اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : kheybar.net
اتوار

9 اگست 2020

6:30:00 PM
1061420

انسانی اسمگلنگ؛ جدید غلامی کا جدید طریقہ

اعدادوشمار کے مطابق ، دنیا کے 127 ممالک انسانی اسمگلنگ کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ آئرش اخبار نے اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ بدن کے اعضاء دولت مند صہیونیوں کو فروخت کیے جاتے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ آج انسان جتنا دین سے دور ہو کر جدیدیت کی طرف بڑھ رہا ہے، انحراف اور گمراہی کے تاریکیوں میں اتنا زیادہ گم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں عصر جاہلیت کے جرائم ایک نئی شکل و صورت اختیار کر رہے ہیں۔ جن میں سے اہم ترین غلامی ہے۔
انسانی سمگلنگ جدید غلامی کی ایک قسم ہے جس میں غریب اور فقیر لوگوں کو اسمگل کیا جاتا ہے۔ اسمگلنگ کی تین قسمیں ہیں:
۔ بدکاری کا رواج
۔ انسانوں کی اسمگلنگ
۔ بدن کے اعضا کی اسمگلنگ
اعدادوشمار کے مطابق ، دنیا کے 127 ممالک اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ آئرش اخبار نے اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ بدن کے اعضاء دولت مند صہیونیوں کو فروخت کیے جاتے ہیں۔ ایران کے افق چینل نے انسانی اعضا کی اسمگلنگ کے حوالے سے  ایک ڈاکومنٹری نشر کی اور اس پر تبصرہ کے لیے ڈاکٹر ’علی رضا سلطان شاہی‘ کے ساتھ گفتگو کی ہے جسے چند حصوں میں قارئین کے لیے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛
 
انسان نام کے سامان کی خرید و فروخت
اینکر: اسمگلنگ کی مختلف قسمیں ہیں۔ لیکن بدن کے اعضا کی اسمگلنگ غیر معقول کام ہے۔ ہم صہیونی حکومت کو اس میدان میں سرگرم کارکنوں کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے۔
ڈاکٹر سلطان شاہی: اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کرنے سے پہلے مناسب سمجھتا ہوں کہ تمہیدی طور پر ایک مقدمہ بیان کروں۔ کچھ وجوہات کی بنا پر اگر کسی انسان کا کوئی عضو ناقص ہو جائے تو کوئی شخص جانفشانی اور فداکاری کرتے ہوئے اپنا کوئی عضو اسے عطیہ کر دے تو یہ اس انسان کی بزرگی اور کرامت ہے۔ لیکن اسمگلنگ کا مسئلہ بالکل الگ ہے۔ اس میں کوئی ایسی نیت نہیں ہوتی۔ اس کام میں زیادہ منفعت ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ اپنا کوئی عضو دوسرے کو فروخت کر دیتے ہیں، اس کا نام تجارت ہے انسانی شرافت اور کرامت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مفاد پرست لوگ مختلف طریقوں سے چاہے وہ انسانوں کی اسمگلنگ کر کے یا ان کے اعضاء کی اسمگلنگ کر کے اپنے بازار کو رونق دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ ڈاکومنٹری جو نشر کی گئی در حقیقت دو ریٹائرڈ پولیس افسران سے شروع ہوتی ہے، جن میں سے ایک گیڈی نامی اسرائیلی افسر ہوتا ہے اور دوسرا ایوان نامی برازیل کا رہنے والا۔ اصل قضیہ یہ ہے کہ یہ دونوں اعضا کی اسمگلنگ کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ اور حقائق کو برملا کرنے کے جرم میں کئی سال جیل میں بھیج دیے جاتے ہیں۔
یہ دو افراد اپنی تحقیقات کے دوران ایسے افراد کے پاس جاتے ہیں جو فقر و تنگدستی یا جہالت کی وجہ سے اپنے بدن کے اعضا خصوصا گردے بیچ ڈالتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ جنگیں جو اسرائیلیوں اور یہودیوں کے یہاں ہوتی رہی ہیں ان میں مارے جانے والوں کے بدن کا پوسٹ ماٹم کر کے ان کے سالم اعضا کو فروخت کیا جاتا تھا نہ صرف جنگ میں مارے جانے والے بلکہ وہ افراد جنہیں پھانسی دی جاتی تھی ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا تھا۔
ان ریٹائرڈ افسران کی زبان سے وضاحت کے بعد دو چچازاد بھائیوں کے پاس جاتے ہیں کہ جنہوں نے فقر و ناداری کی وجہ سے اپنے گروں کو فروخت کیا ہوتا ہے، برازیلیوں کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کو مرنے کے بعد سردخانے میں منتقل کیا جاتا تھا اور ان کے بدن سے تمام اندرونی اعضا نکال لئے جاتے تھے تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اس ہسپتال میں کام کرنے والا عملہ اسرائیلی تھا۔

اعضا کی اسمگلنگ
ترکی میں مقیم ایک ڈاکٹر جس کا پیشہ ہی پیوند کاری کا ہوتا ہے، اس کو گرفتار کر کے اس سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے: میں نے کوئی غلطی نہیں کی ہے اور اس بار میرے کندھوں پر کسی کا کوئی بوجھ نہیں ہے، وہ صرف آپریشن کے لئے میرے پاس آئے تھے۔ میں نے قانون کے مطابق کوئی غلطی نہیں کی۔
انسان شناسی کے ماہر استاد ڈاکٹر شیرہاف، اس موضوع پر تجزیہ کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ کچھ زندہ افراد بھی اس خطرے میں ہیں کہ ان کے بدن کے اعضا نکال لیے جائیں عام طور پر ترقی پذیر ممالک جیسے امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب وغیرہ تیسری دنیا کے لوگوں کو اپنا شکار بناتے ہیں۔ اور انہیں دوسرے ملکوں میں جاب دلانے کے بہانے لے جاتے ہیں اور وہاں تشدد، طاقت اور وباؤ سے انہیں اعضا کا عطیہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔  

ڈیوک نامی ایک شخص نیپال میں رہتا ہے اور چھوٹی عمر میں اپنے گاؤں سے کھٹمنڈو چلا جاتا ہے۔ وہ وہاں کام کرنے لگتا ہے؛ مالی اور معاشی دباؤ اسے اپنے گردے فروخت کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ اس کام کے لیے دلالی شروع کر لیتا ہے۔
وہ تین آدمیوں کو اپنے اعضا بیچنے کی دعوت دیتا ہے اور انہیں موٹی رقموں اور جاب کی لالچ دیتا ہے۔ وہ تینوں آدمی اس کے کہنے میں آ جاتے ہیں اور وہ انہیں بیہوش کروا کر ان کے بدن سے گردے نکلوا لیتا ہے اور اس کے بعد نہ پیسہ اور نہ ہی جاب انہیں نصیب ہوتی ہے۔
اس ڈاکومنٹری میں پھر اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ اس معاملے میں قصور وار کون ہے؟
جاری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲