3 مارچ 2014 - 20:30
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی چالیس حدیثیں

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی حجت کو اپنی دیگر مخلوقات کے سلسلے میں ہر شیٔے سے آگاہ فرمایا ہے اور اس کو ہر زبان، تمام انسانوں کے حسب ونسب، موت کے اوقات اور حادثات سے آگاہ کر دیا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو حجت اور محجوج میں کوئی فرق ہی نہ رہ جاتا۔

  

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۔ قالَ الإمامُ أبُو مُحَمَّد الْحَسَنِ الْعَسْكَرى (عليه السلام): 

 

1۔ اللہ کی حجت ہر چیز سے آگاہ 

 

إنَّ اللهَ تَبارَكَ وَ تَعالى بَيَّنَ حُجَّتَهُ مِنْ سائِرِ خَلْقِهِ بِكُلِّ شَىْء، وَ يُعْطِيهِ اللُّغاتِ، وَمَعْرِفَةَ الاْنْسابِ وَالاْجالِ وَالْحَوادِثِ، وَلَوْلا ذلِكَ لَمْ يَكُنْ بَيْنَ الْحُجَّةِ وَالْمَحْجُوحِ فَرْقٌ۔  

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی حجت کو اپنی دیگر مخلوقات کے سلسلے میں ہر شیٔے سے آگاہ فرمایا ہے اور اس کو ہر زبان، تمام انسانوں کے حسب ونسب، موت کے اوقات اور حادثات سے آگاہ کر دیا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو حجت اور محجوج میں کوئی فرق ہی نہ رہ جاتا۔

 

2۔ ایمان کی پانچ علامتیں 

 

عَلامَةُ الاْيمانِ خَمْسٌ: التَّخَتُّمُ بِالْيَمينِ، وَ صَلاةُ الإحْدى وَ خَمْسينَ، وَالْجَهْرُ بِبِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحيم، وَ تَعْفيرُ الْجَبين، وَ زِيارَةُ الاْرْبَعينَ۔

 

ایمان کی پانچ علامتیں: دائیں ہاتھ میں انگشتری پہننا، 51 رکعت نماز پڑھنا، بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہنا ، خاک پر سجدہ کرنا اور زیارت اربعین پڑھنا۔

 

[واضح رہے کہ ظہر و عصر کی نمازوں میں بسم اللہ کو اونچی زبان میں پڑھنا مقصود ہے جبکہ باقی نماز جہر کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں چنانچہ ان میں بسم اللہ بھی جہر سے پڑھی جائے گی]۔

 

3۔ بےشک تفکر عبادت ہے 

 

لَيْسَتِ الْعِبادَةُ كَثْرَةُ الصّيامِ وَالصَّلاةِ، وَ إنَّمَا الْعِبادَةُ كَثْرَةُ التَّفَكُّرِ في أمْرِ اللهِ۔ 

 

زیادہ روزے اور نماز [ہی] کا نام عبادت نہیں ہے بلکہ عبادت اللہ کے قدرت کے امور میں زیادہ سے زیادہ غور و تفکر ہے۔

 

[نماز بھی حضور قلب کے ساتھ اللہ کے ساتھ حقیقی رابطہ کرنے اور اس کی عظمت میں تفکر کا نام ہے]۔

 

4۔ ان سے برتر کوئی خصلت نہیں

 

خَصْلَتانِ لَيْسَ فَوْقَهُما شَىْءٌ: الاْيمانُ بِاللهِ، وَنَفْعُ الاْخْوانِ۔  

 

دوصفتوں سے بالاتر کوئی صفت نہیں ہے، اللہ پرایمان رکھنا اوردوستوں اور بھائیوں کو فائدہ پہنچانا۔

 

5۔ لوگوں کے ساتھ خوش کلامی

 

قال عليه السلام فى تفسير قوله تعالى «وَقُولُوا لِلنّاسِ حُسنا» (*) قالَ: قُولُوا لِلنّاسِ كُلِّهُم حُسنا مُؤمِنَهُم وَ مُخالِفَهُم، أمّا المؤمِنونَ فَيَبسُطُ لَهُم وَجهَهُ وَ أمّا المُخالِفونَ فَيُكَلِّمُهُم بِالمُداراةِ لاِجتِذابِهِم اِلىَ الايمانِ۔  فَاِنِ استَتَرَ مِن ذلِكَ بِكفِّ شُرورِهم عَن نَفسِهِ وَ عَن اِخوانِهِ المُؤمِنينَ

 

اام علیہ السلام نے "آیت کریمہ "اور لوگوں کے ساتھ حسن گفتار سے کام لینا" کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: تمام لوگوں سے حسن کلام سے بات کرو چاہے وہ مؤمن ہوں چاہے مخالف ہوں؛ پس مؤمنین کے لئے مؤمن خندہ پیشانی کے ساتھ بات کرتا ہے اور مخالفین کے ساتھ رواداری کے ساتھ تاکہ انہيں ایمان کی طرف مائل کرے اور اگر مائل نہ بھی ہوں اس (مؤمن) نے اس طرز عمل کے ذریعے اپنے اور مؤمن بھائیوں کے حق میں ان کی بدی اور شر کا سد باب کیا ہے۔

 

6 ۔ کس کی دوستی بہتر ہے؟

 

اللِّحاقُ بِمَنْ تَرْجُو خَيْرٌ مِنَ المُقامِ مَعَ مَنْ لا تَأْمَّنُ شَرَّهُ

 

اس شخص کے ساتھ دوستی اور معاشرت بہتر ہے جس سے تم بھلائی کی امید رکھتے ہو اس شخص کی نسبت جس کے شر سے محفوظ نہیں ہو۔

 

7۔ افواہ پھیلانا اور اقتدار طلب کرنا!

 

إيّاكَ وَ الاْذاعَةَ وَ طَلَبَ الرِّئاسَةِ، فَإنَّهُما يَدْعُوانِ إلَى الْهَلَكَةِ  

 

افواہ پھیلانے اور اقتدار طلبی سے پرہیز کرو کیونکہ یہ دونوں مسائل انسان کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔

 

8۔ بچپن میں والدین کے ساتھ بےادبی کا ثمرہ

 

جرأة الولد علیٰ والده في صغره تدعوا الیٰ العقوق في كبره

 

بچپن میں باپ کی نسبت بیٹے کی گستاخی بڑی عمر میں اس کی نافرمانی اور عاق ہونے کا سبب ہے۔

 

9۔ چہرہ اور عقل

 

حُسْنُ الصُّورَةِ جَمالٌ ظاهِرٌ، وَ حُسْنُ الْعَقْلِ جَمالٌ باطِنٌ  

 

چہرے کا حسن ظاہری خوبصورتی ہے اور عقل کا حسن باطن کی خوبصورتی ہے۔

 

10۔ رازداری میں نصیحت  

 

مَنْ وَعَظَ أخاهُ سِرّاً فَقَدْ زانَهُ، وَمَنْ وَعَظَهُ عَلانِيَةً فَقَدْ شانَهُ

 

جو اپنے بھائی کو رازداری میں نصیحت کرے تو گویا اس نے اس کو زینت بخشی ہے اور جو برملا اس کو نصیحت کرے تو گویا اس نے اس کی حیثیت کو داؤ پر لگایا ہے۔

 

11۔ لوگوں سے شرم اور تقوائے الہی

 

مَنْ لَمْ يَتَّقِ وُجُوهَ النّاسِ لَمْ يَتَّقِ اللهَ  

 

جو شخص لوگوں کے سامنے لاپروا اور جری ہو وہ اللہ سے بھی نہيں ڈرتا۔

 

12۔ ذلت آمیز امور کی طرف رغبت