جو قلیل مدتی، درمیان مدتی اور طویل مدتی اثرات کا حامل ہے۔ اسی وجہ سے امریکی سرکردگی میں ایران مخالف محاذ برسوں سے محاذ مقاومت کو منظر سے ہٹانے کے لئے اپنی تمام تر قوت صرف کر رہا ہے اور بہر قیمت اس مقصد تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اسی بنا پر ہی امریکہ ایران، عراق یا حزب اللہ لبنان کے ساتھ کسی بھی اختلاف کے حل کے حوالے سے کسی بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ بات چیت میں "علاقائی مزاحمت" کی شق درج کرتا ہے اور محاذ مزاحمت پر دباؤ بڑھا دیتا ہے؛ چنانچہ امت کے دردمندوں کو محاذ مزاحمت اور اس کے قلب میں ایران کو زیادہ ترجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ذیل کے نکات قابل توجہ ہیں:
1۔ ممالک، تنظیمیں اور تحریکیں ایک یا دو مقاصد [ایک ساتھ]، کے حصول کے لئے کسی محاذ کی بنیاد رکھتی ہیں۔ محاذ کی تشکیل کا مقصد مشترکہ خطرے یا نقصان سے نمٹنا، یا بہتر پوزیشن کا حصول اور کبھی دونوں اہداف کا حصول ہوتا ہے۔ سابقہ بڑی طاقتوں "امریکہ اور سوویت روس" کے خطرے کی غرض سے، غیر وابستہ تحریک کے قیام کی تجویز سنہ 1955ع‍ میں سامنے آئی اور یہ تحریک سنہ 1960ع‍ میں قائم ہوئی۔ اس سے پہلے اپریل 1949ع‍ میں مغربی بلاک کے رکن ممالک نے بہتر پوزيشن حاصل کرنے کے لئے نیٹو (NATO) کی بنیاد رکھی اور مشرقی بلاک کے رکن ممالک نے مئی 1955ع‍ (Warsaw Pact) کی بنیاد رکھی تھی؛ عرب ليگ (جامعۃُ الدُوَلِ العربيۃ یا الجامعۃ العربیۃ = Arab League) مارچ سنہ 1945ع‍ میں ان ہی مقاصد سے معرض وجود میں آئی تھی۔ محاذ مزاحمت کی تشکیل ایسے اقدامات میں سے ہے جس کا مقصد مذکورہ دونوں اہداف کا حصول تھا: خطرات سے نمٹنا اور بہتر پوزیشن حاصل کرنا۔
دریں اثناء، کچھ اتحاد یا محاذ یا تو سلامتی یا معیشت یا ثقافت یا سیاست یا پھر قانونی مقاصد کے لئے مختص ہیں۔ بطور مثال شنگھائی تعاون تنظیم (SCO)، ماسٹریچٹ معاہدہ (Maastricht Treaty) یا ٹرانس پیسفک شراکت (Trans-Pacific Partnership) محض اقتصادی اہداف پر مبنی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل - جو کہ درحقیقت ایک محاذ ہے - جو [مغربی مفادات کے تحفظ اور] سلامتی پر مرکوز ہے اور افریقی اتحاد (African Union) کا مقصد سیاسی ہے، اور یقیناً یہ تمام اتحاد یا محاذ دیگر مسائل میں بھی خفیف سا کردار ادا کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہ کچھ اتحادسازیوں اور محاذسازیوں کا ایک عمومی اور جامع مقصد ہوتا ہے اور وہ ایک ہی پہلو تک محدود نہیں ہوتیں، کہ البتہ ایسا بہت کم ہوتا ہے چنانچہ محاذ مزاحمت یا جبہۃ المقاومہ کا قیام ایک نادر واقعہ ہے۔
2۔ تمام تر اتحادوں اور محاذوں کو کسی خاص دن قائم کیا گیا ہے لیکن مزاحمت کے لئے کسی خاص "نقطۂ آغاز" متعین نہیں کیا جاسکتا؛ اور دوسری طرف سے اس محاذ کا اسلامی انقلاب کے محاذ سے تعلق ناقابل انکار و تردید ہے۔ کیونکہ اسلامی انقلاب نے اپنی کامیابی سے بھی پہلے قوموں کے مربوط محاذ کی تشکیل مد نظر رکھا ہے۔
اگر امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ)، - امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی)، شہید مطہری اور شہید بہشتی (رحمہما اللہ) جیسے دوسرے انقلابی راہنماؤ‎ں - کے بیانات اور اعلامیوں پر غور کیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ دنیا میں ایک مربوط عالمی محاذ کی تشکیل ان کے پیش نظر رہا ہے۔ اس حوالے سے حضرت امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے بعض اقوال کچھ یوں ہیں:
- اٹھ کھڑے ہو اے مستضعفین!؛
- اسلام دنیا کے کلیدی مورچوں کو فتح کر لے گا؛
- ہم مغرب مکتب اور مشرقی مکتب کے مقابلے میں تیسرا راستہ متعارف کرانے کے درپے ہیں؛ اور
- ہمیں [عالمی سطح پر] مستضفین کی جماعت بنانا پڑے گی۔۔۔ اور اس طرح کے بہت سے دوسرے اقوال و ارشادات جو امام (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے ایام حیات میں آنجناب کی طرف سے صادر ہوئے ہیں جنہیں اسی تناظر میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ امام راحل کے دور میں ہی جبہۃ المقاومہ کی تشکیل عمل میں آئی اور جبہۃ المقاومہ سے یا مزاحمتی محاذ کے نام سے ایک تصور قائم ہؤا اور یوں مزاحمتی ثقافت عالمی ادب میں داخل ہوئی۔
اس دور میں ایران اور دنیا میں بعض منحرف دھاروں نے مزاحمت کے انحرافی نعروں کے ساتھ مقاومت و مزاحمت کے دھاروں کا چہرہ مخدوش کرکے پیش کرنے کی ناکامی کوشش کی جو بہت جلد بدنام ہوئے اور ان کا راستہ خود بخود حقیقی مزاحمت سے الگ ہو گیا۔ درحقیقت، مزاحمتی محاذ کی تشکیل کا سد باب کرنے کے لئے، امریکیوں نے ان منحرف دھاروں کے قریب پہنچ کر ان کے اثر و رسوخ کو محاذ مزاحمت کے خلاف استعمال کیا [اور بعد میں خود بھی متعدد دہشت گرد ٹولوں کی بنیاد رکھی] لیکن دوسری طرف سے، امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کی زبان و قلم نے ایک لمحے کے لئے بھی محاذ مزاحمت کی تشکیل کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا۔ مزاحمتی محاذ کی تشکیل کی سوچ خصوصا فروری اور مارچ سنہ 1989ع‍ میں آپ کے اعلامیوں اور پیغامات میں بہت نمایاں اور جرات مندانہ انداز سے سامنے آئی۔ اسی لئے امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کی بابرکت اور نورانی حیات کے دوران [انقلابی اور مقاومتی = مزاحمتی] "ادب کی پیداوار" کے حوالے سے بنیادی اور پختہ قدم اٹھائے گئے جو مزاحمتی محاذ کی تشکیل میں خصوصی اور بنیادی اہمیت کے حامل تھے۔
3۔ انقلاب اسلامی کے رہبر معظم امام خامنہ (دام ظلہ العالی) اپنی صدارت کے دوران خطے کی دینی اور انقلابی تنظیموں - بشمول حزب اللہ لبنان اور عراق کی بدر تنظیم - سے قریبی رابطہ رکھتے تھے چنانچہ آپ نے 4 جون 1989ع‍ کو زعامت و قیادت کا عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد ہی اسلامی محاذ مزاحمت تحریک کے لئے ایک نظام کی بنیاد رکھی اور اس کے سنہ 1990ع‍ کے آخر اور 1991ع‍ کے اوائل میں دو "اندرونی اور بیرونی نظآمات" کا منصوبہ نافذ کیا۔ اندرونی نظام کے تحت سپاہ پاسداران ذیلی شعبے "بسیج" کو "مقاومت فورس" میں تبدیل کیا اور بیرونی شعبے یعنی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ذیلی شعبے "اسلامی تحریکوں کی یونٹ" (Liberation Movements Unit) - جس کی سرگرمیاں عرصۂ دراز سے معطل تھیں ـ کو فعال کرکے "قدس فورس" میں تبدیل کیا۔ اس نئے منصوبے میں بسیج اور قدس فورس دونوں کو درحقیقت سیاسی، عسکری، انٹیلی جنس، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی، سماجی اور فلاحی کار گزاری کے ساتھ، کثیر جہتی اور جامع تنظیموں کے طور پر قرار دیا گیا۔
امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے اپنے خطاب میں اشارہ کیا ہے کہ "قدس فورس ایک عسکری، یا ایک انٹیلیجنس، یا ایک خدمت رساں، یا ایک سفارتی، یا ایک اقتصادی یا ایک سیاسی قوت نہيں ہے۔ ان تمام شعبوں کے لئے مسلح افواج، وزارت اطلاعات، وزارت اقتصاد، وزارت خارجہ، وزارت تجارت اور وزارت داخلہ موجود ہیں۔ قدس فورس کو ان تمام جہتوں پر مشتمل ہونا چاہئے"۔ اس مسئلے کا راز بھی یہ ہے کہ جب ہم ایک فعال اور سرگرم محاذ کی تشکیل کی بات کرتے ہیں، جو محض دفاعی نہ ہو، تو یہ ساری کی ساری سرگرمیاں ضروری ہیں۔ قدس فورس سنہ 1990ع‍ میں اسی جامع مقصد کے تحت تشکیل پائی۔ مدتوں بعد امام سید علی خامنہ ای (دام ظلہ العالی) امریکی دہشت گردی کے نتیجے میں کثیر جہتی شخصیت کے مالک اور قدس فورس کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل شہید الحاج قاسم سلیمانی (رحمۃ اللہ علیہ) کی افتخار آمیز شہادت کی مناسبت سے منعقدہ ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے اس جامع مقصد کا ایک گوشہ بیان کیا۔ لہٰذا دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) نے اس جامع مقصد کو ایک منشور کی سطح پر اٹھایا اور اس کے خدوخال کو بیان کیا۔ اور مزاحمتی محاذ امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) کی نورانی قیادت کے ابتدائی سالوں میں، اور بین الاقوامی سطح پر، قائم ہؤا اور بلاشبہ انھوں نے ان تین دہائیوں میں اس محاذ کی جہتوں، نتائج، اور کرنے یا نہ کرنے والے معاملات پر روشتی ڈالی ہے، اور ان کی راہنمائیاں مزاحمتی محاذ کے ادب و ثقافت کے معرض وجود میں آنے اور نشوونما میں بہت کارآمد ثابت ہوئی ہیں، جو درجقیقت کئی جلدوں پر مشتمل کتاب کے مواد کو تشکیل دی سکتی ہیں۔
4۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے، مزاحمتی محاذ ایران سمیت اپنے تمام اراکین کے لیے قلیل مدتی سرمایہ کاری بھی ہے اور طویل مدتی بھی، حربہ (Tactic) بھی ہے اور تزویراتی حکمت عملی بھی، اور اب تک یہ ایران اور اس کے باقی اراکین کے لیے بہت فائدہ مند رہا ہے۔ اگر محاذ مزاحمت نہ ہوتا ایران، شام، عراق، لبنان، یمن اور بہت سے دوسرے ممالک - جنہیں محاذ مزاحمت نے فائدہ پہنچایا ہے اور بہت سے بین الاقوامی اور علاقائی خطروں سے محفوظ رکھا ہے - کی حکومتوں کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ اگر محاذ مزاحمت نہ ہوتا تو شدید معاشی پابندیآں ممکن تھا کہ ان ممالک کی حکومتوں کو گرا دیتیں اور ان ممالک کی حکومتیں اپنے معاشی معاملات کے انتظام کی صلاحیت کھو دیتیں۔ اگر محاذ مزاحمت نہ ہوتا تو عراق، شام اور لبنان کی معیشت کا شیرازہ بکھر جاتا کیونکہ امریکیوں نے مزاحمتی محاذ کے ہر رکن کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگا کر مستعدی سے ان کے معاشی زوال کے لئے مربوط منصوبہ بندی کی ہے۔
آج، اسلامی مزاحمت عالمی سلامتی، معیشت اور سیاست کے شعبوں سے متعلق فیصلہ ساز اداروں میں بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر کردار ادا کرنے کے مواقع حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے، اس نے مزاحمت مخالف فیصلہ سازیوں کو روکا ہے اور اپنے اراکین کے لیے اقتصادی، سیاسی، اور دیگر شعبوں میں کامیابیوں کے راستے کھول لئے ہیں۔ تنقید کرنے والے تنقید کرتے رہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ حالیہ عشروں میں اسلامی مزاحمت اپنی تشکیل کے مراحل طے کرچکی ہے؛ جن ممالک میں اسلامی مزاحمت موجود ہے، امریکہ اور اس کے عبرانی اور عربی اتحادیوں کی سازشوں کے باوجود، وہاں کی حکومتوں کا تختہ نہیں الٹا جا سکا ہے؛ مقاومت کا کوئی مورچہ دشمن کے ہاتھ فتح نہیں ہؤا ہے، کوئی بھی رکن اس محاذ سے الگ نہیں ہؤا ہے اور کسی اور جانب مائل نہیں ہؤا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ مزاحمت کی طرف رجحان میں اضافہ ہؤا ہے۔ اور محاذ مزاحمت کے اراکین کے باہمی اقتصادی، سیاسی، ثقافتی اور فوجی تعلقات نیز سلامتی کے شعبے میں تعاون، کے فروغ کے لئے اندرونی ڈھانچوں میں اصلاحی اقدامات بھی پیش نظر ہیں تاکہ تعلقات کی توسیع اور مشترکہ فائدے کے جصول سے متعلق منصوبوں کو فکرمندی کے بغیر، آسانی سے عملی جامہ پہنایا جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: ڈاکٹر سعد اللہ زارعی، روزنامہ کیہان
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110