بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ||
فاکس نیوز کے سابق میزبان ٹکر کارلسن:
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سال 22 جنوری کو حلف اٹھایا۔
کچھ ہی دن بعد نیتن یاہو پہلے بیرونی حکمران کے طور پر، واشنگٹن آیا اور ان سے ملا
یہ ملاقات صرف تہنیتی نہیں تھی، کیونکہ وہ حقیقی معنوں میں ایک دوسرے کے حلیف نہیں ہيں۔
سنہ 2020 میں نیتن یاہو بائیڈن کی کامیابی پر سب سے پہلے، انہیں مبارکباد دی تھی۔
چنانچہ میرا خیال ہے کہ بہت قریبی دوست نہیں ہیں یہ دونوں۔
نیتن یاہو کی یہ ملاقات اور اگلی ملاقات، ایران میں "رژیم چینج" کی جنگ، کے لئے ٹرمپ کی حمایت حاصل کرنے کے مقصد سے تھی۔ کیونکہ "اسرائیلی قوم ایرانی حکومت کو اپنے وجود کے لئے سب سے بڑا خطرہ" سمجھتی ہے۔
ایران کے پاس بڑی مقدار میں خطرناک روایتی جنگی سازوسامان ہے، اور ان میزائلوں سے اسرائیل کو بچانے کے لئے امریکہ بڑے اخراجات برداشت کرتا ہے۔
اسرائیل کو خدشہ ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنا دے یا خرید لے اور ایٹمی ہتھیاروں پر اسرائیلی اجارہ داری کا خاتمہ کر دے۔
جھگڑے کی پوری داستان یہی ہے،
اسرائیلی نقطہ نظر سے ایران اس کے سب سے بڑے دشمنوں میں سے ایک ہے؛ اس لئے کہ اس نے باقی خطروں کو مٹا دیا ہے۔
لیکن کیا صرف ایران ہی دشمن کے طور پر، باقی ہے؟
سوال یہ ہے کہ کیا یہ امریکہ کے مفاد میں ہے کہ اس جنگ میں شرکت کرے؟
غلطی مت کرنا، اسرائیل اگر خود اکیلا، ایران سے لڑ پڑے تو تین دن تک بھی قائم نہيں رہ سکے گا؛ حقیقت یہ ہے کہ شاید 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں تباہ و برباد ہوجائے۔
اسرائیل کے آبادی والے علاقے ایران کے متناسب (symmetrical) ہتھیاروں سے تباہ ہوجائیں گے۔۔۔
اس لمحے اگر اسرائیل ایران پر ایٹمی حملہ کرے، تو یہی حملہ سلسلہ وار جوابی کاروائیوں کا سبب بنے گا، جن کا اندازہ لگانا کسی کے بس میں بھی نہیں ہے۔ جب یہ شروع ہوجائیں تو اگلے اقدامات کا اندازہ لگانا ناممکن ہوگا۔
بہر حال ہزاروں یا لاکھوں اسرائیلی مارے جائیں گے۔
چنانچہ، اسرائیل اکیلے، اس جنگ سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا، کوئی بھی سچا انسان اسرائیل کو اکیلے لڑنے کا مشورہ نہیں دے گا۔
اسرائیل کو امریکہ کی ضرورت ہے
تو ایک امریکی کی نگاہ سے، سوال یہ ہے کہ کیا یہ امریکہ کے مفاد میں ہوگا کہ وہ مشرق وسطی میں ایک حکومت کی تبدیلی کی اینسی نئی جنگ میں شرکت کرے جس کا آغاز اسرائیل نے کیا ہے؟
ہم کئی بار ایسی جنگوں میں کود پڑے جن میں سب سے اہم عراق کی جنگ تھی۔
کیا یہ اچھا آئیڈیا ہے؟
مناظرے کا آغاز یہیں سے ہؤا اور زیادہ تر پس پردہ، جاری رہا۔ اس طرح کے مذاکرے عام طور پر عام لوگوں تک نہیں پہنچتے۔
جب عام لوگوں کے لئے بھی بات عیاں ہوئی تو جو ایران کے ساتھ جنگ کے خواہاں تھے، وہ یہ اعتراف کرنے سے گریزاں ہوئے کہ یہ مجادلہ کس موضوع پر تھا۔
اصل کہانی دوسرے ملک کے مفادات کی ہے جو ایک دوسرے [تیسرے] ملک کے مفادات سے تضاد رکھتے ہیں۔
ان کے مفادات جیسے بھی ہوں لیکن جو سوچ اسرائیل کے لئے اچھی ہے کیا وہ ہمارے [امریکیوں] کے لئے بھی اچھی ہے؟
لیکن ایسا کوئی مناظرہ ہؤا ہی نہیں! یہ نہيں ہؤا، کیونکہ جو لوگ ایران کے خلاف حکومت کی تبدیلی کی جنگ چاہتے تھے، انہوں نے ابتداء ہی سے مناظرے کا رخ اس سوال کی طرف موڑ لیا کہ "تم یہودیوں سے بیزار کیوں ہو؟! تم نازی ہو!"
یہ مناظرہ ابتدائی دن سے ہی غلط تھا۔ کیونکہ اسرائیل اپنی کنیسٹ (پارلیمان) اور فوج اور سوپر کمپنیوں کے ـ جو صرف یہودیوں کی بھی نہیں ہیں ـ دنیا کے باقی یہودیوں کے برابر نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں بہت سارے یہودی ہیں جن کے جذبات اسرائیل تضاد رکھتے ہیں اور وہ ایران کے ساتھ جنگ یا ایران کی حکومت کی تبدیلی نہیں چاہتے؛ لیکن امریکہ میں اسرائیل کے کٹھ پتلی اور پراکسیز اور حامی ایران کے ساتھ حکومت کی تبدیلی کی جنگ، کے خواہاں ہیں اور انہوں نے فورا بحث کو یہودیوں سے نفرت کی طرف منحرف کر دیا۔
یہ آپ [ناظرین و سامعین] نہیں ہیں جو یہود دشمن ہیں بلکہ یہ اسرائیل کے حامیوں کی طرف سے ـ جو سب یہودی بھی نہیں ہیں ـ ایک لیبل تھا جو آپ پر لگایا گیا اور انہی نے کہا کہ آپ یہودیوں سے بیزار ہیں؟
چنانچہ یہ ان لوگوں کے لئے بہت ہولناک تھا جن کو شک تھا کہ کیا انہیں ایک نئی رژیم چینج جنگ میں داخل ہونا چاہئے؟ کیونکہ آپ اس بات کی طرف مائل ہیں کہ کسی بھی لمحے بحث و مباحثہ کریں کہ فوجی طاقت کے استعمال کے وقت امریکہ کے مفادات کیا ہیں؛ اور یہ کہ ہم گذشتہ 25 سالہ عرصے سے کیا سبق لیتے ہیں، اور ممکن ہے کہ آپ اس بحث میں جیت جائیں؛ کیونکہ کوئی سند و ثبوت نہیں جس سے ثابت ہو کہ رژیم چینج کی کسی بھی جنگ میں مداخلت کا نتیجہ ہمارے فائدے میں رہی ہے! کوئی بھی ثبوت نہیں ہے اور امریکی صدر بھی یہ سب جانتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ