اہلِ بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق بھارت سے شائع ہونے والی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق سال 2025 میں اسلاموفوبیا، اجتماعی سزا اور مسلمانوں کے خلاف ادارہ جاتی امتیاز نہ صرف جاری رہا بلکہ بتدریج ایک معمول اور کم لاگت عمل کی صورت اختیار کر گیا، جو ملک کے سیاسی، سماجی اور میڈیا منظرنامے میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2025 کسی نئی سمت کا آغاز نہیں تھا بلکہ ان رویّوں کے استحکام اور معمول بن جانے کی علامت تھا جنہیں کبھی بھی قابلِ قبول نہیں سمجھا جانا چاہیے تھا۔ اسلاموفوبیا، نفرت انگیز تقاریر، اجتماعی سزا اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اس حد تک عام ہو گیا کہ اس کے لیے اب کسی جواز کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق بہت سے بھارتی مسلمانوں کے لیے 2025 کے واقعات کسی اچانک تبدیلی کے بجائے ایک جاری سلسلے کا تسلسل تھے، جہاں ناانصافی کھلے عام جاری رہی اور اس کے خلاف مؤثر مزاحمت کمزور دکھائی دی۔ عوامی تذلیل، پروفائلنگ، منتخب سزا اور اجتماعی الزام روزمرہ زندگی کا حصہ بنتے چلے گئے۔
اس تناظر میں بلڈوزر کارروائیاں ایک نمایاں علامت کے طور پر سامنے آئیں۔ حکام کی جانب سے انہیں “غیر قانونی تعمیرات” کے خلاف کارروائی قرار دیا گیا، مگر عملی طور پر یہ زیادہ تر فرقہ وارانہ کشیدگی یا تشدد کے الزامات کے بعد مسلم آبادیوں، گھروں اور چھوٹے کاروباروں کو نشانہ بناتی رہیں۔ اگرچہ بعض معاملات میں عدالتوں نے مداخلت کی، تاہم پیغام واضح تھا: سزا اجتماعی، فوری اور عوامی ہو سکتی ہے، چاہے جرم ثابت بھی نہ ہوا ہو۔
رپورٹ میں 2025 کے دوران نفرت انگیز تقاریر میں نمایاں اضافے کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ جو زبان کبھی حاشیے پر سمجھی جاتی تھی، وہ سیاسی مرکزی دھارے میں داخل ہو گئی اور بعض منتخب نمائندوں، مذہبی شخصیات اور سیاسی کارکنوں کی جانب سے استعمال کی گئی۔ اس پر سنجیدہ نتائج یا سزاؤں کی عدم موجودگی نے یہ ظاہر کیا کہ ایسی تقاریر نہ صرف قابلِ قبول ہو چکی ہیں بلکہ بعض صورتوں میں سیاسی فائدے کا ذریعہ بھی بن رہی ہیں۔
یہ ماحول زمینی سطح پر تشدد کو بھی بڑھاوا دیتا رہا۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم، ہجومی حملے اور جان لیوا واقعات جاری رہے، جبکہ کئی معاملات میں عدالتی کارروائیاں سست اور غیر متوازن رہیں، جس سے مجرموں میں بے خوفی اور متاثرین میں ریاستی اداروں پر عدم اعتماد مزید گہرا ہوا۔
میڈیا کے بعض حلقے بھی تنقید کی زد میں آئے۔ رپورٹ کے مطابق کچھ ذرائع ابلاغ نے اسلاموفوبک بیانیوں کو تقویت دی، مسلمانوں کو “دوسرا” یا “خطرہ” بنا کر پیش کیا، اور معاشی و سماجی ناکامیوں کو شناخت کی بنیاد پر تنازعات کا رنگ دیا۔
تاہم رپورٹ اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ 2025 صرف مظلومیت کی داستان نہیں تھا۔ شدید وسائل کی کمی کے باوجود مسلم برادریوں نے قانونی جدوجہد، عوامی سطح پر تنظیم سازی، آزاد صحافت اور یکجہتی کے اقدامات کے ذریعے مزاحمت جاری رکھی۔
آخر میں رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ سال 2025 بھارت کے لیے ایک سنگین انتباہ کی حیثیت رکھتا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب امتیاز اور نفرت کو معمول بنا دیا جائے تو جمہوری بنیادیں کمزور ہو جاتی ہیں، مساوی شہریت کا تصور مجروح ہوتا ہے اور انصاف کا پورا نظام خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
آپ کا تبصرہ