بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || صنوعی ذہانت (AI) خاص طور پر پچھلے سالوں اور یہاں تک کہ حالیہ مہینوں میں نئی اپ ڈیٹس، فارسی سمیت مقامی زبانوں کے ساتھ زیادہ مطابقت، اور ملٹی میڈیا کے شعبے میں سہولیات کے فروغ کے باعث زیادہ عملی دلکشی کی بنا پر بہت زیادہ مقبول ہو چکی ہے۔
یہ مقبولیت اور پھیلاؤ، جس میں بلاشبہ روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، حکمرانوں، فلسفیوں، خاندانوں، سماجی حوالہ جات اور دینی علماء کی خاص توجہ کے متقاضی ہے۔
دوسرے لفظوں میں، ایک ترقی یافتہ حکمرانی اور محب وطن معاشرے کو ہمیشہ نئی ٹیکنالوجیز کے بارے میں درست نقطہ نظر رکھنا چاہئے، ان کے آغاز اور انجام کو جانتے ہوئے اس راستے کے لئے درست پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں۔
نہ تو عقل کا تقاضا ہے اور نہ ہی ایک ترقی یافتہ حکمرانی کا تقاضا، کہ کسی ملک کے رہنما اور محب وطن افراد بیٹھ کر مصنوعی ذہانت سمیت نئی ٹیکنالوجیز کے سامنے خآموش تماشائی اور فرمانبردار بن جائیں!"

اس وادی میں بلاشبہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ، ـ اور اس کے برعکس جو نظر آتا ہے، ـ فلاسفہ اور دینی مفکرین کو پیش پیش ہونا چاہئے۔ کیونکہ مصنوعی ذہانت کی ماہیت و نوعیت کو پہچاننا اور اس کی صحیح حقیقت کو سمجھنا ہی وہ چیز ہے جو راستے کے چراغوں کو دیگر ہمدردوں، پالیسی سازوں اور فکر مندوں کے لئےروشن کر سکتی ہے اور انہیں مقصد و ہدف کو ان کے سامنے واضح و نمایاں کر سکتی ہے۔
اس سلسلے میں مشہور فلسفی اور فرہنگستان علوم کے رکن ڈاکٹر رضا داوری اردکانی، کے حالیہ انتباہات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے، جنہوں نے "مبانی علمی و فلسفی هوش مصنوعی (مصنوعی ذہانت کے علمی اور فلسفی اصول)" کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس میں کہا:
"مصنوعی ذہانت مفید اور مضر دونوں طرح کے اثرات کی بنیاد بن سکتی ہے۔ لیکن زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ایسی دنیا میں جہاں محبت اور دوستی کے نشان کم ہیں اور غصہ اور دشمنی کا رجحان غالب ہے، اس کی تباہ کن طاقت زیادہ ہوگی۔
اب جب ہم مصنوعی ذہانت کی بات کرتے ہیں، تو زیادہ تر ہماری نظر اس کے فائدے پر ہوتی ہے اور ہم اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، اور ہم کم ہی سوچتے ہیں کہ یہ ذہین مشین دنیا اور دنیا کے لوگوں پر کیا کیا اثرات ڈال سکتی ہے۔ اگر اس کے وجودی اثرات وہی ہیں جو ہم نے اب تک دیکھ رہے ہیں، تو ہم اسے زیادہ تر، خطرناک قرار دے سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت اپنے پھندے [جال] اور چارے [اور دانے] کے نیچے چھپے ہوئے عجیب و غریب لطائف کے ساتھ، ایک لمحے میں دنیا کو پرآشوب اور حتی کہ تباہ کر سکتی ہے۔ [اور ہاں] یہ تصور انتہائی برا وہم ہے کہ "مصنوعی ذہانت کا اختیار اس کے مالکوں کے ہاتھ میں ہے۔"
داوری اردکانی اپنی تقریر کے ایک اہم حصے میں واضح کرتے ہیں:
"مصنوعی ذہانت اس جگہ موجود ہوتی ہے جہاں طاقت کا مرکز ہوتا ہے، اور وہ ہمیشہ طاقت کے ساتھ رہتی ہے، سائنسدانوں کے قابو میں نہیں۔ مصنوعی ذہانت عقل مند انسان نہیں ہے۔ اس کے ڈیزائنرز بھی شروع میں مصنوعی انسان بنانا نہیں چاہتے تھے۔
اب اہم بات یہ ہے کہ ہم مصنوعی ذہانت سے منہ نہ موڑیں، لیکن اس کے شیدائی بھی نہ بنیں، کیونکہ یہ شیدائی پن عقل اور دانائی کے ساتھ موافق نہیں ہے۔ مصنوعی ذہانت کے بھی دوسری ٹیکنالوجی کی طرح کئی فائدے ہیں اور یہ بڑے کاموں کی انجام دہی سے عہدہ برآ ہو سکتی ہے، لیکن موجودہ حالات میں یہ زیادہ تر تباہی اور ویرانی کے کام آتی ہے؛ کیونکہ طاقت تباہ کاری کے راستے پر گامزن ہے؛ اور مصنوعی ذہانت کا رجحان بھی طاقت کی طرف ہے [اور طاقت کے ساتھ رہتی ہے] اور طاقت کو امن، بھلائی اور انسانی زندگی کی فلاح و بہبود سے کوئی سروکار نہیں ہے؛ چنانچہ مصنوعی ذہانت شاید یہ حساب لگا کر بھلائی اور فلاح کو پہچان سکے لیکن اسے ترجیح نہیں دیتی؛ کیونکہ یہ اچھے اور برے، اور خوبصورت اور بدصورت کے پابند نہیں ہے۔ اس کا سرمایہ بھی معلومات ہیں، بغیر اس کے کہ یہ 'عملی عقل' کی مالک ہو۔"
فلاسفہ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے موجودہ ابہامات کا جواب تلاش کی درخواست
ڈاکٹر داوری اردکانی نے کہا:
"بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان کی بنائی ہوئی اس چیز سے سوال تو کیا جا سکتا ہے، اور درخواست تو کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لئے کوئی ذمہ داری متعین نہیں نہیں کی جا سکتی۔"
ظاہر ہے کہ ڈاکٹر اردکانی کی باتوں کے ہر حصے پر غور و فکر کیا جا سکتا ہے اور خاص طور پر یہ ذمہ داری انٹیلی جنس کے ماہرین، حوزہ علمیہ کے علماء اور اساتذہ اور حکمرانی کے میدان کے پالیسی سازوں پر عائد ہوتی ہے۔
مذکورہ باتوں کا نقطہ آغاز ہمارے خیال میں دو نکات ہیں۔ پہلا وہ جہاں ڈاکٹر داوری اردکانی مصنوعی ذہانت اور انسانی عقل ـ یعنی انسان کی قوت تجزیہ ـ کے درمیان تضاد کی بات کرتے ہیں، اور دوسرا وہ جہاں یہ فلسفے کے استاد AI کے دشمن اور دوست کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کی خیر و صلاح سے دشمنی، اور "طاقت" سے قربت، کی بات کرتے ہیں۔
درحقیقت، ایسا لگتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے بارے میں ہر نقطہ نظر اور غور و خوض ان دو مسائل کے مطابق ہو سکتا ہے: پہلا یہ کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ مصنوعی ذہانت کا رجحان بھلائی اور بہتری کی طرف نہیں ہے، اور دوسرا یہ کہ 'مصنوعی ذہانت کو ایک دو دھاری تلوار ہے جس کی زیادہ تیز دھار عالمی طاقت سے وابستہ دھاروں کی طرف اور تسلط پسند عالمی نظام کے حق میں ہے۔'
اس سے پہلے، ایک اکیڈیمک میٹنگ میں ـ جس میں سماجیات کے ماہرین موجود تھے، ـ اس شعبے کے ایک مشہور نام "یوسف اباذری"، نے اپنی گفتگو میں کہا تھا: 'ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ AI کبھی بھی انسان کے تخلیقی ذہن کی جگہ نہیں لے سکتا۔'
انھوں نے امریکی ماہر لسانیات اور نظریہ ساز نوام چومسکی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ: 'AI کچھ بھی نہیں ہے؛ یہ محض ڈیٹا کی درجہ بندی کا ایک نظام ہے، نہ کہ ایک سوچ۔ انسان کے تخلیقی ذہن کی جگہ کوئی چیز نہیں لے سکتی۔'

اباذری کی باتوں میں ایک اہم نکتہ جس کو وہ صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں، اور داوری نے بھی ضمنی انداز سے بیان کیا ہے، یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت محض "ڈیٹا کا ایک ڈھیر" ہے جس میں تحلیل و تجزیئے کی طاقت نہیں ہے۔ یعنی، مصنوعی ذہانت کے دماغ میں جو کچھ پیدا ہوتا ہے وہ محض ماضی سے لے کر آج اور کل تک انٹرنیٹ نیٹ ورک کے ڈیٹا کے درمیان مطابقت پیدا کرنا اور موازنہ کرنا ہے۔ یعنی مصنوعی ذہانت عملی طور پر سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور اگر ڈیٹا نہ ہو تو یہ کسی کام کی نہیں رہے گی۔"
جبکہ فلسفیوں کے نقطہ نظر کے مطابق انسان محض عقل کے بل بوتے پر، اور ڈیٹا کے بغیر، ترقی کے دروازوں کی طرف بڑھ سکتا ہے اور آہستہ آہستہ بہتری کے عمل (Improvement processes) اور نیکی و بدی سے واقف ہو سکتا ہے۔ (حی بن یقظان کے فلسفیانہ قصے کی طرف اشارہ جو ایک جزیرے پر انسانوں کے بغیر پرورش پانے والے بچے کی کہانی بیان کرتا ہے) اور یہ انسانی عقل، جس سے مصنوعی ذہانت محروم ہے، آگے چل کر مختلف ڈیٹا (معلومات) کے امتزاج سے نیکی و بدی اور اچھائی و برائی کو پہچان سکتی ہے، دوراندیشی کر سکتی ہے، مصلحت سے کام لے سکتی ہے، پیشین گوئی اور بصیرت کی حامل ہو سکتی ہے اور تلخ و شیریں میں سے حقیقت کی راہ اختیار کر سکتی ہے۔
اور یہی مصنوعی ذہانت اور انسانی تحلیل و تجزیئے کے درمیان بنیادی فرق ہے جسے یقیناً سمجھ لینا چاہئے۔
ان تحفظات اور انتباہات کو ـ جن پر بعینہ غور و فکر کرنا چاہئے ـ مصنوعی ذہانت کے ایک عمومی نمونے کا خاکہ پیش کرنے پر منتج ہونا چاہئے اور - جیسا کہ کہا جاتا ہے - AI کے فن تشریح (Hermeneutics) کو پہچاننا اور متعارف کرانا چاہئے۔
اور صرف اسی صحیح شناخت اور ایمانداری پر مبنی تعارف کی روشنی میں ہی "مصنوعی ذہانت" کے متعلق درست پالیسیاں تشکیل پا سکتی ہیں اور معاشرہ اس نئی ٹیکنالوجی کے خطرات اور نقصانات سے محفوظ رہتے ہوئے اس کے فوائد سے استفادہ کر سکتا ہے۔
بہرحال، ہوشیار رہنا چاہئے...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ