ابنا: جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر کا کیساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ اصل میں امن و امان کا مسئلہ مقامی نہیں ہے بلکہ قومی اور ملکی سطح سے بھی اوپر کا، بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ افغانستان اور فاٹا کے حالات ہمارے صوبے پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ان حالات پر قابو پانے کیلئے مذاکرات ہی راستہ ہیں۔ جب تک افغانستان کے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے تو فاٹا کے حالات کو درست نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مقامی مسئلہ نہیں، بلکہ بین الاقوامی حالات یہاں اثر انداز ہو رہے ہیں۔ صوبہ کے آئی جی تبدیل ہوچکے ہیں، اور کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ دہشتگردی پر قابو پانے کیلئے ایک فورس بھی بنائی جائے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان حالات کا مقابلہ ان اقدامات سے نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اس کے باوجود ہماری حکومت اپنے طور پر جو ممکن ہوسکتا ہے، کر رہی ہے۔امریکی امداد ہمارے مسائل کا حل نہیں بلکہ ہمارے لئے مسئلہ اور غلامی ہے، پروفیسر ابراہیم جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان 28 ستمبر 1954ء کو ہنجل امیر خاں ضلع بنوں میں پیدا ہوئے، آپ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوگئے۔ جس کے بعد آپ جماعت اسلامی پاکستان سے وابستہ ہوئے اور پھر 1981ء سے 1982ء تک قیم جماعت اسلامی بنوں اور 1982ء سے 1984ء تک قیم جماعت اسلامی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ 1982ء میں تعلیم کی تکمیل کے بعد پروفیسر ابراہیم صاحب کی گومل یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں بطور لیکچرار تقرری ہوئی اور یہاں پر 1985ء تک خدمات انجام دیتے رہے، جون 1985ء میں قیم جماعت اسلامی صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) مقرر ہوئے اور 1994ء تک خدمات سرانجام دیتے رہے، اپریل 1994ء میں جماعت اسلامی صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کے امیر منتخب ہوئے اور اکتوبر 2003ء کو سینٹ آف پاکستان کے ممبر منتخب ہوئے، اس کے بعد فروری 2006ء میں دوبارہ رکن سینٹ کے لیے آپ کا انتخاب عمل میں آیا۔ پروفیسر ابراہیم کا شمار صوبہ کی اہم مذہبی و سیاسی شخصیات میں ہوتا۔ اسلام ٹائمز نے پروفیسر ابراہیم خان صاحب کے ساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)
اسلام ٹائمز: آپ کی جماعت خیبر پختونخوا حکومت کا حصہ ہے اور صوبہ اس وقت شدید دہشتگردی کا شکار ہے، اس مسئلہ پر قابو پانے کیلئے صوبائی حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے اور یہ مسئلہ کب اور کیسے حل ہوگا۔؟پروفیسر ابراہیم خان: اصل میں امن و امان کا مسئلہ مقامی نہیں ہے بلکہ قومی اور ملکی سطح سے بھی اوپر کا بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ افغانستان اور فاٹا کے حالات ہمارے صوبے پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ان حالات پر قابو پانے کیلئے مذاکرات ہی راستہ ہیں۔ جب تک افغانستان کے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے تو فاٹا کے حالات کو درست نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مقامی مسئلہ نہیں، بلکہ بین الاقوامی حالات یہاں اثر انداز ہو رہے ہیں۔ صوبہ کے آئی جی تبدیل ہوچکے ہیں، اور کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ دہشتگردی پر قابو پانے کیلئے ایک فورس بھی بنائی جائے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان حالات کا مقابلہ ان اقدامات سے نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اس کے باوجود ہماری حکومت اپنے طور پر جو ممکن ہوسکتا ہے، کر رہی ہے۔
اسلام ٹائمز: جب صوبائی حکومت میں شامل تینوں جماعتیں طالبان کیساتھ مذاکرات کی حامی ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ سب سے زیادہ یہی صوبہ دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے۔؟پروفیسر ابراہیم خان: بین الاقوامی حالات کا اثر ہے، افغانستان کے حالات آپ کے سامنے ہیں، فاٹا کے حالات کا بھی اثر ہے۔ صرف ہم مذاکرات کے حامی نہیں ہیں، بلکہ 9 ستمبر کو منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک تمام جماعتوں نے مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود صرف ہمارے صوبے کے نہیں بلکہ پورے ملک کے حالات ایسے ہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف ہم مذاکرات کیلئے آمادہ ہوجائیں تو امن آجائے گا اور اگر مذاکرات کیلئے آمادہ نہیں ہیں تو امن نہیں ہوگا۔ صرف مذاکرات کی آمادگی کافی نہیں، اس کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اور اس کی بنیاد پر ہی امن آسکتا ہے۔
اسلام ٹائمز: آپ نے اقدامات کا ذکر کیا، سننے میں یہ آیا ہے کہ سراج الحق صاحب اور مولانا سمیع الحق اس سلسلے میں طالبان کیساتھ مذاکرات کرچکے ہیں، اس بارے میں آپ کی کیا معلومات ہیں۔؟پروفیسر ابراہیم خان: سمیع الحق صاحب ہمارے صوبے کے عالم دین ہیں، اور اکوڑہ خٹک میں ان کا دارالعلوم ہے۔ وہ سالہا سال تک سینٹ کے ممبر رہے ہیں، ان کیساتھ ملاقات کا مقصد طالبان کیساتھ مذاکرات نہیں ہیں۔ ان کیساتھ صرف سراج الحق صاحب ہی نہیں بلکہ ہمارے وزیراعلٰی بھی ملے ہیں، مرکزی حکومت کے نمائندے اور دیگر سیاسی لوگ بھی ان سے ملتے رہے ہیں۔ لہذا مولانا سمیع الحق صاحب مذاکرات میں کردار تو ادا کرسکتے ہیں، لیکن مولانا سمیع الحق صاحب خود طالبان نہیں ہیں۔
اسلام ٹائمز: پروفیسر صاحب میں نے سراج الحق صاحب کی مولانا سمیع الحق صاحب کیساتھ ملاقات کا سوال نہیں کیا، بلکہ یہ پوچھا ہے کہ میڈیا پر یہ خبریں آئی تھیں کہ سراج الحق اور مولانا سمیع الحق نے طالبان رہنماوں سے خفیہ ملاقات کی ہے۔؟پروفیسر ابراہیم خان: مجھے اس بارے میں علم نہیں۔
اسلام ٹائمز: آپ کی جماعت صوبائی حکومت میں رہتے ہوئے اپنے انتخابی منشور پر علمدر آمد کروانے میں کس حد تک کامیاب ہوئی ہے۔؟پروفیسر ابراہیم خان: گذشتہ حکومت نے نصاب میں کئی تبدیلیاں کی تھیں، اس پر ہمارے تحریک انصاف کیساتھ مذاکرات بھی ہوئے اور عمران خان صاحب کیساتھ ملاقات بھی ہوئی۔ تحریک انصاف اور ان کے قائد نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ جو سابقہ دور میں تبدیلیاں کی گئی تھیں ہم انہیں واپس پہلے والی پوزیشن پر لائیں گے۔ اور نصاب میں اسلامی موضوعات کو دوبارہ شامل کیا جائے گا۔ اصل میں ہمارا قانون سازی کا جو نظام ہے، اس میں زیادہ تر اختیارات وفاقی حکومت اور پارلیمنٹ کے پاس ہیں۔ صوبائی حکومت اور صوبائی اسمبلی کا اختیار اس میں بہت ہی کم ہے۔ یعنی جو ہمارے اختیار میں ہوگا اس حوالے سے ہم اپنی پوری کوشش کریں گے۔
اسلام ٹائمز: بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے جماعت اسلامی جماعتی بنیادوں پر انتخاب کرانے کی حامی ہے یا غیر جماعتی بنیاد پر۔ اور تین صوبے تو بلدیاتی الیکشن کی تاریخ دے چکے ہیں، خیبر پختونخوا میں کب الیکشن کرائے جائیں گے۔؟پروفیسر ابراہیم خان: ہماری حکومت میں اس بات پر اتفاق ہے اور اسمبلی مین بل پیش کیا جاچکا ہے، جو کمیٹی کے حوالے ہے۔ اس کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کی نمائندگی موجود ہے اور یہ کوشش ہو رہی ہے کہ حالیہ جاری اجلاس میں یہ بل پاس کرکے ہم بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے اقدامات کریں۔
اسلام ٹائمز: وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ امریکہ اور اس سے قبل امریکہ کی جانب سے پاکستان کیلئے امداد کی بحالی کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟پروفیسر ابراہیم خان: اصلاً امریکی امداد ہمارے مسئلہ کا حل نہیں ہے، وہ ہمارے لئے مسئلہ ہے۔ اگر ہمیں اپنے وسائل میسر آجائیں تو ہمیں کسی امریکی امداد کی ضرورت نہیں، اس وقت ہمارے گھر میں امریکہ ہی کی وجہ سے آگ لگی ہوئی ہے۔ اور ہم امریکہ سے جتنا جلدی پیچھا چھڑا سکیں، یہ ہمارے حق میں بہتر ہوگا۔ امریکی پارلیمنٹ میں تو بات ہوتی ہے ڈیڈ سیلنگ۔ اسی طرح کی ڈیڈ سیلنگ ہماری بھی ہے۔ ہماری گذشتہ حکومتیں اور موجودہ حکومت اس سیلنگ کو کراس کرچکی ہیں۔ جب ہم سینٹ میں تھے تو ہم نے سینٹ میں ایک تحریک استحقاق بھی جمع کرائی تھی کہ سینٹ اور پارلمینٹ کا استحقاق مجروح ہوا ہے کہ پارلیمنٹ سے پوچھے بغیر قرضوں کی سیلنگ کو کراس کیا گیا ہے اور مزید قرضے لئے جا ریے ہیں۔ وہ دن پاکستان کی ترقی کا نکتہ آغاز ہوگا جس دن یہ اعلان ہوجائے کہ ہم مزید قرضے نہیں لیں گے۔ یہ ہمارے لئے خوشی کا دن ہوگا۔ اس وقت بھی لیکج ہے، ہمارے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے ہمارے وسائل کو لوٹا اور بیرون ملک منتقل کیا ہے اور اب بھی منتقل ہو رہے ہیں۔ اگر ہمارے وسائل ہمارے کام آئیں تو ہمیں کسی امریکی امداد کی ضرورت نہیں۔ امریکی امداد غلامی ہے، اس امداد نے آج تک ہمارا کوئی مسئلہ حل نہیں کیا۔ امداد واپس چلی جاتی ہے اور قرضے ہمارے نام لکھے ہوئے موجود ہیں، ہم اربوں اور کھربوں ڈالر کے اب بھی مقروض ہیں۔
.......
/169