26 دسمبر 2012 - 20:30

اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو اور چند دن قبل مالی بدعنوانی کے الزام میں اپنے عہدے سے استعفی دینے والے سابق وزیر خارجہ لیبرمین نے منگل کے دن سے باضابطہ طور پر اپنی مشترکہ انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے۔

ابنا: نیتن یاہو نے لیکوڈ پارٹی اور بیتنا پارٹی کے الائنس کی انتخابی سرگرمیوں کی افتتاحی تقریب کے موقع پر اسرائیل کو درپیش چیلنجوں کا ذکر کرتے ہوئے ایران کے ایٹمی پروگرام کی جانب بھی اشارہ کیا۔نیتن یاہو نے اس موقع پر حزب اللہ لبنان اور حماس کی صلاحیتوں ، خطے کی آمر حکومتوں کی سرنگونی ، خطےکے سیاسی حالات اور زوال کا شکار بعض عرب حکومتوں اور اسرائیل کے باہمی تعلقات پر موجودہ صورتحال کے اثرات کو بھی بیان کیا۔ نیتن یاہو نے اسلامی بیداری کو خطے میں انتہا پسند اسلام کی ترویج کے مترادف قرار دیا  اور کہاکہ بعض افراد کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کے آگے سر تسلیم خم ہوجانا چاہۓ  لیکن اس کے ساتھ ساتھ نیتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ ان کی زیر قیادت اسرائیل ایسے موقف کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔صہیونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے حالیہ برسوں کے دوران زوال کی شکار اپنی پوزیشن کو سہارا دینے کے لۓ ہر حربہ استعمال کیا ہے۔ اور ان بیانات سے ان کا مقصد  بائيس جنوری کو ہونے والے انتخابات میں دائیں بازو کے الائنس کی کامیابی کے امکانات میں اضافہ کرنا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں انھوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو اپنے بیانات میں مرکزی حیثیت دی ہے۔ نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی حالیہ تقریر میں بھی ایٹم بم کی ایک تصویر دکھا کر ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کو خطرہ قرار دیا اور ایران کی غلط تصویر پیش کرنے اور اسے ایک خطرہ ظاہر کرنےکی کوشش کی۔ لیکن کسی نے بھی ان کے اس اقدام کو سنجیدگی سے نہ لیا بلکہ عالمی سیاسی میدان میں ان کا یہ اقدام طنز کا موضوع بن گیااور ان کی جگ ہنسائي ہوئی۔نیتن یاہو نے کچھ عرصہ قبل اسرائیل کے سابق وزیر اعظم اسحاق رابین کے قتل کی برسی کے موقع پر صہیونیوں کے اجتماع میں دعوی کیاکہ ایران سالہا سال سے منظم انداز میں اپنا ایٹمی پروگرام آگے بڑھا رہا ہے اور اس نے لبنان اور غزہ میں دہشتگردانہ کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔بوکھلاہٹ کے عالم میں کۓ گۓ بن یامین نیتن یاہو کے اس طرح کے دعوے شائد ان کے نظریات سے اتفاق رکھنے والے افراد کے لۓ دلچسپ ہوں لیکن حقیقت یہ ہےکہ اسرائیل کو اتنے زیادہ مسائل اور مشکلات درپیش ہیں جن کا آسانی کے ساتھ حل کیا جانا ممکن نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو کے بیانات میں یہ بات واضح طور پر دکھائي دیتی ہے کہ اسرائیل اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ غیر مستحکم جانتا ہے ۔ اسرائیل کو اس وقت غزہ اور لبنان میں دہشتگردانہ اقدامات  کے ارتکاب کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں اور  جنگی جرائم کے ارتکاب کے سلسلے میں مذمت  کا سامنا ہے۔ ان حالات میں نیتن یاہو نے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کو خطرہ ظاہر کرنے کی اس طرح کوشش کی ہے جیسے عالمی رائے عامہ کو اسرائیل کے ایٹمی گوداموں میں موجود کم از کم تین سو ایٹمی وارہیڈز کے بارے میں کوئي خبر ہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خطے کی سلامتی کے لۓ واحد خطرہ  اسرائیل کے وہ غیر روائتی ہتھیار ہیں جو اس نے امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کی مدد سے حاصل کۓ ہیں۔ اور یہ ہتھیار عالمی امن کے لۓ بھی خطرہ ہیں۔ لیکن صہیونی حکام انتہائي بے شرمی کے ساتھ ایران پرایٹم بم بنانے کی کوشش کا بے بنیاد الزام لگاتے ہیں۔اس گمراہ کن حکمت عملی کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہےکہ نیتن یاہو بقول ان کے ایران کے خطرے کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ نیتن یاہو نے ایک تیر کے ساتھ دو شکار کرنے کے درپے ہیں۔ ایک جانب تو وہ انتخابات میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور دوسری جانب ایران کو خطرہ ظاہر کر کے خطے میں بحران پیدا کرنے کے درپے ہیں اوریہ حکمت عملی امریکہ اور بعض یورپی ممالک کی ایران مخالف اسٹریٹجی سے ہم آہنگ ہے۔  

.....

/169