5 فروری 2025 - 03:14
"صحیفۂ سجادیہ" یا زبور آل محمد (صلی اللہ علیہم)

"صحیفۂ سجادیۂ اولیٰ - جس کی سند امام زین العابدین علی بن السین بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام) تک جاپہنچتی ہے، اور جس کو زبور آل محمد (صلی اللہ علیہم اجمعین) اور انجیل اہل بیت (علیہم السلام) بھی کہا جاتا ہے، علماء اور اصحاب امامیہ کے نزدیک متواترات [اور قطعیات] میں سے ہے؛ کیوں کہ اس کہ خصوصیت یہ ہے [کہ تمام اصحاب و علماء نے اپنے استادوں سے اخذ کرکے] تمام رجالی طبقات اور تمام ادوار و اعصار میں اس کی نقل و روایت کی اجازت دیتے ہو‏ئے اسے نقل کیا ہے"

 اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا 

سید السجاد امام علی بن الحسین زین العابدین (علیہ السلام) نے چچا حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کی امامت کے پورے 10 برسوں اور بابا حسین بن علی (علیہ السلام) کی امامت کے بھی پورے 10 برسوں کا ادراک فرمایا [1] یاد رہے کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) 10 برس تک اور امام حسین (علیہ السلام) 20 برس تک بقید حیات رہے۔ ‏

آپؑ محرم سنہ 61 ہجری امام حسین (علیہ السلام) کے قیام اور واقعۂ عاشورا کے موقع پر کربلا میں حاضر تھے اور عاشورا کو امام حسین (علیہ السلام) کی جاں گُداز شہادت کے بعد امامتِ امت اور ولایت کَوْ ن و مکان کے عہدیدار ہوئے۔ زمانے کے حالات اور گھٹن سے بھرپور فضا کے باوجود آپؑ نے تبلیغ و ہدایت و ارشاد کا سلسلہ جاری رکھا اور حساسیت ابھارے (اور حکمرانوں کو اشتعال دلائے) بغیر ستمگر حکمرانوں کے خلاف جدوجہد فرمائی۔ آپ کی کارکردگی میں مندرجہ ذیل اقدامات خاص طور پر قابل ذکر ہیں:

‏‏1۔ عاشورا کی یاد زندہ رکھنا اور عاشورا کا پیغام اس دور کے لوگوں اور بعد کی نسلوں تک پہنچانا

‏2۔ امت اسلامی کی ہدایت و راہنمائی

‏3۔ دعا اور مناجات کے ذریعے اسلامی معارف و تعلیمات کی تشریح

‏امام سجاد (علیہ السلام) سے منسوب کتابیں

‏امام سجاد (علیہ السلام) کا دور - آپ کی جدوجہد کی مذکورہ بالا روشوں کی بنا پر - شیعہ تہذیب و تعلیمات کی تابندگی اور درخشندگی کا آغاز سمجھا جاتا ہے؛ اس دور میں حدیث و دعا کو نئی نکہت و رونق ملتی ہے۔‏

اس دور میں امام سجاد (علیہ السلام) کی مکتوب کاوشوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ ‏

آپؑ کی تصنیفات و مکتوبات کی گنتی کرتے ہوئے ہمیں ذیل کی کتابوں کے نام و نشان ملتے ہیں: ‏

‏1۔ "صحیفۂ سجادیہ": (موجودہ مقالہ اپنے تسلسل میں اسی کتاب پر بحث کرے گا)۔ ‏

2۔ "مناسک الحج": یہ کتاب امام سجاد (علیہ السلام) کے فرزندوں نے نقل کی ہے اور بغداد میں طبع ہوئی ہے۔ [2]

‏3۔ "رسالۃ الحقوق": یہ رسالہ نہایت اہم ہے جو انفرادی اور اجتماعی سلوک اور آداب کا مجموعہ ہے اور اس میں شرح و تفصیل کے قابل بہت سے نکتے موجود ہیں۔ [3]

‏4۔ "الجامع فی الفقہ": یہ کتاب ابوحمزہ ثُمالی (ثابت بن دینار)، نے نقل کی ہے۔ [4]

‏5۔ "صحیفۃ الزہد": اس کتاب کے راوی بھی ابوحمزہ ثمالی ہیں۔ [5]

‏6۔ ایک حدیث کی کتاب ہے جو داؤد بن عیسی نے امام سجاد (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ [6]

7۔ "کتاب علی بن الحسین (علیہ السلام)": یہ ایک اور کتاب ہے جو رجال کے مصادر میں مذکور ہے۔ [7]

اب کچھ آگے بڑھتے ہیں آپ کے سامنے در حقیقت ایک قدم صحیفۂ سجادیہ کا تعارف کرانے کی جانب، اس امید کے ساتھ کہ ہمارا معاشرہ بالخصوص ہمارے نوجوان اس کتاب کی زیادہ سے زیادہ معرفت حاصل کریں اور اس میں موجود بحر عمیق میں غوطہ زن ہو کر معرفت کے موتی چن لیں اور اپنی دنیا کو بھی اور آخرت کو بھی - اس کتاب سے انسیت حاصل کرکے - آباد و معمور بنادیں۔ ‏

آیئے صحیفۂ سجادیہ کو پہچانیں

تیرہ صدیوں سے صحیفۂ سجادیہ زاہدین و صالحین کا مونس و انیس اور مشاہیر علماء و مصنفین کا مرجع و ملجأ رہا ہے۔ روحانیت و معنویت کے اس خزانے کی معرفت کی غرض سے ہم اپنی بحث کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے پیش کررہے ہیں:

الف) صحیفۂ سجادیہ کی سند کیا ہے؟‏

سند کے لحاظ سے تواتر کی حد سے بھی بالاتر ہے؛ شیخ آقا بزرگ طہرانی رقمطراز ہیں:

"اَلصَّحِيفَةِ اَلسَّجَّادِيَّةِ اَلْأُولَى اَلْمُنْتَهِي سَنَدُهَا إِلَى اَلْإِمَامِ زَيْنِ اَلْعَابِدِينَ عَلِيِّ بْنِ اَلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيهِمُ السَّلامُ المُعَبِّرُ عَنْهَا أُخْتُ الْقُرْآنِ وَإِنْجِيلُ أَهْلِ الْبَيْتِ وَزُبُورُ آلِ مُحَمَّدٍ وَيُقَالُ لَهَا الصَّحِيفَةُ الْكَامِلَةُ أَيْضاً ... وَهِيَ مِنَ اَلْمُتَوَاتِرَاتِ عِنْدَ الأصْحَابِ لِإِخْتِصَاصِهَا بِالْإِجَازَةِ وَالرِّوايَةِ في كُلِّ طَبَقَةٍ وَعَصْرٍ...؛ [8]

صحیفۂ سجادیۂ اُولیٰ - جس کی سند امام زین العابدین علی بن السین بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام) تک جاپہنچتی ہے، اور جس کو زبور آل محمد (صلی اللہ علیہم اجمعین) اور انجیل اہل بیت (علیہم السلام) بھی کہا جاتا ہے، علماء اور اصحاب امامیہ کے نزدیک متواترات [اور قطعیات] میں سے ہے؛ کیوں کہ اس کہ خصوصیت یہ ہے [کہ تمام اصحاب و علماء نے اپنے استادوں سے اخذ کرکے] تمام رجالی طبقات اور تمام ادوار و اعصار میں اس کی نقل و روایت کی اجازت دیتے ہو‏ئے اسے نقل کیا ہے"۔

صحیفہ کی شہرت کا درجہ اس قدر بلند ہے کہ بجار الانوار کے مؤلف، علامہ محمد باقر مجلسی کے والد ماجد مرحوم علامہ محمد تقی مجلسی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس صحیفہ کی نقل و روایت کے حوالے سے 10 لاکھ اسناد اور ثبوت موجود ہیں۔ [9]

شیخ مفید، (محمد بن محمد بن نعمان العکبری البغدادی) ‏‏(متوفّیٰ سنہ ‏413ھ) نے اپنی کتاب "الارشاد" میں اور ان کے علاوہ شیخ صدوق (ابوجعفر محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابَوَیْہِ قمی (متوفیٰ سنہ‏381ھ)) کے شاگرد علی بن محمد خزاز قمی اور احمد ‏بن عیاشی (متوفیٰ سنہ 401ھ) اور ابوالفضل شیبانی (محمد بن عبداللہ بن محمد عبیداللہ بن بُہلول بن ہمّام بن مُطّلب)، وغیرہ نے بھی نقل کیا ہے۔۔۔،

صحیفۂ سجادیہ اہل سنت کے مصادر میں

علمائے اہل سنت نے بھی صحیفۂ سجادیہ کی روایت کی ہے۔ مثال کے طور پر سبط ابن الجوزی (یوسف بن قزأوغلی، المعروف بہ (متوفیٰ سنہ 654ھ)) نے تذکرۃ الخواص یا خصائص الائمہ (یا تذکرۃ الخواص من الأُمّۃ بذکر خصائص الأئمۃ) میں اور حافط سلیمان بن ابراہیم الحنفی القندوزی (متوفیٰ 1294ھ) نے ‏ینابیع المودہ میں صحیفۂ سجادیہ کا تذکرہ کیا ہے اور اس کی بعض دعائیں نقل کی ہیں۔ [10]

ابوالفضل شیبانی کی سند:

ہمارے لئے عامر بن عیسیٰ بن عامر ‏سیرافی نے سنہ 381ھ میں، مکہ مکرمہ میں روایت کی؛ کہ میرے لئے ابو محمد حسن بن محمد بن ‏یحییٰ بن حسن بن جعفر بن عبیداللہ بن حسین بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام) ‏نے روایت کی کہ میرے لئے میرے والد نے عمیر بن متوکل سے نقل کرتے ہوئے روایت کی، کہ انھوں نے اپنے والد متوکل بن ہارون سے اور متوکل بن ہارون نے ‏یحییٰ بن زید سے روایت کی ـ جبکہ یحییٰ اپنے والے زید بن علی بن الحسین (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد خراسان کی جانب رخت سفر باندھے ہوئے تھے اور میں نے ان کی عقل و دانش کے پائے کا کوئی مرد نہیں دیکھا ـ اور انھوں نے مجھے صحیفۂ سجادیہ کا ایک نسخہ دکھایا۔ [11]

تاریخی اور رجالی کتب کے علاوہ دعاؤں کی کوئی بھی معتبر کتاب ایسی نہیں ہے جس میں صحیفۂ سجادیہ کی دعائیں ثبت نہ ہوئی ہوں، جیسے:

1۔ "مصباح المتہجد"، تألیف شیخ محمد بن حسن الطوسی (ولادت 385ھ - وفات 460ھ)۔ ‏

‏2۔ "سلوک الحزین‏"، تألیف قطب الدین بن سعید بن ہبۃ اللہ الراوندی (متوفیٰ سنہ ‏573ھ) ان کی کتاب "دعوات الراوندی" کے نام سے مشہور ہے۔ ‏

‏3۔ "اختیار المصباح الکبیر"، تألیف مجد الدین سید علی بن الحسین ابن باقی القرشی الحلی "المعروف بہ ابن باقی"؛ یہ شیخ طوسی کی کتاب مصباح التہجد کا خلاصہ بھی ہے اور اس میں کچھ دعاؤں کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ ابن باقی ساتویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں۔

4۔ ‏"اقبال الاعمال"، تألیف ابوالقاسم رضی الدین سید علی بن موسی بن جعفر بن طاؤس الحلی، المعروف بہ سید ابن طاؤس  (ولادت 589ھ ـ وفات 664ھ)؛

5۔ "جمال الأسبوع"، تألیف سید ابن طاؤس؛ 

6۔ "فتح الأبواب"، تألیف سید ابن طاؤس۔

7۔ "زوائد الفوائد"، تألیف سید ابن طاؤس۔

8۔ "البلد الأمین"، تألیف ابراہیم بن علی العاملی الکفعمی، (ولادت سنہ 905ھ ـ وفات سنہ 840ھ)۔۔۔

ان سب کے علاوہ مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی کی روایت کے مطابق علامہ مجلسی اول، (مولیٰ محمد تقی بن مقصود علی اصفہانی مجلسی) نے اپنی بہت سے اجازات میں اشارہ کیا ہے کہ وہ صحیفۂ سجادیہ کو بالمشافہہ اور بلا واسطہ حضرت حجة بن الحسن ‏صاحب الزمان (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں۔ علامہ مجلسی اول کہتے ہیں:

‏"میں خواب اور بیداری کی سی حالت میں تھا۔۔۔ دیکھ رہا تھا کہ گویا اصفہان کی "جامع مسجد عتیق" میں کھڑا ہوں اور حضرت ‏مہدی (علیہ السلام) بھی کھڑے ہیں۔ میں نے وہ مسائل آپؑ سے دریافت کئے جو میرے لئے مشکل اور دشوار تھے۔ آپ نے وہ مسائل بیان فرمائے۔

میں نے پوچھا: ایسی کوئی کتاب تجویز فرمائیں جس پر میں عمل کروں تو آپؑ نے مجھے "مولانا محمد التاج" کا حوالہ دیا۔ میں ان کے پاس چلا گیا اور ان سے ایک کتاب لی۔ مجھے ایسا لگا کہ گویا وہ دعا کی کتاب تھی چنانچہ میں نے وہ کتاب چوم لی اور اسے اپنی آنکھوں سے لگایا لیکن اتنے میں وہ حالت ختم ہوئی اور میں پوری طرح جاگ اٹھا مگر جب دیکھا کہ وہ کتاب میرے ہاتھ میں نہیں ہے، تو صبح تک روتا رہا۔ دوسرے روز مولانا محمد تاج کو ڈھونڈنے نکلا۔ چلتے چلتے "دار البطیخ‏"، پہنچا۔۔۔ وہاں مجھے ایک نیک و صالح مرد بنام آقا حسن "تاجا" نظر ائے۔ میں نے انہیں سلام کیا اور انھوں نے مجھے اپنے قریب بلایا اور اپنے کتب خانے میں لے گئے۔

انھوں نے جو پہلی کتاب مجھ تھما دی وہ وہی کتاب تھی جو میں خواب میں دیکھ چکا تھا۔ میں رونے لگا اور ان سے کہا: یہی کتاب میرے لئے کافی ہے اور اس کے بعد ‏شیخ محمد مدرس کی خدمت میں حاضر ہؤا اور ان کے پاس صحیفہ کے اس نسخے سے اپنے نسخے کا موازنہ کرایا جو ان کے پردادا نے شہید اول (محمد بن مکی بن محمد الشامی العاملی الجزینی) کے نسخے سے نقل کرکے لکھا تھا اور میں نے دیکھا کہ جو نسخہ صاحب الزمان (عجل اللہ تعالی فَرَجَہ الشریف) نے مجھے عنایت فرمایا تھا شہید اول کے نسخے کے عین مطابق تھا"۔ [12]

ب) صحیفۂ سجادیہ کے نام

مشہور ہے کہ قرآن اور نہج البلاغہ کے بعد "صحیفۂ سجادیہ" معارف اور حقائق الٰہیہ کا عظیم ترین سرچشمہ شمار کیا جاتا ہے اور شیخ آقا بزرگ طہرانی کے بقول یہ "أُختُ ‏القرآن" (قرآن کی بہن، "انجیل اہل بیتؑ"، "زبور آل محمدؐ" اور "صحیفۂ کاملہ" بھی کہلاتا ہے [13] اور اہل سنت کے عالم حنفی قندوزی نے بھی صحیفہ کے بارے میں یوں قلم فرسائی کی ہے: ‏

"في إيرَادِ بَعْضِ الأَدْعِيَةِ وَالمُناجَاةُ الَّتي تَكُونُ فِي الصَّحِيفَةِ اَلْكَامِلَةِ لِلْإِمَامِ الْهُمَامِ زَيْنِ الْعَابِدِينَ ... وَهِيَ زَبُورُ أَهْلِ الْبَيْتِ الطَّيِّبِينَ عَلَيْهِمُ السَّلاَم؛ [14]

ان دعاؤں اورمناجاتوں کا بیان امام ہمام زین العابدین (علیہ السلام) کے صحیفہ کاملہ میں مندرج ہیں ۔۔۔ اور وہ زبور اہل بیت طیبین(علیہم السلام) ہے"۔ ‏

اس کتاب کو اس لئے "صحیفۂ کاملہ" کا نام دیا گیا ہے کہ زیدیہ فرقے کے پاس صحیفہ کا ایک نسخہ موجود ہے جو مکمل نہیں ہے بلکہ موجودہ صحیفے کے نصف کے برابر ہے۔ اسی وجہ سے [شیعیان اثنیٰ عشری کے پاس] موجودہ صحیفے کو صحیفۂ کاملہ کہا گیا ہے۔ [15]

ج) صحیفہ کی شرحیں

مرحوم علامہ "شیخ آقا بزرگ طہرانی" نے کتاب "الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ" میں تراجم کے علاوہ صحیفۂ سجادیہ کی پچاس شرحوں کا تعارف کرایا ہے۔ [16]

ان شروح کے سوا ماضی اور حال کے بہت سے علماء نے اس کے متعدد تراجم کئے ہیں [17] اور یہاں اس کی شروح میں سے بعض کا مختصر تذکرہ کرتے ہیں:

‏1۔ "الأزہار اللطیفۃ فی شرح مفردات الصحیفۃ" تألیف علامہ سید محمد رضا اعرجی ‏حسینی۔ ‏

‏2۔ گیارہویں اور بارہویں صدی ہجری کے عالم اور تفسیر "کنز الدقائق" کے مؤلف شیخ محمد بن محمدرضا القمی المشہدی کی شرح۔

‏3۔ کتاب "شرح ‏الوقت و القبلۃ" کے مؤلف، محمد علی بن محمد نصیر چہاردہی رشتی (متوفیٰ سنہ 1334ھ)، کی شرح۔   ‏

‏4۔ "المواہب الالٰہیۃ فی شرح نہج‌ البلاغۃ" کے مؤلف سید افصح الدین محمد شیرازی کی شرح۔

‏5۔ محمد بن تاج الدین حسن بن محمد الاصفہانی الملقب بہ "فاضل ہندی" کے والد مولانا تاج الدین المعروف بہ "تاجا" کی شرح۔

‏6۔ مفتی میرمحمد عباس بن علی اکبر بن محمد جعفر موسوی شوشتری جزائری لکھنوی (ولادت سنہ 1224ھ ـ وفات سنہ 1306ھ)، کی شرح۔

‏7۔ ملا حبیب اللہ شریف کاشانی بن ملا علی مدد ساؤجی (متوفی 1340ھ) کی شرح۔

‏8۔ اِبْن‌ِ المِفْتاح‌، ابوالحسن‌ عبداللہ بن ابی القاسم الزیدی الیمنی (متوفی سنہ877ھ)‌ کی شرح۔‏

‏9۔ مولیٰ خلیل قزوینی کی شرح۔

‏10۔ آقا ہادی ابن مولی صالح مازندرانی کی شرح۔

‏11۔ مولیٰ محمد طاہر بن حسین شیرازی کی شرح

‏12۔ تیرہویں صدی ہجری کے زیدی عالم دین سید محسن بن قاسم بن اسحاق صنعانی یمنی کی شرح۔‏

‏13۔ سید محسن بن احمد شامی حسنی زیدی یمنی (متوفیٰ سنہ 1251ھ) کی شرح۔ ‏

‏14۔ سید جمال الدین کوکبانی (متوفیٰ سنہ 1339ھ) کی شرح؛ وہ یمنی نژاد اور ہند میں مقیم تھے۔ [18]

د) مستدرکاتِ صحیفہ ‏

بعض علماء اور دانشوروں نے صحیفہ پر مستدرکات لکھے ہیں۔ ‏مستدرکات صحیفہ سے مراد امام سجاد (علیہ السلام) کی وہ دعائیں ہیں جو صحیفہ میں درج نہیں ہوئی ہیں۔

بعض مستدرکات: ‏

‏1۔ "صحیفۂ ثانیہ‏"، تألیف شیخ محمد بن حسن الحر العاملی، صاحب وسائل الشیعہ۔ ‏

‏2۔ "صحیفۂ ثالثہ"، تألیف مشہور مورخ اور مشہور دانائے رجال، میرزا عبداللہ افندی، ‏صاحب کتاب "ریاض العلمأء"۔  ‏

‏3۔ "صحیفۂ رابعہ"، تألیف محدث میرزا حسین بن محمد تقی النوری الطبرسی (صاحب کتاب مستدرک الوسائل)۔ ‏

‏4۔ "صحیفۂ خامسہ"، علامہ سید محسن امین الحسینی العاملی۔ ‏

5۔ "صحیفہ سادسہ"، تألیف شیخ محمد باقر بن محمد حسن بیرجندی قائنی۔ ‏

6۔ "صحیفۂ سابعہ"، تألیف شیخ ہادی بن عباس آل کاشف الغطأ النجفی، (صاحب ‏کتاب المستدرک)۔ ‏

7۔ "صحیفۂ ثامنہ‏"، تألیف الحاج میرزا علی حسینی مرعشی شہرستانی حائری۔ ‏

8۔ "ملحقات الصحیفہ"»، مؤلف : مرحوم شیخ بہائی کے نامور شاگرد "شیخ محمد، المعروف بہ تقی زیابادی قزوینی"، انہوں ملحقات کو سنہ 1023ھ میں مکمل کیا ہے۔ [19]

ہ)۔ علماء کے نزدیک صحیفہ کا مقام و مرتبہ

صحیفہ کی دعائیں حُسنِ بلاغت اور کمالِ فصاحت کے ساتھ ساتھ علوم الٰہیہ اور معارف یقینیہ کا مجموعہ ہیں جن کے سامنے انسانی عقل سرتسلیم خم کئے بغیر نہیں رہ سکتی ہے اور عظیم ترین علماء اور دانشور خضوع کے طور پر کرنش بجا لاتے ہیں۔ ‏

صحیفہ پر حقیقت پسند اور دانا انسان کی ایک نگاہ، ایک حقیقت کے چہرے سے پردے ہٹا دیتی ہے کیونکہ صحیفہ کی عبارات خود ہی اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ یہ کلام مخلوق کے کلام سے برتر اور خالق کے کلام سے کمتر ہے؛ چنانچہ یہ جعل سازوں کے اوہام سے بھی برتر و بالاتر ہے اور علماء اور دانشوروں نے بھی اس کی جانب گہری  توجہ مبذول کی ہے اور اس کی تعریف و تحسین کے مواقع ضائع نہیں ہونے دیئے ہیں۔

کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں: ‏

‏1۔ رشید الدین، عزالدین، ابوجعفر، محمد بن علی بن شہرآشوب الساروی المازندرانی ، المعروف بہ "ابن شہرآشوب" (متوفیٰ سنہ ‏588ھ) اپنی کتاب "مناقب آل ابی طالب (علیہم السلام)" میں لکھتے ہیں:

"بصرہ میں ایک مرد بلیغ و ادیب کی موجودگی میں صحیفۂ کاملہ کی فصاحت، عُمدگی اور حُسنِ بیان کا  تذکرہ ہؤا تو اس نے بڑا دعویٰ کیا اور کہا: "میں بھی اسی قسم کا صحیفہ املاء اور بیان کرسکتا ہوں اور خود بھی لکھ سکتا ہوں! چنانچہ قلم و قرطاس لےکر لکھنے بیٹھ گیا سرجھکائے بیٹھا رہا اور ایک جملہ بھی نہ لکھ سکا اور نہ بیان کرسکا اور شدید شرمندگی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہؤا". [20]

‏2۔ سنہ 1353ھ میں مرحوم آیت اللہ العظمیٰ مرعشی نجفی نے ‏صحیفۂ سجادیہ کا ایک نسخہ اہل سنت کے عالم و دانشور اور "الجواہر فی تفسیر القرآن" (المعروف بہ تفسیر الطنطاوی) کے مؤلف اور ‏اسکندریہ کے مفتی "شیخ طنطاوی بن جوہری" (ولادت سنہ 1870 - وفات 1940ع‍) کے نام قاہرہ روانہ کیا۔ شیخ طنطاوی نے صحیفہ وصول کیا اور اس بیش بہاء تحفے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جواباً تحریر کیا:

"یہ ہماری بدبختی ہے کہ یہ گرانبہاء اور علم و معرفت کا زندہ جاوید خزانہ - جو انبیاء کی میراث ہے - اب تک ہماری دسترس سے خارج تھا؛ میں جتنا بھی اس میں غور کرتا ہوں دیکھتا ہوں کہ یہ کلام، کلام خالق سے کمتر اور کلام مخلوق سے برتر و بالاتر ہے"۔ [21]

البتہ ہمیں اس معاصر مفسر پر حیرت ہے جنہوں نے حتیٰ اہل سنت ہے کے مصادر ومنابع تک میں غور نہیں کیا ہے؛ حالانکہ قندوزی حنفی جیسے کئی سنی علماء نے اس کتاب کے کچھ حصے اپنی تألیفات میں نقل کئے ہیں۔ [22]

 ‏3۔ میرزا ہادی مشہدی "ذاکر" سے نقل ہؤا ہے کہ سبط ابن جوزی نے "خصائص الائمہ" میں لکھا ہے:

"اگر امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) نہ ہوتے، مسلمانوں کی توحید اور ان کے عقائد مکمل نہ ہوتے؛ کیونکہ جو کچھ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ارشاد فرمایا وہ اصولِ عقائد اور دین کی اہم فروعات ہیں مگر عقائد کی باریکیاں اور دقائق [جیسے صفاتِ ذات و فعل اور صفات کا عین ذات ہونا] ایسے مسائل ہیں جن کے سلسلے میں مسلمان امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے مرہون منت اور آپ کے خوان علم و دانش کے ریزہ خوار اور شاگرد ہیں۔۔۔".

اس کے بعد امام سجاد (علیہ السلام) کے بارے میں لکھتے ہیں:

"علی بن الحسین زین العابدین املاء و انشاء، خدا کے ساتھ بات کرنے اور کلام و خطاب کرنے کی کیفیت و روش کے لحاظ سے مسلمانوں پر استادی کا حق رکھتے ہیں؛ آپؑ نے ہمیں اپنی حاجت خدا کے سامنے رکھنے کا سلیقہ سکھایا؛ کیونکہ اگر امام سجاد (علیہ السلام) نہ ہوتے تو مسلمان خدا کے ساتھ راز و نیاز اور مناجات کرنے اور اپنی حاجات بارگاہِ قُدسِ الٰہی میں پیش کرنے کی روش سے محروم رہتے؛ امام سجاد (علیہ السلام) نے لوگوں کو سکھایا کہ وہ استغفار کے وقت خدا کے ساتھ کس انداز سے راز و نیاز  کریں اور بارش کی درخواست کرتے وقت کس زبان اور کس لب و لہجے میں خدا سے نزول باران کی درخواست کریں، اور دشمن سے خوف کے وقت کس طرح خدا سے پناہ مانگیں اور کس طرح دشمنوں کا شر دفع کرنے کی التجا کریں۔۔۔" [23]

و) صحیفه کی دعاؤں پر ایک نظر

صحیفۂ سجادیہ بارگاہ الٰہی میں راز و نیاز و مناجات اور بیان حاجات کا ہی مجموعہ نہیں بلکہ اسلامی علوم و معارف کا بیش بہاء خزانہ ہے جس میں اعتقادی، ثقافتی، معاشرتی و سیاسی امور اور بعض قوانین فطرت اور احکام شرعیہ بھی بیان ہوئے ہیں۔ ہاں مگر ان سب کو دعا اور مناجات کے سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔ [24]

خدا کے ساتھ راز و نیاز اور مناجات اور ذات باری کے ساتھ ارتباط کے باب میں ایسی دعائیں ہیں جو سال میں ایک دفعہ پڑھی جاتی ہیں جیسے دعائے عرفہ اور ماہ رمضان کی دعائے وداع؛ بعض دعائیں مہینے میں ایک بار پڑھی جاتی ہیں جیسے: دعائے رؤیت ہلال؛ بعض ہفتہ وار ہیں اور بعض دعائیں ہر شب و روز کے لئے ہیں۔ ‏

صحیفۂ سجادیہ 54 دعاؤں پر مشتمل ہے جن کے عنوانات کی فہرست درج ذیل ہے: ‏

‏1۔ حمد و ثنائے الٰہی جو لفظ "حمد" سے شروع اور لفظ "حمید" پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ ‏‏2۔ محمد و آل محمد (صلی اللہ علیہم) پر درود و سلام۔ ‏

‏3۔ عرش کی حفاظت کرنے والے فرشتوں اور اسرافیل، میکائیل، جبرائیل، روح، ملک الموت، منکر، نکیر و غیرہ جیسے مقرب فرشتوں پر دورد و صلوات۔ ‏

‏4۔ انبیاء (علیہم السلام) کے پیروکاروں اور ان پر ایمان لانے والوں پر دورد و صلوات۔ ‏

‏5۔ امام سجاد (علیہ السلام) کی دعا اپنے لئے اور اپنے دوستوں کے لئے۔ ‏

‏6۔ صبح و شام کے لئے دعا۔ ‏

‏7۔ اہم واقعات و حوادث پیش آنے نیز غم و حزن کے وقت کی دعا۔ ‏

‏8۔ کراہتوں اور ناپسندیدگیوں، اخلاقی برائی اور نازیبا اور مذموم کردار سے خدا کی پناہ مانگنا۔ ‏

‏9۔ خدا کی مغفرت مانگنے کا اشتیاق۔ ‏

‏10۔ خدا کی بارگاہ سے پناہ کی درخواست۔ ‏

‏11۔ انجام بخیر ہونے کی دعا۔ ‏

‏12۔ گناہوں کا اقرار اور توبہ و انابہ۔ ‏

‏13۔ خدا کی بارگاہ سے حوائج پورے ہونے کی دعا۔ ‏

‏14۔ اس وقت کی دعا جب انسان ظلم کا مشاہدہ کرتا ہے یا ستمگروں سے ناخوشایند افعال کا دیکھ لیتا ہے۔ ‏

‏15۔ بیماری، غم اور تکالیف کے مواقع کی دعا۔ ‏

‏16۔ گناہوں اورعیوب کی معافی کی درخواست۔ ‏

‏17۔ شرشیطان کے دفع ہونے اور اس کی دشمنی اور مکر وفریب سے خدا کی پناہ مانگنا۔ ‏

‏18۔ خطرات کے رفع ہونے اور حاجت کے جلد برآوردہ ہونے کی دعا۔ ‏

‏19۔ خشک سالی میں باران رحمت کی دعا۔ ‏

‏20۔ بارگاہ رب کریم سے مکارم اخلاق اور پسندیدہ کردار کی درخواست۔ ‏

‏21۔ حزن و غم کے مواقع کی دعا۔ ‏

‏22۔ رنج و دشواری اور امور و معاملات مشکل ہوجانے کے وقت کی دعا۔ ‏

‏23۔ تندرستی کے وقت کی دعا اور تندرستی پر شُکرِ الٰہی۔ ‏

‏24۔ والدین کے لئے دعا۔ ‏

‏25۔ اولاد کے لئے دعا۔ ‏

‏26۔ پڑوسی اور دوست کے لئے دعا۔ ‏

‏27۔ مجاہدین اور اسلامی مملکت کی سرحدی محافظین کے لئے دعا۔ ‏

‏28۔ خدا کی پناہ مانگنے کے وقت کی دعا۔

‏29۔ غربت و تنگدستی کے وقت کی دعا۔ ‏

‏30۔ قرض کی ادائیگی کے لئے مدد مانگنے پر مشتمل دعا۔ ‏

‏31۔ توبہ اور خدا کی طرف لوٹنے کی درخواست۔ ‏

‏32۔ نماز تہجّد کے بعد کی دعا۔ ‏

‏33۔ خیر و نیکی کی درخواست‏۔ ‏

‏34۔ مشکل وقت اور بلا و آزمائش کے وقت کی دعا یا اس وقت کی دعا جب انسان گناہ میں مبتلا شخص کو دیکھتا ہے۔ ‏

‏35۔ دنیاداروں کو دیکھتے وقت خدا کی مشیت پر رضا و خوشنودی کا اظہار۔ ‏

‏36۔ بادلوں اور آسمان پر گرج چمک دیکھتے وقت کی دعا۔ ‏

‏37۔ خدا کا شکر ادا کرنے سے عاجزی و قصور کا اقرار۔ ‏

‏38۔ بندگان الٰہی کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی سے اعتذار۔ ‏

‏39۔ خدا کی عفو و رحمت کی درخواست۔ ‏

‏40۔ دوسروں کی موت کے وقت کی دعا اور موت کو یاد رکھنا۔ ‏

‏41۔ گناہ سے پردہ پوشی اور حفاظت کی درخواست۔ ‏

‏42۔ ختم قرآن کے موقع پر دعا۔ ‏

‏43۔ رؤیت ہلال کے وقت کی دعا۔ ‏

‏44۔ ماہ رمضان کی پہلی دعا۔ ‏

‏45۔ دعائے وداعِ ماہ رمضان۔ ‏

‏46۔ دعائے عید فطر و جمعہ۔ ‏

‏47۔ دعائے عرفہ (9 ذوالحجہ)۔ ‏

‏48۔ دعائے جمعہ و عید الاضحیٰ۔ ‏

‏49۔ شیطان کے شر و مکر کے دفع ہونے کی دعا۔ ‏

‏50۔ عقلمندوں کا خوف خدا۔ ‏

‏51۔ بارگاہ الٰہی میں آہ و زاری اور مناجات۔ ‏

‏52۔ خدا کی بارگاہ سے درخواست پر اصرار۔ ‏

‏53۔ بارگاہ الٰہی میں اپنے چھوٹے پن کا اظہار۔ ‏

‏54۔ غم و ہم کے دور ہونے کے لئے دعا۔ ‏

ح) صحیفہ کے سمندر کا ایک قطرہ ‏

عرض ہؤا کہ صحیفۂ سجادیہ بارگاہ الٰہی میں راز و نیاز و مناجات اور بیانِ حاجات ہی کا مجموعہ نہیں بلکہ اس کے سیاسی، معاشرتی، ثقافتی اور اعتقادی پہلو بھی ہیں۔ امام (علیہ السلام) نے دعاؤں کے ضمن میں سیاسی امور - خاص طور پر امامت، اور امت کی رہبری، کے امور - بھی موضوع سخن بنائے ہیں:

‏‏1۔ امام سجاد (علیہ السلام) صحیفہ کی بیسویں دعا (یعنی دعائے مکارم الاخلاق) اللہ تعالیٰ سے یوں دست بدعا ہیں: ‏

"خدایا! محمد اور آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر درود بھیج اور مجھے ان لوگوں کے مقابل طاقت و قوت عطا کر جو مجھ پر ظلم روا رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے خلاف برہان و زبان عطا کر جو میرے ساتھ نزاع اور جھگڑا کرتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل فتح و کامرانی عطا فرما جو میرے ساتھ دشمنی اور عداوت برتتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل راہ و تدبیر عطا کر جو میرے بداندیش ہیں اور میرے خلاف حیلہ گری اور مکر کا سہارا لیتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل مجھے طاقت و قدرت عطا فرما جو مجھے آزار و اذیت پہنچاتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل قوت تردید عطا فرما جو میری عیب جوئی کرتے ہیں اور دشنام طرازی کرتے ہیں [تا کہ میں ان کی تہمتوں کو جھٹلا سکوں] اور دشمنوں کے خطرات کے مقابل مجھے امن و سلامتی عطا فرما۔۔۔"۔ [25]

دعا کا یہ حصہ در حقیقت اموی حکومت اور عبدالملک بن مروان بن حَکَم بن ابی العاص کے عُمّال، خاص طور پر مدینہ کے والی "ہشام بن اسماعیل مخزومی" کے ظلم و تشدد اور اس کی دھمکیوں کے مقابل امام (علیہ السلام) کی شکایت پر مشتمل ہے؛ یہی اس دعا کا سیاسی پہلو ہے۔ ‏

‏2۔ صحیفۂ سجادیہ کی اڑتالیسویں دعا - جو عیدالاضحیٰ اور روز جمعہ کی دعا ہے - کچھ یوں ہے: ‏

‏"بار خدایا! یہ مقام و منزلت [یعنی خلافت اور امت کی امامت ـ جبکہ نماز جمعہ اور نماز عید اور ان کے خطبات بھی اس الٰہی منصب سے وابستہ ہیں اور امام و خلیفہ ہی کے لئے مختص ہے] تیرے خاص جانشینوں اور برگزیدہ بندوں کے لئے ہے اور یہ مراکز اور ادارے تیرے امناء [26] کے لئے مخصوص ہیں؛ [جن کو تو نے مقام اعلیٰ عطا کیا ہے مگر [اموی خلفاء جیسے] ستمگروں اور ظالموں نے غیرِ حق ان پر قبضہ جما رکھا ہے اور انہیں غصب کر رکھا ہے ۔۔۔" یہاں تک کہ فرماتے ہیں: "تیرے برگزیدہ بندے اور خلفاء مغلوب و مقہور [ور خاموشی پر مجبور] ہوچکے ہیں جبکہ دیکھ رہے ہیں کہ تیرے احکام تبدیل کردیئے گئے ہیں؛ تیری کتاب کو معاشرے کے روزمرہ امور سے باہر کرکے رکھ دیا گیا ہے؛ تیرے فرائض اور واجبات تحریف کا شکار ہوچکے ہیں اور تیرے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی سنت و سیرت کو ترک کردیا گیا ہے۔

بارخدایا! اولین و آخرین میں سے اپنے برگزیدہ بندوں کے دشمنوں اور ان کے اتباع اور پیروکاروں اور ان کے اعمال پر راضی و خوشنود ہونے والوں پر لعنت بھیج دے اور انہیں اپنی رحمت سے دور فرما۔۔۔۔"۔ [27]

اس دعا میں امام سجاد (علیہ السلام) صراحت کے ساتھ امت کی امامت و رہبری کی بات کرتے ہیں جو کہ اہل بیت عصمت و طہارت (علیہم السلام) کے لئے مختص ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ عہده ظالموں اور ستمگروں نے غصب کر رکھا ہے اور اس طرح "بنو امیہ" کی حکمرانی کی شرعی اور قانونی حیثیت کی نفی فرماتے ہیں حتی که اس دعا میں دیگر خلفائے اولین کی مشروعیت [Legitimacy] پر بھی تنقید کرلیتے ہیں۔ ‏

‏3۔ دعائے عرفہ (سینتالیسویں دعا﴾ میں فرماتے ہیں:

"پروردگارا! درود بھیج خاندان نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے پاک ترین افراد پر جنہیں تو نے امت کی رہبری اور اپنے اوامر کے نفاذ کے لئے منتخب کیا ہے اور انہیں تو نے اپنے علوم کے لئے خزانہ دار، اپنے دین کے لئے نگہبان، روئے زمین پر اپنا جانشین اور اپنے بندوں پر اپنی حجت قرار دیا ہے اور اپنی ہی مشیت سے انہیں ہر قسم کے رجس اور پلیدی سے یکبارگی کے ساتھ پاک و مطہر فرما دیا ہے۔۔۔

بار خدایا! تو نے ہر زمانے میں ایک امام کے ذریعے اپنے دین کی تائید فرمائی ہے اور اس کو تو نے اپنے بندوں کے لئے رہبر و علمدار اور کائنات میں مشعل ہدایت قرار دیا ہے، بعد از آں کہ تو نے اس کو غیب کے رابطے کے ذریعے اپنے آپ سے مرتبط و متصل کردیا ہے اور اپنی خوشنودی کا وسیلہ قرار دیا ہے اور اس کی پیروی کو لوگوں پر واجب قرار دیا ہے اور لوگوں کو اس کی نافرمانی سے منع فرمایا ہے اور خبردار کیا ہے اور تو نے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ اس کے اوامر اور نواہی کی تعمیل کریں اور تو نے ہی مقرر فرمایا ہے کہ کوئی بھی ان سے سبقت نہ لے اور ان سے آگے نہ چلے، اور کوئی بھی ان کی پیروی میں پیچھے نہ رہے [اور ان کی حکم عدولی نہ کرے]۔۔۔" [28]

امام (علیہ السلام) نے اس دعا میں رہبرانِ الٰہی اور خاندانِ نبوت کے ائمہ (علیہم السلام) کے کردار اور ان کے مقام و منزلت سمیت ان کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے نہایت غائرانہ انداز سے اس زمانے کے حکمرانوں کی حکمرانی کی شرعی و قانونی حیثیت کو ہدف قرار دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ حکومت کی مشروعیت [قانونی و شرعی جواز] خدائے متعال کے انتخاب سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ زور و جبر یا حتیٰ که عوامی بیعت کے ذریعے نہیں۔۔۔

اس مختصر کلام مختصر کے حسن ختام کے طور پر سے سرحدوں کے محافظین کے لئے امام سجاد (علیہ السلام) کی دعا سے بعض اقتباسات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن میں امامؑ  کی تنبیہات قابل غور ہیں: ‏

‏4۔ ستائیسویں دعا میں امام (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"بار خدایا! محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آپ کی آل پاک پر درود و رحمت بھیج اور اپنی عزت کے صدقے مسلمين کی سرحدوں کو ناقابل تسخیر بنا اور اپنی قدرت و طاقت کے ذریعے سرحدی محافظین کو تقویت پہنچادے اور قوی بنا دے اور ان کے عطایا کو اپنی توانگری اور بے نیازی کے صدقے دو چند کردے۔ ‏

بارالٰہا! محمد و آل محمد پر درود بھیج اور سرحدوں کے محافظین کی تعداد میں اضافہ فرما ان کے ہتھیاروں کو مؤثر، ان کی شمشیروں کو تیز اور بُرّان قرار دے، ان کی حدود کی حفاظت فرما اور ان کے محاذوں کے حساس نقطوں کو مستحکم فرما؛ ان کے درمیان الفت اور تعاون قرار دے اور ان کے امور کی اصلاح فرما اور ان کی مشکلات و مسائل اپنی نصرت سے حل فرما اور صبر و استقامت کے ذریعے ان کو تقویت عطا فرما اور [دشمنوں کی چالوں اور ان کی مکاریوں کے مقابلے میں] انہیں باریک بینانہ چارہ جوئیاں سکھادے؛ دشمن کے ساتھ تصادم کے دوران دنیا کی دلفریبیان ان کے دل و دماغ سے نکال دے اور مال اندوزی و دولت اندوزی کی سوچ ان کے قلب و ذہن سے دور فرما۔۔۔ اور آخرت و بہشت کا عشق ان کا ہمدم و مانوس قرار دے۔۔۔". ‏[29]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: سید جواد حسینی

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

حوالہ جات:


[1]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب، اصول كافی، (تهران، مكتبۃ الصدوق)، 1381ه۔ ق، ج‏1، ‏ص‏467؛ شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان العکبری، الارشاد، (قم، مكتبة بصیرتی)، ص‏256۔ ‏

[2]۔ جلالی، سید محمد رضا حسینی، تدوین السنۃ الشریفۃ، (مطبوعہ مکتب الاعلام الاسلامی، ‏قم، 1418ق، ص‏151)۔ ‏

[3]. ابن شعبہ الحرانی، حسن بن علی بن الحسین، تحف العقول عن آل الرسول (صلى اللہ‌عليہم)، (مطبوعہ بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، 1394ھ)، ص‏255۔ ‏

[4]۔ اننجاشی، ابوالعباس احمد بن علی، رجال النجاشی، (قم، مکتبۃ الداوری)، ص‏116۔ ‏

[5]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، (مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ)، ج‏8، ص‏17۔

[6]۔ النجاشی، رجال النجاشی، ص‏157۔ ‏

[7]۔ النجاشی، رجال النجاشی، ص115-116۔

[8]۔ آقا بزرگ طہرانی، محمد محسن بن علی منزوی،  الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، (مطبوعہ تہران، المکتبۃ الاسلامیۃ)، ج‏15، ‏ص‏18-19۔

[9]۔ صحیفۂ سجادیہ، ترجمہ سید صدرالدین بلاغی، (مطبوعہ تہران، دارالکتب الاسلامیہ)، ص‏9۔

[10]۔ دیکھئے: الحنفی القندوزی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودہ، (مطبوعہ نجف، مکتبۃ الحیدریۃ، 1384ھ - ‏‏1965ع‍)، ج‏1 و 2، ص‏599۔ ‏

[11]۔ مقدمۂ آیت اللہ مرعشی بر صحیفۂ سجادیہ، ص‏8-9۔

[12]۔ مقدمۂ آیت اللہ مرعشی بر صحیفۂ سجادیہ، ص‏27-29؛ علامہ مجلسی، ‏بحار الانوار، ج102، ص114-115۔

[13]. آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج‏15، ص‏18-19۔

[14]. الحنفی القندوزی، ینابیع المودہ، ص‏599۔

[15]. مقدمہ آیت اللہ مرعشی نجفی بر صحیفہ، (وہی)، ص‏46.

[16]۔ آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج‏3، ص 345 - 359۔

[17]. جییسے ترجمہ الٰہی قُمشہ‏ای، فیض الاسلام، ابوالحسن شعرانی، محمد آیتی، و ‏ترجمہ سید احمد فہری و حسین انصاریان و۔۔۔۔

[18]۔ آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ص‏345-359؛ اور دیکھئے: مقدمہ آیت اللہ مرعشی نجفی بر صحیفۂ سجادیہ، ص‏33-35۔

[19]. مقدمہ آیت اللہ مرعشی نجفی بر صحیفۂ سجادیہ، ص‏41-43۔

[20]. مقدمہ آیت اللہ مرعشی نجفی بر صحیفۂ سجادیہ، ص‏13۔

[21]. مقدمہ آیت اللہ مرعشی نجفی بر صحیفۂ سجادیہ، ص‏37؛ پیشوائی، مہدی، سیرہ پیشوایان، (مطبوعہ قم، مؤسسۂ امام ‏صادق علیہ السلام)، ص‏270-271۔

[22]. الحنفی القندوی، ینابیع المودہ، ص‏599-630۔ ‏

[23]. مقدمہ آیت اللہ مرعشی بر صحیفۂ سجادیہ، ص‏43-45۔

[24]۔ امام سجاد (علیہ السلام) نے یہ روش اپنائی "فئۃ باغیۃ" اور "ستمگر گروہ" کی حکمرانی اور دنیائے اسلام کے حالات کے پیش نظر یہی روش مناسب ترین تھی‏۔

[25]. امام سجاد (علیہ السلام)، صحیفۂ سجادیہ، ص‏102-103۔

[26]۔ امناء = امین کی جمع ہے اور "امین" کے یعنی وہ جس پر کہ اعتماد اور بھروسہ کیا جاسکے اور امانت دار کے ہیں۔ "امین" اور "صادق"، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے القاب بھی ہیں اور آپؐ بعثت سے قبل بھی ان دو القاب سے مشہور تھے۔ نیز "امین" جبرئیل (علیہ السلام) کا لقب بھی ہے جو اللہ کا پیغام بغیر کمی بیشی کے، آپؐ تک پہنچانے پر مامور تھے۔

[27]. امام سجاد (علیہ السلام)، صحیفۂ سجادیہ، ص‏281-282۔ ‏

[28]۔ امام سجاد (علیہ السلام)، صحیفۂ سجادیہ، ص‏254 - 256۔

[29]۔ امام سجاد (علیہ السلام)، صحیفۂ سجادیہ، ص‏40 - 41، دعائے 41۔