ابنا: امن کے نوبل انعام یافتہ امریکی صدر باراک اوباما اس وقت جنگ کی زبردست لابنگ میں مصروف ہیں۔امریکی صدر باراک اوباما، جن کو 2009 میں امن کا نوبل انعام ملا تھا، ہر طریقہ استعمال کرکے شام پر حملے کا آغاز چاہتے ہیں۔ ان کے یہ اقدامات اس حد تک ہیں کہ انہوں نے سنہ 2008 میں اپنے انتخابی حریف سینیٹر جان مک کین تک سے بھی ملاقات کی ہے اور دونوں نے شام پر حملے کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکی کانگریس کے سبھی 535 اراکین باراک اوباما کو شام پر حملے کی اجازت دے رہے ہیں۔ اگرچہ امریکی کانگریس کے اکثر اراکین حکومت شام کے مخالف ہیں اور صدر بشار اسد کی سرنگونی کے خواہاں ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو امریکہ کی طرف سے مشرق وسطی میں ایک اور جنگ شروع کئے جانے کے سلسلے میں تشویش بھی لاحق ہے۔اس وقت امریکہ افغانستان میں جنگ کے سلسلے میں اور پاکستان، یمن اور صومالیہ سمیت دنیا کے کئي علاقوں میں فوجی کارروائيوں میں بے تحاشا رقم خرچ کررہا ہے۔امریکی ٹیکس دہندگان کے اربوں ڈالر اب تک ان جنگوں کی نذر ہوچگے ہیں۔گيارہ ستمبر کے واقعات کے بعد ہونے والی افغانستان اور عراق کی جنگوں میں ایک ٹریلین سے زیادہ ڈالر خرچ ہوئے ہیں جو دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کی سب سے مہنگي جنگيں شمارہوتی ہیں۔دریں اثنا جنگ عراق کے تجربے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جنگ سے پہلے کے اندازے کتنے غلط ہوتے ہیں اور شامی جنگ میں امکانی طور پر ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد امریکی معاشرے کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ہے جو ابھی جنگ افغانستان میں ہلاک ہونے والے اپنے فوجیوں کی لاشوں کو ہی دفن کررہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر وہ منصوبہ جس میں امریکی فوجیوں کو شام بھیجنے کا امکان ہے اسے امریکی کانگریس کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔دوسری طرف امریکی کانگریس کے بہت سے اراکین کو یہ تشویش بھی لاحق ہے کہ شام پر محدود میزائل حملے کا اوباما کا منصوبہ بڑی تیزی کے ساتھ کنٹرول سے باہر ہوجائے گا اور پورا علاقہ آگ کی لپیٹ میں آجائے گا۔اس بات کو اس لحاظ سے اہمیت حاصل ہے کہ حکومت امریکہ کا کوئي بھی عہدیدار اس بات کی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ شام پر میزائل حملہ جنگ کی آگ کو اسرائيل تک نہیں پھیلنے دے گا۔امریکی کانگریس میں اسرائيلی لابی کے لئے یہ مسئلہ دمشق کے مشرق میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال سے بھی زیادہ اہم ہے۔بہرحال، امریکی کانگریس کے کچھ اراکین کے مطابق ان کے ملک پر تو حملہ نہیں ہوا ہے کہ اعلان جنگ کی ضرورت ہو البتہ خود باراک اوباما شام کی خانہ جنگي میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے سلسلے میں ریڈ لائن کھینچ کر شام میں فوجی مداخلت کے لئے جواز تلاش کررہے ہیں۔ان حالات میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اگر اس سلسلے میں کوئي قرارداد پاس نہ کی، جس کا امکان بھی ہے، تو پھر امریکی صدر کے لئے پوری دنیا کے داروغہ کا کردارادا کرنے سے متعلق ضرورت کے بارے میں امریکی کانگریس کو مطمئن کرپانا مشکل ہوجائےگا۔امریکہ کے بعض ذرائع ابلاغ نے باراک اوباما کی طرف سے کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے سلسلے میں ریڈ لائن کھینچنے اور جنگ شام کا مسئلہ کانگریس میں لے جانے کو اوباما کا سب سے بڑا سیاسی جوا قراردیا ہے۔ ایسا جوا جس میں دونوں صورتوں میں، یعنی جنگ میں کودنے یا اس سے پرہیز کرنے میں، خود امریکی صدر کو شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
.......
/169