اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ
ابنا ـ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی کے سینئر مشیر اور تشخیص مصلحت اسمبلی
کے رکن ڈاکٹر علی لاریجانی نے گذشتہ ہفتے شام اور لبنان کا دورہ کرکے رہبر انقلاب
اسلامی امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کا پیغام شام کے صدر ڈاکٹر بشار الاسد اور
لبنانی پارلیمان کے سربراہ نبیہ بیری کو پہنچایا۔ اس دورے کو مختلف انداز سے میڈیا
کوریج ملی۔ چنانچہ رہبر انقلاب کی اخباری ویب گاہ KHAMENEI.IR نے ان کے ساتھ خصوصی اور مفصل
انٹرویو کا اہتمام کیا۔ اس انٹرویو کے صرف ایک سوال اور جواب کا ترجمہ ابنا کے
صارفین کے پیش خدمت ہے:
سوال: آپ سنہ 2006ع کی 33 روزہ جنگ کے موقع پر قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری تھے اور لبنان کا کیس بھی آپ کے پاس تھا، اور آپ کا آنا جانا بھی رہتا تھا، اور یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔ آپ کے خیال میں مقاومت کی شکل و صورت اور صلاحیتوں میں 2006 کے مقابلے میں کونسی بڑی تبدیلی آئی ہے؟
جواب: دو مسائل ہیں: ایک یہ
کہ 33 روزہ جنگ اور موجودہ واقعات میں کتنی مماثلت ہے اور دوسرا یہ اس عرصے میں
خطے کی صورت حال میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
سنہ 2006ع کی 33 روزہ جنگ
تقریبا آج ہی کے طرح کے حالات میں وقوع پذیر ہؤا تاہم اس میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔
پہلا مسئلہ یہ تھا کہ جنگ کا ابتدائی مرحلہ آج ہی کی طرح تھا؛ یعنی 12 یا 13 دن تک
اسرائیل کی تيزرفتاری بہت زیادہ تھی، کشت و خون بہت زیادہ بہت زیادہ تھا اور زمینی
لحاظ سے بھی صہیونیوں نے پیشقدمی کی تھی؛ اور اس عرصے میں جنگ بندی کو جو بھی تجویز
آتی تھی امریکہ مخالفت کر ڈالتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ شہر روم میں کانفرنس ہوئی اور
اطالوی وزیر اعظم اور دیگر نے جنگ بندی کی تجویز دی تو اس وقت کی جرمن خاتون وزیر
خارجہ نے بہت سختی سے مخالفت کی اور کہا کہ "یہ ان باتوں کا وقت نہیں
ہے" (اور یہ تجویز قبل از وقت ہے)۔ یہ مرحلہ گذر گیا اور ان کا خیال تھا کہ
کامیاب ہو رہے ہیں اور حزب اللہ کا کام تمام ہو چکا۔ لیکن 12 یا 13 دن بعد حالات
بدل گئے، اور یہ سب قدموں پر گرنے لگے اور ایک قرارداد تیار ہوئی۔ حالانکہ اس
قرارداد سے قبل وہ کسی بھی قرارداد اور تجویز کو مسترد کر دیتے تھے۔ خطے کے کچھ
وزرائے خارجہ ـ جو دلالوں اور بروکرز کا کردار ادا کرتے رہتے ہیں ان کے لئے ـ
مسلسل رابطے کرنے لگے کہ آپ [ایرانی] جلد از جلد اس قرارداد کی حمایت کریں اور
مسئلے کو حل کریں۔ یہ خود پاؤں پکڑنے لگے۔ یہ اس وقت ان کا عروج و زوال تھا۔ ایک
نکتہ یہ ہے۔
دوسرا نکتہ جو فرق کو واضح
کرتا ہے یہ ہے کہ اس وقت آقائے سید حسن نصر اللہ تھے، شہید جنرل قاسم سلیمانی تھی یہ
لوگ بہت حوصلہ بخش تھے، جو آج نہیں ہیں۔ لیکن ان کے متبادل آگئے۔ گویا کہ محور
مقاومت کے لئے بڑی بڑی شہادتوں کی ضرورت تھی تا کہ نوجوان کمانڈر اٹھیں اور لبنان
کے تحفظ کے لئے متفقہ طور پر حلف اٹھائیں۔ دوسرے لفظوں میں کہنا چاہوں گا کہ
"بڑی شہادتوں کے بعد گھِساؤ اور فرسودگی کا شکار ہونے اور نفسیاتی فرسودگی سے
دوچار ہونے کے بجائے، ایک نئی توانائی بن کر ابھرے، ایک نئی قوت بن کر نئے حوصلے
اور عزم کے ساتھ میدان میں آکر کھڑے ہوگئے۔ یہ صحیح ہے کہ کچھ لوگ شہید ہوئے اور
نقصان ہؤا لیکن حقیقت یہ کہ اس قوت میں بہت کچھ کرنے کی صلاحیت ہے۔
اگلا نکتہ یہ کہ حزب اللہ
کی آج کی صلاحیتں 33 روزہ جنگ کے ایام کے ساتھ قابل قیاس نہیں ہیں۔ 33 روزہ جنگ میں
ان کے پاس عملیاتی تجربہ (Operational experience) نہیں تھا، اور اس جنگ کے مقابلے میں ان کے پاس عظیم تجربہ ہے اور
وسائل اور ہتھیار بھی اتنے نہیں تھے جتنے کے آج ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ
نے اپنے اہم اور بنیادی وسائل اور ہتھیار ابھی تک استعمال ہی نہیں کئے ہیں اور اگر
ان ہتھیاروں کو استعمال کریں تو لگتا ہے میدان جنگ کی صورت حال مکمل طور پر بدل
جائے گی (اور گیم چینج ہوگا)؛ اور ہاں! لگتا ہے کہ دشمن اس حقیقت کو جان گیا ہے
اور شاید اسی بنا پر جلد از جلد جنگ بندی تک پہنچنے میں دلچسپی دکھانے لگے ہیں۔ وہ
جان گئے ہیں کہ حزب اللہ کے نئے ہتھیار میدان میں آنے کے بعد میدان کی صورت حال یہ
نہ رہے گی۔
مغرب کو بھی یقین ہو گیا
کہ حزب اللہ اس جنگ میں کامیاب ہوئی ہے اور اسرائیل ناکام ہو چکا ہے تو چونکہ ان
کا تصور یہ ہے کہ یہ قوت ایران کا بازو ہے چنانچہ انہوں نے دوسری جگہ ایران سے
بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہوئے آئی اے ای اے میں ایران کے خلاف قرارداد منظور کرایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110