اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، آیتاللہ سید یاسین موسوی نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے عراق کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی تجویز اور اس پر بعض عراقی حکام کا ردعمل یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ ملک کی قیادت امریکہ کی سیاسی زبان کے ساتھ کس طرح نمٹ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عراق تمام ممالک کے ساتھ تعلقات چاہتا ہے، مگر یہ تعلقات کبھی بھی اطاعت یا تسلیم پر مبنی نہیں ہونے چاہئیں۔ عراق ایک خودمختار ریاست ہے، اور کوئی بھی اہلِ کار اس کا حق نہیں رکھتا کہ بغیر مشاورت کوئی ایسا فیصلہ کرے جو قومی خودمختاری کو نقصان پہنچائے۔
امام جمعہ بغداد نے اس فیصلے پر بھی تنقید کی جس میں بعض افراد اور گروہوں کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم شامل تھا، اور بعد میں سامنے آئے دستاویزات میں حزب اللہ لبنان اور انصاراللہ یمن کے نام بھی شامل تھے۔ انہوں نے اسے غلط حکمت عملی اور ناقابلِ قبول قرار دیا۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وضاحت کرے کہ ایسا فیصلہ کیسے صادر ہوا، اور خبروں میں اسے امریکی پابندیوں سے بچنے کی کوشش کے طور پر پیش کرنا قابل قبول نہیں۔
آیتاللہ موسوی نے سوال اٹھایا: ’’کیا ہم امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلق چاہتے ہیں یا ایسی وابستگی جو اطاعت پر مبنی ہو؟‘‘ انہوں نے کہا کہ عراق آج بھی امریکی قبضے کی قیمت ادا کر رہا ہے اور اس کے مالی اثاثوں کا ایک حصہ اب تک ایسے نظام کے زیرِ انتظام ہے جس پر امریکی اثر موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ عراق کسی سے دشمنی نہیں چاہتا، مگر کسی طاقت کا تابع بھی نہیں ہو سکتا۔
امام جمعہ بغداد نے کہا کہ عراق کے شیعہ اصولی بنیادیں رکھتے ہیں جن میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ انہوں نے مرجعیتِ نجف کو "سرخ لکیر" قرار دیتے ہوئے کہا کہ لبنان، فلسطین اور دیگر محاذوں پر مزاحمت کی تحریکیں شیعہ شناخت کا حصہ ہیں۔ کسی بھی سطح پر سید حسن نصراللہ یا مزاحمتی تحریک کے خلاف اقدامات کو ’’اعتقادی شناخت پر حملہ‘‘ قرار دیا۔
انہوں نے ان اطلاعات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ امریکہ اور اسرائیل جنوبی لبنان کے عوام کی جبری منتقلی اور اس خطے کے انتظام کو دیگر علاقائی قوتوں کے سپرد کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ یہ وہی پرانے استعماری منصوبے ہیں جن کا مقصد خطے کی اقوام کو تقسیم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے منصوبوں کے حامی، شیعہ مذہبی اجتماعات اور شخصیات کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے، اور رپورٹس میں سید حسن نصراللہ کے جلوسِ تشییع پر حملے کی بات کی گئی ہے۔
بعد ازاں انہوں نے قرآن کی آیات تلاوت کیں جن میں خوف پھیلانے اور فتنہ انگیزی کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے، اور کہا کہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو قوم میں ڈر پیدا کر کے سیاسی فیصلے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آیتاللہ موسوی نے کہا کہ امریکہ بزدل لوگوں کی عزت نہیں کرتا، وہ صرف اُنہیں عزت دیتا ہے جو اس کے سامنے جھک جائیں۔ ’’لیکن ہم امام علیؑ کے ماننے والے ہیں، اور ۱۴ سو برس سے اپنے وقار پر قائم ہیں۔‘‘
خطاب کے اختتام پر انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ وزیراعظم کا امیدوار ایسا ہونا چاہیے جو امریکی اور صہیونی منصوبوں یا سیاسی لکیروں سے وابستہ نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ عراق اور ایران عقیدے اور مرجعیت کے رشتے میں جڑے ہوئے ہیں، اور نئی حکومت کو ایک ایسی قوم کے اصولوں اور قربانیوں کی پاسداری کرنی ہوگی جو اپنی آزادی کی خاطر جانیں دے چکی ہے۔
آخر میں آیتاللہ سید یاسین موسوی نے کہا کہ ’’ہم ایک متحد قوم ہیں اور وہ قوت بنیں گے جو ظہورِ امام موعودؑ کے لیے زمین ہموار کرے گی۔ نئی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ہمارے اصول، مبانی اور اقدار کی حفاظت کرے۔‘‘
آپ کا تبصرہ