28 فروری 2025 - 20:39
ارادوں کی جنگ میں غزہ کی فتح

آیئے ایک بار اپنے ذہنوں میں 23 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی غزه کی 471 روزہ غیر مساوی اور غیر منصفانه جنگ کے بے مثال اور حیرت انگیز واقعات اور طوفان الاقصی کا جائزہ لیں جس نے اسرائیلی ریاست کے لئے (ہمیشہ کے لئے) کالا سنیچر  (שבת שחורה یا Black Saturday) کو ثبت کر دیا.

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ان ساڑھے پندرہ مہینوں میں صہیونیوں نے مغرب ـ بالخصوص امریکہ ـ کی ہمہ جہت حمایت اور معدودے چند ممالک کے سوا، باقی تمام عرب اور اسلامی غیر اسلامی ممالک کی خاموشی یا خفیہ حمایت، میں غزہ کے عوام کے خلاف کسی بھی قسم کے جرائم کے ارتکاب سے دریغ نہیں کیا؛ رہائشی علاقوں کو تباہ کرنے سے لے کر اسکولوں، اسپتالوں، مساجد، گرجاگھروں، نرسری اسکولوں اور بنیادی ڈھانچوں تک پر بمباری  کی؛ ہزاروں بچوں اور خواتین کا قتل عام کیا اور صحافیوں کے قتل کا عالمی ریکارڈ قائم کیا اور ایک شہری آبادی کا 80 فیصد حصہ کھنڈر میں بدل دیا۔

ادھر امریکہ اور یورپ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں، ویٹو سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے غاصب ریاست کے خلاف اور غزہ کے مظلوم عوام کے حق میں کوئی بھی قرارداد منظور نہیں ہونے دی۔

غزہ کے عوام کے خلاف صہیونیوں اور مغربیوں کے سخت اور وحشیانہ اقدامات اور نیم سخت اقدامات ـ یعنی غزہ کی مکمل ناکہ بندی ـ کے ساتھ ساتھ غزہ کے عوام کے خلاف نرم دھمکیاں اور نفسیاتی اور ادراکی (Cognitive) کارروائیاں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکیں۔

اگرچہ حماس اور غزہ کے محصور عوام ایک مکمل غیر متوازن جنگ میں، کم از کم وسائل کے ساتھ، صہیونیوں کے حیرت انگیز جرائم اور وحشیانہ اقدامات کا جواب دے رہے تھے، لیکن جس چیز نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا وہ یہاں کے لوگوں کے ناقابل تصور روحانی اور نفسیاتی طاقت تھی جو انہوں نے دشمن کی درندگیوں، سفاکیوں اور خباثتوں کے مقابلے میں ثابت کرکے دکھا دی۔

غزہ کے عوام صعوبتوں کے اس ناقابل برداشت دور میں ایک لمحے کے لئے بھی تذبذب سے دوچار نہیں ہوئے اور ایک لمحے کے لئے بھی مقاومت و مزاحمت سے دست بردار نہيں ہوئے۔

یہ عظیم اور غیر معمولی روحانی اور نفسیاتی قابلیت بالآخر باعث ہوئی کہ درندہ صفت دشمن، جس کا مقصد حماس کو نابود کرنا، اپنے قیدیوں کی رہائی اور غزہ پر قبضہ کرنا تھا، شکست تسلیم کرنے پر مجبور اور جنگ بندی کے سمجھوتے پر دستخط کرنے پر آمادہ ہؤا۔

صہیونیوں نے نرم (اور نفسیاتی اور ابلاغیاتی نیز ادراکی) جنگ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن ارادوں کی اس جنگ میں کمزور پڑ گئے اور ہار گئے۔

جہادی گروہوں اور غزہ کے رہائشی فلسطینیوں کی قوت ارادی کی پرورش اور تقویت کا سرچشمہ کیا ہے؟

غزہ کے عوام ـ بچوں سے لے کر بڑوں تک، مردوں سے لے کر خواتین تک ـ کا اظہار خیال دیکھا اور سنا جائے؛ تو یہ نرم طاقت کے اس منبع اور سرچشمے کو آشکار کر دیتا ہے۔

غزاویوں کی طاقت و استقامت کے سرچشمے

1۔ اللہ پر ایمان اور قرآن سے اُنسِیَت

اللہ پر ایمان اور قرآن کریم کے ساتھ اُنسِیَت، غزاویوں کے لئے طاقت پیدا کرنے کا سب سے پہلا اور سب سے اہم منبع ہے۔ قرآن کریم کی تعلیمات نے اس چھوٹی سی سرزمین کے چھوٹے بڑوں کے ذہنوں میں رسوخ کر لیا ہے اور سب کی زبان پر جاری و ساری ہیں۔

2۔ سابقہ تجربات سے سبق لینا

اہلیان غزہ کی قوت کا دوسرا ذریعہ، صہیونی ریاست اور مغرب کے مقابلے میں ان کے اپنے اور اپنے باپ دادا کے قیمتی تجربات ہیں۔ فلسطینی عوام نے اپنے گوشت اور ہڈی سے دشمن کے ساتھ ساز باز کی تلخیوں کو محسوس کر لیا ہے، اور تمام راستوں پر چلنے اور ناکام ہونے کے بعد، مقاومت و مزاحمت کے راستے پر گامزن ہو چکے ہیں اور دیکھ چکے ہیں کہ یہ راستہ نہ صرف مؤثر ترین ہے بلکہ واحد راستہ ہے۔

3۔ باہمی اتحاد و یکجہتی

غزہ کے مظلوم مگر بہادر عوام کی طاقت کا تیسرا منبع قومی یکجہتی اور دشوار اور المناک دنوں میں ان کی یک دلی اور باہمی بھائی چارہ ہے جسے دشمن کا کوئی بھی ہتھکنڈا متزل نہیں کر سکا۔

4۔ غزہ کی عالمی حمایت اور صہیونیوں سے عالمی نفرت

غزاویوں کی طاقت کا چوتھا سرچشمہ، ان لوگوں کے لئے پیہم عالمی حمایت اور غاصب ریاست سے عالمی نفرت سے عبارت ہے جو بدستور جاری ہے۔ یہ ایسی لہر تھی جس نے مغرب اور امریکہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

5۔ حماس، جہاد اور جہادی تحریکوں پر عوامی اعتماد

غزہ کے بہادر عوام کی طاقت کا پانچواں سرچشمہ حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ "حماس"، تحریک جہاد اسلامی اور دوسرے جہادی اور مقاومتی تحریکوں پر ان کا مکمل اعتماد ہے۔

جہاد و مقاومت کے اس پورے عرصے میں حتی ایک بار بھی غزہ کے عوام کی طرف سے حماس اور اسلامی جہاد پر کوئی تنقید سامنے نہیں آئی کہ انہوں نے طوفان الاقصی کا آغاز کیوں کیا؟

ان تمام مناظر کا مشاہدہ کرنے کے بعد جو تاثر لیا جا سکتا ہے وہ غزاوی عوام اور فلسطینی مجاہد تحریکوں کی نرم قوت اور طاقت کی اس جہت کی اہمیت ہے، جس نے نے بہت نمایاں طور پر سخت وسائل اور اوزاروں کی شدت کمی کو پورا کر دیا اور صہیونیوں کے لئے ذلت آمیز انجام رقم کرتے ہوئے غزاوی فلسطینیوں کے لئے عزت و عظمت اور فتح و نصرت کا نیا باب رقم کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم مہدی فضائلی

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110