ایرانی صدر کے بیجنگ کے دورے اور چین اور روس کے رہنماؤں سے ملاقات کے ساتھ ہی، صہیونی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے تہران کے ماسکو اور بیجنگ کے ساتھ گہرے ہوتے ہوئے تعلقات اور خطے میں آنے والی تبدیلیوں پر اس کے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سابق ایرانی سفارتکار نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا: نیتن یاہو کا کہنا ہے: "[آبادکار] مظاہرین فسطائیت پر مبنی اقدامات کر رہے ہیں، وہ تمام حدود کو پھلانگ چکے ہیں، گاڑیوں کو نذر آتش کرتے ہیں، اموال و املاک کو تباہ کر دیتے ہیں، اور سڑکوں کو بند کر دیتے ہیں، اور مجھے اور میرے اہل خانہ کو قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں۔۔۔ "چاہ کن را چاہ درپیش" (دوسروں کے لئے کنواں کھودنے والا بالآخر کنویں میں گرتا ہے)۔
بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || غزہ میں شہید ہونے والی کئی خواتین_صحافیوں کی تصاویر، جو ہزاروں دیگر خواتین کے ہمراہ غاصب صہیونی ریاست کے ہاتھوں شہید ہوئیں! کہاں ہیں انسانی حقوق کے نعرے باز؟ اور کہاں ہیں حقوق نسوان کے جھوٹے علمبردار جو مغرب کو دستاویز فراہم کرنے کے لئے اپنے ہی ملکوں کو عورتوں کے حقوق کی پامالی کا ملزم ٹہرا کر بدنام کرتے ہیں؟ کہاں ہیں مغربی حکمران جو ایسے ہی بہانوں سے ممالک پر پابندیاں تک لگا دیتے ہیں! مغربی رہنما نہ صرف اس حقیقی اور آنلائن ہالوکاسٹ کی مذمت کرنے سے گریز کر رہے ہیں، بلکہ صہیونی ریاست کو ہتھیار فراہم کرکے اس کی حمایت کر رہے ہیں اور ان خواتین جیسی ہزاروں دوسری خواتین، بچوں اور بڑوں کے قتل میں برابر کے شراکت دار بنے ہوئے ہیں، اور اب بھی عالم عرب اور عالم اسلام میں کچھ مغرب نواز اور صہیونی نواز عناصر ان خون آشاموں کے چہرے کو سفید کرنے میں مصروف ہیں اور وہ بھی ہر جہت سے، اس قتل عام میں شریک اور برابر کے مجرم ہیں۔
حالیہ برسوں میں، ایران اور چین کے تعلقات قربت کی جانب ایک فطری اور گہری روند طے کر چکے ہیں۔ دنیا کے دو قطبی نظم سے بعد از دو قطبیت کی جانب حرکت، اور ممالک کی کثیر قطبی نظام تشکیل دینے کی کوششوں نے ایران اور چین کے قریب آنے کی راہ ہموار کی ہے۔ یہ روند تقریباً 2010 سے شروع ہوئی اور خطے میں حالیہ تبدیلیوں، خاص طور پر غزہ کے واقعات اور مغربی ایشیا کی عسکری ردعمل، سے مزید تیز ہو گئی ہے۔
ٹرمپ نے گذشتہ منگل کی رات اپنے تازہ ترین انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ "ریاستہائے متحدہ کے بغیر، دنیا کی ہر چیز مر جائے گی"، ایک ایسا بیان جسے بہت سے غیر ملکی صارفین مسترد کرتے ہیں۔