اشارہ :
«سید ضیاءالدین شہرستانی» حوزہ ہائے قم و نجف کے تعلیم یافتہ ہیں اور بیروت یونیورسٹی سے تربیتی امور (ایجوکیشن﴾ میں پی ایچ ڈی کرچکے ہیں. عراق کے موجودہ حکام میں سے کئی افراد ان کے شاگرد رہے ہیں. انہوں نے ہجرت کے بعد 9 سال کینیڈا میں گذارے اور آخرکار «الحکمہ ثقافتی مرکز» کے نام سے ایک شیعہ ثقافتی و تبلیغی مرکز اور اسی مرکز سے وابستہ اسلامی یونیورسٹی کے قیام کے لئے قانونی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے. ان کا کہنا ہے کہ دیگر ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ مسامحہ اور نرم رویہ اور ان کی بات سننا اور منفی رد عمل نہ دکھانا اس امر کا باعث ہؤا ہے کہ اس مرکز میں تمام ادیان کے پیروکار اکٹھے ہوتے ہیں اور یہاں رہ کر اہل بیت اور شیعیان اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات سے متاثر ہوجاتے ہیں.
ڈاکٹر صاحب اپنے فرزند ارجمند ـ ڈاکٹر سید عبدالمجید شہرستانی ـ کے ہمراہ ایران تشریف لائے تھے اور خداوند متعال نے ہمیں اہل بیت نیوز ایجنسی (ابنا﴾ کی طرف سے ان کے ساتھ انٹرویو ترتیب دینے کی توفیق دی. «جناب حجةالاسلام والمسلمیں حسنزادہ» اس کار خیر کا واسطہ بنے جن کا ہم شکریہ ادا کرتے ہیں:
...................
مذاکرہ : سید علیرضا حسینی عارف ـ رضا لکزایی
تصاویر: حسن مولادوست
ترجمہ اردو: ف.ح.مہدوی
...................
ابنا: ڈاکٹر شہرستانی صاحب ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں وقت دیا ہم ابتداء میں پوچھنا چاہتے ہیں کہ آپ کی فعالیت کے علاقے میں شیعیان اہل بیت علیہم السلام کی آبادی کتنی ہے؟
ڈاکٹر شہرستانی: بسم اللہ الرحمن الرحیم. مجھے بھی خوشی ہی کہ مجھے یہ موقع مل گیا تا کہ آپ کی نیوز ایجنسی کا معائنہ کروں اور آپ کے ساتھ گفتگو کروں.
کینیڈا میں بری تعداد میں شیعیان آل رسول اللہ صلی علیہ و آلہ و سلم رہتی ہیں جو اکثر ایرانی، عرب، پاکستانی اور افریقی نژاد مہاجر ہیں پھر ان کی دوسری یا تیسری نسلیں ہیں. پوری کینیڈا میں رہنے والی شیعیوں کی تعداد تو دقیقا (﴾ مجھے معلوم نہیں ہی مگر میں مونتریال میں رہتا ہوں جس کی آبادی چالیس لاکھ اور ان میں ایک لاکھ افراد شیعہ ہیں جن میں سی 60 ہزار افراد لبنانی ہیں. اس شہر میں 21 شیعہ حسینیات اور دینی مراکز واقع ہیں جو مثلا "حسینیہ ایرانیان "، "حسینیہ کربلائیان"، "حسینیہ خوجگان" اور "حسینیہ پاکستانیان" جیسے ناموں سے مشہور ہیں.
ابنا: ڈاکٹر صاحب ہمارے قارئین وصارفین کو کینیڈا کے دارالحکمت کلچرل انسٹٹیوت کے بارے میں بتائیں.
ڈاکٹر شہرستانی: جی ہاں دارالحکمت کلچرل انسٹٹیوت ایک کینیڈین ادارہ ہے جس کی بنیاد تعلیمات اہل بیت علیہم السلام کی ترویج اور مسلمانوں کی خدمت کی غرض سے رکھی گئی ہے اور ایک قانونی ادارہ ہے جو قانونی مراحل طی کرنے کے بعد تشکیل پایا ہے اور کینیڈا میں دینی و مذہبی آزادی کے پیش نظر ہم سنہ 1426 ہجری بمطابق 2006 عیسوی کو اس ادارے کی باضابطہ منظوری لینے میں کامیاب ہوئے . ہمارا مقصد یہ ہے کہ یہ ادارہ تشیع کے لئے مرکز کا کردار ادا کرے چنانچہ ہم کسی حکومت، جماعت، مرکز یا حتی کسی بھی مرجع تقلید سے وابستہ نہیں اور ہم نے سب سے پہلے جو اقدام کیا وہ یہ تھا کہ ہم نے «جامعة دارالحکمة الکندیة المفتوحة = Dar ul-Hekmah Open University of Canada » نامی مجازی (Virtual) یونیورسٹی کی بنیاد رکھی.
ابنا: دارالحکمہ ثقافتی اداریے کے اہداف و مقاصد کیا ہیں ؟ کیا یہ ادارہ صرف اہل تشیع کو ہی حمایت فراہم کرتا ہے؟
ڈاکٹر شہرستانی: ہمارے مختلف تعلیمی و تربیتی اور تبلیغی و ثقافتی پروگرام و منصوبے ہیں. ہم نے کئی کمیٹیان قائم کی ہیں جیسے «تحقیقات کمیٹی» «مستبصرین کمیٹی = (جو نئے شیعہ ہونے والے مراکشی، تیونسی و... افراد کے امور کے لئے قائم کی گئی ہے»، «ایڈمشن کمیٹی» وغیرہ اس ادارے میں سرگرم عمل ہیں. ہم ہر دو ہفتوں میں ایک بار مختلف زبانوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے پروگرام ترتیب دے کر انہیں ضروری دینی مسائل سکھاتے ہیں.
ادارے کو رجوع کرنے والے اکثر افراد کا مقصد «شیعہ شناسی» اور «مکتب تشیع کی شناخت کا حصول ہے چنانچہ ہمارے ادارے کے بعض ارکان سنی اور حتی کہ یہودی اور عیسائی ہیں جو مکتب اہل بیت (ع﴾ کی شناخت کی غرض سے ہمارے ادارے میں آئے ہوئے ہیں میں بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہم سیاسی نہیں ہیں بلکہ صرف مذہبی مسائل میں مصروف عمل ہیں.
ابنا: پس کہا جاسکتا ہے کہ دیگر ادیان و مذاہب کی ساتھ آپ کی اس اداری کی تعلقات اچھی ہیں؟
ڈاکٹر شہرستانی: جی ہاں ہمارا تعلق یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ مثبت ہے اہل سنت کے پیروکاروں کے ساتھ بھی ہمارا تعلق مثبت ہے اور ان کے ساتھ قرآن کی آیت شریفہ کے مطابق میل جول رکھتے ہیں جہاں ارشاد ہوتا ہے :« ادْعُ إِلِى سَبِیلِ رَبِّک بِالْحِکمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْہم بِالَّتِی هی أَحْسَنُ... »(حکمت و خیرخواہانہ نصیحت کے ساتھ لوگوں کو راہ خدا کی طرف بلاؤ اور ان کے ساتھ اس روش کے ساتھ بحث و مجادلہ کرو جو بہتر ہو "النحل 125"﴾ اور ہماری کوشش یہ ہے کہ ان کو بتادیں کہ شیعہ اور تکفیریوں کے درمیان فرق ہے.